خزانہ ۔۔۔ محمد جمیل اختر

 

میں لکھنا چاہتاہوں، کوئی ایسا واقعہ، کوئی ایسی کہانی کہ جس سے اندر کا غبار چھٹ جائے، یہ کون سا موسم ہے کہ جس سے انسان کا اندرجکڑا جاتا ہے، بہت پرانے مکانوں کے دروازوں میں لگی دیمک ذرہ ذرہ کر کے ساری لکڑی کھا جاتی ہے ایسے ہی اداسی انسان کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہے میں لکھنا چاہتا ہوں کوئی ایسی کہانی کہ جس سے اندر کا طوفان تھم جائے، یہ رات یہ کالی سیاہ رات کہ جس میں چاند کا دور دور تک کوئی شائبہ بھی نہیں یہ رات جو اپنے اندر بے شمار قصے چھپا کے بیٹھی ہے اس رات کی چادر کو خالی مت سمجھو کہ اس میں بے شمار کہانیاں ہیں ایسے ہی جیسے ماسی تاجو کے پاس خزانہ تھا۔ ۔ ۔

اوہ میں پھرماسی تاجو کا قصہ لے بیٹھا، وہ ماسی تاجو کہ جس کے پاس خزانہ تھا یہ میں نہیں کہتا سارا گاؤں کہتا تھاکہ ماسی کے گھر میں جو تین صندوق ہیں ان میں ایک میں خزانہ ہے۔

لوگ کہتے تھے کہ جب تقسیم ہوئی تو مہندرسنگھ یہ خزانے کا صندوق ماسی کے مرحوم شوہر کو دے گیا تھا جو کہ اب بھی ماسی نے چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ ۔ ۔ ۔

ماسی کا شوہر قصاب تھا وہ فوت ہوا تو ماسی کبھی کسی کے گھر سے کھانا کھا لیتی کبھی کسی گھر سے، لوگ کہتے ’’ بڑھیا نے خزانہ چھپا رکھا ہے لیکن مجال ہے کہ اس کا ستعمال کرے کوئی پوچھے اتنی دولت ساتھ لے کر جاو گی، بال بچے ہیں نہیں جو، اُن کے لیئے بچا کے رکھا ہوا ہے جو کھانا ہے خود ہی کھانا ہے لیکن نہیں ‘‘

اور گاؤں کی عورتیں یہ باتیں کر کے کانوں کو ہاتھ لگاتیں اور کہتیں کہ لالچ کتنی بری بلا ہے، کئی عورتیں ماسی سے باتوں باتوں میں پوچھ بھی لیتیں کہ ماسی سنا ہے تمہارے پاس خزانہ ہے ماسی یہ سن کر پوپلی ہنسی ہنستی اور کہتیں مجھ بھوکی ننگی کے پاس روٹی کھانے کو پیسے نہیں تم لوگ پتہ نہیں کس خزانے کا پوچھتی ہو‘‘

اور گاؤں کی عورتیں کہتیں کہ بڑھیا کتنی چالاک ہے خزانے کی خبر کسے ہونے دیتی ہے۔

یہ رات گزرتی کیوں نہیں، کیا وقت ٹھہر گیا ہے، ٹھہر گیا ہوتا تو یہ بال سفید کیوں ہوتے۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

اُس لڑکے نے بچپن سے ماسی تاجوکے خزانے کی کہانیاں سُن رکھی تھیں جو ماسی کو ایک چالاک بڑھیا سمجھتا تھا، جب وہ جوان ہوا تو اس کے دل میں خزانہ حاصل کی خواہش جاگی، سو ایک رات وہ ماسی کے گھر کی دیوار پھلانگ گیا، ماسی کے گھر کا ایک ہی کمرہ تھا وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کمرے کی کھڑکی کے پاس آیا اندر لالٹین جل رہی تھی اور چارپائی پر ماسی سو رہی تھی، اور ایک کونے پر تین صندوق پڑے تھے وہ بغیر چاپ کے کمرے میں داخل ہوا اور پہلے صندوق کاڈھکن کھولا، صندوق ناجانے کس زمانے کا تھا کہ لرزاٹھا اور ماسی کوشکایت کر دی، ماسی کی آنکھ کھل گئی، کون ہے کون ہے ؟؟

لڑکاپہلے توڈرا پھر اُس نے سوچا یہ بڑھیا اُس کا کیا بگاڑ لے گی سو اُس نے کہا ماسی میں خزانہ لینے آیا ہوں چُپ کر کے پڑی رہے تم نے اب اس خزانے کا کرنا کیا ہے یہ اچھا نہیں کہ کسی کے کام آ جائے ۔

’’ نہ نہ پُتر، صندوق چھوڑ دے ‘‘

لڑکے نے پہلے صندوق کی تلاشی لی کچھ نہ ملا دوسرا کھولا کچھ نہ ملا دونوں صندوقوں کو اٹھاکر ایک کونے میں رکھا ہی تھا کہ ماسی تیسرے صندوق کے ساتھ چمٹ گئیں۔

’’ نہ نہ پتر اس بکسےنوں رین دے ‘‘

’’ نہ نہ پتر اس بکسےنوں رین دے ‘‘

لڑکے کا شک اب یقین میں بدل چکا تھا خزانہ اِسی صند وق میں ہو گا۔

’’ ماسی ہٹ جا کہہ رہا ہوں آج خزانہ لے کر ہی جاؤں گا‘‘

’’ دیکھ پتر تُو یہ لے جائے گا تو میرے پلے کیا رہے گا، میں پہلے ہی بھوکی ننگی در در روٹی مانگ کر کھاتی ہوں اب تُو مجھے اور فقیر کرنا چاہتا ہے ؟‘‘

لڑکے نے ماسی کا ہاتھ پکڑکے ایک طرف دھکیلا اور صندوق کا ڈھکن کھول کر بیٹری جلائی۔ ۔ ۔ ۔

’’ اندر کفن تھا‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے