فضیل جعفری کو یاد کرنے کا مطلب زندگی اور ادب کے ایک مخصوص مزاج کو یاد کرنا ہے۔ اس اعتبار سے فضیل جعفری شخصی اعتبار سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ یہی بات باقر مہدی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے لیکن دونوں کے مزاج میں مماثلت کے باوجود کچھ فرق بھی ہے۔ باقر مہدی کا غصہ جس طرح ادبی معاشرے میں گفتگو کا موضوع بنا وہ ایک واقعہ ہے۔ وارث علوی نے لکھا تھا کہ باقر اپنے اوپر تنقید برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ فضیل جعفری کے یہاں باقر مہدی کے مقابلے میں ٹھہراؤ زیادہ تھا۔ باقر کو قطع تعلق کرنے میں وقت نہیں لگتا تھا فضیل جعفری بھی گفتگو بند کر دیتے تھے مگر ان سے ذرا وقفے کے بعد بات بڑھائی جا سکتی تھی۔ فضیل جعفری اپنے مخالفین کی فوری مزاج پرسی پر یقین کرتے تھے لیکن اس معاملے میں باقر مہدی کو بہرحال امتیاز حاصل ہے۔ فضیل جعفری نے شخصی نوعیت کے مضامین بھی نہیں لکھے۔ باقر مہدی معاصرین کی تحریروں پر اظہار خیال کرتے ہوئے بھی شخصی نوعیت کی باتوں کے لیے گنجائش نکال لیتے تھے۔ فضیل جعفری نے باقر مہدی کی طرح یگانہ جیسی کسی ادبی شخصیت کو اپنی شخصیت کے اظہار کا وسیلہ نہیں بنایا۔ فضیل جعفری نے باقر کی یگانہ پرستی کا ذکر بھی کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ فضیل جعفری ادبی روایت سے اپنے لئے کسی شخصیت کا انتخاب کیوں نہیں کیا۔ اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ کسی شخصیت کا نام لیے غیر بھی اس سے داخلی سطح پر رشتہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ باقر مہدی نے کئی ایسے مضامین لکھے جن میں تنقیدی ترجیحات کو شخصی ترجیحات کے طور پر دیکھا گیا۔ گویا تنقیدی رویے میں تبدیلی بعض اوقات وقت کے ساتھ سازبازکا نتیجہ ہوتی ہے۔ اسے نقاد کے علم اور خلوص کا لازمی سبب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
فضیل جعفری کی تنقید میں شخصی لَے ابھر نہیں سکی البتہ ان کے دو مضامین ’’ساختیاتی کباب میں رد تشکیل کی ہڈی ‘‘اور ’’ تھیوری امریکی شوگر ڈیڈی اور ’ما بعد جدیدیت‘ کو بہت شہرت ملی۔ یہ عنوانات تو ان لوگوں کو بھی یاد ہیں جنھوں نے مضامین بھی نہیں پڑھے۔ ان عنوانات کو اگر ادبی معاشرہ بھلا دیتا تو اپنی بے ذوقی کا ثبوت فراہم کرتا۔ یہ محض اتفاق نہیں ہم جیسے ادب کے نئے طالب علموں نے پہلے پہل ان ہی مضامین کے وسیلے سے فضیل جعفری کو جانا تھا۔ 2004 میں ان سے پہلی اور آخری ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد وہ دہلی آئے مگر ان سے ملاقات کی صورت پیدا نہیں ہو سکی۔ بلراج مین را کی کہانیوں کا مجموعہ ’سرخ و سیاہ‘ شائع ہو چکا تھا۔ فضیل جعفری صاحب کا قیام اسلم پرویز صاحب کے گھر تھا۔ فضیل جعفری کا مجھ پر ایک خوف تھا، لیکن اسلم صاحب کی وجہ سے اس خوف پر تھوڑا قابو پانے میں میں کامیاب ہو گیا۔ کتاب دیکھ کر خوش ہوئے، پاس ہی اسلم صاحب کھڑے تھے، مجھے وہ کتاب کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اس درمیان کئی برسوں تک ان سے رابطہ نہیں ہوا۔ گفتگو دوبارہ شرع کرنے کا وسیلہ بھی اسلم صاحب ہی بنے۔ مین را پر میری کتاب ’بلراج مین را ایک ناتمام سفر‘ شائع ہوئی تو اسلم صاحب نے فضیل جعفری کو بطور خاص بھیجنے کی تاکید کی اس لیے بھی بلراج مین را کے ناقدین کے باب میں میں نے فضیل جعفری کی تنقید سے بحث کی ہے۔ کتاب انھیں مل گئی۔ اسلم صاحب کی درخواست پر فضیل جعفری نے اپنی سوانح لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کی تین قسطیں شائع ہوئیں۔ اس کے بعد ان کے یہاں بد دلی آ گئی اور یہ سلسلہ ’’اردو ادب‘‘ میں دوبارہ قائم نہیں ہو سکا۔ اسلم صاحب چاہتے تھے کہ ’’ اردو ادب‘‘ کے ہر شمارے میں ان کی کوئی تحریر شامل ہو مگر وہ معذرت کر لیتے۔ کبھی کبھی اسلم صاحب مجھ سے کہتے کہ ذرا انھیں آپ بھی کہہ دیجیے۔ اسلم صاحب پر ایک کتاب شائع کرنے کا منصوبہ بنایا اور ان سے بھی کچھ لکھنے کی درخواست کی گئی۔ خوش بہت ہوئے۔ یہ سن کر اور زیادہ خوش ہوئے کہ اسلم صاحب کے شاگردوں اور دوستوں سے لکھنے کی درخواست کی گئی ہے۔ فضیل جعفری صاحب سے جس شام میں نے کچھ لکھنے کی گزارش کی، اس وقت تک کئی مضامین لکھے جا چکے تھے اور اس کی اطلاع بھی انھیں دے دی گئی مگر یہ سنتے ہی کہنے لگے آپ نے دوسروں کو بہت پہلے کہا اور بعد کو میرا خیال آیا۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میں نے صرف اتنا کہا سر یہ مضامین ان کے شاگردوں نے لکھے ہیں اور جلدی میں لکھے گئے ہیں۔ فضیل جعفری کے مزاج کا یہ ایک اہم حوالہ تھا۔ انھوں نے وعدہ کے مطابق مضمون لکھ کر اپنے نواسے کے موبائل سے بذریعہ واٹس اَپ بھیج دیا۔ بعض الفاظ پڑھے نہیں جاتے تھے۔ کمپوزنگ کے بعد پورا مضمون میں نے انھیں سنایا تھا۔ ادھر کئی ماہ سے انھیں میں نے فون نہیں کیا۔ یہ سارا قصہ اسلم پرویز اور فضیل جعفری کی رحلت کے ساتھ ختم ہو گیا۔ اپنی شرطوں پر جینے کا دعویٰ کرنے والے نہ تو سرگوشی کرتے ہیں اور نہ شام کے اندھیرے میں سرکار دربار سے وابستہ افراد سے ملاقات کرتے ہیں۔ فضیل جعفری کی شخصیت اسی لیے دوسروں کے لیے پریشان کن اور ناقابل تسخیر تھی۔ باقر مہدی کی طرح وہ دوسروں سے الجھتے نہیں تھے۔ کنارہ کش ہو جاتے اور مین را کی طرح کوئی پسندیدہ کتاب اٹھا لیتے۔ فضیل جعفری کی کتاب ’’آبشار اور آتش فشاں ‘‘ شائع ہوئی تو اسلم صاحب نے اس کتاب کا وہ صفحہ اردو ادب میں شائع کیا جو بلراج میں کی را کہانی سے متعلق تھا، آج وہ صفحہ میرے سامنے ہے۔ اپنے دوست کے تعلق سے خلوص اور محبت کا یہ ایک علمی اظہار ہے۔ اسلم صاحب نے ’’اردو ادب‘‘ (جولائی اگست ستمبر 2008) میں ’’آبشار اور آتش فشاں‘‘ پر علی رفاد فتیحی کا تبصرہ شائع کیا تھا۔ یہ تبصرہ ایک کتاب کی روشنی میں فضیل جعفری کی تنقیدی انفرادیت کا نہایت ہی خوبصورت اظہار ہے۔ فضیل جعفری کا حال یہ تھا کہ جب میں ان کی کسی تحریر کا ذکر کرتا تو بہت خوبصورتی کے ساتھ کسی اور موضوع کی طرف آ جاتے، انھیں ہمیشہ اچھی کتابوں کی تلاش رہتی، میں نے مابعد نوآبادیاتی تنقید کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگے کہ بھائی یہ سب چل رہا ہے۔ میں کیا کہوں، ناصر عباس نیر تو لائق آدمی ہیں۔ شعر و ادب کے علمی مسائل سے انھیں کبھی الجھن نہیں ہوئی۔ بڑھتی عمر کے ساتھ تنقید اور وہ بھی نظری تنقید سے بیزاری عام ہے۔ یہ بیزاری فضیل جعفری کے یہاں آئی ضرور لیکن تنقید اور نظری تنقید کو سرے سے کبھی رد نہیں کیا۔
معاصرین کے بارے میں ان کے یہاں بڑی صفائی تھی۔ ایک مرتبہ مجھ سے کہنے لگے کہ دیکھیے میں انھیں صرف انشاپرداز سمجھتا ہوں۔ وہ گفتگو میں کبھی بے کیف نظر نہیں آئے۔ لہجے سے پتہ نہیں چلتا تھا کہ اس جملے میں ایسی کاٹ ہے یا ایسالطف ہے۔ وہ آہستہ آہستہ فون پر بات کرتے تھے۔ بات نکل آئی عاجزی اور انکسار کی کہنے لگے، فلاں صاحب کے یہاں بظاہر بڑا ا نکسار ہے مگر موصوف نے اس سے بڑا کام لیا ہے۔ یوں تو وہ کہتے ہیں میں کیا میری بساط کیا لیکن انکسار بھی کیا شئے ہے۔ ایک موقعے پر یونیورسٹی کے اساتذہ کا ذکر نکل آیا۔ فرمانے لگے سنا ہے فلاں غریب نے بھی گاڑی خرید لی ہے۔
درمیان میں ہنسنے کی آواز آ جاتی مگر وہ عموماً یہ کام سننے والوں کے سپرد کر دیتے۔ وہ کہتے تھے کہ باقر مہدی کے ساتھ کام کرنا مشکل تھا۔ ’اظہار‘ دونوں نے مل کر نکالا تھا مگر ایک گفتگو میں خود مجھ سے فضیل جعفری صاحب نے کہا تھا میرے بس کا یہ سب کچھ نہیں تھا۔ پھر باقر کے اپنے مسائل تھے۔ فضیل جعفری کے مزاج میں ترشی اور تندی تو تھی لیکن وہ ایسی نہیں تھی کہ بات نہ کی جا سکے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ایک خوف قائم رہتا تھا کہ معلوم نہیں کس بات پر کیا سننا پڑے۔ گفتگو کرنا اور گھنٹوں گفتگو کرنا ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھا، اگر گفتگو کرنی ہے تو یہ بتانا ضروری تھا کہ اس میں شریک گفتگو کون لوگ ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر وارث علوی، باقر مہدی، اور فضیل جعفری ایک عہد میں نہ ہوتے تو گذشتہ چار پانچ دہائیوں کا منظرنامہ اتنا دلچسپ اور پر شور نہ ہوتا۔ فضیل جعفری نے وارث علوی کی فکشن تنقید پر جو طویل مضمون لکھا وہ ’اظہار‘ میں شائع ہوا۔ انتظارحسین کی ’بستی‘ پر بھی مضمون ’اظہار‘ ہی میں طبع ہوا۔ وارث علوی، باقر مہدی اور فضیل جعفری کی تثلیث ہم سے بہت کچھ کہتی ہے۔ باقر اور وارث علوی کی ملاقاتوں کا حال تو ہمیں کچھ معلوم ہے مگر فضیل اور باقر کی ملاقات کا ذکر تحریروں میں شاید اس لیے نہیں آ سکا کہ دونوں ایک ہی شہر میں مقیم تھے۔ دہلی میں زبیر رضوی ’ذہن جدید‘ کے ساتھ فعال تھے اور فضیل جعفری سے ان کے گہرے تعلقات تھے، ذرا اور پیچھے جائیں تو ’سوغات‘ کے محمود ایاز تھے۔ مختلف شہروں میں ان شخصیات کا رسالوں کے ساتھ موجود ہونا کیا عالم پیدا کرتا ہو گا۔ ان کے درمیان ہونے والی بات چیت بھی کس قدر دلچسپ ہوتی ہو گی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اختلافات کے باوجود یہ لوگ ایک دوسرے کو پڑھتے تھے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ خود ہی اپنی تحریروں کو پڑھتے اور پڑھواتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ فضیل جعفری کی تحریروں سے واضح ہے کہ ان کی نگاہ اپنے عہد کی ادبی و تنقیدی صورت حال پر گہری تھی۔ جن دو مضامین کا میں نے بطور خاص ذکر کیا ہے وہ بھی نہیں لکھے جا سکتے تھے اگر ساختیات اور پس ساختیات کے مسائل ان کی نگاہ میں نہ ہوتے۔ میں نے ان کے بعض دوستوں کو گفتگو کی حد تک ان مسائل کی گرفت اور ان سے خود کو ماورا ثابت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ فضیل جعفری نے ساختیات کی ہڈی کو علمی اور نظری دونوں سطحوں پر دیکھا تھا۔ یہ کہہ دینا آسان ہے کہ ساختیات اور پس ساختیات پر جتنی کتابیں میں نے پڑھی ہیں وہ اردو کے ساختیاتی اور پس ساختیاتی نقادوں نے بھی نہیں پڑھیں۔ فضیل جعفری نے ایسا نہیں کہا۔ انھوں نے تحریری طور پر ان نظریات سے بحث کی۔
فضیل جعفری کو اپنی بات کہنے میں نہ تو وقت لگتا تھا اور نہ ہی انھیں کسی کی پرواہ تھی۔ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے شور میں کتنی آوازیں گم ہو گئیں۔ لیکن وفاداریاں وقت کے ساتھ ادھر اُدھر شفٹ ہوتی رہیں۔ لوگوں نے کوشش کی کہ ایسے مضامین تحریر کیے جائیں جو جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے ڈسکورس کا حوالہ بن جائیں۔ اوڑھے ہوئے مصنوعی علم نے ایک خوف کی فضا قائم کر دی۔ اصطلاحوں کا بغیر سوچے سمجھنے دھڑ لے سے استعمال ہونے لگا۔ آج کی تاریخ میں ذرا ادھر اُدھر نظر دوڑائیے تو عبرت ناک صورت دکھائی دے گی۔ فضیل جعفری کی وفاداری نہ تو کسی شخص سے تھی اور نہ ہی کسی نظریے سے۔ وفاداری کا مفہوم ان کے نزدیک بہت واضح تھا۔ جس علم اور نظریے کو ہم ٹھیک سے سمجھتے نہیں ہیں انہیں سمجھانے کی کوشش کیوں کریں۔ علم اور نظریہ شخصیت سازی کے لیے نہیں ہے۔ بے شک اس بہانے شخصیت بھی بنتی جاتی ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ کسی شخصیت کے عروج و زوال کے ساتھ تنقیدی نظریہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے اور لازماً وفادار یاں کچھ اس طرح شفٹ ہو جاتی ہیں کہ پیراڈائم کے شفٹ ہونے کا خیال آتا ہے۔ مجھے اس افسوسناک بلکہ شرم ناک صورت حال میں فضیل جعفری کی ادبی شخصیت بہت ممتاز اور روشن دکھائی دیتی ہے۔
٭٭٭
تشکر: روز نامہ ’سیاست‘ حیدر آباد، ۲۵ جون ۲۰۱۸ء