کاوش عباسی

نہ تڑپنا ہے نہ آنکھ اشکوں سے تر کرنی ہے

دِل بدل خود کو کہ اب یوں ہی بسر کرنی ہے

 

جیسے بِچھڑے ہیں ابھی اور ابھی مِل جائیں گے

یوں ہی خوش خوش ہمیں ہر شب کی سحر کرنی ہے

 

اُن کی ہر یاد کو اِک نغمہ بنا  لینا ہے

زِندگی سرخوش و سرشار بسر کرنی ہے

 

حال غم تک کوئی احساس نہ جانے پائے

سوچ یوں مُنتشِر و زیر و زبر کرنی ہے

 

ضبط گر ٹوٹ بھی جائے تو نہ کچھ اُن پہ کھُلے

اُن سے ہر بات با انداز دِگر کرنی ہے

 

وعدۂ یار سلامت ہے تو کچھ ہو کاوش

ہم کو ہر منزل غم عشق میں سر کرنی ہے

٭٭٭

 

 

لِکّھے کا اثر تو مِرے لوگوں میں نہیں ہے

وہ دِل وہ جِگر تو مِرے لوگوں میں نہیں ہے

 

جو شعروں میں بِکھرے ہوئے خوں پر چھلک اُٹّھے

وہ دیدہ ٴ تَر تو مِرے لوگوں میں نہیں ہے

 

کُڑھنا اِنہیں آتا ہے سو کُڑھتے ہی رہیں گے

کچھ اور ہُنر تو مِرے لوگوں میں نہیں ہے

 

جو توڑتی، ہر دَم نیا کرتی رہے اِن کو

وہ تاب نظر تو مِرے لوگوں میں نہیں ہے

 

جو گلیوں سے چھَنتا ہوا مَیدانوں میں بھر جائے

وہ درد نگر تو مِرے لوگوں میں نہیں ہے

 

جو رات کے ماروں میں نئی جُہد جگا دے

وہ خواب سحر تو مِرے لوگوں میں نہیں ہے

 

صدیوں کی رُکی منزلیں کس طرح کٹیں گی

توفیق سفر تو مِرے لوگوں میں نہیں ہے

 

برسوں جو ہوا ہے وہی پھِر کیسے نہ ہو گا

اِمکان دِگَر تو مِرے لوگوں میں نہیں ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے