ادیب اور معاشرتی قدر و منزلت
محمد عمر میمن
یوسا نے اپنی کتاب ’’نوجوان ناول نگار کے نام خطوط‘‘ میں فکشن کی فنّی عملیات سے بحث کی ہے جس کے ذریعے وہ تخیلی دنیا تخلیق ہوتی ہے جو اپنے حسنِ ترغیب (یا قوتِ تاثیر) کے باعث کاملاً غیر حقیقی یا تخیلی ہونے کے باوجود حقیقی دنیا کا التباس پیدا کرتی ہے؟کتاب میں کل بارہ خط شامل ہیں۔ پہلے دو خطوں میں یوسا اپنے نوجوان مخاطب کو ان فنّی لوازمات سے آگاہ کرتا ہے جو اس کی دانست میں کسی اچھے ناول کی اساس ہوتے ہیں۔ تیسرے خط میں وہ ’’قوّتِ ترغیب‘‘ سے بحث کرتا ہے، جس پر فکشن کی کام یابی کا دار و مدار ہوتا ہے۔ لیکن فکشن کی وہ صلاحیت جو نیرنگِ خیال پر حقیقت کا دھوکا دلاتی ہے، اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ اگلے آٹھ خطوں میں ان اجزا پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ یہ اجزائے ترکیبی یا رموز، علی الترتیب، یہ ہیں: ’’اسلوب‘‘ ، ’’راوی اور بیانیہ مکان‘‘ ، ’’زمان یا وقت‘‘ ، ’’حقیقت کی سطحیں ‘‘ ، ’’انتقالات اور کیفی زقندیں ‘‘ ، ’’چینی ڈبّے یا روسی گڑیاں ‘‘ ، ’’پوشیدہ حقیقت‘‘ ، اور ’’کم یونی کیٹنگ وَے سِلز‘‘ ۔ آخری خط، ’’بہ طورِ پس نوشت‘‘ ، میں یوسا مشورہ دیتا ہے کہ پچھلے سوا سو صفحوں میں جو کچھ کہہ چکا ہے اسے دریا برد کر دیا جائے اور ناول لکھنا شروع کر دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تنقید، چاہے کتنی ہی سخت گیر اور وجدانی کیوں نہ ہو، امرِ تخلیق کی مکمل توجیہہ کرنے کی اہل نہیں ہوتی۔ ایک کام یاب فکشن یا نظم میں ہمیشہ ہی ایک عنصر یا بُعد ایسا ہوتا ہے جو عقلی تنقیدی تجزیے کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔ اس کتاب میں مکتبی تنقید کا جبر نہیں، رسمی زبان کا قبض بھی نہیں، اگر کچھ ہے تو یہ ایک اول درجے کے تخلیقی فن کار کی متانت، اعتماد، اور انساینت ساز انکساری ہے، جو تنقید کا منکر نہیں لیکن جو پاسبانِ عقل کو کبھی کبھی تنہا چھوڑ دینے کی دل نواز ضرورت سے بھی آگاہ ہے۔ یہ کتاب میں نے دو تین سال پہلے پڑھی تھی اور اسی وقت سے اس کے ترجمے کاخیال رہا تھا، جو اب میں نے کر لیا ہے۔ پوری کتاب جانے کب چھپے، فرشی صاحب نے عنایتاً اسے اپنے ’’سمبل‘‘ میں قسط وار چھاپنے کی ابتدا کر دی ہے۔ پہلے دو خط وہاں چھپ چکے ہیں۔ انھیں پڑھ کر محمد حمید شاہد صاحب کو ان پر کچھ کہنے کی تحریک ہوئی اور انھوں نے فکشن کے بارے میں اپنے خیالات کا نچوڑ اپنے خطوط میں پیش کر دیا ہے۔ ان خطوں کو پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ یہ کہیں چھپ جائیں تاکہ یوسا نے جن نکات کا اظہار کیا ہے اور جس طرح شاہد صاحب نے ان پر مزید بحث کی ہے، خاص طور پر اردو کے ہمارے مقامی اور معاصر منظر نامے کی رعایت سے، اس سے ہمارے اردو داں طبقے کو بھی کچھ فائدہ پہنچے۔ سو ان کی اور میری مراسلت حاضر ہے۔ اس مراسلت کو ’’مکالمے‘‘ سے زیادہ ایک ’’خود کلامیہ‘‘ کہنا چاہیے، کیوں کہ اس میں میرا کردار بس واجبی سا ہے۔ ایک تابعِ مہمل کا۔ اس برات کے اصلی دلھا میاں تو شاہد صاحب ہیں، مجھے زیادہ سے زیادہ وہ جسے مغرب میں دلھا کا ’’بیسٹ مین‘‘ کہا جاتا ہے، بس وہی سمجھا جائے، یا نوشے کا برادرِ خورد جسے بھی، کبھی کبھی، دل رکھنے کی خاطر، گھوڑے پر بٹھا لیا جاتا ہے۔ انھیں پڑھ کر میری طرح آپ بھی شاہد صاحب کے ادب سے سنجیدہ لگاؤ اور تفاعل، غیر معمولی لگن اور اس کے مباحث کی بابت ان کی تیز فہمی کے قائل ہو جائیں گے۔
- محمد عمر میمن میڈیسن، امریکا
پیارے عمر میمن: آداب
بھئی اتنی ساری پُر لطف باتیں تمہاری طرف سے اوپر تلے ہو گئیں کہ مزا آ گیا۔ روزسوچتا ہوں ‘ تمہارا شکریہ ادا کروں گا؛ روز سوچتا رہ جاتا ہوں اور ڈھنگ سے فراغت نہیں پاتا کہ تفصیل سے لکھ پاؤں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ جو میں اب روا روی میں چند سطریں گھسیٹنے بیٹھ گیا ہوں، اس سے حق ادا نہ ہو گا۔ ’’سمبل‘‘ راول پنڈی، میں ماریو برگس یوسا نے درست کہا ہے: ’’ جو لوگ ادبی لگن سے سرفراز ہیں وہ اس کے تخلیقی تجربے کو ہی اپنا انعام گردانتے ہیں۔ ‘‘ یہ اور اس طرح کی پر لطف باتیں تم ترجمہ نہ کرتے تو میرا دھِیان اِن کی طرف کیسے جاتا؟ اور اگر جاتا بھی تو شاید بہت دیر ہو جاتی۔ رات ایک کہانی لکھنے بیٹھا تو جانتے ہو میں ماریو برگس یوسا کی اس عام سی بات کے اتنا زیر اثر تھا کہ لکھنے کے دوران عجب طرح کا لطف لیتا رہا۔ تو یوں ہے کہ جو تراجم تم نے کیے اور جس تواتر سے کیے ان کی بابت سوچتا ہوں تو تمہارا احسان ماننا پڑتا ہے۔ تم نے نہ صرف اُردو اَدب کا دامن مالا مال کیا ہمیں بھی اپنے تجربے میں شامل کیا ہے۔ ماریو برگس یوسا کے نوجوان ناول نگار کے نام خطوط پڑھتے ہوئے بار بار میں نے اپنے بارے میں سوچا ہے کہ آخر میں نے کب ڈھنگ سے کوئی خط لکھا تھا؟ کبھی نہیں۔ ہاں کبھی نہیں۔ مجھے خط لکھنا آیا ہی نہ تھا کہ ادھر ٹیلی فون پر بات کرنے کا زمانہ آ گیا۔ پھر ای میل کی سہولت نے تو میرے مزاج بگاڑ کر رکھ دیے ہیں۔ اب ایک مدت کے بعد خط لکھنے کا خیال آیا تو ڈھنگ سے اس کا مضمون سوچنے کی مہلت اور اسے ایک ترتیب سے لکھ لینے کی للک بہم نہ ہو رہی تھی۔ بھئی اب اگر اس خط کی عبارت جگہ جگہ سے اُچٹی ہوئی معلوم ہو تو مجھے معاف کر دینا۔ ماریو برگس یوسا کی یہ بات کہ: ’’ ادیب کی معاشرتی قدر و منزلت الل ٹپ ہوتی ہے ‘‘ مجھے بجا لگتی ہے اور یہ بھی کہ ادیب اپنے بھیتر میں اور بہت گہرائی میں چیزوں کو محسوس کرنے لگے، اسی کو طرز حیات بنا لے تو بات بنتی ہے۔ فکشن کے حوالے سے اس کی یہ بات کہ: ’’ یہ بغاوت کا نام ہے ‘‘ کتنی حیرت انگیز مگر کتنی مناسب اور برحق ہے۔ اگر لکھنے والا بالکل ویسی ہی زندگی پر قناعت کر لے جیسی کہ وہ دیکھتا اور برتتا ہے اور اس سے بغاوت نہ کرے تو کہانی کا اختراع ممکن نہیں رہتا۔ کم از کم میرے ہاں تو یہی ہوتا رہتا ہے۔ ایک مسلسل اضطراب نے مجھے کہانی کی طرف راغب کیا اور یہی اضطراب مجھے لکھنے کے لیے اُکساتا ہے۔ ایک اور چیز جو اِس مقام پر مجھے کہہ دینا ہو گی، یوں ہے کہ محض دِل بہلانا اور یوں ہی کسی منظر، واقعے یا حادثے کو لکھ لینا، لکھنے کے باب میں ریاض کا درجہ رکھتا ہو گا، ضرور رکھتا ہو گا مگر ایک فکشن نگار جس ڈھنگ اور اسلوب حیات کو اپنا لیتا ہے اس میں زندگی کو عمومیت اور بوسیدگی سے بچا لینے کا چلن بنیادی وتیرہ ہو جانا چاہیے۔ شاید اِسی لیے لکھنے والے کا اپنے وجود کے اضطرابی آہنگ سے جڑنا لازم ہو جاتا ہے۔ اوہ بھئی ایک بار پھر— اور اس بار میلان کنڈیرا کی تحریر — تو یوں ہے پیارے کہ بہت پہلے ’’وجود کی ناقابل برداشت لطافت‘‘ کو پڑھا تھا اور اپنے ایک مضمون میں اس کی بابت کچھ لکھا بھی تھا۔ اس پر بنی ہوئی فلم دیکھی تھی اور حال ہی میں اس پر ڈاکٹرضیاءالحسن کا مضمون ’’سمبل ‘‘ ہی میں پڑھا۔ اب تمہارا ترجمہ پڑھتا ہوں تو مجھے اچھا لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے تم اسے مکمل چھپوا دو۔ کئی لوگوں سے میں نے تمہارے اِس ترجمے کی بہت تعریف سنی ہے۔ لوگ پڑھ رہے ہیں، تمہاری طرف متوجہ ہیں اور مجھے اس میں مزا آ رہا ہے۔ تم نے شاندور مارئی سے ’’دنیا زاد‘‘ میں ملاقات کروائی تھی۔ اب آصف فرخی کراچی سے آیا تو کتاب ’’انگارے ‘‘ دے گیا ہے۔ بھئی تم تو کمال ہمت اور مزاج رکھتے ہو۔ میں تمہارے اِنتخاب کی داد دیتا ہوں۔ شاندور مارئی کو جہاں پڑھنا اچھا لگا، وہیں میں اس بات کو بھی ماننے لگا ہوں جو نیر مسعود نے کہی ہے کہ پورے ناول کے لیے تم نے الگ زبان وضع کر لی ہے۔ تم نے اپنے ایک گزشتہ ترجمہ کے ذریعہ مجھ سے افسانہ (’’چٹاکا شاخ اِشتہا کا‘‘ ، مطبوعہ’’ سمبل‘‘ ) لکھوا لیا تھا اور اب میرا جی چاہتا ہے کہ ایک اِعتراف تمہیں پیش کروں اور وہ یہ ہے کہ تم یہ جو ترجمہ کرتے ہوئے اپنی زبان کا محاورہ نہیں بھولتے ‘سچ پوچھو تو ہم جیسوں کا دِل اَپنی مٹھی میں کر لیتے ہو۔ نئی نئی تراکیب کا سوجھنا اور اِن ترکیب کو متن میں یوں رکھ دینا کہ اپنی نشست پر ٹھیک ٹھیک بیٹھ جائیں، تحریر کو نیا بنا دیتا ہے۔ خوب بھئی خوب۔ ایک رسید اور: یہ رسید ہے ’’سالنامہ دراسات اُردو‘‘ کی۔ تف ہے مجھ پر کہ یہ تحفہ ملا تھا تو اِس پر ندیدوں کی طرح جھپٹ پڑا تھا اور ایک آدھ روز میں اسے یوں چاٹ کر اُٹھا جیسے سیونک لکڑی چاٹ جاتی ہے مگر تمہیں رسید تک نہ دی۔ ایک دفعہ پھر: خوب بھئی خوب۔ لو، خط لمبا ہو گیا۔ اس باب میں بہت سی بات ہونی ہیں لیکن پھر سہی کہ جس سلیقے سے بات کرنے کا ’’سالنامہ دراسات اردو‘‘ کی طرف سے تقاضا ہے وہ اب دست رس میں نہیں رہا۔ ادھر کے تمام احباب کو میری طرف سے آداب ہو۔ اسلام آباد کے لیے کا رلائق ہو تو بے دھڑک کہو۔
تمہارا
محمد حمید شاہد
اسلام آباد: ۱۱ اپریل، ۲۰۰۸ء
اعصاب کی تانت اور تنقیدی مباحث
برادرم حمید شاہد
السلام علیکم۔
بے حد مفصل خط ملا۔ شکریہ۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ جواب میں لکھوں تو کیا لکھوں۔ ہنوز آپ کے باریک بین مطالعے اور جس عقیدت اورسنجیدگی سے آپ ادب کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھتے ہیں اسی پر حیرت کر رہا ہوں۔ کاش ہمارے بیش تر پڑھنے اور لکھنے والوں کو آپ کا چلن آ جائے ! مجھ پر تو آپ کے وسیع مطالعے کا اچھا خاصا رعب جم گیا ہے۔ آپ کے مقابلے میں بہت کم پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ اور یہ میں مشرقی کسرِ نفسی کے کسی دورے کی گرفت میں آ کر نہیں لکھ رہا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا مطالعہ کافی محدود ہے۔ پھر تنقید ونقید مجھے فطری طور پر بھاتی بھی نہیں۔ خیر، اب ایسا بھی نہیں کہ تنقید سے بالکل ہی استغنا برتتا ہوں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تنقید بھی اسی قسم کی پسند آتی ہے جس میں تخلیقی تجربے کا نچوڑ ہو۔ یوسا کے خطوط مجھے اسی لیے پسند آئے تھے۔ رولاں بارتھ قسم کی مخلوق مجھ سے ہضم نہیں ہوتی۔ سو آپ نے اگر مجھ سے اپنے اٹھائے ہوئے نکات کے سلسلے میں کسی وافی و شافی بحث کی توقع کی تھی تو آپ کو مایوسی ہو گی۔ مجھے اس کا افسوس ہے، لیکن میں وہی ہوں جو ہوں۔ اپنے آپ کو بدلنا چاہوں تو بھی نہیں بدل سکتا۔ اگر کوشش کی تو منہ کی کھانی پڑے گی۔ اس عمر میں آپ مجھے رسوا ہوتا ہوا دیکھ کر خوش تو نہیں ہو سکیں گے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آپ کو بھی یوسا کی باتیں پسند آئیں۔ اس سے بہت ہمت بندھی۔ آپ نے کردار کی روح میں اتر جانے والی بات خوب کہی ہے۔ بالکل، ایسا ہی ہونا چاہیے۔ بھائی میں خود بھی ووکیشن کے لیے ’’شغل‘‘ کے استعمال سے مطمئن نہیں ہوں۔ سلیم الرحمٰن گواہ ہیں، میں نے ان سے بھی اس سلسلے میں مدد لی تھی۔ چکر یہ ہے کہ اول تو میری اردو بے حد ناقص ہو چلی ہے، اور پھر بعض اوقات اردو میں مناسب مترادفات ملتے بھی نہیں۔ بھئی آپ مجھ سے تکلف وغیرہ نہ کیا کریں۔ اگر آپ کو کوئی بہتر لفظ معلوم ہو تو بتائیں۔ یوسا والی کتاب میں یہی ایک لفظ نہیں ہے جس نے مشکل پیدا کی، کئی اور بھی ہیں۔ میں آپ کو اس خط کے ساتھ یوسا کے اگلے تین خطوط بھیج رہا ہوں۔ آپ پڑھیے اور اگر کہیں بہتر لفظ مل جائیں تو فوراً مطلع کیجیے۔ احسان ہو گا۔ ایک بات اور: ان پر ایک اور نظرِ ثانی واجب ہے۔ جہاں جہاں دوسری زبانوں سے اسم معرفہ یا عنوانوں کے نام استعمال ہوئے ہیں، وہ اردو میں اپنے ہجوں کے لحاظ سے مستند نہیں۔ میں اس سلسلے میں ایک صاحب سے مدد لینے والا ہوں، اور پھر انھیں درست کروں گا۔ لیکن جہاں تک متن کے ترجمے کا تعلق ہے، میرے خیال میں آپ اس پر کم و بیش بھروسا کر سکتے ہیں۔ اب ایک مزے کی بات سنیے: جس دن آپ کا خط ملا اسی دن فرشی صاحب کا خط بھی آیا۔ لکھا کہ پہلے بعض وجوہ کی بنا پر انھیں یوسا کے خط ’’سمبل‘‘ میں قسط وار چھاپنے میں تامل تھا، لیکن لوگوں نے پہلے دو خطوں کو کافی پسند کیا ہے اور اب وہ تین خط اگلے شمارے میں اور چھاپنا چاہتے ہیں۔ واللہ، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ یہی خط میں آپ کو بھیج رہا ہوں۔ آپ سب سے پہلے پڑھ لیں گے۔ دیکھا آپ نے، دوستی کام آ گئی۔ آپ کو یوسا کی اس بات سے اختلاف ہے کہ ’’فکشن ایک ایسی چیز ہے جو سچی نہیں تاہم سچی ہونے کا سوانگ بھرتی ہے۔ ‘‘ میرے خیال میں تو یہ اختلاف کی بات نہیں۔ جہاں تک میں اسے سمجھ سکا ہوں، وہ صرف یہ کہنا چاہتا ہے کہ فکشن تخیل کا کارخانہ ہے۔ اس لحاظ سے اسے حقیقت نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اس کا کمال یہ ہے کہ یہ اپنی قوتِ ترغیب کے زور پر حقیقت نظر آنے لگتا ہے (یا ایک متبادل حقیقت وضع کرتا ہے جو کسی لحاظ سے بھی حقیقی حقیقت سے قدرو قیمت میں کہتر نہیں ہوتی)۔ اصل میں یہ بحث زیادہ تفصیل سے ’’قوتِ ترغیب‘‘ والے خط میں ہوئی ہے، اور وہ میں آپ کو بھیج رہا ہوں۔ آپ کا قول بھی اپنی جگہ پر درست ہے: ’’فکشن وہ عظیم سچائی ہے جو زندگی کے عمومی سچ پر حاوی ہو جاتی ہے۔ ‘‘ میں بس ایک لفظ کا اضافہ کروں گا: ‘‘ کام یاب‘‘ (کام یاب فکشن الخ)۔ اگر یہ اضافہ کر لیا جائے تو پھر قوتِ ترغیب والی بات سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ آصف فرخی صاحب لکھتے ہیں کہ تازہ ‘‘ دنیا زاد‘‘ نکل آیا ہے۔ اس میں میرا کیا ہوا ایک جاپانی محقق کا ترجمہ شامل ہے۔ ذرا پڑھیے گا۔ مجھے تصوف کی ما بعد الطبیعیات سے عشق ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ عمر بڑھتی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ آپ بہ خیر و عافیت ہوں گے۔
والسلام
محمد عمر میمن
میڈیسن: ۲۴ اپریل ۲۰۰۸ء
حمید شاہد صاحب
السلام و علیکم
میں تو مایوس ہو چکا تھا لیکن، بہ ہر حال، آپ نے اپنی خوش گوار دل نوازی سے چونکا دیا۔ حضرت، اگر آپ نے خط روا روی میں لکھا تھا، تو خدا آپ کو سلامت رکھے اور اس کا زور فزوں تر کرے۔ آپ نے خط کیا لکھا ہے، داد و تحسین کا ایک سیل رواں جاری کر دیا ہے۔ میں تو اس روانی بے دریغ میں گردن گردن نہا گیا(جی تو چاہتا ہے لکھوں: دودھوں نہا گیا)۔ بھئی مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ کو یہ تراجم اتنے بھا جائیں گے، ورنہ سارے کام چھوڑ کر صرف ترجمے ہی کرتا۔ مجھے کوئی خبر وبر ملتی نہیں کہ ان سے کسی کا بھلا ہو رہا ہے، ہاں ’’ڈان ‘‘ دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک سے ایک عبقری جتا ہوا ہے اور آئے دن شاہ کار تولد کیے جار ہے ہیں۔ اور اب آپ رائے دینے پر آئے ہیں تو اس کے وفور کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ آپ محسوس صادقہ لکھ رہے ہیں یا، جیسے یہاں کہا جاتا ہے، مجھ بے چارے کی ٹانگ گھسیٹ رہے ہیں۔ آپ کو یوسا کے خطوط پسند آئے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ ان سے اس درجہ متاثر ہوں گے۔ لیکن اچھی بات ہے کہ انھیں کم از کم ایک سنجیدہ قاری تو ملا۔ بھائی، انہیں ’’سمبل‘‘ میں چھپوانے کا یہ ہے کہ پوری کتاب، جو بارہ خطوں پر مشتمل ہے، میں نے سال بھر پہلے ترجمہ کر لی تھی۔ میں نے فرشی صاحب کو پیش کش کی تھی کہ ہر شمارے میں چند خطوط شائع کر دیا کریں۔ وہ کنڈیرا کے ناول کا ایک حصہ ہر شمارے میں چھاپنے کے لیے تیار ہو گئے لیکن لکھا کہ یوسا کو تسلسل سے ہر شمارے میں طبع کرنے کی بہ جائے کبھی کبھار چھاپنا پسند کریں گے۔ میں امریکا میں ۴۴ سال سے ہوں۔ یہاں سانس بھی انگریزی میں لینی پڑتی ہے، ورنہ حقہ پانی بند ہو جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اردو بھولتا جا رہا تھا۔ سوچا ترجمے ہی کرو۔ اردو کی بھی بازیافت ہو جائے گی اور وقت بھی اچھا گزر جائے گا۔ سو یہ پچھلے دوسال کتابوں اور ادیبوں کے ساتھ بڑی طویل صحبت میں گزرے ہیں۔ میں نے کوئی آٹھ دس ناول ترجمہ کر لیے ہیں، چند مضامین وغیرہ بھی۔ مصیبت یہ ہے کہ انہیں کہاں چھپواؤں۔ آصف کا بھلا ہو کہ انھوں نے چار کتابیں چھاپ دیں۔ وہ سبھی چھاپنے کوتیار ہیں۔ لیکن کیا کروں، اپنی جمالیاتی حس کا مارا ہوا ہوں۔ مجھے ان کی چھاپی ہوئی کتابیں صوری اعتبار سے پسند نہیں آئیں۔ کچھ ’’بھاگتے کی لنگوٹ والا‘‘ مضمون نظر آیا۔ وہ اتنے مصروف آدمی ہیں کہ اس سلسلے میں شاید کچھ کرنا چاہیں تو بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ سو یہ تراجم کیبنیٹ میں پڑے خاک پھانک رہے ہیں۔ اب میں ایسا سورما بھی نہیں کہ چھپوانے کے لیے کوہ قاف جا پہنچوں، بس بساط بھر اپنے مقامی کے۔ ٹو کی ترائیوں میں چہل قدمی کر آتا ہوں۔ سوچتا ہوں، ترجمہ کرنے سے میرا مقصد تو پورا ہو گیا (خوش وقتی اور زبان کی کسی قدر بازیافت )، اب یہ چھپیں نہ چھپیں کیا فرق پڑتا ہے۔ خیر، میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر یہ آسانی سے اور سلیقے سے چھپ جائیں تو تھوڑی بہت دوڑ دھوپ کر سکتا ہوں، ہفت اقلیم سر کرنے کا یارا اور ہمت نہیں اور نہ اپنے جسم ناتواں کو دیکھتے ہوئے اس کا بیڑا ہی اٹھایا ہے۔ اگر آپ کو کسی پبلشر کا علم ہو تو بتائیں، اس سے بھی رجوع کر کے دیکھ لیا جائے۔ لیکن میری کچھ شرطیں ہوں گی، جن میں مال وال شامل نہیں ہو گا۔ کچھ مل گیا تو ٹھیک، نہ ملا تو وہ بھی ٹھیک۔ میں نے الحمرا کی چند مطبوعات دیکھی تھیں اور وہ کم از کم صوری اعتبار سے پسند آئیں۔ میں نے شفیق ناز صاحب کو الحمرا کی ویب سائیٹ پردیے ہوے پتے پر ای۔ میل بھیجی تو اس کا جواب نہیں آیا۔ ان کے ذاتی ای۔ میل کا پتا میرے پاس ہے نہیں۔ ایک زمانے میں، جب ابھی الحمرا کا کام شروع نہیں ہوا تھا، انھوں نے مجھے کئی بار فون کیا تھا اور ای۔ میل بھی بھیجے تھے۔ میں نے جواب بھی دیے تھے۔ لیکن ڈھونڈا تو پتا ملا نہیں۔ سو میں نے اپنی کر دیکھی، اس سے زیادہ کی استطاعت کی توفیق میرے خالق نے مجھے دی نہیں۔ بھائی، چوں کہ اشاعت وغیرہ کا ذکر چل نکلا ہے، آپ کو اگر چند معتبر اور معیاری جرائد کا علم ہو تو بتائیں، میں تراجم کے چند ٹکڑے انھیں بھیج دوں گا۔ اس طرح کچھ چیزیں لوگوں کے مطالعے میں آ جائیں گی۔ اس فہرست میں آپ ’’بازیافت‘‘ کو شامل نہ کیجئے گا۔ اس کے مدیر صاحب مجھ معصوم کے ساتھ بڑی اخلاق سوز ایکٹیوٹی کر چکے ہیں۔ آپ نے اپنے خط میں ’’ سمبل‘‘ میں ضیا الحسن صاحب کے میلان کنڈیرا اور ’’وجود ‘‘ پر کسی مضمون کا ذکر کیا ہے۔ یہ ’’سمبل‘‘ کی کس اشاعت میں شامل ہے؟ (نئے شمارے میں تو نہیں)۔ میں بھی تو دیکھوں کہ کیا کہا گیا ہے۔ اس پر یاد آیا، میں نے ’’وجود‘‘ کا جو عنوان پہلے رکھا تھا (’’وجود کی ناقابل برداشت لطافت‘‘) اب بدل دیا ہے۔ نیا عنوان ’’وجود کی لطافت، جو اٹھائے نہ بنے ‘‘ ہے۔ یہی عنوان ناول کی دوسری قسط پر ہے جو ابھی حال ہی میں نے فرشی صاحب کو بھیجی ہے۔ [فرشی صاحب کی رائے پر پرانا عنوان ہی رہنے دیا ہے۔] میں نے کنڈیرا کے ایک اور ناول کا ترجمہ بھی کر ڈالا ہے۔ اس کا عنوان رکھا ہے ’’ہنسنے ہنسانے اور بھول جانے کی کتاب ‘‘ ۔ ’’ادھر کے تمام احباب کو میری طرف سے آداب ہو‘‘ آپ نے لکھا ہے۔ بھئی یہ ادھر کون سے احباب ہیں جنھیں آداب بھجوا رہے ہیں؟ میڈیسن میں تو میرے سوا آپ کا کوئی ’’احباب‘‘ نہیں۔ اور اگر آپ کی مراد شمالی امریکا میں مقیم (عارضی یا تا ابد) پاکستانیوں کی آبادی سے ہے، تو میں اس ریوڑ سے نا آشنا ہوں۔ کل سے آج تک ۴ پاکستانی احباب کے ای۔ میل ملے کہ ذی شان ساحل اٹھ گئے۔ کیا قافلہ جاتا ہے کیسا معصوم اور تر و تازہ شاعر تھا! غالب یاد آتا ہے:
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
میرا خیال ہے یہ میرا خط بھی کچھ ضرورت سے زیادہ طویل ہو گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہے۔ میں نے اسے لکھنے سے ذرا پہلے ہی دو دن لگا کر جاپانی محقق تشی ہیکوازتسو کی کتاب Creation and the Timeless Order of Things کے چوتھے باب کا ترجمہ ختم کیا ہے، جس کا عنوان، ترجمے میں ’’عین القضات ہمدانی کی فکر میں تصوف اور لسانی تشابہ کامسئلہ‘‘ ہے۔ یہ بڑی معرکۃ الآرا چیز ہے۔ روح ابھی تک اس سرشاری کے عالم میں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زبان بھی رواں ہو گئی ہے۔ میں نے سوچا کہ اپنی عادی چپ کے گھونگے میں لوٹنے سے پہلے ہی آپ کا قرض ادا ہو جائے، ورنہ آپ دو سطری خط پا کر مجھ پر بے مروت ہونے کا الزام دھریں گے۔ سو اپنی آبرو بچانے کی خاطر یہ لن ترانی ہو رہی ہے۔ سمع خراشی کے لیے معافی چاہتا ہوں۔
مخلص
محمد عمر میمن
میڈیسن: ۱۳اپریل ۲۰۰۸ء
٭٭٭