غزلیں ۔۔۔ فضیل جعفری

 

کیسا مکان سایۂ دیوار بھی نہیں

جیتے ہیں زندگی سے مگر پیار بھی نہیں

 

اٹھتی نہیں ہے ہم پہ کوئی مہرباں نگاہ

کہنے کو شہر محفل اغیار بھی نہیں

 

رک رک کے چل رہے ہیں کہ منزل نہیں کوئی

ہر کوچہ ورنہ کوچۂ دل دار بھی نہیں

 

گزری ہے یوں تو دشت میں تنہائیوں کے عمر

دل بے نیاز کوچہ و بازار بھی نہیں

 

آگے بڑھائیے تو قدم آپ جعفریؔ

دنیا اب ایسی وادیِ پر خار بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر سمت لہو رنگ گھٹا چھائی سی کیوں ہے

دنیا مری آنکھوں میں سمٹ آئی سی کیوں ہے

 

کیا مثل چراغ شب آخر ہے جوانی

شریانوں میں اک تازہ توانائی سی کیوں ہے

 

در آئی ہے کیوں کمرے میں دریاؤں کی خوشبو

ٹوٹی ہوئی دیواروں پہ للچائی سی کیوں ہے

 

میں اور مری ذات اگر ایک ہی شے ہیں

پھر برسوں سے دونوں میں صف آرائی سی کیوں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

صبح تک ہم رات کا زاد سفر ہو جائیں گے

تجھ سے ہم آغوش ہو کر منتشر ہو جائیں گے

 

دھوپ صحرا تن برہنہ خواہشیں یادوں کے کھیت

شام آتے ہی غبار رہ گزر ہو جائیں گے

 

دشت تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھئے

یہ شکستہ بام و در بھی ہم سفر ہو جائیں گے

 

شورش دنیا کو آہستہ روی کا حکم ہو

نذر خیر و شر ترے شوریدہ سر ہو جائیں گے

 

یہ جو ہیں دو چار شرفائے اودھ اختر شناس

کچھ دنوں میں یہ بھی اوراق دگر ہو جائیں گے

٭٭٭

 

 

آٹھوں پہر لہو میں نہایا کرے کوئی

یوں بھی نہ اپنے درد کو دریا کرے کوئی

 

اڑ جائے گی فصیل شب جبر توڑ کر

قیدی نہیں ہوا جسے اندھا کرے کوئی

 

دل تختۂ گلاب بھی آتش فشاں بھی ہے

اس رہگزر سے روز نہ گزرا کرے کوئی

 

اوڑھی ہے اس نے سرد خموشی مثال سنگ

لفظوں کے آبشار گرایا کرے کوئی

 

پانی کی طرح پھیل گئی گھر میں شام ہجر

تا صبح ڈوب ڈوب کے ابھرا کرے کوئی

 

میں ہوں کسی صدا کے شکنجے میں جعفریؔ

میرا پتا ہواؤں سے پوچھا کرے کوئی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے