مسدود راستہ — منیرالدین احمد

مسدود راستہ

منیرالدین احمد

میں ناشتہ کرنے کے لئے ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں پہنچا ، تواوتا کے ساتھ ہماری دونوں شریک میز جرمن خواتین میشل اور کونسٹانزے اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو چکی تھیں۔ اوتا نے استفہامی نظرسے میری طرف دیکھا ، جیسے پوچھ رہی ہو:”کیا کوئی خاص بات تھی؟”

”  سات عادی قسم کے فون تھے "۔میں نے کہا:” البتہ آٹھواں فون عائشہ کا تھا۔ تم جانتی ہو کہ وہ سامنے ہو تو بات دوسری ہے اور میں اٹکل سے کام چلا لیتا ہوں۔ مگر فون پراس کی کاوڈر ویلش کو میں بالکل نہیں سمجھتا۔اتنے برسوں تک جرمنی میں رہنے کے باوجود جرمن اب تک اس کی زبان پر نہیں چڑھتی اور اس کی افریقن انگریزی اور سوڈانی عربی میرے پلے نہیں پڑتیں۔ جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں وہ کسی ایمرجنسی کی بات کر رہی تھی، جس کا اسے سامنا تھا۔ اسے شاید ہماری مدد کی ضرورت تھی۔ میں نے فوراًاس کے گھر پر فون کیا، مگر ٹیلی فون ایکسچینج کی طرف سے ریکارڈ شدہ جواب ملا: "اس نمبر کے تحت کوئی کنکشن نہیں ہے "۔ہمارے سفر پر جانے والے روز تک تو وہی نمبر تھا۔ تم نے چلنے سے پہلے خود عائشہ سے بات کی تھی اور اسے بتایا تھا کہ ہم چار ہفتوں کے لئے ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ ہو سکتا کہ اس نے اس دوران میں رہائش گاہ بدل لی ہو۔عائشہ سے ہر بات کی توقع رکھی جا سکتی ہے "۔

” تم کو عائشہ سے خدا واسطے کی چڑ ہے "۔اوتا نے جھنجھلا کر کہا:” کبھی اس کی زبان پر اعتراض کرتے ہو ، کبھی اس کے کپڑوں پر۔ اس کا موٹاپا تم کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔پتہ نہیں اس بچاری سے کیا قصور سرزدہو گیا ہے ، جو تم یوں ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑے رہتے ہو۔ وہ کرموں کی ماری بہت دکھی عورت ہے۔ خدا جانے اب اسے کس مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے "۔

یہ ہمارے آرمینیا کے سفر کے دنوں کی بات ہے۔ ہم ہفتے میں ایک دو بار جرمنی میں اپنے گھر پر فون کر کے ریکارڈ شدہ پیغامات سن لیتے تھے۔ ایمرجنسی کی صورت میں کسی ہمسائے کو فون کر کے ضروری ایکشن لیا جا سکتا تھا۔ مگر عائشہ کے سلسلے میں مجھے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ ہمارے واقف کاروں میں سے کوئی اسے نہیں جانتا تھا، اس لئے کسی کو اس سے رابطہ کرنے کے لئے نہیں کہا جا سکتا تھا۔

میشل اور کونسٹانزے کی سوالیہ نگاہوں سے اوتا جان چکی تھی کہ اسے عائشہ کا تعارف کرانا پڑے گا۔ تہذیب کے مارے جرمن ایسے معاملات کے بارے میں براہ راست کچھ نہیں پوچھتے ، مگر جو کوئی ان کی نظروں کو پڑھ سکتا ہے ، اسے پتہ ہے کہ مزید جاننے کے شوق میں ان کے منہ سے رال ٹپکنے کو ہے۔

عائشہ سوڈان کی رہنے والی ہے۔جرمنی میں اس نے اسایلم کی درخواست دے رکھی ہے۔ اس کا تعلق ایک ماڈرن اسلامی فرقہ سے ہے ، جسکو اس ملک کی حکومت نے اسلام سے خارج قرار دے کر اسکے پیروکاروں کے سیاسی و تمدنی حقوق محدود کر دیئے ہیں۔ اس وجہ سے اس جماعت کے ارکان کیلئے دو ہی راستے کھلے ہیں : مذہب بدلنا یا ملک کو چھوڑ جانا۔بہتوں نے مجبوری کے تحت اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا۔ مگر عائشہ نے ہجرت کرنے کو ترجیح دی تھی۔

”  عائشہ ہماری نوکرانی ہے۔” اوتا ہماری ہم میز عورتوں کو بتا رہی تھی،” جو خود اپنا راستہ روکے کھڑی ہے۔ اسے قدم قدم پر مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے ، مگر اس کا مذہبی جنون کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے "۔

ایک عرصہ سے جرمنی میں گھر بار کیلئے ملازم ملنا بہت دشوار ہو گیا ہے۔ایک زمانے میں جرمن عورتیں دو چار گھنٹوں کیلئے پرائیویٹ گھروں کی صفائی ستھرائی کا کام کرنے کیلئے تیار ہو جاتی تھیں اور اکثر ایسی ملازمت کو دوسرے کاموں پر ترجیح دیتی تھیں ، کیونکہ لکھت پڑھت نہ ہونے کے سبب انکم ٹیکس نہیں دینا پڑتا تھا اور ان کی ذاتی آزادی بھی برقرار رہتی تھی۔ پھر پرائیویٹ ملازمت کو کسی وقت بھی چھوڑا جا سکتا تھا۔ کسی ادارے یا دوکان کی باضابطہ نوکری کرنے میں بہت سی مشکلات تھیں۔ اہم ترین بات یہ تھی کہ سرکاری قوانین کی پابندی کرنی پڑتی تھی اور انکم ٹیکس اور ہیلتھ انشورنس کی کٹوتی کے سبب نقد تنخواہ گھٹ کر جیب خرچ کے برابر رہ جاتی تھی۔ مگر جب سے ملازمت کے قوانین میں یہ تبدیلی لائی گئی تھی کہ ایک مقرر ہ رقم تک ملنے والی تنخواہ پر کوئی کٹوتی نہیں کی جائیگی، اس وقت سے پرائیویٹ گھروں کیلئے جرمن ملازمہ حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اب گھریلو کاموں کیلئے صرف غیر ملکی عورتیں ملتی ہیں، جنہوں نے اسایلم کی درخواست دے رکھی ہوتی ہے یا جو غیر قانونی طور پر جرمنی میں مقیم ہوتی ہیں اور جن کو سرکاری طور پر ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

اخبار میں ہمارا اشتہار چھپنے پر تین عورتوں کے فون آئے۔ پہلی پولینڈ کی رہنے والی تھی اور تین ماہ کے ویزے پر آئی تھی ، جس کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔ وہ اپنے کسی یار کے ہاں پولیس سے چھپ چھپا کر رہ رہی تھی۔ اوتا نے یہ بات سنتے ہی اسے لینے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ وہ قانون شکنی میں مدد دینے کے لئے تیار نہ تھی۔

دوسری عور ت رومانیہ سے تھی ،کسی کارخانے میں ملازمت کر رہی تھی اور صرف ویک اینڈ پر کام کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ اس کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ خاصی تیز طرار عورت تھی۔ اوتا کو خطرہ تھا کہ اس کے تعلقات اپنے ہموطن جپسیوں کے ساتھ ہو سکتے ہیں ، جو عام طور سے گھروں میں چوریوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ بہت سی ایسی وارداتیں ہو چکی ہیں ، جن میں گھروں میں ملازمت کرنے والی ہموطن عورتوں کے ذریعہ ان کو خبریں ملتی تھیں کہ کن دنوں میں مالکان مکان سفر پر جا رہے ہیں ۔اور ان کے گھروں میں کون کون سی قیمتی اشیاء پائی جاتی ہیں۔ بعض صورتوں میں ملازم عورتوں کی وساطت سے چوروں کو گھروں کی چابیاں بھی مل جاتی ہیں ، جس کے سبب واردات کرنے میں مزید آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ انہی دنوں میں ایک دلچسپ واقعہ ہوا تھا، جس کا اخباروں میں چرچا ہوتا رہا۔ ایک گھر سے مالکان کی غیر حاضری میں چور قیمتی قالین اٹھا کر لے جا رہے تھے۔ ہمسائے کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ ایک قالین دھونے والی فرم کے ملازم ہیں اور اس کے ہمسائے کے قالین دھونے کے لئے لے جا رہے ہیں۔ ہمسائے نے کہا کہ یہ تو بہت اچھا موقعہ ہے ، وہ بھی عرصہ سے اپنا قالین دھونے کیلئے بھیجنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنا قیمتی قالین بھی ان کے حوالے کر دیا۔ واضح ہے کہ ان واقعات کے پیش نظر ہم رومانیہ کی عورت کو ملازم رکھنے کیلئے تیار نہ تھے۔

تیسرا فون عائشہ کا تھا ، جس کی بات فون پر ہماری سمجھ میں بالکل نہ آتی تھی۔ البتہ یہ پتہ چل گیا تھا کہ وہ سوڈانی ہے اور تھوڑے عرصہ سے جرمنی میں تھی۔ہم نے تجویز پیش کی کہ وہ اتوار کے روز ہمارے ہاں آئے تا کہ اطمینان سے بیٹھ کر بات کی جا سکے۔ وہ ہم سے قریبی شہر ہمبرگ کے ایک دور دراز علاقے میں رہتی تھی۔ میں نے کہا کہ اسے پہلے انڈر گراونڈریل میں ، پھر سٹی ٹرین سے ہمارے گاؤں تک پہنچنے میں کم سے کم دو گھنٹے لگ جائیں گے۔ اس نے جواب دیا کہ اگر اسے ملازمت مل سکے ، تو اسے اس بات کی پرواہ نہ ہو گی۔اوتا نے پیش کش کی کہ ہم اسے ملازم رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنے والی دونوں صورتوں میں آنے جانے اور انٹرویو پر لگنے والے وقت کا معاوضہ ادا کر دیں گے۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئی اور اس نے اتوار کے روز نو بجے تک پہنچ جانے کا وعدہ کیا۔

میں اسے لینے کیلئے پنے برگ ریلوے اسٹیشن پر گیا ،جہاں پر عائشہ کو ریل گاڑی سے پہنچنا تھا۔ وہاں سے آگے ہمارے گاؤں کیلئے بس لینی پڑتی ہے۔ مگر اتوار کے روز بس صبح کے وقت نہیں چلتی۔ عائشہ کو پہچاننا کچھ ایسا مشکل نہ تھا۔ وہ اس صبح سٹی ٹرین سے اترنے والی واحد افریقن عورت تھی۔ دور سے اسکے ڈیل ڈول کو دیکھ کر میں نے دل میں سوچا کہ اس سے پھرتی سے کام کرنے کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ اس کی چال سے مجھے شبہ ہوا کہ کہیں وہ حاملہ نہ ہو ، کیونکہ وہ پاؤں گھسیٹ رہی تھی۔ میں اس کی عمر کے بارے میں بھی تذبذب میں تھا۔ چہرے مہرے سے وہ بیس پچیس کی لگتی تھی ،مگر اپنے سوڈانی کپڑوں میں ، جن پر کم و بیش ایک پورا تھان لگتا ہے ،وہ بڑی عمر کی دکھائی دیتی تھی۔ البتہ جب قریب پہنچ کر اس نے اپنے سچے موتیوں جیسے سفید دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے مجھے سلام کیا ، تو اس کے چہرے پر کنواریوں والی دلفریبی کی جھلک نظر آئی۔ میں نے اسے خوش آمدید کہا اور بتایا کہ گھر پر ناشتہ ہماری راہ تک رہا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ وقت پر پہنچنے کے لئے اس صبح گھر سے بھوکی نکل کھڑی ہوئی تھی۔

راستے میں ہمارے درمیان کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ یوں بھی انٹر ویو دراصل اوتا نے لینا تھا اور اسی کو کام دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرنا تھا۔ میں عام طور سے ایسی گھریلو باتوں میں دخل اندازی سے باز رہتا ہوں۔ البتہ میں نے جاننا چاہا کہ اس کو ہمبرگ میں کہاں پر ٹھہرایا گیا تھا اور کیا وہ جگہ تسلی بخش تھی۔ اسایلم کے لئے درخواست دینے والوں کا رہائش کا اپنا انتظام ہو ، تو حکومت کی طرف سے اس کا کرایہ ادا کیا جاتا ہے ، وگرنہ ان کو رہائش گاہ مہیا کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ ان کو سوشل ڈپارٹمنٹ کی طرف سے باقاعدہ ماہوار ا لاؤنس ملتا ہے۔ عائشہ نے کہا کہ اس کا ذاتی خرچ حکومت کی طرف سے ملنے والی رقم سے چل جاتا ہے ، مگر پیچھے سوڈان میں ا س کے بوڑھے ماں باپ ہیں ، جن کی اسے مالی امداد کرنی ہوتی ہے۔ اس لئے اس نے سوچا تھا کہ اسے کہیں پر کوئی چھوٹی موٹی ملازمت مل جائے ، تو وہ کچھ رقم ماہوار ماں باپ کو بھیج دیا کرے۔ مگر جرمن زبان نہ جاننے کے سبب ا س کو کام نہیں مل رہا تھا۔ اسے امید تھی کہ ہم اسے ناامید نہیں کریں گے۔

عائشہ کو جرمنی میں آئے ہوئے تین ماہ ہو چلے تھے۔ اس کا اسایلم کا کیس اس وقت تک ابتدائی مراحل میں تھا۔ تاہم اس کے وکیل کو یقین تھا کہ اسے اسایلم مل جائے گی۔ کیونکہ سوڈان کی حکومت نے سیاسی وجوہات کی بنا پر "الاخوان الجمہوریون”  کو اسلام سے خارج اور غیر قانونی قرار دے دیا تھا اور اس کے بانی استاذ محمود محمد طہٰ کو ارتداد کے جرم کی پاداش میں سزائے موت سنا کر پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ سوڈان کے صدر جعفر النمیری نے اپنی حکومت کو بچانے کیلئے ، جو ملک میں غیر مقبول ہو چکی تھی ، یہ اقدام کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ حیلہ کارگر ثابت نہ ہوا اور بہت جلد فوج نے اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

عائشہ کی باتیں سن کر اوتا کو اس پر بے حدترس آیا اور اس نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ عائشہ کو یورپین گھروں کی صفائی ستھرائی کا کوئی تجربہ نہیں تھا ، اس کو ملازم رکھ لیا۔ میں اس بات پر حیران ضرور ہوا، مگر میں نے کچھ نہ کہا۔ آخر بات ان دونوں کے درمیان ہو رہی تھی اور انہیں ہی ایک دوسرے سے معاملہ طے کرنا تھا۔یوں بھی صفائی والے روز مجھے گھر نکالا مل جاتا تھا۔ کیونکہ میرا وجود کسی بھاری بھرکم صوفے کی طرح صفائی کرنے والی کے راستے میں رکاوٹ گردانا جاتا تھا۔

ملازمت کے سلسلے میں عائشہ بہت سنجیدہ تھی اور کبھی ناغہ نہ کرتی تھی۔البتہ اس کا کام کرنے کا طریق کار بہت منفرد تھا۔ اس کی ابتداء ریڈیو پر موسیقی کا پروگرام لگانے سے ہوتی تھی ، جس کو سنتے ہی اس کے جسم کا انگ انگ تھرکنے لگتا تھا۔افریقیوں کو ڈانس کرنے کی مہارت قدرت نے خاص طور پر ودیعت کر رکھی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے افریقی بچے کو ڈانس کرتے ہوئے دیکھو، تو لگتا ہے ، جیسے ماں نے اس کو دودھ پلانے کے ساتھ ساتھ ناچنے کا ڈھنگ بھی سکھا دیا ہو۔ موسیقی کی تال پر عائشہ کے قدم اس قدر ہلکے پھلکے ہو جاتے تھے ، جیسے ان پر کوئی بوجھ نہ ہو۔ وہ سارا وقت گھربار میں تھرکتی پھرتی تھی اور بعض اوقات ترنگ میں آ کر سوڈانی گیت گانے لگتی تھی۔ اس کی آواز میں خاص لوچ تھا ، جو ہمیں بہت اچھا لگتا تھا۔

چونکہ عائشہ کو لمبا سفر کر کے آنا پڑتا تھا ، اس لئے اس کی آمد والے روزاس کا صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ ہوتا تھا۔ اس کو بلدیہ کی طرف سے ایک ہوسٹل نما پرانے دو منزلہ مکان میں کمرہ ملا ہوا تھا۔ جہاں پر مختلف ملکوں کے پندرہ بیس افراد مقیم تھے ، جو اپنے وطن کو بیروزگاری کے سبب یا کسی دوسری وجہ سے چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ عام طور سے سب لوگ مل جل کر رہتے تھے ، مگر دو عرب فیملیوں کے مابین اندرونی طور پر چپقلش پائی جاتی تھی۔ ان میں سے ایک خاندان فلسطین سے تھا اور جرمنی آنے سے پہلے لمبے عرصے تک بیروت میں پناہ گزین رہ چکا تھا۔ دوسری فیملی لبنانی عیسائیوں کی تھی۔جس کو اپنا وطن خانہ جنگی کے سبب چھوڑنا پڑا تھا۔ عائشہ کے تعلقات دونوں فیملیوں کے ساتھ دوستانہ تھے۔ عربی زبان ان کے درمیان قدر مشترک تھی۔ مگر دوسری طرف وہاں پر گھانا اور سیرالیون کے افریقن بھی مقیم تھے ، جن کے بارے میں عائشہ کو شبہ تھا کہ وہ لوگ ہیروئین کا کاروبار کرتے تھے۔ ان لوگوں کی وجہ سے دو بار مکان کی تلاشی لی جا چکی تھی۔ عائشہ جلد از جلد وہاں سے نقل مکانی کرنا چاہتی تھی ، کیونکہ کچھ نوجوان افریقن لڑکے اس کا پیچھا کرنے لگے تھے۔ عائشہ کو خطرہ تھا کہ کسی روز اس پر مجرمانہ حملہ ہوسکتا ہے۔ ڈر کے مارے وہ ہر وقت اپنا کمرہ مقفل رکھتی تھی۔اس کا کہنا تھا کہ ا یسے خوف و ہراس کاسامنا اس کواس سے قبل اپنے وطن میں کبھی نہیں کرنا پڑا تھا۔

پھر ایک روز وہی ہوا، جسکا عائشہ کو شروع سے خدشہ تھا۔ ایک رات جبکہ وہ سو رہی تھی، کسی نے ماسٹر چابی سے اسکے کمرے کا دروازہ کھولا اور عائشہ کے بیدار ہونے سے پہلے اس کو اپنے قابو میں کر لیا۔ اسکے منہ اور آنکھوں پر ٹیپ لگا دی گئی۔ اس طرح عائشہ کو بے بس کرنے کے بعد حملہ آور نے اس کی آبرو ریزی شروع کی ، جس کا سلسلہ ساری رات چلتا رہا۔ ساتھ کے کمروں میں سوئے ہوئے دوسرے مکینوں کو خبر تک نہ ہوئی کہ عائشہ پر کیا قیامت گزر رہی تھی۔ کہیں صبح دم ظالم نے اس کا پیچھا چھوڑا اور جاتے ہوئے دھمکی دے کر گیا کہ اگر پولیس کو اطلاع دی، تو جان سے مار ڈالوں گا۔

اگلے روز عائشہ کو ہمارے ہاں آنا تھا۔مگر دوپہر تک نہ آئی ا ور اس کی طرف سے کوئی خبر بھی ملی۔ اوتا نے خود فون کیا۔ پتہ چلا کہ کوئی سنگین بات پیش آ گئی تھی۔ اوتا نے کھل کر بتانے کو کہا ، تو عائشہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ اب واضح تھا کہ ہمیں خود اس کی رہائش گاہ پر جانا تھا۔ اوتا نے کہا کہ وہ گھر پر رہے ، ہم اس کی طرف آ رہے ہیں۔

ہمارے آ جانے سے عائشہ کی ہمت بڑھی اور اس نے سارا ماجرا بیان کیا۔ مگر وہ کیس کو پولیس کے پاس لے جانے کیلئے تیار نہ تھی۔ اس کو خطرہ تھا کہ مجرم اس کو سچ مچ جان سے مار ڈالے گا۔ کیونکہ اسکے پاس ماسٹر چابی موجود تھی۔ اوتا نے کہا کہ اس چیز کا حل موجود ہے۔ہم اسکے کمرے کا تالا بدلوا دیتے ہیں ، جسکا انتظام میں نے اسی وقت کر دیا۔ہم نے اصرار کیا کہ اسے بہر صورت پولیس کے پاس جانا چاہیئے ، وگرنہ مجرم کو مزید شہہ ملے گی۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ اسے گھانا کے ایک نوجوان پر شبہ تھا ، جسکی اس نے ارتکاب جرم کے وقت شکل تو نہیں دیکھی تھی ، مگر جب اس نے اسے دھمکی دی تھی کہ کیسںکو پولیس کے پاس نہ لیکر جائے ، تو اس نے اس کی آواز کو پہچان لیا تھا۔

” پھر ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیئے۔ ہم تمہارے ساتھ پولیس کے پاس چلتے ہیں اور اگر تم چاہو، تو کسی وکیل کو بلا لیتے ہیں”۔ اوتا اس بارے میں پوری طرح سنجیدہ تھی۔

” لیکن اگر مجھے اس جرم کے نتیجے میں حمل ہو گیا ہے ، تو کیا میں اپنے بچے کے باپ کو عدلیہ کے سپرد کرنے کی ذمہ دار نہ ٹہروں گی؟” عائشہ کو شاید یہ امید تھی کہ وہ شخص اس سے شادی کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔

” ایسے باپ پر لعنت بھیجو” اوتا نے جواب دیا۔ ” آج تم اس کے ہتھے چڑھی ہو اور کل کو کوئی دوسری بے گناہ عورت اس کی ہوس کا شکار بن سکتی ہے "۔

پولیس نے کیس درج کر لیا اور اس مکان میں رہنے والے سب مرد باسیوں کو تحقیق کی خاطر چوکی پر حاضر ہونے کا حکم دیا۔ البتہ مجھے یہ احساس تھا کہ وہ اس معاملے کو کچھ اہمیت نہ دے رہے تھے۔ ایک سپاہی نے عائشہ کی پیٹھ پیچھے یہاں تک کہا کہ یہ افریقی سیکس کے معاملے میں سب ایک دوسرے کے ساتھ ملوث ہوتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ عائشہ نے خود ہی مجرم کو شہہ دی ہو۔

آخرکار وہی ہوا ، جس کا ہمیں خدشہ تھا۔ پولیس نے کئی ہفتوں تک کیس کو طول دینے کے بعد یہ کہہ کر داخل دفتر کر دیا کہ مجرم کا سراغ نہ لگایا جا سکا تھا۔

دوسری طرف عائشہ نے اوتا کو بتایا کہ وہ حمل سے ہے اور کسی قیمت پر وضع حمل کے لئے تیار نہیں۔ اس نے کہا کہ اس چیز سے اس کا مذہب اس کو روکتا ہے۔ یوں بھی ہونے والے بچے کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں۔

ہمیں اس بارے میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا۔ البتہ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ عائشہ کی مشکلات میں اضافہ ہونے والا تھا۔ وہ دو چار ماہ تک مزید کام کر سکے گی۔ اس کے بعد اس کا سارا وقت دوسری بے نکاحی ماؤں کی طرح اپنے نوزائدہ بچے کی پرورش و پرداخت پر لگے گا۔ ہماری نظر میں عائشہ یوں بھی بیوقوفوں کی جنت میں رہتی تھی۔ اس کے ہونے والے بچے کے باپ نے اس سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار نہ کیا تھا۔ اس کے باوجود عائشہ آس لگائے بیٹھی تھی۔

ہمارے آرمینیا کے سفر پر جانے سے چنداں پہلے عائشہ کا بیٹا پیدا ہوا تھا ، جسکا نام اس نے ہاشم رکھا تھا۔ اوتا نے اسکے بیٹے کیلئے بہت سے تحفے خریدے اور پہننے کیلئے کپڑے بنا کر دیئے تھے۔ عائشہ خوش تو بہت تھی ، مگر یہ بات اس کو ذرا نہ بھاتی تھی کہ اس کا بیٹا باپ کے بغیر پیدا ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ اگر وہ محبت کی پیداوار ہوتا ، تو بات دوسری تھی ا ور قابل درگزر ہوتی۔ البتہ اسے پتہ تھا کہ عربوں میں زمانہ قدیم سے یہ خیال چلا آتا ہے کہ زنا بالجبر کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد بہت جیدار ہوتی ہے۔

اوتا کی نظروں میں عائشہ بیک وقت بہت بہادر اور نہایت بیوقوف عورت تھی۔ بہادر اس لئے کہ وہ اپنی اولاد کی خاطر ہر قربانی کرنے کے لئے تیار تھی۔ اور بیوقوف اس لئے کہ اس کے خیالات ذرہ بھر قابل عمل نہ تھے۔ بچے کے بغیر اس کی مشکلات اتنی بے تحاشا تھیں کہ ختم ہوتی نظر نہ آتی تھیں۔ بچے کی موجودگی میں ان میں مزید اضافہ ہونے کی توقع تھی۔ ہم نے اسے کہہ رکھا تھا کہ اگراسے کسی قسم کی مدد درکار ہو، تو بلا تردد ہمیں بتائے۔ اوتا کو افسوس ہو رہا تھا کہ ہم آرمینیا سے ، جہاں پر ہمیں ابھی مزید ایک ہفتہ رکنا تھا، عائشہ کے لئے کچھ نہ کر سکتے تھے۔ ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اسے کس قسم کی ایمرجنسی در پیش تھی۔

خدا خدا کر کے سفر کا آخری ہفتہ اختتام کو پہنچا اور ہماری واپسی کا دن آیا۔ اوتا نے وہ سات دن جیسے دھکتے ہوئے کوئلوں پر گزارے تھے۔ ہوائی جہاز میں چار ہفتوں کے بعد ہمیں جرمن اخبارات پڑھنے کو ملے۔گرمیوں میں جرمنی کی آدھی آبادی غیرملکوں کی سیر و سیاحت پر نکلی ہوئی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ پارلما ن بھی گرما کی تعطیلات مناتی ہے اور دو ماہ کیلئے اپنی کاروائی روک دیتی ہے۔ حکومت کے چھوٹے بڑے سب کارندے ملک سے غیر حاضر ہوتے ہیں اور ہر قسم کی سیاسی سرگرمیاں قریب قریب معطل ہو جاتی ہیں۔جرمنی میں ان دنوں کو "ترش کھیروں کے موسم "کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کیونکہ خبروں کا اتنا مندا ہوتا ہے کہ جو بات عام حالات میں اخباروں میں جگہ نہیں پاتی، وہ بھی اس موسم میں پہلے صفحے پر جلی حروف میں چھپ جاتی ہے۔ اکثر اخباروں میں جرمنوں اور غیر ملکیوں کے باہمی تعلقات پر تبصرے چھپے ہوئے تھے۔ آخر کسی طریق سے صحافیوں کو اپنے کالموں کے پیٹ تو بھرنے تھے۔

ہماری واپسی شام کے وقت سورج غروب ہونے کے بعد ہوئی ، اس لئے کسی سرکاری دفتر سے رابطہ نہ کیا جا سکتا تھا اور عائشہ کے فون نمبر پر وہی ریکارڈ چل رہا تھا کہ اس نمبر کے تحت کوئی کنکشن نہیں ہے۔ اوتا نے کہا کہ ہمیں اگلے روز خود وہاں پر جا کر پتہ کرنا چاہیئے کہ عائشہ کدھر غائب ہو گئی تھی اور اس کی رہائش گاہ کا فون کیوں کٹ گیا تھا۔ اس وقت تک ہمارے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ کیسی خبر ہماری راہ تک رہی ہے۔

اگلی صبح ہم وہاں پر پہنچے ، تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ عائشہ کے مکان کی طرف جانے والا راستہ بند تھا۔ ہم نے کار کو ایک قریبی سڑک پر چھوڑا اور پیدل چل کر مکان والی گلی میں داخل ہوئے۔ عائشہ کی رہائش گاہ جل کر راکھ ہو چکی تھی۔ عمارت کا صرف ڈھانچہ باقی تھا۔ جسکے سامنے پولیس کی کار راستہ روکے ہوئے کھڑی تھی۔ ہمارے پوچھنے پر ایک سپاہی نے بتایا کہ دس روز قبل وہ مکان آگ لگنے کے سبب جل گیا تھا۔ انسانی نقصان کے بارے میں اس نے کہا کہ کچھ لوگ مارے گئے تھے اور کچھ زخمی ہوئے تھے۔ مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ہمیں پولیس کے ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کرنا ہو گا۔

وہاں پر جا کر پتہ چلا کہ عائشہ ہسپتال میں داخل تھی ، کیونکہ اس نے آگ لگنے پر اپنے پہلی منزل پر واقع کمرے کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر جان بچائی تھی۔ اس کوشش میں اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ اس نے بازوؤں میں اپنا نوزائدہ بیٹا اٹھایا ہوا تھا، جسے حیرت انگیز طور پر کوئی مہلک زخم نہ آیا تھا اور وہ خیر و عافیت سے تھا۔ البتہ عائشہ کی حالت ابتدائی دنوں میں بہت مخدوش رہی تھی۔

ہم فوراً ہسپتال میں پہنچے۔ عائشہ کی حالت سنبھل گئی تھی۔ اس کی ٹانگوں کا آپریشن کامیاب رہا تھا اور وہ سہارے سے تھوڑا بہت چلنے لگی تھی۔ اسے ہماری آمد سے بہت خوشی ہوئی۔ اس نے حادثہ سے تیسرے روز ہمارے گھر پر فون کیا تھا ، مگر اسے خیال نہ آیا تھاکہ اسے ہسپتال کا فون نمبر پیچھے چھوڑنا چاہیئے تھا۔ وہ بہت خوش تھی کہ اس کا بیٹا ہاشم معجزانہ طور پر بچ گیا تھا۔

اس نے بتایا کہ جب اس رات آگ لگنے پر دھوئیں کے سبب اس کی آنکھ کھلی اور وہ اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر سیڑھیوں کی طرف بھاگنے کے خیال سے کوریڈور میں نکلی ، تو وہاں پر دھواں اس قدر کثیف تھا کہ اسے کچھ نظر نہ آتا تھا اور سانس لینی مشکل تھی۔ اس لئے وہ واپس اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ بند کر دیا۔

” میری آنکھوں کے سامنے موت کا بھوت ناچ رہا تھا”۔ عائشہ نے عربی اور جرمن کی کھچڑی میں اور ہاتھوں کے اشاروں سے بتایا:” میں نے جلدی سے ہاشم کو اٹھایا اور اس کو اپنے بازوؤں میں بھینچ کر کھڑکی میں سے چھلانگ لگا دی "۔

نرس نے ، جو وہاں پر ڈیوٹی دے رہی تھی ، بتایا کہ عائشہ خوش قسمتی سے روٹوڈنڈرون کی جھاڑی کے اوپر گری تھی ، جس کی شاخوں نے اس کو سنبھال لیا تھا۔ وگرنہ وہ خود اپنے بوجھ تلے پس کر مر جاتی۔ بچے کو اس نے کمال ہوشیاری سے اس طرح اٹھا رکھا تھا کہ وہ زمین پر گرنے کی بجائے اس کے جسم سے چمٹا رہا اور زخمی ہونے سے بچ گیا۔

اس حادثے میں دس افراد زخمی ہوئے تھے اور چار جل کر مر گئے تھے۔ مرنے والوں میں گھانا کا وہ نوجوان بھی شامل تھا ، جس نے عائشہ کے بیان کے مطابق اس پر مجرمانہ حملہ کیا تھا۔ لبنانی خاندان کا ایک لڑکا مارا گیا تھا ، جبکہ فلسطینی فیملی کے سب افراد بچ گئے تھے۔ ان میں سے کوئی زخمی بھی نہ ہوا تھا۔ اس فیملی کے ایک نوجوان امین کی آنکھ بروقت کھل گئی تھی اور اس نے سب کو بیدار کیا تھا اور ان کو آگ سے بچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس نے مکان کے دوسرے باسیوں کو بھی بچانے میں دلیری سے کام لیا تھا۔ پولیس نے اپنی پہلی رپورٹ میں اس کا ذکر خاص طور پر تعریفی رنگ میں کیا تھا۔ مگر دوسرے روز ریڈ کراس کے ایک ورکر نے بیان دیا کہ زخمیوں کو ہسپتال لے جاتے ہوئے امین نے کہا تھا کہ آگ انہوں نے لگائی تھی۔

جب امین سے اس بارے میں پوچھا گیا ، تو اسنے بتایا کہ اسنے خود آگ لگانے کی بات نہیں کی تھی۔ صرف یہ کہا تھا کہ آگ "انہوں” نے لگائی تھی۔ اس کی مراد فاشسٹوں سے تھی، جو نئے نازیوں کے روپ میں جرمنی میں پھر سے سر اٹھا رہے ہیں۔ مگر سرکاری وکیل اس بارے میں کچھ سننے کیلئے تیار نہ تھا۔ اس نے امین کو مجرم قرار دیتے ہوئے مجسٹریٹ سے اس کا ریمانڈ حاصل کر لیا اور مزید تفتیش کی کاروائی کو روک دیا

***

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے