کتابوں کی باتیں

کتابوں کی باتیں

نام کتاب:    ماوراۓ سخن (شاعری)

شاعر:          مہتاب حیدر نقوی

تبصرہ: اعجاز عبید

ناشر:  خود مصنّف

ملنے کے پتے : ۱۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، شمشاد مارکیٹ، علی گڑھ

۲۔ مکتبہ جامعہ، علی گڑھ، دہلی

مکتبہ شعر و حکمت، سوماجی گوڑہ حیدرآباد ۵۰۰۰۸۲

قیمت:      ڈیڑھ سو روپئے

پیشِ نظر کتاب مہدی حیدر زیدی کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے۔ اس سے پیشتر ان کا مجموعہ ’شبِ آہنگ‘ کے نام سے 1988ء میں چھپ چکا ہے۔

کتاب کے شروع میں”حرفِ آغاز” کے تحت شاعر نے اپنی مختصر تحریر دی ہے جس کا یہ جملہ ان کی شاعری کی ’پالیسی‘ کا صحیح آئینہ دار ہے :

"مجھے تو اپنے دکھوں میں مگن رہنے کی عادت ہے جس کا اظہار تخلیقی سطح پر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔” اس تحریرکے بعد قاضی جمال حسین کا پیشِ لفظ ہے "پرِ عنقا پہ رنگِ رفتہ سے کھینچی ہیں تصویریں” کے عنوان سے۔ اس میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ مہتاب حیدر نے کلاسیکی پیرایۂ اظہار اپنا کر بھی اس میں جدّت پیدا کی ہے۔ اور اس کا مجموعی تاثّر ایک خوابناک فضا کی تعمیر کرتا ہے۔ کچھ اشعار کا نمونہ تو بعد میں پیش کروں گا، پہلے ان کے پیراۓ کے بارے میں دو باتیں۔

مہتاب کا لہجہ اور لفظیات پر کلاسیکیت کا گیرا اثر ہے لیکن اس کے باوجود وہ معانی کی نئ جہتیں دریافت کرنے میں کامیاب ہوۓ ہیں۔  ان کا ہی شعر ہے :

پرانی آستین سے پرانے بُت کرو رہا

نئ زمین پر نۓ خدا کو معتبر کرو

یہ ایک شعر دیکھۓ، الفاظ پچھلی صدی کے سہی، لیکن معانی پکار کر کہتے ہیں کہ میرا خالق اکیسویں صدی کا ہے

سفرِ شوق میں ہر چند کہ دشواری ہے

چادرِ صبر مگر دھوپ کی شدّت کے قریب

جس کو کہتے ہیں وفا، اہلِ وفا جانتے ہیں

پیاس رہتی ہے لبِ لعلِ شہادت کے قریب

رشتۂ عشق و ہوس اہلِ نظر سے پوچھو

ایک انکار رہا کرتا ہے بیعت کے قریب

نقوی نے متنوع مشکل اور اچھوتی زمینوں کا انتخاب کیا ہے ، لیکن اس میں ناسخ کی طرح محظ لفظی پہلوانی نہیں دکھائ ہے،  ان کی کوشش یہی رہی ہے کہ انھوں نے اندازِ کہنہ میں بھی نۓ مضامین باندھے ہیں، اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ ذرا ان کی کچھ ردیفیں دیکھۓ، میں پورے اشعار نہیں لکھ رہا۔ قافیے اور ردیف کے درمیان میں نے نقطے دئے ہیں۔

اُسی درد آشنا دل کی۔۔۔۔  طرفداری۔۔۔۔   میں رہتے ہیں

کسی کے خواب سے باقی نہ۔۔ بیداری۔۔ سے قائم ہے

ہم جو خاموش رہیں گے تو۔۔۔ہوا۔۔۔ بولے گی

ہونے والا ہے یہاں اب کے ۔۔۔۔۔ تماشا۔۔ کچھ اور

اپنے خدا پہ میں نثار، اس کے۔۔۔ جلال۔۔۔ میں ہوں گُم

مجھ پہ دروازۂ مہتاب۔۔ کھلا ۔۔پہلی بار

آخر میں کچھ مکمل اشعار:

کسی کے نغمۂ آشفتگی سے شور انگیز

یہی خرابہ جو پہلے کبھی تھا خانۂ دل

دل ہی نہیں یہ دیدۂ تر بھی اُٹھاتے ہیں

کس بوجھ کو یہ تارِ نظر بھی اُٹھاتے ہیں

ایسا نہیں کہ ہم یوں ہی مصروفِ خواب ہیں

پلکوں پہ بارِ شام و سحر بھی اُٹھاتے ہیں

 سارے منظر ہیں جمالِ یار کی تحویل میں

اس کی آنکھوں سے کوئ منظر چرا کر لے چلوں

کتاب پروفیسر پرویز احمد کے سرورق کے ساتھ خوبسورت چھپی ہے۔

نام کتاب: شام بھی تھی دھواں دھواں

مصنّف/مترجم: رفیق انجم

ناشر: گلستاں پبلی کیشنز، 16، زکریا سٹریٹ، کولکاتا 700073

تبصرہ: اعجاز عبید

ڈرامہ اپنی ذات میں دو پہلو رکھتا ہے ، ایک ادب کی صنف کے طور پر اور دوسرے تھئیٹر کے ذریعے عوامی پیش کش کی شکل میں۔ اور یہ دونوں پہلو بڑی حد تک ایک دوسرے سے جڑے ہوۓ ہیں۔  اور جہاں تک سوال کسی مخصوص زبان کے ڈرامے کا ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئ عار نہیں کہ اگر کسی زبان میں اسٹیج کی اچھّی روایت رہی ہے تو اس زبان میں بطور صنفِ ادب بھی ڈرامہ کافی اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ ہندوستان کے تناظر میں ہی دیکھا جاۓ تو یہ صورتِ حال صرف بنگالی اور مراٹھی ڈراموں کے ساتھ ہے کہ مغربی بنگال اور مہاراشٹر دونوں ریاستوں میں عوامی تھئیٹر کی روایت شاندار رہی ہے ، عوام اور حکومتوں سے اس کے فروغ میں زیادہ تعاون بھی ملتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان دونوں صوبوں کی زبانوں میں بھی اسے بطور صنفِ ادب کے اہمیت حاصل ہے۔ اردو کا معاملہ کچھ مختلف ہے ، ایک تو یہ کہ عوام کی حد تک اس کی زبان ہندی سے زیادہ مختلف نہیں ہے ،  (آگرہ بازار جیسے ڈرامے کو بھی ہندی ڈرامہ کہہ کر پیش کیا جا چکا ہے ) اور نہ اردو کا اپنا کوئ صوبہ ہے۔ آٖغا حشر سے اردو تھئیٹر کی روایت ضرور شروع ہوئ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب ہندی کا چلن بھی نہیں کے برابر تھا۔ آزادی کے بعد جب ہندی کو قومی زبان کے روپ میں حکومتِ ہند نے قبول کیا تو "ہندوستانی” ڈرامے نے ہندی ڈرامے کا روپ اختیار کر لیا۔  اردو میں جو ڈرامے لکھے بھی گۓ، وہ کچھ محض کاغذی زینت بنے رہے ، کچھ ریڈٖیائ ڈراموں کی شکل میں ریڈیو سے نشر ہوۓ اور بہت کم سٹیج پر پیش کۓ گۓ۔  کم از کم ہندوستان میں (پاکستان میں ڈرامے کے ارتقاء سے میں کماحقّہٗ واقف نہیں  اس لۓاس سلسلے میں خاموش رہنے میں ہی میری خلاصی ہے ) بنگلہ اور مراٹھی ڈراموں نے تھئیٹر اور ادب دونوں جگہ اپنی اہمیت منوا رکھی ہے۔ اس مقبولیت کی وجہ سے بھی اردو میں ان دونوں زبانوں کے ڈرامے بھی اکثر ترجمہ کۓ گۓ ہیں۔

پیشِ نظر کتاب بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے جس میں کولکاتا کے ایک تھئیٹر گروپ ’چُپ کتھا‘ کے پیش کردہ دو ڈراموں کا اردو میں ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ مترجم رفیق انجم نے خود اپنے پیش لفظ (جس کا انھوں نے ’ ایسا لگتا ہے کہیں تہہ میں سمندر ہے یہاں‘ کا نام دیا ہے ) میں اعتراف کیا ہے کہ ’چپ کتھا اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ گروپ بیک وقت بنگلہ اور ہندیدونوں زبانوں میں ڈرامے پیش کرتا ہے۔ اب تک اس گروپ کے لۓ میں نے چھہ ڈرامے ترجمہ کۓ ہیں، یہ سبھی ڈرامے سٹیج  ہو چکے ہیں۔‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پیشکش کے طور پر ان کو بھی ہندی ڈراموں کا نام دیا گیا تھا لیکن کیوں کہ یہ کتاب اب اردو میں چھپی ہے ، اس لۓ اب انھیں اردو ڈراموں کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

’چپ کتھا‘ کے پیش کردہ اور رفیق انجم کے ترجمہ شدہ ڈراموں میں سے دو ڈرامے اس کتاب میں شامل کۓ گۓ ہیں۔ پہلا ڈرامہ الیکسی آربوژوف کے روسی ڈرامے (جس کے انگریزی ترجمے کا نام Old Times دیا گیا ہے ) کا ترجمہ ہے جو در اصل موہت چٹوپادھیاۓ کے بنگلہ ترجمے ’تکھن بِکیل‘ کی اردو شکل ہے۔ اردو میں اسے ’شام بھی تھی دھواں دھواں۔۔‘ کا عنوان دیا گیا ہے جو کتاب کا نام بھی ہے۔

دوسرا ڈرامہ ’جنم دن‘ ول گبسن کے  انگریزی ڈرامے  The Miracle Worker کا ترجمہ ہے اور یہ بھی براہ بنگلہ موہت چٹوپادھیاۓ کے ہی اسی نام کے ترجمے سے کیا گیا ہے۔ یہ ڈرامہ مشہور نا بینا خاتون ہیلن کیلر کی زندگی کے ایک پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔

یہ دونوں تراجم رفیق انجم نے بنگلہ کے توسّط سے کۓ ہیں اس لۓ میں سمجھتا ہوں کہ ان کو ہندوستانی ماحول اور محاورے میں ڈھالنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئ  ہو گی۔ بنگلہ ڈرامے کا ماحول اور محاورہ اردو ہندی سے زیادہ مختلف نہیں لیکن انگریزی ڈرامے میں بھی کرداروں کے انگریزی ناموں کے علاوہ زبان میں زیادہ اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ اور اس کے لۓ رفیق انجم ہی نہیں، موہت چٹوپادھیاۓ بھی تعریف کے مستحق ہیں۔

ڈرامہ اگرچہ پڑھنے کی چیز نہیں ہے لیکن اس کتاب کا مطالعہ بھی کیا جاۓ تو ترجمے سے یہ کم ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ ہے۔ ’شام بھی تھی دھواں دھواں‘ میں اگرچہ اجنبیت کے در آنے کے زیادہ مواقع تھے لیکن اسے پڑھ کر اوریجنیلٹی کا احساس ہی ہوتا ہے جو ترجمے کی بڑی کامیابی ہے۔

اور جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ ڈرامے کی اصل کامیابی  عوامی پیشکش ہوتی ہے ، اور یہ دونوں ڈرامے کامیابی سے تھئیٹر میں پیش کۓ جا چکے ہیں جن سے ان ترجموں کی قوّت کا پتہ چلتا ہے۔ اندرونی فلیپ پر ڈرامے سے جڑے ظہیر انور کا بیان ہے ، ’میں نے ان ڈراموں کا بڑا تاثّر سٹیج پر دیکھا ہے ‘، اور صدیق عالم رقم طراز ہیں،’میں سٹیج پر اس (شام بھی تھی۔۔) ڈرامے کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا تھا‘۔ ان مقولات کی اس لۓ ضرورت پڑی کہ یہ ڈرامے میں نے دیکھے نہیں، صرف پڑھے ہیں۔ اس کامیابی کے لۓ رفیق انجم مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان سے یہ امید رکھنا بعید از کار نہیں ہو گا کہ وہ اردو میں اوریجنل ڈرامہ تصنیف کریں اور سٹیج پر پیش کریں۔

کتاب گلستاں پبلی کیشنز نے بہت خوبصورتی سے چھاپی ہے۔ قیمت ہے دو سو روپئے۔

نام کتاب                             رازِ حیات

شاعر                      خضر ناگپوری

ناشر                       شاید خود مصنّف

صفحات                   210

قیمت                                100 روپۓ

مبصّر                      اعجاز عبید

اردو شاعری بطور خاص ہند و پاک میں مختلف سمتوں میں سفر کرتی ہے۔ اس کی ایک سمت ان شعراء کی ہے جو بزعم خود کو تلمیذ الرحمٰن کہتے ہیں اور محض رسائل اور اپنے مجموعوں میں چھپتے ہیں۔ ایک سمت ان شعراء کی ہے جن کا کلاسیکی ادب کا مطالعہ نہ صرف گہرا ہے بلکہ عروض پر بھی گہری نظر ہے۔ ان کا شمار استاد شعراء میں ہوتا ہے۔ لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسے بیشتر شعراء مقامی مشاعروں کی حد سے آگے نہیں بڑھتے۔ کسی فن کار کے اطمینانِ قلب کے لۓ اس کی صلاحیتوں کا اعتراف ضروری ہوتا ہے۔ اور یہ حضرات محض اپنے شاگردوں کے احترام اور تعظیم سے مکمل مطمئن ہو بیٹھتے ہیں۔ اردو کے ہر شہر میں ایسے اساتذہ کا وجود اب تک تو قائم ہے لیکن یہ اگلے وقتوں کے لوگ ہیں، ان کے بعد یہ خلا کبھی پر نہیں ہو سکے گا۔

خضر ناگپوری ایسے ہی قادر الکلام شاعروں میں سے ہیں جن کی شہرت ناگپور یا مہاراشٹر سے آگے نہیں جا سکی ہے۔ ان کی خاطر خواہ پذیرائ نہیں ہوئ اس پر انھوں نے مختلف مقامات پر مناسب طنز سے کام لیا ہے ، انتساب میں ہی رقم طراز ہیں:  ’”رازِ حیات” کو میں اپنے ان تمام کرم فرماؤں کے نام منسوب کرتا ہوں جنھوں نے میری ادبی زندگی میں روڑے اٹکانے کی ہر ممکن کوشش کی اور اپنی کوششوں میں ایک حد تک کامیاب بھی ہوۓ‘۔

شاعر محترم کا تعلق ناطق گلاٹھوی سے ہے یعنی خضر صاحب کے استاد مرزا ظفر حسین ظفر ناگپوری ناطق کے شاگرد تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ناطق کا رنگ خضر میں زیادہ نظر آتا ہے۔ شروع کے صفحات میں اپنی تصویر سے اوپر ان دونوں بزرگوں کی تصاویر دی گئ ہیں۔  اور تبرّکاتِ عالیہ کے تحت ان دونوں  کی دو دو غزلیں بھی شامل کی گئ ہیں۔ دیباچہ ناگپور کے ایک اور بزرگ استاد شاعر جبار سحر ناگپوری نے لکھا ہے۔ ساتھ ہی خضر ناگپوری نے اپنے  تین نثری مضامین بھی شاید یہ سوچ کر شائع کر دۓ ہیں کہ پھر صبح ہو نہ ہو۔ یہ مضامین ہیں ’ماہئے کی بحروں کا تعیّن‘۔ غالب کی ایک متنازعہ رباعی کا تجزیہ‘ اور ’غالب کے نام سے منسوب ناموزوں رباعی‘۔ ان میں خضر نے یہ ثابت کیا ہے غالب کی ناموزوں رباعی "دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب” کی شکل میں معروف ہے جب کہ درست میں صرف ایک بار ’رک‘ ہونا چاہۓ۔ اور فاضل مصنف کا خیال ہے کہ ’رک رک‘ سے رباعی مہمل ہو جاتی ہے جو نظم طباطبائ کی راۓ سے قطعی مختلف راۓ ہے۔

اب آئیں اصل کتاب یعنی خضر ناگپوری کے کلام کی طرف۔ قدیم دواوین کی طرز پر اسے ردیف وار ترتیب دیا گیا ہے۔  غزلیات کے بعد منظومات، تضمینیں، رباعیات اور قطعات کے بعد  متفرق اشعار، چند سہروں کے چیدہ اشعار اور ایک گیت شامل ہے۔

نمونے کے اشعار وہی دینا بہتر ہے جن سے رنگِ خضر اور اس میں رنگِ ناطق بلکہ رنگِ داغ جھلکتا ہے :

محبت میں بن آتی ہے کبھی دل پر کبھی جاں پر

کبھی ہے یہ خسارے میں، کبھی ہے وہ خسارے میں

اچھا چل اب تو رہے یا میں رہوں

آج کے دن سر نہیں یا شر نہیں

لے دے کے ایک دردِ محبّت تھا میرے پاس

اس کو بھی کہہ رہے ہو کہیں بھول آئیے !!

دل کی باتوں میں ہم آۓ تو گئی عشق کی جان

ہم کو مروا دیا ظالم نے بڑھاوا دے کر

دل کو کسی حسین جگہ کی تلاش ہے

دیکھوں تو نا مراد بناتا ہے گھر کہاں

شاید وہ سیرِ باغ کو آۓ تھے صبح دم

اتری ہوئ سی آج ہے صورت گلاب کی

آخر میں زمینِ غالب میں یہ بے پناہ اشعار دیکھیں:

مٹ گۓ شکوے ، دل آئینہ ہوا اے دوست

پیشِ نظر اب کوئ غبار نہیں ہے

ٹھہرو ابھی دل کی بات وہ نہ سنیں گے

بیٹھو ابھی وقت سازگار نہیں ہے

رنگِ چمن خضر ہے چمنِ عریانی

آنکھ پہ اب پردۂ بہار نہیں ہے

 

کتاب (شعری مجموعہ) تنکا تنکا آشیاں

شاعر                مختار احمد کوثر

ناشر                 ادارۂ نیا سفر۔ ٦۶۸۔ مرزا غالب روڈ۔  الہ آباد

قیمت              سو روپیے

تبصرہ               اعجاز عبید

شاعر کا یہ پہلا مجموعہ کلام ہے لیکن یہ کسی نو مشق شاعر کی کتاب نہیں اگرچہ ایک گم نام شاعر کی ہے۔ مختار احمد کوثر اپنی گوناں گوں مصروفیات کے دوران بھی شعر و سخن کے پودے کی آبیاری خاموشی سے کرتے رہے۔ اگرچہ مقامی طور پر ان کی خاطر خواہ پذیرائ ضرور ہوئی لیکن اتنی نہیں جتنی کے وہ مستحق ہیں۔ ان کی شاعری اصل انسانی جذبات کی شاعری ہے۔ ایک ایسے درد انسان کی جس کے لاتعداد خواب ہوں، اگرچہ ادھورے رہ گۓ ہوں۔ بختیار مشرقی نے اپنے تبصرے میں (اسی کتاب میں شامل) بجا لکھا ہے کہ شاعرِ موصوف تیغؔ الہ آبادی کے قتیل ہیں اور انھیں کا لب و لہجہ اکثر اپنایا ہے۔ وہی تیغ کی کاٹ ان کے کلام کا بھی خاصّہ ہے۔ لگی لپٹی کے بغیر جو انھوں نے محسوس کیا ہے ، بے لگام کہہ دیا ہے۔

وطن کو تقسیم کرنے والوں کی تم نے فہرست تو بنا ئ

کہیں تمھارا بھی نام آیا، کہیں تمھارا بھی نام آۓ

جب اندھیری رات تھی ہم نے جلایا خونِ دل

اور ہمیں اس روشنی میں اب نہ پہچانے گۓ

1954 سے 1961 تک شاعر  پیکنگ میں اردو کے استاد رہے اور وہاں کے قیام میں سوشلزم کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ ہندوستان کے بھی سوشلشزم کا خواب دیکھنے والوں سے ربط رہا لیکن وہ نرے ترقی پسند شاعر نہیں بنے۔ اگرچہ مقصدی شاعری کا ان کا مشن جاری رہا لیکن ان کے لہجے نے شعریت سے کنارہ کشی  اختیار نہیں کی اور یہ شعریت بھی انوکھے موضوعات میں۔ یہ شعر دیکھیں جو پچھلے ٹائٹل پر ہی ہے

صفر کا ہوں ہندسہ مجھے تم خود اپنی ہستی سے ضرب مت دو

کہ حاصلِ ضرب میں تمھارا وجود بھی مجھ میں ضم ملے گا

عرضِ ناشر میں علی احمد فاطمی نے اپنے تعلقِ خاطر کی بات کی ہے کہ شاعر فاطمی کے خسر اور چچیرے بھائ بھی ہیں۔ بختیار مشرقی کے تبصرے کے علاوہ  ’کچھ اپنی بات‘ کے تحت کوثر نے اپنا بیان دیا ہے اور اپنی زندگی اور شاعری کے محرّکات کا ذکر کیا ہے۔ کتاب میں دعا، نعتیں، سلام اور منقبت کے بعد 132 غزلیات ہیں ، پھر کچھ قطعات اور رباعیات اور آخر میں ’پتہ پتہ بوٹا بوٹا‘‘ کے تحت متفرّق اشعار۔

کچھ نمونے کے اشعار آپ بھی سن لیں:

جل رہا ہے نفرتوں کی آگ میں سارا چمن

اپنے ہاتھوں میں چمن کا انتظام آیا تو کیا

عین ممکن ہے یہ کوثرؔ انقلابی دور میں

کل کا آقا آج کا بن کر غلام آیا تو کیا

نہ جانے کتنے ستاروں کا خون ہوتا ہے

پھر اس کے بعد کوئ آفتاب ابھرتا ہے

کوثرؔ کسی کے وعدے کا کیا اعتبار ہے

یہ شمعِ انتظار جلے احتیاط سے

گنبد کے مکینوں کو چٹّانوں سے کیا لینا

شاہین کی فطرت تو مت ڈھونڈھ کبوتر میں

عاکف شیراز کے سرورق کے ساتھ کتاب خوبصورت چھپی ہے۔ امید ہے کہ ادبی دنیا میں مختار احمد کوثرؔ کی اس کتاب کی  اچھی پذیرائ ہو گی۔

نام کتاب          عکسِ روشن

مصنف             اسحٰق انور

ناشر                 اخبار اڑیسہ پبلی کیشنز، دیون بازار، کٹک 753001، اڑیسہ

مبصّر                 اعجاز عبید

اڑیسہ ریاست اگر چہ اردو کے حساب سے گوشۂ گم نامی میں پڑی ہے۔ لیکن اردو والے چاہے کتنی ہی کم تعداد میں ہوں، ان میں ضرور کچھ لوگوں میں ادبی ذوق پایا جاتا ہے۔  اردو میں  نعت گوئ کی روایت بھی برسوں پرانی ہے اور اسی روایت کا ثبوت زیر نظر مجموعہ ہے۔ اسحٰق انور نے اگرچہ شاعری کافی عمر گزرنے کے بعد شروع کی ہے لیکن اس مجموعے سے کافی کہنہ مشقی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شاعر نے کلاسیکی ادب کا غائر مطالعہ کیا ہے۔ اور بطور خاص نعت گوئ سے ان کا شغف نہ صرف ان کے حبِّ رسول کی روشن مثال ہے بلکہ اس کتاب میں شامل مضامین سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اردو ادب میں قوالی گائیکی کے راستے سے وارد ہوۓ ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مشہور نعتوں کو اپنی نوا دیتے دیتے انھیں خیال آیا کہ وہ اپنے ہی الفاظ کو بھی نوا دے سکتے ہیں۔ کلام کی پاکیزگی کا ثبوت ان کے وہ اشعار بخوبی دیتے ہیں جو کتاب کے شروع میں دۓ گۓ ہیں:

لگا رکھا ہے میں نے ان کی یادوں کا شجر دل میں

سکوں کی چھاؤں میں محفوظ میرے گھر کا آنگن ہے

چمکتا ہے اجالوں سے نواح جاں کا ہر گوشہ

کہ میرے دل کے شیشے میں انہیں کا عکسِ روشن ہے

مجموعے کا پیش لفظ علامہ عبد المجید فیضی سمبل پوری کا تحریر کردہ ہے اور ایک اور مضمون اسحٰق انور کے استاد سعید رحمانی نے لکھا ہے۔ ایک تحریر ’میں اور میری شاعری‘ خود شاعر کا بیان ہے۔ مجموعے میں 61 نعتیں ہیں اور ہر نعت کا عنوان اسی کے کسی مصرعے سے دیا گیا ہے جس کی اگر چہ ضرورت نہیں تھی کہ یہ محض اردو اخباروں میں چھپنے والی غزلوں کا اندازِ پیشکش ہے۔ ایک بات اور ان کی نعتوں کو نمایاں بناتی ہے وہ ہے کچھ نعتوں میں ردیف میں ایک ہی لفظ کا دہرایا جانا۔ جیسے ’دھیرے دھیرے ‘ ’پاکیزہ پاکیزہ‘  ردیف والی نعتیں، یا وہ نعت جس کے قوافی ہیں نورانی نورانی، پریشانی پریشانی۔ ایسا لگتا ہے کہ شاعر نے قوّالی میں بہتر طور پر پیشکش کی وجہ سے اس قسم کے الفاظ کو ردیف و قوافی بنانے کی کوشش کی ہے۔

نمونے کے لۓ کچھ اشعار پیش ہیں:

جس نور سے روشن ہے کونین کا ہر گوشہ

اس نور کی ہر دم ہے برسات مدینے میں

کر کے وضو ہم اشکوں سے پڑھتے ہوۓ درود

اللہ کے حبیب کی مدحت کریں گے ہم

دنیا کا ہے سب سے اول گھر یہ کعبۂ اقدس سچ ہے مگر

کعبے کی عمدہ انگوٹھی کا طیبہ میں نگینہ دیکھیں گے

اجل تو ملنا ہمیں آ کے اب مدینے میں

قسم خدا کی ترا انتظار دیکھیں گے

آخری شعر میں انتظار دیکھنا کے غیر فصیح محاورے کے باوجود شعر جذبہ و فکر کے لحاظ سے عمدہ ہے۔

مصنف نے اپنے قلم سے کتابت کی کئ غلطیوں کی تصحیح کی ہے ، بلکہ اصلاح بھی کہ کئ الفاظ بدل دۓ ہیں۔ اس کے باوجود زبان و بیان اور عروض کی کچھ غلطیاں باقی رہ گئ ہیں۔

کافر تھا بو جہل کہ وہ کافر ہی رہ گیا

کنکر نے پھر بھی پڑھ لیا کلمہ رسول کا

میں بو جہل اور کلمہ  کے تلفظ صحیح نہیں ہیں۔

اسی طرح اس مصرعے میں تعالیٰ کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے :

بفضلِ تعالیٰ نبی کا مزار دیکھیں گے

’کوئ میرے سرکار سا ذیشان نہیں ہے ‘ والی نعت میں یہ دو مصرعے مختلف بحر میں ہیں:

فرمانِ مصطفیٰ پہ عمل جو نہیں کرتا

اور

دوزخ میں اس کے جلنے کا امکان نہیں ہے

ان اسقام کے باوجود شاعر کے جذبات قابلِ تعریف ہیں اور یہ حب رسول ہر شعر میں نمایاں ہے۔ یہ کتاب بطور خاص میلاد کی مجلسوں کے لۓ بہترین تحفہ ہے۔

104 صفحات کی اس کتاب کی قیمت چالیس روپۓ بہت مناسب بلکہ کم ہے۔

٭٭٭

کاپی لیفٹ، حوالے کے ساتھ نقل کی مکمل اجازت ہے

ای بک: اعجاز عبید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے