’’یہ سجیلی مورتی ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ ۔۔۔ حنیف سرمد

 

’’یہ سجیلی مورتی ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ

 

                   حنیف سرمد

 

عمدہ اور معیاری تخلیق رفعتِ خیال اور جمالیاتی حُسن و رعنائی کا آئینہ ہوتی ہے۔ اِس کے متن (Text) کی بُنت کاری میں ایک ایسی منظم پیچیدگی اور نامیاتی وحدت ہوتی ہے جسے سادگی و پُرکاری اور رومان و حقیقت کے حُسنِ امتزاج سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ رفیق سندیلوی کی نظم  ’’ یہ سجیلی مورتی ‘‘ عمدہ معیار اور دلفریب اُسلوب کی حامل ایک ایسی  ہی تخلیق ہے۔ فکری سطح پر اِس نظم کا معنیاتی کینوس بسیط و عریض ہونے کے با وصف جہاں کثیر الجہاتی تجزیاتی عمل میں جہت در جہت مفاہیم کے کشادہ تر آفاق روشن کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہاں اُسلوبیاتی و جمالیاتی سطح پر نادر تمثال کاری اور تخلیقی متن کی تعمیر و تشکیل میں شعری لفظیات کو فن کارانہ چابکدستی سے موتیوں کی مثل لڑیوں میں پَرو دینے کے فسوں کی غمازی بھی کرتا ہے۔

اِس نظم کا متن سراسرتخلیقی ہے اور معنیاتی تفہیم کے دائرہ در دائرہ پھیلتے ہوئے نظام فکر سے عبارت ہے۔ معنیاتی تفہیم کا پہلا دائرہ اساطیری جہت سے متعلق ہے۔ فن کا ر نے تخلیقِ حیات یا تخلیقِ آدم کی پُراسرار کتھا کو روحِ عصر بنا کر اپنے تخلیقی عمل میں جذب کیا ہے اور ایک اچھوتے اساطیری متن کی بُنت کاری کی ہے۔ اساطیری جہت کی رُو سے نظام کائنات میں عناصرِ اربعہ یعنی آتش، باد، آب اور خاک کے نامیاتی کُل سے مادۂ حیات کی پیدائش اور تخلیقِ آدم کی ارتقائی داستان اِس نظم کا مرکزی بیانیہ ہے جس میں قدیم اور جدید عہد کے تہذیبی، تمدنی اور فکری شعور کی امتزاجی روح دکھائی دیتی ہے۔ تخلیقِ حیات کے تاریخی فلسفے کے بین بین جدید سائنس کے نامیاتی و کیمیائی ارتقاء کے نظریہ کی ایک جھلک بھی نظم کے متن میں نظر آ رہی ہے جس کے مطابق اِس کرہ ارض پر زندگی کا ظہور مخصوص ماحول میں طویل عرصے تک جاری رہنے والی کیمیائی تبدیلیوں کی بدولت ہوا اور پھر آبی ماحول میں مادۂ حیات کی تخلیق ہوئی  (برقی گرج چمک اور الٹرا وائلٹ شعاعوں کے زیر اثر مختلف عناصر کے تعامل سے حیاتیاتی مادہ اور اس سے سادہ قسم کے پروکریوٹک جاندار اور پھر ان سے یوکریوٹک جاندار پیدا ہوئے) جس سے آبی حیات پیدا ہوئی اور پھر زندگی کا ارتقائی سفر پانی سے خشکی پر رواں دواں ہو گیا۔ اِس نظم میں ازمنۂ قدیم کے آتش پرست تہذیب و تمدن (آگ، ستاروں اور سورج کی پرستش ) اور جدید سائنسی شعور کے فکری امتزاج کی متھ کو جھلملاتی لَو کے سامنے رقص کرتی مورتی اور دو الگ طرزوں کی مٹی کے ایک برتن میں گوندھنے کی علامتوں سے نشان زد کیا گیا ہے۔ رفیق سندیلوی نے حیاتیاتی تخلیق کی ارتقائی کتھا کو نئے رنگ و آہنگ میں بیان کیا ہے جس میں شعور و آگہی کی قندیل بھی روشن ہے اور تخلیقی عمل کی مسرت وانبساط سے لبریز ہونے کی بشارت بھی  لَو دے رہی ہے۔

نظم کا دوسرا معنیاتی دائرہ ارضی و ثقافتی جڑوں سے وابستگی اور اجتماعی شعور ولا شعور کی آفاقی رَو سے عبارت ہے۔ اِس جہت کے تناظر میں نظم کا فکری ارتفاع استعجاب انگیز ہے۔ تخلیق کار نے وجدانی جست کے ذریعے قرنوں پہ محیط اجتماعی شعور ولا شعور کی رَو کو تخلیقی تجربے میں بجلی کے کوندے کی مثل جذب کر کے ایک ایسے فن پارے کے روپ میں متشکل کر ڈالا ہے جو شعورِ ذات کا استعارہ ہونے کے با وصف ماضی، حال اور مستقبل کے شعور و ادراک کے نامیاتی کل کا اعلانیہ ہے۔ ارضی و ثقافتی جڑوں سے وابستگی اور اجتماعی شعور و لاشعور کے آفاقی دائرے میں اس نظم کا بیانیہ رقص  و آہنگ کے حیاتیاتی اور کائناتی نظام میں مرکزیت کے ثبات کی دلیل ہے۔ حیات و کائنات کا ذرّہ ذرّہ جب نراج کی ارفع ترین منزل کو پاکر کائناتی رقص و آہنگ کی رَو کو چھُو لیتا ہے تو جمود، تاریکی اور سکوت پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ تحرک، صوت اور نور ہویدا ہو جاتے ہیں۔ اِس نظم میں قدیم بُت پرست مذاہب، بدھ مت اور برصغیر کے تہذیبی و تمدنی کلچر کے فکری شعور کی جھلک نمایاں ہے۔ ارضی و ثقافتی تناظر میں دیکھیں تو یہ نظم آرٹ، فنونِ لطیفہ اور رقص و آہنگ کو عمرانیاتی ارتقا کی تاریخ کے آئینے میں  بڑی  خوبصورتی کے ساتھ عیاں کرتی ہے۔

زیر تجزیہ نظم کے متن کا ایک اور فکری دائرہ جدید حیاتیات کی علمی و فکری بصیرتوں کا زائیدہ ہے۔ جدیدسائنسی شعور کا یہ دائرہ اِس ابدی فکر سے روشن ہے کہ تخلیقِ ادب اور تخلیقِ حیات دونوں کی نوعیت یکساں ہے۔ بیج زمین میں خود کو گم کر کے روئیدگی کی بشارت پاتا ہے۔ سپرم مادہ جاندار کی یوٹرس میں بیضہ (ایگ ) کی صورت مدغم ہو کر زائی گوٹ کا روپ دھارتا ہے اور پھر ایک نئے ذی روح کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے ہی ظاہر اور باطن کے ادراکی تعامل سے پیدا ہونے والے حسیاتی ارتعاش سے  فن کار بھی اپنے تخلیقی تجربے میں لمحۂ فراموشی سے ہم کنار ہوتا ہے تو فن پارہ منصہ شہود پہ آتا ہے۔ دو الگ طرزوں کی مٹی کے ایک برتن میں گوندھنے کی تمثیل دراصل حیاتیاتی تخلیق کی شاعرانہ تفسیر ہے۔ ہَوا، ویشیا کے ہونٹ اور چھُو لینے کی خواہش انسانی زندگی کے جنسیاتی پہلو کی نمائندہ علامتیں ہیں۔

نظم کے زیر متن ایک اور معنیاتی دائرہ روشن ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جس کا تعلق مابعد الطبعیات سے ہے۔ غور کیجیے تو نظم کے فکری نظام میں سب سے اہم ترین شعوری جہت پیراسائیکالوجی کا موضوع ہے۔ پیراسائیکالوجی کے مطابق انسان کے ظاہری حواس خمسہ یعنی سامعہ، باصرہ، شامہ، ناطقہ اور لامسہ کی طرح باطنی حواس خمسہ بھی ہوتے ہیں۔ ان حواس کے علاوہ حسِ مشترک، حسِ مُتخیّلہ اور متصوّرہ اور واہمہ کی حسّیات بھی ہوتی ہیں۔ صوفی، یوگی یا پیراسائیکالوجی کا کوئی طالب علم مخصوص ریاضتوں مثلاً مراقبہ، یوگ آسن، پاس انفاس، تصور اسم ذات، شمع بینی اور آئینہ بینی وغیرہ  کے ذریعے باطنی حواس کو بیدار کر کے عالمِ استغراق میں چلا جاتا ہے تواُس پر عجائبات کے دریچے روشن ہونے لگتے ہیں، فضا میں دائرے بننے لگتے ہیں اور روشنیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ ایسے افراد جو اپنے باطنی حواسِ خمسہ کو بیدار کر لیتے ہیں اُن میں ہالۂ نور اور برقی دائرے کو پڑھنے اور دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے۔ پیرا سائیکالوجی کی عملی ریاضتوں سے حاصل ہونے والے کامل استغراق  و تفکر کے دوران فرد کو نراج کی ایک ایسی منزل کی بشارت ملتی ہے جہاں جذبات واحساسات ا ور فکر و تصورات مجرد پیکروں میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ غیر مرئی اور غیر محسوس اشیاء مرئی اور طبعی روپ میں متحرک دکھائی دینے لگتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس طرح صوفی اور یوگی وغیرہ مراقبۂ ذات کی ارفع منزل کو پاکر کشفِ ذات اور روحانی سفر (Spiritual Traveling) کے ذریعے مابعد الطبعیاتی مظاہر کے سر چشمے کا نظارہ کر لیتے ہیں تو کیا فن کار بھی اپنے تخلیقی عمل میں ایسی واردات و کیفیات کا ادراک پا لیتا ہے؟ اِس سلسلہ میں کوئی حتمی اور ناقابلِ  تردید دعویٰ نہیں کیا جا سکتالیکن بعض تخلیق کاروں کے فکر و فن میں پیش بینی اور مابعد الطبیعاتی شعور و آگہی کا عنصر تخلیقی اذہان اور صوفیانہ اذہان کے مابین شعور و فکر اور کشفِ  ذات کی مشترک قدر کو نشان زد کرتے ہیں۔

رفیق سندیلوی نے پیراسائیکالوجی کے عملی مظاہر یعنی مراقبہ، حبسِ دَم، شمع بینی اور نفسِ مستاویہ وغیرہ کی ریاضتوں سے استفادہ کیا ہے یا یہ کہ وہ پیراسائیکالوجی کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں یا نہیں اور اُنھوں نے  مابعد الطبعیاتی سائنس کے نظریاتی اور اطلاقی فلسفے تک کس قدر رسائی حاصل کی ہے، اِس کے بارے میں کوئی حتمی دعویٰ تو مشکل ہے لیکن یہ ایک زندہ صداقت ہے کہ اُن کے فکر و فن میں مابعد الطبعیاتی فکر کا گہرا اثر ہے۔ تخیل کی پرواز اور وجدان کی رفعت سے وہ خاطرخواہ کام لیتے ہیں۔ بطورِ خاص اِس نظم کے ذریعے اُنھوں نے پیرا سائیکالوجی کے عملی مظاہر کی واردات و کیفیات کو شعوری یا لا شعوری طور پر اپنے تخلیقی تجربے میں سمیٹا ہے اور کمال فن کاری سے اِس طرح  بیان کیا ہے جیسے ایک یوگی اپنے آشرم میں وشواس کے ساتھ یوگ آسن کے ذریعے مستغرق ہو کر کشفِ ذات کی آشا پوری کر لینے کا آنند پاتا ہے۔ جنسی فعالیت کے تناظر میں دیکھیں تو نظم کی  مابعد  الطبعیاتی کتھا یہ ہے کہ شاعر ایک پیراسائیکالوجسٹ کی سطح پر شمع بینی یا باطنی آنکھ کے ذریعے یا ریاضتِ نفسی یعنی سانس لینے کے مخصوص عمل  کے ذریعے استغراق کی حالت میں تخلیقِ انسانی کے پُراسرار عمل پہ اپنی فکر کو مرکوز کرتا ہے تو اگلے ہی لمحے انسانی وجود کی تخلیقی کہانی جنسی احساسات و جذبات کی تمام تر جزئیات کے ساتھ مجرد پیکروں میں ڈھل کر ایک متحرک فلم کی صورت شمع کی لَو میں یا باطنی آنکھ کے پردے پہ دکھائی دینے لگتی ہے اور دو الگ طرزوں کی مٹّی سے تشکیل پانے والی سجیلی مورتی وجدانی حدّت کے طفیل ایک مکمل نسوانی پیکر میں ڈھل کر محو رقص ہو اُٹھتی ہے۔ اِس نظم کی فکری رفعت کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس کے متن میں معنی کے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی مثل سمویا گیا ہے۔

الغرض اِس نظم کا اُسلوبیاتی اور جمالیاتی حُسن دِلفریب ومسرت آمیز ہے۔ فکری و لسانی سٹرکچر جزو اور کُل کی نامیاتی وحدت سے عبارت ہے۔ خیال، جذبے اور لفظ کی آمیخت دل افروز ہے۔ لینڈ سکیپ متحرک اور دلکش امیجری سے روشن ہے۔ تخاطب اوراستفہام کی جاذب نظر فضا نے اِس نظم کی تاثیر اور سُندرتا میں اور بھی اضافہ کیا ہے۔ تراکیب و علامات اور استعارات  و تشبیہات کے برتاؤ میں خوب صوتی اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ وقت کی تھالی، جھلملاتی لَو، رقص کرتی مورتی، ویشیا کے ہونٹ، مخمل کی لہریں، بھنور اِک گول سا اورسبک اندام لہریں جیسی ترکیبوں اور ہَوا کو چھوکر قسم کھانے کے لیے کہنا، صحن میں قدم رکھنا، وہاں سے چپکے سے مٹّی لے جانا اور دو الگ طرزوں کی مٹی کو ایک برتن میں مِلا کر گوندھنا جیسی تمثالوں کا سلسلہ لمس کی مٹھاس اور احساس و وجدان کی خوشبو سے معطر ہونے کے با وصف اِس فن پارے کے جمالیاتی نظام کو وضع کرنے میں اکسیرِ اعظم کا درجہ رکھتا ہے۔ اِس فن پارے کی فکری رفعت کی دلیل یہ ہے کہ دورانِ قرات اِس کے پرت تہہ در تہہ کھلتے چلے جاتے

ہیں اور اِس عمل میں شعور و آگہی کے سوتے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نظم تخلیقی تجربے کی لطافت سے سرشار ہے اور ایسی ہی سرشاری قاری کو بھی عطا کرتی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے