ہندی غزل کے نئے پڑاؤ ۔۔۔ سیوا رام ترپاٹھی

ہندی غزل کے نئے پڑاؤ

دشینت کمار کی غزوں کے حوالے سے

 

                   ڈاکٹر سیوارام ترپاٹھی

 

غزل فارسی اردو میں شاعری کی ایک صنف ہے جس کا خاص موضوع  عشق ہوتا ہے۔ غزل کی بناوٹ  کے بارے میں لکھا گیا ہے   "اکثر غزل کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ایک ہی "قافیہ” اور ردیف میں ہوتے ہیں۔ ایسے شعر کو ‘مطلع’ کہتے ہیں۔ آخر میں جس شعر میں شاعر کا نام یا تخلص ہو، وہ ‘مقطع’ کہلاتا ہے۔

 

غزل اردو شاعری کا سب سے زیادہ قبول روپ ہے۔ اسی مقبولیت کے سبب غزل لکھنے والوں نے ‘مشاعروں’ کا انعقاد کیا، جس میں تمام شعراء اپنی اپنی غزلیں سناتے تھے۔ اس طرح ایک روایت چل پڑی، جس کا چلن آج بھی بہت ہے۔ دراصل غزل بہت مقبول صنف ہے۔ اس کا پہلا شعر ستھائی اور باقی سبھی اشعار انترے کے روپ میں جانے جاتے ہیں۔ جن راگوں میں ٹھمری اور ٹپے  گائے جاتے ہیں، انہیں راگوں کا پر یوگ غزلوں کے گائے جانے میں بھی ہوتا ہے۔

 

راگ کے پکے پن کا غزلوں کی گائیکی میں زور نہیں ہیں۔ آج کل غزل گائیکی اپنی بلندیوں پر ہے۔ اسی سے اس کی ،قبولیت کا پتہ چلتا ہے۔غزلوں کی روایت میں نصرتی، سراج، ولی، شاہ حاتم، شاہ مبارک، محمد شاکر ناجی سے لے کر میر تقی میر، انشا، مصحفی، ناسخ ، مومن، ذوق، غالب، آتش، حالی، داغ، امیر مینائی، جلال، فانی، حسرت، اثر لکھنوی، جگر اور فراق گورکھ پوری تک بے شمار تخلیق کار ہیں۔ میر نے لکھا ہے

پتّہ، پتّہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے

 

میری سمجھ میں ہندی غزل یا فارسی یا اردو غزل کہنا بے معنی ہے، کیونکہ ستمام غزلوں میں ہماری مکمل زندگی بولتی ہے۔ غزل، غزل ہے، اس میں بھید نہیں کیا جانا چاہئیے اور نہ الگ الگ خانے بنانے کی ضرورت ہے۔ بہرحال ہندی میں جو غزل لکھی جا رہی ہیں، انہیں اردو شعراء قبول نہیں کر پا رہے۔ اس میں میٹر اور ناپ جوکھ کی دیواریں ہیں۔ اسلیے دیوناگری میں لکھی جا رہی غزلوں کو ہندی میں غزل کہنے یا ماننے کی ایک لچر روایت کا ارتقا ہو رہا ہے، لیکن یہ مسئلہ باہری ہے اور ایک طرح بے  معنی بھی ہے۔ کسی بھی زبان کی مقبول عام صنف کے سامنے کبھی کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آتی۔ غزل کی ہم جب بھی بات کرتے ہیں، اردو کا نام ضرور آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب غزل عاشق معشوق کے تکرار و  اقرار اور حسن اور عشق کا معاملہ نہیں ہیں۔

 

اردو میں بھی یہ بندھن ٹوٹے ہیں، ہندی میں تو کہنا ہی کیا؟ فراق گورکھ پوری کے الفاظ میں   "دراصل غزل کی انفرادی محسوسات کی بنیاد اتنی کمزور نہیں تھی جتنا اوپر سے دیکھنے پر معلوم ہوتی تھی۔ محبت کا جذبہ اتنا ہی فطری ہے جتنی بھوک اور پیاس۔ کوئی شخص محب ملک و وطن ہو یا باغی، ہندو ہو یا مسلمان، قدامت پسند ہو یا ترقی پسند، ہر ایک کو بھوک، پیاس اور نیند ایک سی لگتی ہے۔ اردو شاعری کے پیچھے تصوف کی وہ قوی روایت تھی جسے نہ مذہبی رسومات دبا سکیں، نہ زمانے  کے بہاؤ  نے جس کی دھار کو کند کیا۔” (اردو بھاشا اور ساہتیہ، پرشٹھ ٢٧٠)

ہندی غزل اگر  کہنا ہی ہے تو ہندی غزل اب وہ صنف  ہے، جس میں حسن اور عشق کی چاشنی ہی نہیں ہے، بلکہ غزل وہ ہیں جس میں ہماری تکلیفوں، مسئلوں اور جد و جہد بھری زندگی کے مکمل  فلسفے، واقعات اور حقیقتیں تو شامل ہی ہیں ساری  کائنات کا حسن، خوشبو، رنگ، اور تاثیریں یکساں ہو گئی ہیں۔

 

ہندی میں غزل لکھنے کی روایت بھارتیندو  ہریش چندر سے شروع ہوتی ہے۔ ان کی بھاشا کھڑی بولی ہے جو اردو کے نزدیک ہے۔ نرالا، ترلوچن، شمشیر اور دشینت کئی ایسے نام ہیں، جنہوں نے غزلوں میں ان گنت  رنگ بھرے ہیں۔ دراصل ہندی غزل کے مختلف پڑاؤ ہیں۔ ایک زمانے میں نرالا نے غزلوں کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ اندازِ بیاں، کہنے میں بھلے ہی یہ اردو کی نزاکت نہ پیش کر پائے ہوں، لیکن موضوع، سماج کا دکھ درد اپنی خوبصورتی کے ساتھ مکمل روپ سے ان کی غزلوں میں ملتا ہے۔ نرالا نے غزلیں محض تجرباتی طور پر ہی نہیں کہیں۔ یہاں یہ بھی دھیان دینے کی بات ہے کہ کوئی بھی تخلیق  اپنے عہد سے باہر نہیں ہوتی۔ غزل جیسی مقبول عام صنف میں اپنے عہد کی پیچیدگیوں کو، ہندوسرانی سیاست کے کھوکھلے پن اور عام آدمی کی تکلیف اور زمانے کی اٹھا پٹک کو ہندی غزلوں میں درج کیا گیا۔ نرالا کی غزلوں کے دو نمونے دیکھیں —

 

آج من پاون ہوا ہے

جیٹھ میں جیوں ساون ہوا ہے۔

 

ہنسی کے تار ہوتے ہیں یہ بہار کے دن

ہردیہ کے ہار کے ہوتے ہیں یہ بہار کے دن

 

ونے دوبے کا ماننا ہے کہ "غزل اپنی چمک دمک اور اندازِ بیاں کے ساتھ ہندی کوتا کے منچ پر آئی اور تمام بد تمیزیوں اور فحاشیوں کے بیچ بھی اپنی مہذب شناخت کے ساتھ جگہ بنانے کی کوشش کی اور جگہ بنائی بھی۔ اسی بیچ رسائل میں بھی غزلیں اچھی خاصی تعداد میں چھپنے لگیں۔ کچھ گمبھیر اور مشہور ادیبوں نے غزل کے تئیں مہذب رخ اختیار کیا۔ ان میں شلبھ شری رام سنگھ، شیر جنگ گرگ، عدم گونڈوی، رام کمار کرشک، ونود تیواری، ظہیر قریشی، مہیش اگروال وغیرہ کویوں کا نام لیا جا سکتا ہے، لیکن ہندی غزل جیسی کسی چیز کے پچڑے میں یہ کوی نہیں پڑے۔ اس سے قبل نرالا، ترلوچن، شمشیر، دشینت  وغیرہ بڑے بڑے کویوں نے بھی غزلیں لکھیں، لیکن وہ بھی غزلیں ہی رہیں اور نہ ہی ان تخلیق کاروں نے انہیں ہندی غزل کہا۔ بھلا ترلوچن اور شمشیر کی اردو  یا ہندی کے بارے میں کوئی سوال اٹھا سکتا ہے۔” (اگنی پتھ غزل وشیشانک)

 

ہندی غزل کئی پڑاؤوں سے ہو کر گزری ہے اور یہ سفر ابھی بھی جاری ہے۔ رمیش رنجک کی غزلوں میں بڑا تیکھا پن اور قاتل لہجہ ملتا ہے۔ جیسے

تھم جا آدم خور زمانے

دنیا بھر کے چور زمانے

یہ تیری سرمایہ داری

ہم دیں گے جھک جھور زمانے

 

غزلیں کئی بحروں کی ہوتی ہے۔ ان کی شکل صورت میں بھی اکثر فرق ہوتا ہے۔ جیسے

اس قدر وقت کی مارا ماری ہوئی

زندگی کچھ نقد کچھ ادھاری ہوئی

 

دن رات اونٹا ہیں ہم نے پسینہ

پھر بھی حالت نہ بہتر ہماری ہوئی

 

ہندی میں غزل کی روایت ایک لمبے عرصے سے ہے، یہ دشینت کمار ہی ہے۔ جن کی غزلوں کی اشاعت کے بعد پورا ہندی سنسار غزلوں سے بھر ہو گیا۔ دشینت نے لکھا بھی ہے کہ "ادھر بار بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا ہے اور یہ کوئی بنیادی سوال نہیں ہیں کہ میں غزلیں کیوں لکھ رہا ہوں؟ یہ سوال کچھ ایسا بھی ہے جیسے بہت دنوں تک کوٹ پتلون والے آدمی کو ایک دن دھوتی کرتے میں دیکھ کر آپ اس سے پوچھیں کہ تم دھوتی کرتا کیوں پہننے لگے؟ میں محسوس کرتا ہوں کہ کسی بھی کوی کے لئے کوتا میں ایک شیلی سے دوسری شیلی کی طرف جانا کوئی ان ہونی بات نہیں، بلکہ یہ ایک فطری رد عمل ہے، مگر میرے لئے بات صرف اتنی نہیں ہے۔ صرف پوشاک یا شیلی بدلنے کے لئے میں نے غزلیں نہیں کہیں۔ اس کے کئی اسباب  ہیں، جن میں سب سے اہم یہ  ہے کہ میں نے اپنی تکلیف کو، اس شہید تکلیف کو، جس سے سینہ پھٹنے لگتا ہے، زیادہ سے زیادہ سچائی اور  تکمیل کے ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے غزلیں کہیں ہیں۔” وہ آگے لکھتے ہیں کہ   "زندگی میں کبھی کبھی ایسا دور بھی آتا ہے جب تکلیف گنگناہٹ کے راستے باہر آنا چاہتی ہے۔ اس دور میں پھنس کر غمِ جاناں اور غمِ دوراں تک ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ غزلیں دراصل ایسے ہی ایک دور کی دین ہیں۔” (سائے میں دھوپ، پرشٹھ ٣٦)

 

میں نے ابتدا میں ہی اس حقیقت کا اظہار کیا تھا کہ آج جو غزل لکھی جا رہی ہے، اس میں محبت تو ہے ہی۔ ہمارے زمانے اور زندگی کی تلخی اور کڑواہٹیں کہیں زیادہ ہیں۔ دشینت نے ایک شعر میں کہا ہے

جس کو میں اوڑھتا بچھاتا ہوں

وہ غزل آپ کو سناتا ہوں

ہندی غزلوں کی اس خاص پہچان اور سمت کی روشنی میں ہی ہم غزلوں کی حقیقت پہچاننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ دشینت نے اپنے  خود نوشت بیان میں اس بات کو قبول کیا ہے کہ "غزل مجھ پر نازل نہیں ہوئی۔ میں پچھلے پچیس سالوں سے اسے سنتا اور پسند کرتا آیا ہوں اور میں نے کبھی چوری چھپے اس میں ہاتھ بھی آزمایا ہے، لیکن غزل لکھنے یا کہنے کے پیچھے ایک تجسس آ کر مجھے تنگ کرتا رہا ہے اور وہ یہ کہ ہندوستانی کویوں میں سب سے قوی محسوسات کے شاعر  غالب نے اپنے درد کے اظہار کے لئے غزل کا میڈیم ہی کیوں چنا؟ اور اگر غزل کے میڈیم سے غالب اپنی نجی تکلیف کو اتنا عوامی بنا سکتے ہیں تو میری دہری تکلیف (جو  انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی) اس میڈیم کے سہارے ایک  نسبتاً وسیع قارئین کے حلقے تک کیوں نہیں پہنچ سکتی؟” (سائے میں دھوپ، صفحہ ٣٦)

 

دشینت کے بیانوں سے یہ تو ثابت  ہوتا ہی ہے کہ غزل اپنا پرانا محور اور اپنے کردار کو چھوڑ کر زمانے کے جلوس میں شامل ہے  کبھی بہادر شاہ ظفر نے اپنی تکلیف کو اس طرح بیان کیا تھا

لگتا نہیں ہیں دل میرا اجڑے دیار میں

کس کی بنی ہیں عالمِ نا پائدار میں

اس سے ظاہر ہے کہ غزلوں میں صرف عشق ، اس دنیا کے پیار محبت کا ہی بیان ہو سکتا ہے، یہ مان لینا  پر فریب ہے۔ اور بھی موضوعوں کی گفتگوئیں اور مکمل باتیں اس صنفِ سخن میں ہو سکتی ہیں۔ در حقیقت کوئی صنفِ سخن کسی مخصوص جذبے کے اظہار کے لئے ہی ہو سکتی ہے، یہ ماننا ہی  نا واقفیت کا ثبوت ہے۔

دشینت نے اپنی ایک غزل کے شعر میں کہا ہے

مجھ میں رہتے ہیں کروڑوں لوگ چپ کیسے رہوں

ہر غزل اب سلطنت کے نام ایک بیان ہے

 

خارجی سلوک اور اندرونی اتھل پتھل کا ربط شاعر سمجھ سکتا ہے، قاعی یا سامع نہیں ۔ غزل کے بارے میں دشینت کا جو خیال ہے، وہ ان  تین اشعار میں دیکھیں

صرف شاعر دیکھتا ہے قہقہوں کی اصلیت

ہر کسی کے پاس تو ایسی نظر ہوتی نہیں

 

جن ہواؤں نے تجھ کو دلرایا

ان میں میری غزل رہی ہوگی

 

جب تڑپتی سی غزل کوئی سنائے

ہم سفر اونگھے ہوئے ہیں، ان منے ہیں

 

دشینت کی غزلوں کا مجموعہ ‘سائے میں دھوپ’ آیا تو اس کا پر زور سواگت ہوا کیونکہ اس میں ہمارے زندگی کے فرسٹیشن ، فریب ، حقیقتیں، اختلافات اور جان لیوا  حالات کو بخوبی خط کشیدہ کیا گیا ہے۔ چند نمونے اس طرح ہیں:

یہاں تو صرف گونگے اور بہرے لوگ بستے ہیں

خدا جانے یہاں پر کس طرح جلسہ ہوا ہوگا

 

جس طرح چاہو بجاؤ اس سبھا میں

ہم نہیں ہیں آدمی، ہم جھنجھنے ہیں

 

زندگانی کا کوئی مقصد نہیں ہے

ایک بھی قد آج آدم قد نہیں ہے

 

روز جب رات کو باہر کا غدر ہوتا ہے

یاتناؤں کے اندھیرے میں سفر ہوتا ہے

 

ہو گئی ہے پیر پربت سی، پگھلنی چاہئیے

اس ہمالیہ سے کوئی گنگا نکلنی چاہئیے

 

کہاں تو طے تھا چراغاں ہر ایک گھر کے لئے

کہاں  کہ روشنی میسر نہیں شہر کے لئے

 

دشینت ایسے پہلے غزل کار ہیں، جو ہمارے زمانے کو، اس کے چیلینجوں کو بہت کھلی اور چبھتی ہوئی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ساتھ ہی بہت تڑپتے ہوئے انداز میں اسے پیش کرتے ہیں

میں بے پناہ اندھیروں کو صبح کیسے کہوں

میں ان نظاروں کا اندھا تماش بین نہیں

 

کی  غیر اخلاقی ، کرپٹ اور موقع پرستی کی ذہنیتوں کے سبب کوی کے من میں پیدا ہونے والا اضطراب، مایوسی، بے چینی جیسے جذبات ہی غزل کے ایک ایک شعر میں جھلکتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اپنی غزلوں کو اسی روپ کو قبول کرتے ہوئے خود دشینت نے لکھا ہے

 

اس دل کی بات کر تو سبھی درد مت انڈیل

اب لوگ ٹوکتے ہیں غزل ہے کہ مرثیہ

 

دشینت نے ایک ہی طرح کی غزلیں نہیں کہیں، اس کے رنگ  بے شمار ہیں۔ ان کی کچھ غزلوں میں رومانیت بھی قرینے سے آئی ہے۔ جیسے

 

تم کسی ریل سی گزرتی ہو

میں کسی پل سا تھرتھراتا ہوں

 

ایک دوسرا رنگ یہ بھی ہے

 

صرف ہنگامہ کھڑا کرنا میرا مقصد نہیں

میری کوشش ہے یہ صورت بدلنی چاہئیے

 

دوسرا رنگ یہ بھی ہے

 

اس ندی کی دھار میں ٹھنڈی ہوا آتی تو ہے

ناؤ جرجر ہی سہی ، لہروں سے ٹکراتی تو ہے

 

ایک چنگاری کہیں سے ڈھونڈ لاؤ دوستو

اس دئیے میں تیل سے بھیگی ہوئی باتی تو ہے

 

دشینت  سے قبل اور ان کے زمانے میں جو غزلیں لکھی جا رہی تھیں، ان میں بھی ہمارا عہد مستعدی سے موجود ملتا ہے۔ نمونے کے طور پر ان غزلوں کے کچھ نمونے پیش ہیں۔ اس سے ہندی غزل کے ارتقاء اور تیور کا پتہ چلتا ہے۔ ترلوچن کا ایک شعر ہے

 

ٹھوکریں در بدر کی تھیں ہم تھے

کم نہیں ہم نے منھ کی کھائی ہیں

 

شمشیر کی غزل کے دو شعر پیش ہیں

 

زمانے بھر کا کوئی اس قدر اپنا نہ ہو جائے

کہ اپنی زندگی خود آپ کو بیگانہ ہو جائے

 

سحر ہوگی یہ شب بیتے گی اور ایسی سحر ہوگی

کہ بیہوشی ہمارے دیش کا پیمانہ ہو جائے

 

ایسی حالت میں کیا کیا جائے

پورا نقشہ بدل دیا جائے

 

دیش کا کلیش مٹے اس خاطر

پھر نئے طور سے جیا جائے

 

ہندی غزل میں عدم گونڈوی کی حیثیت بہت  اہم ہے۔ وہ چیزوں کو آر پار دیکھنے والوں میں سے ہیں، جیسے

وید میں جن کا حوالہ حاشیے پر بھی نہیں

وہ ابھاگے، آستھا، وشواس لے کر کیا کریں

 

لوکرنجن ہو یہاں شمبوک ودھ کی آڑ میں

اس ویوستھا کا گھرنت اتہاس لے کر کیا کریں

 

ان کی ایک غزل اس دور میں بہت مشہور ہوئی ہے۔

 

کاجو کی بھنی پلیٹ، وہسکی گلاس میں

اترا ہے رام راج ودھایک نواس میں

 

ہندی میں غزلیں خوب لکھی جا رہی ہیں اور خوب چھ بھی  رہی ہیں اور پڑھی بھی جا رہی ہیں۔ ادھر غزل گائیکی کی مقبولیت نے ہندی غزل کی  ترقی لے ضمن میں ہم کو مطمئن کیا ہے۔ غزل رومانی  روایت سے شروع ہوئی، لیکن اس کے ترقی کے سفر نے ہمیں زمانے کے دکھ سکھ کے ساتھ شامل کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ غزل اب ہمارے اور ہمارے زمانے کے ساتھ ہے۔

 

ہندی غزل کی روایت میں نت نئی آوازیں ابھر رہی ہیں۔ نئے معیارات بھی بن رہے ہیں۔ ان کے کئی رنگ ہیں، کئی مزاج ہیں اور کئی تاثیریں ہیں۔ ان غزلوں نے ہمارے زمانے کے پورے حوالوں کو سمیٹ لیا ہے۔ نریندر کمار نے اپنی ایک غزل میں ایک ایسے سچ کو اجاگر کیا ہے، جس کا آمنہ سامنا ہم مسلسل کرتے رہے ہیں

 

اب کبوتر اڑا کر کیا کرو گے رہبرو

ہو گئی ٹوٹا ہوا اک پیار اپنی زندگی

 

ہر طرف کرفیو کا ساماں موت کا پہرہ لگا

بن گئی جلتا ہوا بازار اپنی زندگی

 

ایک نے مندر اچھالا ایک نے مسجد کا نام

خوب کھائی پتھروں کی مار اپنی زندگی (ورتمان ساہتیہ، مارچ ١٩٩٢(

 

سیاست کی مکاریوں، اس کے فریبوں کو گیان پرکاش وویک کچھ اس طرح  بیان کرتے ہیں

 

سورج سے ہم بچے تو جگنو سے جل گئے ہیں

جن پر کیا بھروسہ وہ لوگ چھل گئے ہیں

 

سیاسی شہر میں تو آ گیا ہے تو سن لے

وجود تیرا یہاں اشتہار سا ہوگا (ورتمان ساہتیہ، ستمبر ٩٠)

 

عشق کی وسعت اور چاہت کو پریہ درشی ٹھاکر کچھ اس طرح درج کرتے ہیں

 

میں تمہاری آرزو میں سخت گھائل ہو گیا

اس قدر چاہا تمہیں  کہ نیم پاگل ہو گیا

 

ریت کا انبار راتوں رات دلدل ہو گیا

کوئی رویا اس طرح صحرا بھی جل تھل ہو گیا (ہنس، جولائی ١٩٩٤)

 

شہائے اشرف کی نازک خیالی اس شعر میں دیکھیں

 

کیا بدن ہے کہ بہاروں میں پلا ہو جیسے

اس قدر نرم کہ خوابوں میں ڈھلا ہو جیسے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے