ہندی غزلیں: کاظم جرولی
جب بھی قصہ اپنا پڑھنا
پہلے چہرہ چہرہ پڑھنا
تنہائی کی دھوپ میں تم بھی
بیٹھ کے اپنا سایہ پڑھنا
آوازوں کے شہر میں رہ کر
سیکھ گیا ہوں لہجہ پڑھنا
ہر کونپل کا حال لکھا ہے
شاخ کا پیلا پتّہ پڑھنا
بھیج کے نامے یاد دلا دو
بھول گیا ہوں لکھنا پڑھنا
لوگو میری پیاس کا قصہ
صدیوں دریا دریا پڑھنا
دیواروں پر کچھ لکھا ہے
تم بھی اپنا کوچہ پڑھنا
ہجر کی شب میں نم آنکھوں سے
دھندلا دھندلا سپنا پڑھنا
ماضی کا آئینہ رکھ کر
خود کو تھوڑا تھوڑا پڑھنا
میں ہوں سنگ میل کی صورت
مجھ سے میرا رستہ پڑھنا
زیست کا مطلب کیا ہے کاظم
اپنا اپنا لکھنا پڑھنا
٭٭٭
مجھے معلوم ہے مجھ کو پتہ ہے
یہ سناٹا تیری آوازِ پا ہے
چمن میں ہر طرف چرچے ہیں تیرے
ترا ہی نام پتوں پر لکھا ہے
مجھے آواز دیتی ہے سحر کیوں
پرندہ کس لئے نغمہ سرا ہے
یہ اب کیسی ہے دل کو بیقراری
چمن ہے ابر ہے ٹھنڈی ہوا ہے
یہاں پتھر ہوا ہے کوئی چہرہ
یہاں اک آئینہ ٹوٹا پڑا ہے
سبھی انساں ہیں بس اتنا سمجھ لو
ضروری ہے کہ پوچھو کون کیا ہے
سدا یہ معرکہ چلتا رہے گا
نہ شب ہاری نہ یہ سورج تھکا ہے
یہی کاظم ہے راز انکساری
مرے اندر کوئی مجھ سے بڑا ہے
٭٭٭
کوئی بھی لفظ مرا جیسے معتبر ہی نہیں
مری صدا کا کسی پر کوئی اثر ہی نہیں
یہ منزلیں بھی اسی کو صدائیں دیتی ہیں
وہ شخص جس کو کوئی خواہشِ سفر ہی نہیں
ترے وجود سے انکار تیرے ہوتے ہوئے
پتہ ہے سب کا تجھے اپنی کچھ خبر ہی نہیں
مرے بھی نقش قدم ہیں خلاؤں میں تحریر
یہ عرش صرف ستاروں کی رہگزر ہی نہیں
یہ سنگ و خشت ہیں بے چشم ناظرین مرے
مرے گواہ فقط صاحب نظر ہی نہیں
گزر رہا ہوں میں کتنی عجیب راہوں سے
سوائے میرے مرا کوئی ہمسفر ہی نہیں
٭٭٭
اپنا دل اب اپنے دل کے اندر لگتا ہے
ہم کو منظر سے اچھا پس منظر لگتا ہے
بن ٹھہرے چلتے رہتے ہیں ہاتھ، مگر پھر بھی
رات کی روٹی تک آنے میں دن بھر لگتا ہے
اینٹوں اور گارے سے جن کا رشتہ کوئی نہیں
ان کے نام کا دیواروں پر پتھر لگتا ہے
جیسے کچھ ہونے والا ہے تھوڑی دیر کے بعد
شہر میں اب را توں کو ایسا اکثر لگتا ہے
ان بوڑھے بچوں کو، لوری دے کر کون سلائے
رات کو جن کا گھر کے باہر، بستر لگتا ہے
باتیں گرم کرو تم لیکن، ٹھنڈے لہجے میں
اونی کپڑوں میں ریشم کا استر لگتا ہے
اس کو اپنے سائے میں رکھے، کیسے کوئی پیڑ
جس کو اپنی پرچھائیں سے بھی ڈر لگتا ہے
ان چاندی سونے والوں سے کاظم دور رہو
ان کی قبروں پر بھی مہنگا پتھر لگتا ہے
٭٭٭
لہو میں غرق ادھوری کہانیاں نکلیں
بدن سے ٹوٹی ہوئی سرخ چوڑیاں نکلیں
میں جس زمین پہ صدیوں پھرا کیا تنہا
اسی زمین سے کتنی ہی بستیاں نکلیں
جہاں محال تھا پانی کا ایک قطرہ بھی
وہاں سے ٹوٹی ہوئی چند کشتیاں نکلیں
مسل دیا تھا سرِ شام ایک جگنو کو
تمام رات خیالوں سے بجلیاں نکلیں
چرا لیا تھا حویلی کا ایک چھپا منظر
اسی گناہ پر آنکھوں سے پتلیاں نکلیں
وہ اک چراغ جلا، اور وہ روشنی پھیلی
وہ راہ زنی کے ارادے سے آندھیاں نکلی
خدا کا شکر کہ اس عہدِ بے لباسی میں
یہ کم نہیں کہ درختوں میں پتیاں نکلیں
وہ بچ سکی نہ کبھی بو الہوس پرندوں سے
حصارِ آب سے باہر جو مچھلیاں نکلیں
یہی ہے قصرِ محبت کی داستاں کاظم
گری فصیل تو انساں کی ہڈیاں نکلیں
٭٭٭