ہندی غزلیں: مینک وستھی
وہی عذاب وہیں آسرا بھی جینے کا
وہ میرا دل ہی نہیں زخم بھی ہے سینے کا
میں بے لباس ہی شیشے کے گھر میں رہتا ہوں
مجھے بھی شوق ہے اپنی طرح سے جینے کا
وہ دیکھ چاند کی پر نور کہکشاؤں میں
تمام رنگ ہے خورشید کے پسینے کا
میں پر خلوص ہوں پھاگن کی دوپہر کی طرح
ترا مزاج لگے پوس کے مہینے کا
سمندروں کے سفر میں سنبھال کر رکھنا
کسی کنویں سے جو پانی ملا ہے پینے کا
مینکؔ آنکھ میں سیلاب اٹھ نہ پائے کبھی
کہ ایک اشک مسافر ہے اس سفینے کا
٭٭٭
تاروں سے اور بات میں کمتر نہیں ہوں میں
جگنو ہوں اس لیے کہ فلک پر نہیں ہوں میں
صدموں کی بارشیں مجھے کچھ تو گھلائیں گی
پتلا ہوں خاک کا کوئی پتھر نہیں ہوں میں
دریائے غم میں برف کے تودے کی شکل میں
مدت سے اپنے قد کے برابر نہیں ہوں میں
اس کا خیال اس کی زباں اس کے تذکرے
اس کے قفس سے آج بھی باہر نہیں ہوں میں
میں تشنگی کے شہر پہ ٹکڑا ہوں ابر کا
کوئی گلا نہیں کہ سمندر نہیں ہوں میں
کیوں زہر زندگی نے پلایا مجھے مینکؔ
وہ بھی تو جانتی تھی کہ ،شنکر نہیں ہوں میں
٭٭٭
خشک آنکھوں سے کوئی پیاس نہ جوڑی ہم نے
آس ہم سے جو سرابوں کو تھی، توڑی ہم نے
بارہا ہم نے یہ پایا کہ لہو میں ہے شرر
اپنی دکھتی ہوئی رگ جب بھی نچوڑی ہم نے
جو سنورنے کو کسی طور بھی راضی نہ ہوئی
بھاڑ میں پھینک دی دنیا وہ نگوڑی ہم نے
اس طرح ہم نے سمندر کو پلایا پانی
اپنی کشتی کسی ساحل پہ نہ موڑی ہم نے
جب کوئی چاند ملا داغ نہ دیکھے اس کے
آنکھ سورج سے ملا کر نہ سکوڑی ہم نے
فصل برباد تھی آہٹ بھی ہمیں تھی لیکن
جانے کیوں موڑ دی اس دوار پہ گھوڑی ہم نے
گرد غیرت کے بدن پر جو نظر آئی کبھی
دیر تک اپنی انا خوب جھنجھوڑی ہم نے
٭٭٭
اے سمندر تری تسکین کا ساحل ہوا میں
پھر بھی کیوں تجھ کو لگا تیرے مقابل ہوا میں
میں ہی دنیا ہوں تو سب کچھ تو میرا حصہ ہے
کیسے دنیا کی ہر اک راہ کی منزل ہوا میں
جب عناصر کی ردا اوڑھ کے سو جاتا ہوں
خواب اک آ کے ڈراتا ہے کہ باطل ہوا میں
آنکھ کھولی تو چھپا تھا تو ہر اک ذرے میں
آنکھ موندی تو تری دید کے قابل ہوا میں
آئنے مجھ سے کئی بار بھڑے ہیں پھر بھی
آج تک خود کے سوا کس کے مقابل ہوا میں
ڈھونڈتے ڈھونڈتے تجھ کو میں کچھ ایسا کھویا
پھر تو خود کو بھی کسی طور نہ حاصل ہوا میں
مسئلہ تھا کہ میں جب شہر کا آئینہ تھا
آج جب ٹوٹ کے بکھرا تو مسائل ہوا میں
اس کی قربت میں تباہی کے ہیں امکان مگر
لو کسی جسم کی لہرائے کہ مائل ہوا میں
یہ جو زر دار ہوا شہرِ غزل میں میں بھی
سب ہے اس در کی بدولت جہاں سائل ہوا میں
دشت آباد کیا ، کاٹ دیا پربت کو
"تجھ کو پانے کی طلب میں کسی قابل ہوا میں”
یہ سیہ بخت زمیں یوں مری جاگیر ہوئی
شب کی دہلیز پہ خورشید کا قاتل ہوا میں
میں وہ ذرہ تھا جسے توڑ دیا دنیا نے
قہر کی شکل میں پھر دہر پہ نازل ہوا میں
کوئی ڈولی میں تجھے لے کے گیا ہے جب سے
تب سے یادوں کی ہی بارات میں شامل ہوا میں
کون تدبیر کی بستی میں پسینے بانٹے
آج اے شہرِ تمنا ترا سائل ہوا میں
٭٭٭
ستارہ ایک بھی باقی بچا کیا
نگوڑی دھوپ کھا جاتی ہے کیا کیا
فلک کنگال ہے اب، پوچھ لیجے
سحر نے منھ دکھائی میں لیا کیا
سب اک بحرِ فنا کے بلبلے ہیں
کسی کی ابتدا کیا، انتہا کیا
جزیرے سر اٹھا کر ہنس رہے ہیں
ذرا سوچو سمندر کر سکا کیا
خرد اک نور میں ضم ہو رہی ہے
جھروکا آگہی کا کھل گیا کیا
تعلق آن پہنچا خامشی تک
” یہاں سے بند ہے ہر راستہ کیا”
بہت شرماؤ گے یہ جان کر تم
تمہارے ساتھ خوابوں میں کیا کیا
اسے خودکش نہیں مجبور کہیئے
بدل دیتا وہ دل کا فیصلہ کیا
برہنہ تھا میں اک شیشے کے گھر میں
مرا کردار کوئی کھولتا کیا
اجل کا خوف طاری ہے ازل سے
کسی نے ایک لمحہ بھی جیا کیا
مکیں ہو کر مہاجر بن رہے ہو
میاں، یکلخت بھیجا پھر گیا کیا
خدا بھی دیکھتا ہے، دھیان رکھنا
خدا کے نام پر تم نے کیا کیا
اٹھا کر سر بہت اب بولتا ہوں
مرا کردار بونا ہو گیا کیا
٭٭٭