ہندی غزلیں ۔۔۔ دویندر دُوِج

ہندی غزلیں: دویندر دُوِج

 

پروں کو کاٹ کے کیا آسمان دیجئے گا

زمین دیجئے گا یا اڑان دیجئے گا

 

ہماری بات کو بھی اپنے کان دیجئے گا

ہمارے حق میں بھی کوئی بیان دیجئے گا

 

زبان، ذات یا مذہب یہاں نہ ٹکرائیں

ہمیں حضور، وہ ہندوستان دیجئے گا

 

رہی ہیں دھوپ سے اب تک یہاں جو ناواقف

اب ایسی بستیوں پر بھی تو دھیان دیجئے گا

 

ہے زلزلوں کے فسانوں کا بس یہی وارث

سخن کو آپ نئی  سی زبان دیجئے گا

 

کبھی کے بھر چکے ہیں صبر کے یہ پیمانے

ذرا سا سوچ سمجھ کر زبان دیجئے گا

 

جو چھت ہمارے لئے بھی یہاں دلا پائے

ہمیں بھی ایسا کوئی سنودھان1 دیجئے گا

 

نئی کتاب بڑی دلفریب ہے لیکن

پرانی بات کو بھی قدر دان دیجئے گا

 

1۔ قانون

٭٭٭

 

 

 

 

ہماری آنکھوں کو خوابوں سے دور ہی رکھے

سوال ایسے جوابوں سے دور ہی رکھے

 

سلگتی ریت پہ چلنے سے کیسے کتراتے

جو پاؤں بوٹ جرابوں سے دور ہی رکھے

 

ہنر تو تھا ہی نہیں ان میں جی حضوری کا

اسی لئے تو خطابوں سے دور ہی رکھے

 

تمام عمر وہ خوشبو سے نا شناس رہے

جو بچے تازہ گلابوں سے دور ہی رکھے

 

وہ زندگی کے اندھیروں سے لڑتے پڑھ لکھ کر

اسی لئے تو کتابوں سے دور ہی رکھے

 

ہمارا ثانی کوئی میکشی میں ہو نہ سکا

اگرچہ ساری شرابوں سے دور ہی رکھے

 

یہ بچے یاد کیا رکھیں گے  دوج ، بڑے ہو کر

اگر نہ خون خرابوں سے دور ہی رکھے

٭٭٭

 

 

 

 

اگر وہ کارواں کو چھوڑ کر باہر نہیں آتا

کسی بھی سمت سے اس پر کوئی پتھر نہیں آتا

 

اندھیروں سے الجھ کر روشنی لے کر نہیں آتا

تو مدت سے کوئی بھٹکا مسافر گھر نہیں آتا

 

یہاں کچھ سر پھروں نے حادثوں کی دھند بانٹی ہے

نظر اب اس لئے دلکش کوئی منظر نہیں آتا

 

جو سورج ہر جگہ سندر سنہری دھوپ لاتا ہے

وہ سورج کیوں ہمارے شہر میں اکثر نہیں آتا

 

اگر اس دیش میں ہی دیش کے دشمن نہیں ہوتے

لٹیرا لے کے باہر سے کبھی لشکر نہیں آتا

 

جو خود کو بیچنے کی فطرتیں حاوی نہیں ہوتیں

ہمیں نیلام کرنے کوئی بھی تسکر1 نہیں آتا

 

اگر ظلموں سے لڑنے کی کوئی کوشش رہی ہوتی

ہمارے در پہ ظلموں کا کوئی منظر نہیں آتا

 

غزل کو جس جگہ  دوج ، چٹکلوں سی داد ملتی ہو

وہاں پھر کوئی بھی آئے مگر شاعر نہیں آتا

 

1 سمگلر

٭٭٭

 

 

دل کی ٹہنی پہ پتیوں جیسی

شاعری بہتی ندیوں جیسی

 

یاد آتی ہے بات بابا کی

اس کی تاثیر ، آنولوں جیسی

 

باز آ جا، نہیں تو ٹوٹے گا

تیری فطرت ہے آئینوں جیسی

 

زندگی کے سوال تھے مشکل

ان میں الجھن تھی فلسفوں جیسی

 

جب کبھی رو برو ہوئے خود کے

اپنی صورت تھی قاتلوں جیسی

 

تو بھی خود سے کبھی مخاطب ہو

کر کبھی بات شاعروں جیسی

 

خالی ہاتھوں جو لوٹ جانا ہے

چھوڑیئے ضد سکندروں جیسی

 

زندگانی کڑکتی دھوپ بھی تھی

اور چھایا بھی برگدوں جیسی

 

آپ کی گھر میں   دوج   کرے کیسے

میزبانی وہ ہوٹلوں جیسی

٭٭٭

 

 

 

 

ان کی عادت بلندیوں والی

اپنی سیرت ہے سیڑھیوں والی

 

ہم کو ندیوں کے بیچ رہنا ہے

اپنی قسمت ہے کشتیوں والی

 

زندگی کے بھنور سنائیں گے

اب کہانی وہ ساحلوں والی

 

ہم پہ کچھ بھی لکھا نہیں جاتا

اپنی قسمت ہے حاشیوں والی

 

بھوکھے بچے کو ماں نے دی روٹی

چندا ماما کی لوریوں والی

 

آج پھر کھو گئی ہے دفتر میں

تیری عرضی شکایتوں والی

 

تو بھی پھنستا ہے روز جالوں میں

ہائے قسمت یہ مچھلیوں والی

 

تو اسے سن سکے اگر، تو سن

یہ کہانی ہے قافلوں والی

 

وہ زباں ان کو کیسے راس آتی

وہ زباں تھی بغاوتوں والی

 

بھول جاتے، مگر نہیں بھولے

اپنی بولی محبتوں والی

٭٭٭

One thought on “ہندی غزلیں ۔۔۔ دویندر دُوِج

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے