انتخاب
انتخاب کنندہ: مدھر نجمی، اعجاز عبید وغیرہ
آنگن آنگن بکھرے منظر ملتے ہیں
گھر کے بھیتر بھی کتنے گھر ملتے ہیں
انرودھ سنہا
آج جو ہنس کر ملا کل اس کا تیور اور ہو
یہ نہ ہو منظر کے پیچھے کوئی منظر اور ہو
منوج ابودھ
اندھیرا ہے تو کیوں گہرا نہیں ہے
اجالا ہے تو کیوں دکھتا نہیں ہے
اشوک شرما
کچھ اور اب سنائی نہیں دے رہا مجھے
پہنی ہے جب سے آپ کی آواز کان میں
میناکشی ججیوشا
زمیں چل رہی ہے لگاتار چالیں
سمجھ سوچ کر گھر کی بنیاد ڈالیں
ڈاکٹر مدھر نجمی
میری آنکھیں چلی گئیں جب سے
میں نے دنیا کو کان سے دیکھا
ظہیر قریشی
کچھ لینے کی ضد مت کرنا
پاپا میلہ دکھلا دیں گے
دیکشت دنکوری
آدھی صدی کاٹ دی اس نے کھا کر چنا چبینا جی
محنت اس کی، موج تمہاری، یہ اب اور چلے نا جی
ڈاکٹر وید پرکاش ‘امیتابھ’
مصالحت کے لئے دشمنوں کے گھر بھی گئے
جدھر کبھی نہیں جاتے تھے ہم ادھر بھی گئے
عارف سکندر
رہو تو وقت کے سینے پہ دستخط کر دو
یہ کیا ہوا کہ رہے بھی تو حاشیوں کی طرح
رام بابو رستوگی
میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی
ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئیے
دشینت کمار
مجھ کو اس وید کی ودیا پہ ترس آتا ہے
بھوکھے لوگوں کو جو صحت کی دوا دیتا ہے
نیرج
تمہارے دل کی چبھن بھی ضرور کم ہوگی
کسی کے پاؤں سے کانٹا نکال کر دیکھو
ڈاکٹر کنور بیچین
بیٹیاں جب سے بڑی ہونے لگی ہیں میری
مجھ کو اس دور کے گانے نہیں اچھے لگتے
ارملیش
مرے دل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ
بڑوں کی دیکھ کر دنیا بڑا ہونے سے ڈرتا ہے
راجیش ریڈی
شام ہونے کو ہے بیچارہ کہاں جائے گا؟
بوڑھے برگد سے پپیہے کو اڑاتے کیوں ہو
ادے پرتاپ سنگھ
کیسی مشکل میں پڑ گیا ہوں میں
اپنے درپن سے لڑ گیا ہوں میں
سوم ٹھاکر
یہ سیاست کی طوائف کا دوپٹہ ہے
یہ کسی کے آنسوؤں سے تر نہیں ہوتا
ڈاکٹر شوؤم ‘امبر’
امڈتے آنسؤں کو آنکھ ہی پی لے تو بہتر ہے
ہمیشہ آنسوؤں کی پہنچ میں آنچل نہیں ہوتا
پروفیسر نند لال پاٹھک