ہندی ادب سے اقتباسات
۔۔۔۔۔
یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ غزل اردو سے ہندی میں آئی لیکن ادبی تاریخ کا آزادانہ مطالعہ اس نظریئے کو غلط قرار دیتا ہے۔ اصل میں کھڑی بولی ہندی کی شاعری کی تاریخ امیر خسرو کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ لگ بھگ سبھی جانے مانے تقاد اور محققین نے امیر خسرو کو ہندی کا پہلا غزل گو قرار دیا ہے۔ کئی ماہرین امیر خسرو کی اس غزل کو ہی ہندی کی پہلی غزل مانتے ہیں
جب یار دیکھا نین بھر دل کی گئی چنتا اتر،
ایسا نہیں کوئی عجب راکھے اسے سمجھائے کر
امیر خسرو کے بعد مطلعے اور مقطع کے ساتھ بحر کی پابندی میں غزل کبیر کی تخلیقات میں ملتی ہے
ہمن ہیں عشق مستانہ ہمن کو ہوشیاری کیا،
رہے آزاد یا جگ میں ہمن دنیا سے یاری کیا
کبیرہ عشق کے مطلب دئی کو دور کر دل سے،
جو چلنا راہ نازک ہے ہمن سر بوجھ بھاری کیا۔
ڈاکٹر ‘امبر’
یہ کوئی بڑا سوال نہیں ہے، جس پر بحث کی جائے۔ ہندی غزل سے مطلب ہندی کے کویوں کے ذریعے لکھی یا کہی غزل ہے۔ جیسے اردو غزل، اردو کہانی، بنگلہ ناٹک، اڑیا کوتا، مراٹھی غزل۔ چونکہ غزل عربی فارسی سے ہوتی ہوئی اردو میں اور پھر ہندی میں آئی ہے، اسلئے اسے پہچان کے لئے ہندی غزل ہی کہا جائے۔ہندی غزل کی زبان خالص "تت سم ” الفاظ والی ہی ہو، اس بات کو میں نہیں مانتا۔ غزل گیت سے زیادہ کومل صنف ہے اور اس کی مقبولیت کا اصل سبب زبان کی آسانی ہی رہا ہے۔ یہ صرف پڑھی جانے عالی صنف نہیں بلکہ سننے والی صنف بھی ہے اور اپنے مختصر روپ میں رنگین تجربوں ، عصری محسوسات کے خوبصورت اظہار کے سبب آسانی سے یاد رکھے جانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے، اسلئے اس کی بھاشا کتابی نہ ہوکر زندگی اور برتاؤ سے جڑی ہونی ہونی چاہئیے۔”
ادے پرتاپ سنگھ
غزل ہندی اور اردو بھاشا کی بے حد مقبول صنفِ شاعری ہے۔ غزل جو کہ کبھی زلفوں کے پیچ و خم اور گھنگھروؤں کی تھرکن میں بہت لمبے عرصے تک قید رہی، وہ اب ان سے پوری طرح آزاد ہو کر بھیڑ بھرے چوراہوں پر آ کر کھڑی ہو گئی ہے۔ آج کی غزل سیاسی بے نیازی، خود غرضی، تنگ نظری، بے اقداری، نراج، بھرشٹاچار اور دہشت گردی وغیرہ کو بڑے ہی علامتی انداز میں پیش کر رہی ہے۔ کوی سمیلنوں اور مشاعروں میں آج غزل بہت سنی اور سراہی جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ ہو یا جاہل، عام آدمی کے پاس پہنچنے کے لئے جس زبان اور جن احساسات کی ضرورت ہے، وہ سب آج کی غزل ہمیں دے رہی ہے۔ آج کی غزل اس کھائی کو پاٹنے کے لئے زبان کی ایک ایسی شکل گھڑ رہی ہے جو ہندی اور اردو سے الگ، صرف محبت کی زبان کہی جا سکتی ہے۔
گوپال داس ‘نیرج’
ادھر بار بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا ہے اور یہ کوئی بنیادی سوال نہیں ہیں کہ میں غزلیں کیوں لکھ رہا ہوں؟ یہ سوال کچھ ایسا بھی ہے جیسے بہت دنوں تک کوٹ پتلون والے آدمی کو ایک دن دھوتی کرتے میں دیکھ کر آپ اس سے پوچھیں کہ تم دھوتی کرتا کیوں پہننے لگے؟ میں محسوس کرتا ہوں کہ کسی بھی کوی کے لئے کوتا میں ایک شیلی سے دوسری شیلی کی طرف جانا کوئی ان ہونی بات نہیں، بلکہ یہ ایک فطری رد عمل ہے، مگر میرے لئے بات صرف اتنی نہیں ہے۔ صرف پوشاک یا شیلی بدلنے کے لئے میں نے غزلیں نہیں کہیں۔ اس کے کئی اسباب ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ میں نے اپنی تکلیف کو، اس شہید تکلیف کو، جس سے سینہ پھٹنے لگتا ہے، زیادہ سے زیادہ سچائی اور تکمیل کے ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے غزلیں کہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ زندگی میں کبھی کبھی ایسا دور بھی آتا ہے جب تکلیف گنگناہٹ کے راستے باہر آنا چاہتی ہے۔ اس دور میں پھنس کر غمِ جاناں اور غمِ دوراں تک ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ غزلیں دراصل ایسے ہی ایک دور کی دین ہیں۔
۔۔دشینت کمار
٭٭٭