کچھ عرصہ پہلے راول پنڈی سے ایک سنسنی خیز خبر آئی کہ کسی شفا خانے میں ایک نو مولود بچے پر چوہے ٹوٹ پڑے اور اس معصوم، بے بس اور نا تواں بچے کو لہو لہان کر دیا۔ بچوں کے ساتھ چوہوں کی دلچسپی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہر چوہا یہ چاہتا ہے کہ وہ بچوں کو لقمۂ تر بنا لے۔ ایسے آدم خور چوہوں کی موجودگی کی خبر سن کر ہر طرف خوف و ہراس کی ایک لہر دوڑ گئی۔ لوہا بازاروں میں دھڑا دھڑ چوہے دان اور شکنجے خریدے جا رہے ہیں۔ حواس باختہ خریداروں کا ایک تانتا بندھ گیا ہے جو جلد از جلد کوئی چوہے دان یا شکنجہ خریدنا چاہتے ہیں تا کہ چوہا گردی سے نجات حاصل کر سکیں۔ صنعت کاروں کی بھی بن آئی اور اب وہ دھڑا دھڑ چوہے دان بنانے میں مصروف ہیں۔ انجمن تاجران چوہے دان، چوہا بازار عدم آباد کے ہنگامی اجلاس میں طلب کے مطابق چوہے دان اور شکنجے کی رسد کو یقینی بنانے پر غور کیا گیا۔ صنعت کاروں کا خیال ہے کہ آدم خور چوہے پوری دنیا میں موجود ہیں اس لیے چوہے دان اور شکنجے بر آمد کرنے سے قیمتی زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ والدین کو اپنے کم سن شیر خوار بچوں کے لیے دودھ کی اتنی فکر نہیں جتنی انھیں اپنے نونہالوں کو چوہوں سے بچانے کی فکر ہے۔ وہ سب اس غم میں ہلکان ہو رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی غفلت یا کسی مصروفیت سے نا جائز فائدہ اٹھا کر کوئی چوہا ان کے جگر گوشے کے رخ روشن پر دانت گاڑ دے اور وہ دانت پیستے رہ جائیں۔ اس کے بعد جب بچہ لہو لہان ہو جائے تو معالج کی بھاری فیس اور بچے کے علاج معالجے پر زر کثیر خرچ کرنا پڑے اور وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ حال آں کہ اس میں یاس و ہراس کی کوئی وجہ نہیں۔ ہاں حیرت کی بات ضرور ہے کہ شفا خانے کی انتظامیہ اس رسوائے زمانہ بلی کی خدمات حاصل کرنے میں کیوں ناکام رہی جس نے نو سو چوہے کھانے کا ریکارڈ قائم کیا اور پھر بنارس کے ایک مندر میں گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ ایسی تارک الدنیا بلیاں اپنے چوہا خوری کے طویل تجربے سے انسانیت کو چو ہوں کی ایذا رسانی سے بچا سکتی ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں چوہے اور بلی کا جو کھیل اور شکار دیکھنے میں آ رہا ہے وہ اہل دانش کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات اب قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ اب تو جس کی بلی اسی کا چوہا والی کیفیت ہر طرف دیکھنے والوں کا منہ چڑا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں لوگ گھروں کی حفاظت کے لیے کتے پالتے تھے پھر المیہ یہ ہوا کہ یہ کتے چوروں سے ساز باز کر لیتے اور اس طرح چوروں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا۔ آج بھی ایسی ہی صورت حال ہے ہر طرف کتوں اور چوروں کی ملی بھگت ہے اور بلی نے بھی چوہوں کے ساتھ اپنے تعلقات کار قائم کر لیے ہیں اور ہر طرف نُورا کُشتی کی کیفیت ہے۔ آبادیوں میں بلی اور چوہے اب پر امن بقائے باہمی کے اصول کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ پرانے مطلق العنان بادشاہوں کے عدل کے بارے میں بے پر کی اڑائی جاتی تھی کہ ان سفاک آمروں کے عہد میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ آج کے عہد کے ادل کے مطابق جو بات مشہور ہے وہ پر بھی رکھتی ہے اور طاقت پرواز بھی رکھتی ہے۔ قصہ یہ ہے کہ آج بلی، کتا اور چوہا ایک ہی کمرے میں گزر بسر کرتے ہیں، وہیں مل کر چیزوں کا تیا پانچہ کرتے ہیں، ان کے بخیے ادھیڑتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کو گزند نہیں پہنچاتے۔ کیسا زمانہ آ گیا ہے ہر کوئی اپنی فضا میں دیوانہ وار مست پھرتا ہے، فاختائیں اور گلچھرے اڑانا آج کے نیرو کا محبوب مشغلہ ہے۔ چوہا بل میں سما نے سے رہا مگر دم سے چھاج باندھے ہر طرف اودھم مچانے میں مصروف ہے۔ چوہا کنی میں پلنے والے سانپ تلے کے بچھو ہر طرف ڈنک مارنے کے لیے مو جود ہیں۔ مشکوک نسب کے جن سفہاکے گھر میں چوہے کا بچہ بھی نہیں وہ بھی اپنے اہل و عیال کے لیے کالا دھن سمیٹنے، مال مفت بٹورنے، مجبوروں کے حقوق غصب کرنے اور جائدادیں ہتھیانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہ ایک طرفہ تماشا ہے کہ چوہے کے ہاتھ ہلدی کیا لگی کہ اس نے خود کو پنساری سمجھنا شروع کر دیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ چوہے کا جنا ہمیشہ بِل کی تلاش میں در در کی خاک چھانتا ہے۔ ایسے چوہوں کو فطرت کی تعز لشعرا ا لا، اَدا بن کر بیانیروں سے غافل نہیں رہنا چاہیے، سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے، یہی غاصب چوہے جو روم کو جلتا دیکھ کر دیپک راگ الاپ کر اپنی آدم خوری پر دم ہلاتے، دانت نکالتے اور چلاتے پھرتے ہیں کل یہ بل ڈھونڈتے پھریں گے مگر ان کو جہاں میں کہیں بھی اماں نہ مل سکے گی۔
کسی جنگل میں ایک شیر رہتا تھا۔ اس درندے نے پورے جنگل میں جنگل کا قانون پوری مار دھاڑ کے ساتھ لاگو کر رکھا تھا۔ موسم گرما کی ایک دوپہر تھی شیر گرمی کی شدت سے گھبرا کر اپنی کچھار سے نکلا اور ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے لیٹ کر سستانے لگا۔ جلد ہی اس کے خراٹوں کی آواز سن کر نزدیکی بل سے ایک بے وقوف، بے ضمیر، بے حس اور بُزدل چوہا نکلا اور شیر کے جسم پر اچھل کود کر اپنی جعلی طاقت کا مظاہرہ کرنے لگا۔ جوں ہی اس چوہے نے شیر کی ناک کے بال نوچے شیر نے اسے پکڑ لیا اور زور سے دہاڑا ’’کون ہو تم ؟تمھاری یہ تاب اور مجال کہ تم جنگل کے بادشاہ کے جسم کو روندتے ہو۔ اے نا ہنجار، بے وقعت اور حقیر چوہے تم مردود خلائق ہو۔ آج تمھیں اس گستاخی کی سزا ضرور ملے گی اور تمھیں عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا۔ ذات کی کوڑھ کر لی اور شہتیروں کو جپھے۔ ‘‘اس سے قبل کہ درندہ اسے اپنا ایک خشک نوالہ بناتا چوہے نے آہ بھر کر کہا :
’’ میں چھوٹا سا اک چوہا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے۔ مجھے آزاد کر دو، ہو سکتا ہے کسی روز میں تمھارے کام آ جاؤں اور میری رہائی تمھارے لیے اچھا شگون بن جائے۔ ‘‘
یہ سن کر شیر نے حقارت سے چوہے کو دیکھا اور دہاڑا ’’شیر بھوک سے مر تو سکتا ہے مگر کبھی گھاس نہیں چرتا۔ شیر جان کی بازی ہار سکتا ہے مگر کبھی ایک حقیر، ناتواں اور خاکِ راہ میں پڑے چوہے سے اپنی جان بچانے کی التجا نہیں کر سکتا یا مشکل گھڑی اسے مدد کے لیے نہیں پکار سکتا۔ ایسی سوچ پر تو رونے کو جی چاہتا ہے۔ جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے بھاگ جا میں جنگل کا بادشاہ ہوں۔ مجھے کسی چوہے کی مدد کی ضرورت نہیں۔ ‘‘یہ کہہ کر شیر نے چوہے کو زمین پر دُور پٹخ دیا اور چوہا دم ہلاتا، دانت نکالتا اپنے بل میں جا گھسا۔ چوہے کو یقین تھا کہ یہ خونخوار درندہ جس قدر مغرور ہے وہ ایک نہ ایک دن اپنے انجام کو ضرور پہنچے گا۔ جب اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا ہے تب اسے آٹے دال کے بھاؤ کا علم ہوتا ہے۔ وقت گزرتا رہا۔ شیر اس واقعے کو بھول گیا اور چوہے نے بھی اب اپنی زندگی کے معمولات کو بدل لیا۔ اب وہ اس جانب کا کبھی رخ نہ کرتا جس جانب کسی درندے کی بھنک پڑتی۔ اس چوہے نے اپنے مہا چُوہوں سے یہ سن رکھا تھا کہ طاقت ور کے نہ تو آگے سے گزرو اور نہ ہی اس کے پیچھے سے گزرو۔ صرف اسی طرح تم اپنی اور اپنے بچوں کی جان اور آن بچا سکتے ہو۔
ایک مرتبہ وہی شیر ایک شکاری کے تیار کیے ہوئے مضبوط رسوں کے جال میں پھنس گیا۔ شیر نے پوری قوت آزمائی مگر وہ موٹے سُوتی رسوں سے تیار کیے ہوئے جال کو توڑنے میں بری طرح ناکام ہو گیا۔ شکاری اپنے جال میں پھنسے درندوں کو زندہ پکڑنے کے لیے انھیں بھوک کے عذاب میں مبتلا رکھتے ہیں۔ یہ شیر بھی جال میں پھنسا بھوک سے نڈھال دہاڑ رہا تھا مگر ہر طرف ہو کا عالم تھا کسی نے اس کی فریاد پر کان نہ دھرے۔ جنگل کے بادشاہ کو مصیبت میں دیکھ کر سب رعایا نے آنکھیں پھیر لیں۔ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے اپنا الو سیدھا کرنے کے بعد ہمیشہ اپنی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ کر دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے شیر نے خاک بھی چاٹی اور گھاس بھی چبائی مگر بے سود۔ بھوک کی وجہ سے اب تو شیر کی شیرانہ خو بھی عنقا ہونے لگی تھی۔
سامنے درخت کی شاخوں پر بیٹھے بوم، کرگس، زاغ و زغن اور شپر جنگل کے بادشاہ کی اسیری پر خوش تھے۔ جنگل کے تمام جانوروں نے اس موذی درندے کو جب جال میں پھنسے دیکھا تو انھوں نے سکھ کا سانس لیا۔ شیر کو بھوک کی وجہ سے دن میں تارے نظر آ رہے تھے اوراس کو چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔ ساتھ ہی اس چوہے کا بل تھا جس کے ساتھ کچھ عرصہ پہلے اسیر شیر کا پالا پڑ چکا تھا۔ چوہا بل سے نکلا اور شیر کو دیکھ کر اس نے چپ سادھ لی۔ اس پرانے آشنا چوہے کو دیکھ کر شیر نے ہجوم غم میں دل کو سنبھالتے ہوئے اور چوہے کے سامنے زمین پر ناک رگڑتے ہوئے کہا ’’اے میرے دیرینہ رفیق اور جنگل کے عظیم اثاثے چوہے مجھے پہچانا، میں وہی شیر ہوں جس نے تمھاری جان بخشی کی تھی۔ میں تمھارے پاؤں پڑتا ہوں اور مصیبت کی اس گھڑی میں تم سے مدد کی التجا کرتا ہوں۔ آگے بڑھو اور یہ جال اپنے تیز دانتوں سے کاٹد و میں رہا ہوتے ہی تمھیں اپنا مشیر بناؤں گا اور جنگل کے قانون کے مطابق میرے بعد تم میرے جانشین ہو گے۔ میرے بعد اس جنگل میں چُوہا راج کا آغاز ہو جائے گا اور سُوہا جوڑا پہنے ہر مٹیار چُوہا چُوہا پکاتے پکارتے خود کو چُوہا سمجھنے لگے گی۔ تم میرے محسن بن جاؤ اور میری جان بچاؤ، میں رسوں میں جکڑا بھوک اور پیاس سے مر رہا ہوں اس وقت مجھے تمھاری مدد کی سخت ضرورت ہے۔ اگر تم نے مجھ پر ترس نہ کھایا تو میں کتے کی موت مر جاؤں گا‘‘
’’ لیکن تم نے تو کہا تھا کہ شیر مر تو سکتا ہے مگر وہ کسی چوہے کو مدد کے لیے کبھی نہیں پکارتا۔ جنگل کے بادشاہ کو کسی حقیر چوہے کی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ‘‘ چوہے نے طنز یہ انداز میں کہا ’’اب کہاں گئی وہ تمھاری خونخواری۔ اب میرے سامنے کیوں زمین پر ناک رگڑ رہے ہو؟ اس وقت تو تم اپنی اوقات سے بڑھ کر بات کر رہے تھے۔ ‘‘
’’ تم سچ کہتے ہو چوہے بادشاہ جنگل کے درندوں کو بھی ہمیشہ اپنی اوقات ہی میں رہنا چاہیے۔ ‘‘ شیر نے روتے ہوئے کہا ’’ اپنی اوقات سے بڑھنے والے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے ہیں اور وہ اپنی شناخت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ میرے انتہائی محترم چوہے مجھے تو تم کوئی فلسفی اور ریاضی دان لگتے ہو۔ اب تو مجھے بھی ارسطو کا تصور المیہ یاد ہو گیا ہے۔ اب منطق اور فلسفے کو چھوڑو اور جلدی سے اپنے دانتوں سے جال کی رسیاں کاٹ کر مجھے با ہر نکلنے کا راستہ بنا دو۔ میں تمھارا یہ احسان زندگی بھر نہ بھولوں گا۔ ‘‘
بے وقوف چوہے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور آگے بڑھ کر جال کی رسیاں اپنے تیز دانتوں سے کاٹ دیں۔ شیر جب جال سے باہر نکلا تو اس نے پھر سے درندگی کا سلسلہ شرع کر دیا۔ اب اس نے چوہوں، چھپکلیوں، مینڈکوں، گرگٹ، سانڈوں اور دوسرے حشرات کو ابھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ وہ دن اور آج کا دن چوہوں کو شیر کی سر پرستی حاصل ہے اور چوہا گردی کی ہر واردات کے پیچھے کسی نہ کسی درندے کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ ہر شخص یہ بات اچھ طرح جانتا ہے کہ درندوں کی آشیر باد کے بغیر بھلا ایک بے وقعت اور حقیر چوہا ایک انسان کو کیسے نوچ سکتا ہے ؟
ماہرین علم الحیوانات کا خیال ہے کہ چوہوں کی متعدد اقسام ہیں۔ ان کی کئی انواع، اقسام اور خاندان ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جو چوہا جس جگہ ہے وہ لا جواب ہے۔ اس کا وجود ایک سراب اور پیہم عذاب ہے۔ عالمی ادب پر نظر ڈالیں تو کئی ادبی چوہے بھی مل جاتے ہیں۔ نقادوں کی رائے ہے کہ اس قماش کے چوہے چربہ سازی، سرقہ، جعل سازی، نقالی اور کفن چوری میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ چوہے ضخیم کلیات، تصانیف اور دواوین کتر کر اپنے پیٹ میں ٹھونس لیتے ہیں۔ خوب جگالی کر کے اسے ہضم کر لیتے ہیں اور پھر جب اگلتے ہیں تواس پر ان کا نام کندہ ہوتا ہے۔ کئی متشاعر اسی نوعیت کی واردات کرتے پکڑے گئے مگر ہر بار جال کتر کر بل میں جا گھسے۔ سچ ہے لاتوں کے چوہے باتوں سے کب مانتے ہیں ؟شاہ دولہ کے چوہے اپنی شکل و صورت کے اعتبار سے بہت معصوم مگر مظلوم دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں بردہ فروش گداگری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کے فراعنہ غریب اقوام کے بے بس لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو شاہ دولہ کے چوہوں کے ساتھ ان کا آقا کرتا ہے۔ ان سپر طاقتوں کے سامنے غریب ممالک کے عوام شاہ دولہ کے چوہوں کے مانند ہیں مانگ کر کماتے تو شاہ دولہ کے چوہے ہیں مگر ان چوہوں کی کمائی پر داد عیش دینے والے ان کے مالک ہیں جو کہ ان کو بہ طور آلۂ کار استعمال کرتے ہیں اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے پھرتے ہیں۔ جنگلی چوہے صحراؤں اور جنگلوں میں رہتے ہیں اور خود رو جڑی بوٹیوں پر گزار کرتے ہیں۔ شہری چوہے گنجان آبادیوں میں رہتے ہیں ان کی پسندیدہ غذا فاسٹ فوڈ ہے۔ فصلی چوہے بھی فصلی بٹیروں کی طرح کھیتوں کی فصلوں کو کھا جاتے ہیں۔ اس میں وہ کچی یا پکی فصل کا کوئی امتیاز نہیں کرتے۔ زندگی کا کوئی شعبہ چوہوں کی غاصبانہ دستبرد سے محفوظ نہیں۔
نو سو چوہے کھا کرتا رک الدنیا ہو کر گوشہ نشین ہونے والی ایک بھیگی بلی نے ایسا سوانگ رچایا کہ کئی آزمودہ کار، جہاں دیدہ اورسرد گرم چشیدہ چوہے بھی اس کے دام فریب میں آ کر اس کے عقیدت مند بن گئے۔ ضعیفی کی کہولت کے باعث وہ بلی اب بیماری، بڑھاپے اور کمزوری کے باعث، جھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کی تاب سے یکسر محروم ہو چکی تھی۔ مفت میں ملنے والے چوہوں کے شکار کی سہولت بھی اسے میسر نہ تھی اب محض اپنے حواری چوہوں پر ہی اس کی گزر بسر ہوتی تھی۔ اس مسکین گربہ نے چو ہا آشتی کو اپنا وتیرہ بنا رکھا تھا۔ جب بھی کوئی چوہا دم بھر کے لیے غافل ہو کر اپنی حفاظت کے اولین کام سے غفلت کا مرتکب ہوتا تو بلی اس چوہے کا اسی وقت کام تمام کر دیتی۔ ایک مر تبہ اس بلی نے کوڑے کے ڈھیر کو سونگھنے، وہاں سے اپنے مفادات کے استخواں چننے اور اپنے نزدیک دم ہلانے والے ایک چوہے کو دبوچا مگر چوہا تیز نکلا وہ دم دبا کر بھاگا مگر بلی نے بھاگتے ہوئے اس بزدل چوہے کی دم کاٹ لی تھی۔ اب چوہا اپنے بل میں جا گھسا وہاں سے دم کٹے چوہے نے درد کی شدت سے کراہتے ہوئے باہر جھانکا تو اس کھسیانی بلی نے کھمبا نوچنے کے بجائے مفرور چوہے کی دُم کو دانتوں کے نیچے پیستے ہوئے کہا :
’’ اے میرے پیارے چوہے !یہ تمھاری دم میرے پاس امانت ہے۔ یہ تو میں پیار سے تمھاری دم کو چوم رہی تھی کہ تم بلاوجہ ڈر کے بھاگ نکلے اور تمھاری نازک دُم میرے ہونٹوں میں رہ گئی اور تم لنڈورے ہو گئے ہو۔ اب دیر نہ کرو جلدی میری آغوش میں سمٹ آؤ تاکہ میں اس دم کو پیوند کاری کے ذریعے پھر سے تمھارے جسم کا حصہ بنا دوں۔ اس طرح تم پہلے کی طرح دل ربا، خوب صورت اور حسین و جمیل نظر آ نے لگو گے۔ ‘‘
وہ چوہا بھی اس سازش اور مکر کی چال کو سمجھ گیا اس نے بلی کی شرم ناک حرکت کے جواب میں اپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا :‘‘بخشو بی بلی !چوہا لنڈورا ہی بھلا ‘‘
کسی گاؤں میں چوہوں کی اس قدر فراوانی تھی کی جس طرف بھی آنکھ اٹھتی چوہے ہی چوہے دکھائی دیتے۔ چوہے پل بھر میں اناج کے گوداموں کا صفایا کر دیتے۔ چوہوں کی اس خطرناک چوہا گردی نے کئی گھونسلے اجاڑ دئیے۔ سانپ، بچھو، نیولے، مینڈک اور کئی حشرات وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔ وہ جو نہ تین میں تھے نہ تیرہ میں وہ ہر طرف دندناتے پھرتے تھے۔ جو بھی تین پانچ کرتا اسے بارہ پتھر کر دیا جاتا۔ ایک رئیس تاجر کے پاس سو من لو ہا تھا اس نے اپنے ایک خسیس پڑوسی کے پاس وہ سو من لوہا امانت رکھا اور خود قسمت آزمائی کرنے کے لیے ایک دور دراز ملک کی جانب سدھار گیا۔ دس سال کے بعد واپس آیا تو اس نے اپنے اس حریص پڑوسی سے اپنی امانت سو من لوہا طلب کیا۔ پڑوسی نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ وہ تمام لوہا تو چوہے کھا گئے ہیں۔ تم تو اچھی طرح جانتے ہو یہاں کے چوہے تو ریل کی پٹڑیاں تک ہضم کر گئے ہیں۔ تاجر چپ ہو گیا اور جب با ہر نکلا تو اس نے پڑوسی کا چھ سالہ بچہ اٹھایا اوراسے اپنے گھرکے کمرے میں بند کر دیا۔ شام ہوتے ہی جب بچہ گھر نہ پہنچا تو اس کی تلاش شروع ہو گئی۔ اس عیار پڑوسی نے تاجر سے اپنے بچے کی گم شدگی کے بارے میں پوچھا تو تا جر نے کہا ’’میں نے بچے کو دیکھا تھا اسے تو آج سہ پہر ایک چیل اٹھا کر اڑی جا رہی تھی ‘‘
یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟‘‘پڑوسی نے آگ بگولا ہو کر کہا ’’بارہ کلو کے بچے کو ایک کلو کی چیل کیسے اٹھا کر ہوا میں اونچی اڑان بھر سکتی ہے ؟میاں ہوش کے ناخن لو۔ لگتا ہے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بعد تمھاری مثال بھی دھوبی کے اس کتے کی ہو چکی ہے جو نہ تو گھر کا رہا اور نہ ہی گھاٹ کا۔ ‘‘
’’میں نے تمھاری بات کا اعتبار کر لیا مگر تم میری بات کو ماننے سے انکار کر رہے ہو ‘‘تاجر نے تحمل سے کہا ’’جس بد قسمت گاؤں کے خونخوار چوہے سو من لوہا کھا سکتے ہیں وہاں کی چیلیں تو ہاتھی کو بھی اٹھا کر ماؤنٹ ایورسٹ پر اپنے گھونسلے میں لے جا سکتی ہیں اور اس کی تکا بوٹی کر سکتی ہیں۔ ‘‘
اس عیار پڑوسی کو جلد ہی اپنی بے ضمیری، بے غیرتی، بے حسی اور شقاوت آمیز نا انصافی کا احساس ہو گیا اس نے تاجر کو سو من لوہا واپس کر دیا اور اپنا بچہ گھر لے آیا۔ اب وہ کہہ رہا تھا کہ صبح کا بھولا اگر شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہ سمجھا جائے۔ اس گاؤں میں چوہے اب بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں مگر وہ عارض کو نوچتے ہیں اور ان کی زندگانی محض عارضی ہو کر رہ گئی ہے۔
عالمی ادب میں چوہوں کو ہمیشہ اہم مقام حاصل رہا ہے۔ چوہوں کے بارے میں بچوں کا ادب بڑی توجہ سے پڑھا جاتا ہے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے بچوں کے لیے جو نظمیں لکھی ہیں ان میں کئی نظمیں چوہوں کے موضوع پر ہیں۔ ان میں سے ایک نظم تو بہت پر لطف ہے جس میں پانچ چوہے شکار کی غرض سے بل سے باہر نکل کر بلبلاتے ہوئے صحرا کی جانب روانہ ہو تے ہیں۔ ایک چوہا پیچھے رہ جاتا ہے اور اس کا کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔ مایوسی کے عالم میں باقی رہ جانے والے چار پریشان حال چوہے ہجر و فراق سے آہیں بھرتے ہیں اور شدت غم سے نڈھال ہو کر بین بجانے لگتے ہیں۔ شاید ان چوہوں نے بھینس کے آگے بین بجائی ہو گی کہ ان میں سے ایک کو کھانسی کا جان لیوا دورہ پڑا اور وہ چل بسا۔ ظاہر ہے بھینس کے آگے بین بجانا اور اندھے کے آگے رونا اپنی بصارت اور جان کا زیان ہے۔ اب باقی تین چوہے اس قدر دل برداشتہ ہو گئے کہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب شکار تو ہونے سے رہا۔ اجل کے ہاتھوں وہ خود شکار ہو رہے تھے اس لیے گھر کو بھاگ جانا ہی مصلحت تھی۔ ان تین چوہوں میں سے ایک نے اس تجویز سے اتفاق نہ کیا۔ اس کی مثالاس پسر کی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ باپ نہ ماری پدی اور بیٹا تیر انداز۔ وہ اپنے زعم میں پیشہ ور شکاری بن کر اکیلا شکار کو چل نکلا اور کسی حادثے کا شکار ہو گیا۔ اب پانچ میں سے صرف دو چوہے باقی رہ گئے تھے یہ دونوں چوہے بہت ہی نیک تھے۔ ان نیک چوہوں کی نیکی اور سادگی کو دیکھ کر ایک فربہ چوہے کو بلی نے اپنے طعام کے لیے منتخب کر لیا اور اب ان پانچ شکاری چوہوں میں سے صرف ایک زندہ باقی بچ گیا۔ اس ایک چوہے کے سر میں محبت کا خناس سما گیا اور اس نے پیار کی شادی کر لی۔ اس کی شادی ایک جھگڑالو چوہیا سے ہو گئی اور اس طرح وہ بھی تباہ ہو گیا۔ سچ ہے جب کسی کی بد قسمتی اسے دبوچ لیتی ہے تو خواہ وہ اونٹ کی پشت پر بھی سوار ہو اسے باؤلا کتا کاٹ لیتا ہے۔ تقدیر کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ان پانچ شکاری چوہوں نے اپنی موت کا سامان خود کر لیا تھا۔ اس نظم میں صوفی غلام مصطفی ٰ تبسم نے بچوں کو یہی سبق سمجھایا ہے کہ عاقبت نا اندیش چوہوں نے اپنی تباہی کے تابوت میں خود ہی کیل ٹھو نک دی تھی۔
ایک مرتبہ چوہوں نے بلی کی دہشت گردی اور چوہا دشمنی سے تنگ آ کر ایک بین الجنگلاتی چوہا کانفرنس طلب کی۔ دور ویرانے میں ایک کھنڈر میں بڑے بڑے چوہے مل بیٹھے اور بلی کی خونریزی سے بچنے کے لیے ایک فارمولے پر سب متفق ہو گئے۔ یہ طے ہوا کے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دی جائے تا کہ جوں ہی بلی چلتی ہوئی آئے گھنٹی کی آوازسن کر سب چوہے اپنے اپنے بل میں دبک جائیں۔ ایک فربہ چوہا بھیجا گیا جو ایک کھیت میں لیٹے ہوئے بیل کے گلے میں بندھی گھنٹی اپنے تیز دانتوں سے کاٹ لایا۔ اس گھنٹی کے ساتھ ایک دھاگہ بھی تھا جو کہ بلی کے گلے میں باندھنے کے لیے درکار تھا۔ اب چوہوں کے سردار نے کہا کہ تم میں سے کون سورما چوہا ہے جو بلی کے گلے میں یہ گھنٹی باندھے گا۔ یہ سننا تھا کہ سب چوہوں کی گھگھی بندھ گئی اور وہ سب وہاں سے رفو چکر ہو گئے۔
جب سے چوہوں نے گھروں میں ڈیرے ڈالے ہیں اہل درد قبروں میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چوہوں نے اپنے بالوں میں پسو ہی نہیں انسانی عقوبت کے تمام سامان سمیٹ رکھے ہیں۔ پسو تو طاعون پھیلانے کے ذمہ دار ہیں مگر چوہے تو اب انسانی خون سے ہو لی کھیل رہے ہیں۔ جس طرح زمیں چوہوں سے بھرتی جا رہی ہے ایسا رنگ آسماں اب دیکھنے کو کہاں سے جگر آئے۔ اب تو چوہوں نے اس قدر قریب بستیاں بسا لی ہیں کہ ہر گلی کوچے میں چوہوں کے انبوہ مو جود ہیں۔ گلیاں، نالیاں، گھر، محلے، چوپال، ہسپتال، مدرسے، کھیت کھلیان، دفاتر اور شاہراہیں جدھر دیکھو چوہوں نے سارا نظام تلپٹ کر کے لٹیا ہی ڈبو دی ہے۔ رنگیلے مغل حکم ران کو جب دلی پر نادر شاہ کی چڑھائی کی اطلاع ملی اور کابل سے افواج کے کوچ کا علم ہوا تو اس شاہ بے خبر نے عالم خواب میں کہا کہ ہنوز دلی دور است۔ آج کے دور میں ا س نعرۂمستانہ کو تمام چوہوں نے اپنا دستورالعمل بنا رکھا ہے۔ یہ چوہے بلی کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ ہنوز بلی دور است۔ پھر سانحہ یہ ہوتا ہے کہ بلی ان چوہوں کو نگل جاتی ہے۔ حالات سے شپرانہ چشم پوشی کرنے والے چوہوں نے پورے معاشرتی نظام کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ چوہوں کی ایذا رسانی کی وجہ سے زندگی ایک جبر مسلسل کا روپ دھار گئی ہے۔
محکمہ صحت کے کچھ کور مغز اہل کار اپنے تجزیاتی مطالعہ اور سروے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس طرح کتا مار مہم کے خاطر خواہ نتائج بر آمد نہیں ہوئے اسی طرح چوہے مار مہم کی صورت حال بھی غیر امید افزا دکھائی دیتی ہے۔ یکم اپریل سال 2016 کا سورج طلوع ہوا، میں قصہ خوانی بازار پشاور کے عقب میں واقع اپنی کٹیا میں لیٹا تھا۔ سورج کی پہلی کرن میرے کمرے میں داخل ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو موٹے اور کہنہ مشق چو ہے تازہ آج کے تازہ اخبار پر اُچھل رہے تھے۔ میں اسی فکر میں تھا کہ کوئی لاٹھی تلاش کروں جس سے ان خطرناک چوہوں کو بھگاؤں۔ لاٹھی ان کی کاٹھی پر پڑنے سے تو رہی البتہ ممکن ہے اس کے کھڑاک سے یہ ناہنجار، موذی و مکار چو ہے یہاں سے نو دو گیارہ ہو جائیں۔ تلاش بسیار کے باوجود مجھے لاٹھی کہیں سے نہ ملی تو یقین ہو گیا کہ سب لاٹھیاں بھینسوں کو ہانکنے والوں نے کب سے اُچک لی ہیں۔ نیرو کی بین اور بانسری بھی اب بھینسوں کے آگے بجانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ میں اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ اچانک دروازے پر زور سے دستک ہوئی، کیا دیکھتا ہوں کہ دو مفت خور، لیموں نچوڑ تیس مار خان قماش کے مسخرے ناصف بقال اور زادو لدھیک اپنے ہاتھوں میں بیس سے زائد موٹے موٹے مردہ چوہے پکڑے ہنہنا رہے تھے۔ میں نے جوں ہی کمرے کا دروازہ کھولا یہ دونوں تیزی سے اندر گھس گئے اور اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے طاعون آلودہ مُردہ چوہے فرش کی صاف ستھری دری پر رکھ کر میز پر پڑے اخبار پر جھپٹے اور اپنا کمبل پھینک کر دونوں چوہے دبوچ لیے۔ اس کے بعد کمبل پر رقص ابلیس شروع کر دیا۔ اس اچھل کُود میں انھوں نے چوہوں کو کچل کر ان کا بھر کس نکال دیا۔ مردہ چوہوں کو اٹھا کر اسی ڈھیر میں رکھ دیا جہاں پہلے ان کے مارے ہوئے چوہے پڑے تھے۔ میں حیرت سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اچانک کرگس زادہ زادو لدھیک کفن پھاڑ کر بولا :
’’ اب وہ دِن گئے جب ناصف بقال خان اور زادو لدھیک اپنے اپنے گھر میں پڑے مکھیاں مارتے تھے۔ اب تو ہم چُو ہے ماریں گے۔ ‘‘
’’تم نے آج کا اخبار نہیں پڑھا؟‘‘ ناصف بقال نے اپنی بُوم جیسی آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا ’’ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے ایک چوہے کے سر کی قیمت پچیس روپے جب کہ پشاور کینٹ کی انتظامیہ نے ایک چوہے کے سر کی قیمت چار سو روپے مقرر کی ہے۔ ‘‘
یہ کہہ کر اس نے اخبار میری طرف بڑھایا۔ میں یہ خبر پڑھ کر دِل ہی دِل میں بہت خوش ہوا کہ اب بے روزگار لوگوں کے لیے کام کے مواقع پیدا ہونے کی اُمید بندھ گئی ہے۔ وہ جو مثل مشہور ہے کہ بے کار نہ بیٹھو کچھ کیا کرو، اگر کرنے کو کچھ بھی نہ ہو تو اپنے پہنے ہوئے کپڑے اُدھیڑ کر سیا کرو۔ اس مشورے پر عمل کرنا تو ممکن نہیں مگر چوہے مارنے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ ان کی عفونت کے باعث طاعون جیسا مہلک مرض پھیل رہا ہے۔ مجھے گہری سوچ میں گم دیکھ کر ناصف بقال نے کہا:
’’آج صبح سے میں نے اور زادو لُدھیک نے مِل کر ایک سو چوہے ہلاک کیے ہیں۔ چونکہ ہم حساب کتاب میں تیز نہیں اس لیے قصہ خوانی بازار کے بہی کھاتہ کے ماہر رنگو نے ہمیں بتایا ہے کہ ایک سو چوہوں کے عوض ہمیں تین ہزار روپے کی خطیر رقم ملے گی۔ ‘‘
زادو لُدھیک کی باچھیں کھل گئیں اور وہ بغلیں بجانے لگا ’’اب کوئی بِل محفوظ نہیں رہے گا، چوہا جہاں بھی ملے گا ہم اسے پکڑیں گے اور مال بنائیں گے۔ ‘‘
ناصف بقال نے اپنے منھ سے بہنے والا جھاگ صاف کرتے ہوئے کہا ’’ چوہے جس قسم کے بھی ہوں وہ ہماری دسترس میں ہیں یہاں تک کہ شاہ دولہ کے چوہے بھی اب ہم سے بچ نہ پائیں گے۔ ‘‘
محکمہ امداد بے رحمیِ حیوانات و حشرات کا خیال ہے کہ چوہوں نے اپنی مجرمانہ چالوں سے اپنے انسداد کی ہر تدبیر کو نا کام بنا نے کی ٹھان لی ہے۔ چوہے اور بلی کی ملی بھگت سے حالات روز بہ روز ابتر ہو تے چلے جا رہے ہیں۔ آج کا انسان صحت، سلامتی اور سکون قلب کی تلاش میں سر گرداں ہے لیکن چوہوں نے اسے سکوت کے صحرا اور سرابوں کے عذابوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ آج چوہوں کے بل کے کنارے کھڑے ہو کر لوگ اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیر جہاں کا حاصل ما سوائے حسرت و حیرت کے کچھ بھی تو نہیں۔ کل شام ایک دیوانہ ایک چوہے کے بل کے سامنے کھڑا پکار رہا تھا کہ یہاں کوئی ہے کہ نہیں ہے۔ شاید وہ موج تلاطم سے گھبرا کر اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکا۔ دریا کی روانی اور چوہوں کی ایذا رسانی کے آگے بند باندھنا بہت کٹھن مر حلہ ہے۔ چوہوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے بہت منصو بے بنائے جاتے ہیں۔ ہر بار امید تو بندھ جاتی ہے لیکن یقین نہیں آتا۔ کھیتوں، کھلیانوں، جھونپڑ یوں، مکانوں، گلستانوں اور بیابانوں میں موجود چوہے زبان حال سے چوہا مار مہم میں شامل ناصف بقال اور زادو لدھیک قماش کے بے بصر اور کور مغز مسخروں کا منھ چڑا کر کہتے ہیں کہ تم کتنے چُوہے مارو گے ہر بِل سے چوہا نکل کر سب وسائل کو نگل لے گا۔ بلائے نا گہانی کی صورت میں سنائی دینے والی یہ آواز سننے کے بعد یہ خوف دل میں گھر کر جاتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ گھر کے بھیدی ہی چوہوں کی افزائش میں اہم کردار ادا کر رہے ہوں۔ چوہوں کے پیچ و تاب کو دیکھ کر ہمارے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی زندگی اور سماجی معاملات میں چوہوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے التفات نے زندگی کو طومار اغلاط بنا دیا ہے۔ باغباں اگر برق و شرر سے ساز باز کر لیں تو باغ کی ہر شاخ پر بوم و شپر اور زاغ و زغن کا بسیرا ہوتا ہے۔ جہاں پہلے سر و صنوبر اگا کرتے تھے وہاں حنظل اور زقوم سر اٹھانے لگتے ہیں۔ اسی طرح اگر انسانوں کی رہائشی بستیوں میں اگر چوہے اور دوسرے حشرات کثرت سے گھس آئیں تو یہ زندگی کے لیے بہت برا شگون ہے۔ یہ بے حسی کی نشانی ہے کہ رتیں بے ثمر، کلیاں شرر، زندگیاں پر خطر، آہیں بے اثر اور آبادیاں خوں میں تر کر دی گئی ہیں۔ ان سب آلام کے پس پردہ خون آشام اور آدم خور چوہے ہیں جو خونریزی کے بعد اپنے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان چوہوں اور ان کے تمام بلوں کو نیست و نابود کر دیا جائے۔
٭٭٭