نئے پاکستانی رسائل
تبصرہ نگار :ڈاکٹر غلام شبیر رانا
ماہ نامہ نیرنگِ خیال،جلد۹۰،شمارہ ۴،اپریل ۲۰۱۴
ادبی مجلہ ـ’’ ماہ نامہ نیرنگِ خیال ‘‘پاکستان کا مقبول ادبی مجلہ ہے۔اس رجحان ساز ادبی مجلے نے ۱۹۲۴ میں روشنی کے سفر کا آغاز کیا۔ یہ مجلہ ممتاز دانش ور حکیم محمد یوسف حسن (مرحوم)کی یاد میں شائع ہوتا ہے۔اس مجلے کے سر پرست حسین طارق ہیں۔گزشتہ کئی سال سے یہ مجلہ مقبول شاعر زیرک اور مستعد ادیب سلطان رشک کی ادارت میں راول پنڈی سے بڑے اہتمام سے شائع ہوتا ہے۔پُوری دُنیا میں اس مجلے کے قارئین اور قلمی معاونین موجود ہیں۔ نیرنگِ خیال نے اب ایک دبستانِ علم و ادب کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اس قدیم اور تاریخی مجلے نے اپنی کئی خاص اشاعتوں سے قارئینِ ادب کے ذوق سلیم کی تسکین کا اہتمام کیا۔موجودہ زمانے کے متعدد بڑے ادیبوں نے جو اس وقت اُفقِ ادب پر مثل آفتاب و ماہتاب ضو فشاں ہیں،تخلیقِ ادب کے سفر کا آغاز جن مجلات سے کیا ان میں نیرنگِ خیال بھی شامل ہے۔اس وقت نیرنگ خیال کا ماہ اپریل ۲۰۱۴کا شمارہ پیشِ نظر ہے۔ مجلے کے آغاز میں پروفیسر باقر رضا زیدی اور عمران نقوی حطاروی کی دو نعتیں شامل ہیں۔اس کے بعد مقالات و مضامین کا حصہ ہے جس میں تین وقیع مضامین شامل ہیں۔پروفیسر عبدالمغنی نے اپنے مضمون ’’مولانا ابوالکلام آزاد کا اسلوبِ نگارش ‘‘میں اہم تنقیدی امور کی جانب توجہ دی ہے۔اکرام بریلوی نے اپنے تجزیاتی مضمون ’’کلاسیکی سکول کا آخری شاعر:صبا اکبر آبادی ‘‘اس عظیم مرثیہ گو شاعر کے اسلوب پر مدلل انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔محترمہ اقراء یوسف کا مضمون ’’خودی کیا ہے ‘‘افادیت سے لبریز ہے۔ علامہ اقبال نے خودی کے بارے میں کہا تھا :
یہ موجِ نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
اس کے بعدافسانے اور طنزو مزاح کا حصہ ہے جس میں قیصر تمکین،مسز راشدہ شعیب،اشرف استھانوی،سبھاش شرما،انجم محموداسد،ڈاکٹر ایس۔ایم معین قریشی اور نجیب عمر کی تازہ تخلیقات شامل ہیں جو اپنا دھنک رنگ منظر نامہ پیش کر کے قاری کو مسحور کر دیتی ہیں۔شاعری کے حصے میں لیفٹیننٹ جنرل(ر)محمود الحسن، سہیل غازی پوری،بشیر احمد مسعود، شمیم عالم،غالب عرفان،سلیم آغا قزلباش،حسن عسکری کاظمی،تمثیلہ لطیف اور سلطان رشک کی افکارِ تازہ سے معطر شاعری قاری کو جہانِ تازہ کی نوید سناتی ہے۔قارئین کے مکاتیب نیرنگِ خیال کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔اس شمارے میں ڈاکٹر ایس۔ایم معین قریشی اور حامد علی سید کے مکاتیب فکر و نظر کے نئے دریچے وا کر رہے ہیں۔آخر میں نئی کتابوں پر تبصرے شامل ہیں۔موجودہ شمارے میں احمد ظہور کے شعری مجموعے ’’وہ کھڑکی اب بھی کھُلتی ہے ‘‘پر سلطان رشک کا تبصرہ شائع ہوا ہے۔ اس مجلے کا مطالعہ کرنے کے بعد قاری آئینہ ء ایام میں اپنی رفتار،گفتار اور ادا کے کے تمام انداز دیکھ سکتا ہے۔
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ہوس نے نوع انساں کو جس انتشار کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے اُس کے مسموم اثرات نے ہر شعبۂ زندگی میں رُتیں بے ثمر کر دی ہیں۔ادبی مجلات کی اشاعت بھی اس اس سے متاثر ہوئی ہے۔ ماضی کے متعدد اہم مجلات جن میں ساقی،ادبی دنیا،افکار،لیل و نہار، قند،نمک دان،زعفران،اقدار،فنون، بادِ شمال،اوراق،عروج اور چناب شامل ہیں اب تاریخ کے طوماروں میں دب چکے ہیں۔ان اعصاب شکن حالات میں چند ادبی مجلات کا وجود غنیمت ہے جو انتہائی کٹھن حالات میں بھی فروغِ علم و ادب کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔وسیع النظر ا دیبوں کے قلمی تعاون سے نیرنگِ خیال نے ہر عہد میں ادب کے وسیلے سے زندگی کے کٹھن مسائل کے احساس و ادراک کی راہ دکھاتے ہوئے سعیء پیہم کو ترازوئے کم و کیفِ حیات سے تعبیر کیا ہے۔ یاس و ہراس کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے اور فرد میں خود اعتمادی کی نمو اور اپنی حقیقت سے آشنا ہونے کی تڑپ پیدا کرنے کے سلسلے میں ادبی مجلات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔بے عملی اور جمود کے تارِ عنکبوت ہٹا کر اس مجلے نے زندگی کے مسائل کی گرہ کشائی کرتے ہوئے عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں جو فقید المثال جد و جہد کی ہے وہ تاریخِ ادب کا اہم واقعہ ہے۔اس کے نتیجے میں قارئینِ ادب میں زندگی کی حقیقی معنویت کے بارے میں مثبت شعورو آگہی پیدا کرنے کی مساعی ثمر بار ہوئیں۔ نیرنگِ خیال کی مسلسل اشاعت فروغِ علم و ادب کا معتبر اور موقر حوالہ ہے۔
ماہ نامہ نیرنگِ خیال کا پتا :۲۲۱نزد پی۔ ایم ہاؤس،لیاقت روڈ راول پنڈی۔رنگین سرِ ورق سے مزین یہ ادبی مجلہ اعلا معیار کے کاغذ پر کمپیوٹر کمپوزنگ میں شائع ہوا ہے۔ چونسٹھ صفحات پر مشتمل اس ادبی مجلے کی قیمت اسّی روپے مقرر کی گئی ہے۔گرانی کے موجودہ زمانے میں یہ قیمت مناسب ہے۔
٭٭٭
الاقربا۔ اسلام آباد
پاکستان کے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد سے مایہ ء ناز ادیب اور دانش ور سید منصور عاقل کی ادارت میں شائع ہونے والا ادبی مجلہ ’’الاقربا ‘‘کامرانی اور مقبولیت کے درخشاں باب رقم کر رہا ہے۔حال ہی میں الاقربا کا سال نامہ ۲۰۱۴ شائع ہوا جو اس مجلے کی عظیم روایات کا مظہر ہے ۔الاقربا کی اس خصوصی اشاعت میں حمد و نعت ، عالمی ادب ،اقبالیات ،یاد رفتگان ،افسانے ،غزل ،نظم ،رباعی ،نقد و نظر خبر نامہ مراسلات،گھریلو ٹوٹکے اور متفرقات کے لیے الگ الگ گوشے مخصوص کیے گئے ہیں ۔مجلسِ ادارت کی محنت ،لگن اور فرض شناسی کے اعجاز سے الاقربا نے وقار اور معیار کی رفعت تک رسائی حاصل کی ہے ۔یہ سال نامہ دو سو بیاسی صفحات پر مشتمل ہے۔اس کی فی شمارہ قیمت دو سو پچاس روپے ہے ۔خط کتابت کا پتا درج ذیل ہے:
دفتر مجلہ الاقربا ،مکان نمبر ۴۶۴،سٹریٹ نمبر ۵۸،آئی۸/۳،اسلام آباد (پاکستان)۔ ای۔میل:alaqreba@hotmail.co
جدید عصری تقاضوں کے مطابق الاقربا اب دنیا بھر کے قارئینِ ادب کے مطالعہ کے لیے انٹرنیٹ پر www.alaqreba.comموجود ہے۔اس مجلے کو براہِ راست دیکھا جا سکتا ہے ۔
الاقربا کی اشاعت سے پاکستانی ادبیات کے فروغ کی مساعی کو بہت تقویت ملی ہے ۔یہ مجلہ پاکستان کے قومی تشخص کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔دنیا بھر میں الاقربا کے قارئین اور قلمی معاونین موجود ہیں ۔ان کی شمولیت سے الاقربا کا ہر شمارہ خصوصی اہمیت کا حامل ثابت ہوتا ہے۔اس مجلے میں قارئین کی دلچسپی کے موضوعات کی فراوانی ہے ۔عالمی شہرت کے حامل ادیب الاقربا کے افق پر مثل آفتاب ضو فشاں ہیں ۔ان کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اکناف عالم کا گوشہ گوشہ منور ہو گیا ہے۔سید منصور عاقل اور ان کے معتمد رفقائے کار کی محنت لائق صد ر شک و تحسین ہے جس کے معجز نما اثر سے یہ مجلہ تخلیقِ ادب کے نئے معائر متعین کر رہا ہے ۔ گزشتہ د و عشروں سے اس رجحان ساز ادبی مجلے کی مسلسل اشاعت سے پاکستانی ادبیات کو اقوام ِ عالم میں ثروت مند بنانے میں مدد ملی ہے۔اس سلسلے میں مجلسِ ادارت کی مساعی لائقِ تحسین ہیں ۔
٭٭٭
کولاژ۔کراچی
ممتاز ادیب اقبال نظر اور با کمال شاعرہ ،نقاد اور افسانہ نگار محترمہ شاہدہ تبسم کی ادارت میں کراچی سے شائع ہونے والا کتابی سلسلہ ’’کو لاژ‘‘ قارئینِ ادب میں بے حد مقبول ہے ۔ ادبی مجلہ کولاژ کا تیسرا شمارہ مئی ۲۰۱۴میں شائع ہوا ہے۔چھے سو بہتر صفحات پر مشتمل کولاژ کا یہ شمارہ علم و ادب کا ایسا مخزن ہے جس کے اعجاز سے فکر و نظر کو مہمی زکرنے اور اذہان کی تطہیر و تنویر کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔اداریے کے بعد حمد و نعت کا حصہ ہے ۔سلیم کوثر کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری ،ڈاکٹر باقر رضا اور جاوید نظر کی ایک ایک نعت شامل اشاعت ہے۔سلیم کوثر کی شاعری قلب و نظر کی گہرائیوں میں اُتر کر روح کو وجدانی کیفیت سے آشنا کرتی ہے ۔توحید اور رسالت کے حقیقی عشق سے لبریز یہ شاعری قلوب کو مہر و وفا کے ارفع معیار سے متمتع کرتی ہے :
یہ ابتدا جو ہوئی میری چشمِ نم سے ہوئی
بہت دنوں میں مِری دوستی حرم سے ہوئی
نگاہ دِل پہ ہے اور آنکھ رونے والی ہے
یہ وہ گھڑی ہے کہ بس نعت ہونے والی ہے
کولاژ کو موجودہ شمارہ ایک جام جہاں نما کے مانند ہے،جس میں ادب اور فن کی حسین لفظی مرقع نگاری قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔اس میں موضوعات اور مضامین کا تنوع قاری کو جہان ِ تازہ میں پہنچا دیتا ہے۔سبدِ گُل چیں میں جو گُل ہائے رنگ رنگ اپنی عطر بیزی سے مسحور کر رہے ہیں اُن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے :
سب سے پہلے حصہ مضامین ہے جس میں اُنتیس وقیع مضامین شامل ہیں ۔مطالعہ خصوصی کے تحت جلیل ہاشمی کی طویل نظم ’شمائیلہ ‘‘کولاژ کی زینت بنی ہے۔غزلیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلے حصے میں سترہ غزل گو شعرا کا کلام شامل ہے جب کہ دوسرے حصے میں اُنیس شعرا کی غزلیات شائع کی گئی ہیں۔حصہ افسانہ میں اٹھائیس افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانوں کو مجلے میں جگہ ملی ہے۔کولاژ میں اس بار اکیس نظم گو شعرا کی نظمیں مجلے کے معیار اور وقار کو چار چاند لگا رہی ہیں۔گیت کا حصہ بھی اپنے حسن اور دل کشی میں اپنی مثال آپ ہے ۔اس بار شہزاد نئیر ،سید زاہد حیدر اور نصرت اقبال جمشید کے گیتوں سے محفل خوب سجی ہے ۔ڈگر سے ذرا ہٹ کر ایک اہم تحریر ہے جس میں سہیل مقبول کی گُل افشانی گفتار فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتی ہے۔ممتاز ادیب ستیہ پال آنند کی شخصیت اور فن پر ایک گوشہ مخصوص کیا گیا ہے ۔فن اور فن کار کے عنوان سے کولاژ کی موجودہ اشاعت میں بہت دلچسپ مضامین شائع ہوئے ہیں ۔ثریا ،موسیقی ،شام چوراسی گھرانہ ،طلعت محمود ،جھلواڑ میں رقاصہ ککّی کا مقبرہ ایسے مضامین ہیں جن کے مطالعہ سے ادب ،تاریخ اور تہذیب و ثقافت کے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی سعی کی گئی ہے۔میورل اور رپورتاژ کی اپنی دل کشی ہے جو قاری کو ایک جہان ِ تازہ کی جھلک دکھا رہی ہے ۔آرٹ کے حصے میں فرحان احمد جمالوی ،عروسہ جمالوی اور نسیم نیشوفوز نے خوب رنگ جمایا ہے ۔تبصرے کے عنوان سے سات کتب پر تجزیاتی مطالعے شاملِ اشاعت ہیں ۔کولاژ کا ایک اور منفرد حصہ ’’ایک کتاب دو تبصرے ‘‘ہے ۔اس میں اسد واحدی کے انتہائی دلچسپ اور فکر انگیز ناول ’’جہاں اندر جہاں ‘‘پر عباس رضوی اور ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے اپنی بے لاگ رائے پیش کی ہے ۔قارئین کے خطوط کے حصے میں بائیس مکاتیب حریتِ فکر کا اعلا ترین معیار پیش کر رہے ہیں ۔محترمہ شاہدہ تبسم اور اقبال نظر پر مشتمل مجلسِ ادارت کی تخلیقی فعالیت کا اندازہ کولاژ کے ’’مطالعہ ء عمومی ‘‘سے لگایا جا سکتا ہے ۔محترمہ شاہدہ تبسم نے غزل ،نظم ،افسانہ تنقید ،تحقیق اور مضمون نگاری میں اپنے ،منفرد اسلوب سے دلوں کو مسخر کر لیا ہے ۔اقبال نظر کی تحریر درویش نامہ ایک سدا بہار کیفیت کی مظہر ہے ۔مطالعہ عمومی میں شامل اقبال نظر کی چار تحریریں گنجینہ ء معانی کا طلسم ہیں۔بادی النظر میں تو کولاژ کا یہ حصہ مطالعۂ عمومی ہے لیکن اسی حصے کو قارئینِ ادب نے ہمیشہ خصوصی توجہ اور دلچسپی کا مرکز سمجھا ہے ۔اس حصے میں شامل گُل ہائے رنگ رنگ مجلے کی عطر بیزی میں اضافہ کر رہے ہیں ۔
عالمی شہرت یافتہ مصوروں کے نادر و نایاب فن پاروں کو بھی اس بار کولاژ کی زینت بنایا گیا ہے۔ ان تصویروں کے رنگ محوِ تکلم ہیں اور ان کی عنبر فشانی کا عالم ناظرین کو حیرتوں کی دُنیا میں پہنچا دیتا ہے ۔یہ رنگین تصاویر رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں جنھیں دیکھ کر قاری کے ذوقِ سلیم کی تسکین ہوتی ہے۔مجموعی اعتبار سے مجلہ کو لاژ معاصر ادب کا ایک حسین گُل دستہ ہے جس کے مطالعہ سے عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی مساعی کے ثمر بار ہونے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں ۔اس معیار کے ادبی مجلات کی اشاعت پاکستانی ادبیات کے لیے ایک نیک شگون ہے۔اس مجلے کی قیمت فی شمارہ چار سو روپے ہے ۔خط کتابت کا پتا درج ذیل ہے :
کولاژ پبلی کیشنز ،کراچی ۔حفیظ پلازہ ،سیکنڈ فلور ،57،دار الامان کو آپریٹو ہائوسنگ سو سائٹی نزد بلوچ کالونی فلائی اوور ،کراچی :75350،ای میل:collagepak@hotmail.com
٭٭٭
اجرا۔ کراچی
کراچی سے ممتاز دانش ور احسن سلیم کی ادارت میں شائع ہونے والے کتابی سلسلے ’’اجرا‘‘ کا شمارہ ۱۷،بابت جنوری تا مارچ ۲۰۱۴ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔احسن سلیم اور مجلس ادارت کے تمام اراکین نے نہایت محنت سے دانہ دانہ جمع کر کے علم و ادب کے اس خِرمن کو نذرِ قارئین کیا ہے ۔دامانِ گُل چیں کی عطر بیزی قلب و نظر کو مسحور کر رہی ہے۔سب سے پہلے خیابانِ خیال کے عنوان سے اداریے شامل کیے گئے ہیں۔اس کے بعد نشاطِ باریابی کا حصہ ہے ،اس حصے میں حمد اور نعت کے گُل ہائے عقیدت دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر کے قارئین کو توحید و رسالت کے حقیقی عش کے جذبات کی ہمہ گیر اثر آفرینی کے احساس سے سرشار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔نشاطِ باریابی میں آٹھ شعرا کا کلام شامل ہے۔موضوعِ سخن میں مباحث،مسائل اور تصورات شامل ہیں۔اس حصے میں پانچ وقیع تحقیقی اور تنقیدی مضامیں شامل ہیں۔ملاقات اور مکالمہ کا حصہ بہت اہم ہے ۔اس حصے میں عہد ساز فکشن نگار انتظار حسین سے خصوصی مکالمہ شامل ہے۔نیلی بار ناولٹ کا دوسرا حصہ اس شمارے میں شامل ہے۔فلک آثار کے عنوان سے شمارے میں اٹھارہ شعرا کی نظمیں شامل ہیں۔اس کے بعد تین شعرا کی نثری نظمیں بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ابر پارے کے عنوان سے قطعات ،رباعیات ،ہائیکو اور گیت شائع ہوئے ہیں۔اس حصے میں یاور امان اور آفتاب منظر کی تخلیقات قلب و نظر کو مسحو کر رہی ہیں۔مجلے میں علاقائی اور بین الاقوامی ادب کے تراجم ’’مشرق و مغرب‘‘ کی صورت میں پانچ نہایت اہم تراجم موجود ہیں۔مجلے میں غزلیات تین حصوں پر مشتمل ہیں۔اس بھر پور حصے میں ستاون شعرا کی غزلیات شامل ہیں۔نافہء نا یاب میں یادیں ،خاکے ،مضامین اور مشاہیر کے خطوط پر مشتمل چھے تحریروں کو جگہ دی گئی ہے۔اجرا میں افسانے اور کہانیاں ’’داستان سرا ‘‘کے عنوان سے یک جا کر دی گئی ہیں۔اس حصے میں تیئیس افسانہ نگاروں کی تخلیقات موجود ہیں جو مجلے کی وقعت میں اضافہ کر رہے ہیں۔خرد افروزیاں جو تنقیدی ،تحقیقی اور مطالعاتی مضامین کا مخزن ہے،بہت افادیت کا حامل ہے۔اس حصے میں بارہ مضامین موجود ہیں جو مجلے کی ثقاہت میں اضافہ کر رہے ہیں۔طنز و مزاح پر مشتمل حصہ دِل افروزیاں دو شگفتہ تحریروں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔وسعتِ بیاں جس میں کتابوں پر مضامین اور تبصرے شائع ہوتے ہیں ،قارئین ادب میں بہت مقبول ہے۔اس حصے میں اس بار بار مضامین پیش کیے گئے ہیں۔قارئین کے خطوط اور آرا کو ’’زبانِ خلق‘‘ میں شامل کیا گیا ہے۔اس شمارے میں گیارہ خطوط رفتارِ ادب اور گزشتہ شمارے کی تخلیقات کے بارے میں حریت فکر کا اعلا معیار پیش کر رہے ہیں۔مجلہ اجرا ایک ادبی کہکشاں کے مانند ہے جس میں دنیا بھر سے علم و ادب کے درخشندہ ستارے جگمگا رہے ہیں۔اجرا کی ضیا پاشیوں سے ظلمتوں کا خاتمہ ہو گا اور تخلیقی عمل کو مہمیز کرنے میں مدد ملے گی ۔حبس کے ماحول میں افکارِ تازہ کی مہک سے لبریز اجرا جیسے رجحان ساز ادبی مجلے کی اشاعت تازہ ہوا کے ایک جھونکے کی حیثیت رکھتی ہے جو قارئینِ ادب کو فروغِ گلشن و صوت ہزار کے موسم کی نوید سنا رہا ہے ۔موضوعات کا تنوع اور فکر و خیال کی بو قلمونی اجرا کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز ہے ۔اجرا کے قلمی معاونین نے جس انداز میں اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں اس کے قارئین کے احساس و ادراک اور تہذیبی و ثقافتی ارتقا پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔مجلسِ ادارت نے اپنی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے ماضی کے تجربات ،حال کے تجزیات اور مستقبل کے تصورات کی اساس پر تہذیبی ،ثقافتی ،علمی و ادبی اقدار اور فنون لطیفہ کا جو قصر ِ عالی شان تعمیر کرنے کی سعی کی ہے وہ ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہے ۔اجرا کے مطالعہ سے قاری آئینۂ ایام میں زندگی کے جملہ نشیب و فراز کی جھلک دیکھ سکتا ہے ۔
پانچ سو چھہتر صفحات پر مشتمل ،معیاری کاغذ پر کمپیوٹر کمپوز نگ میں شائع ہونے والے اس مجلے کی قیمت چار سو روپے ہے۔خط کتابت کا پتا درجِ ذیل ہے:
دفتر اجرا ،1-G-3/2۔ناظم آباد ،کراچی ،پاکستان۔ای میل ijrakarachi@gmail.com
سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ زمانے میں اجرا کو اقتضائے وقت کے مطابق انٹر نیٹ پر بھی پیش کر دیا گیا ہے ۔دنیا بھر کے با ذوق قارئینِ ادب اس بلند پایہ ادبی مجلے کو اب انٹر نیٹ پر دیکھ سکتے ہیں ۔اس کی ویب سائٹ ہے:ijrakarachi.wordpress.com
اجرا نے گزشتہ چند سال میں ترقی کے جو مدارج طے کیے ہیں وہ مجلسِ ادارت کی سعیء پیہم کا ثبوت ہے ۔ فروغِ علم وا دب کے سلسلے میں احسن سلیم اور ان کے رفقائے کار کی مساعی لائق تحسین ہیں ۔
٭٭٭
ماہنامہ ادب لطیف،لاہور
جلد ۷۹،شمارہ :۳، مارچ ۲۰۱۴
محترمہ صدیقہ بیگم کا تعلق لاہور کے ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے ہے۔ اُن کے والد چودھری برکت علی نے ۱۹۳۶میں ادب لطیف کا اجرا کیا۔ اُس وقت چودھری برکت علی گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم تھے۔ محترمہ صدیقہ بیگم گُزشتہ تین عشروں سے ادب لطیف کی ادارت کے فرائض بہ طریقِ احسن انجام دے رہی ہیں۔ اُن کی ادارت میں لاہو ر سے شائع ہونے والا اُردو زبان کا تاریخی ادبی مجلہ ’’ادبِ لطیف ‘‘پاکستان میں فروغِ علم وا دب کے سلسلے میں گزشتہ آٹھ عشروں سے جو گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے، پُوری دُنیا میں انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حال ہی میں اس رجحان ساز ادبی مجلے کا نیا شمارہ بابت مارچ ۲۰۱۴شائع ہوا ہے۔ یہ شمارہ دو سو اسی صفحات پر مشتمل ہے۔ ادب لطیف کے اس خاص شمارے میں نعت ،مضامین ،رباعیات ،پاکستان کی سیاسی تاریخ ،سر گزشت ،یاد رفتگاں ،نظمیں ،گوشہ اسد محمد خان،کتب،تبصرے ،موصولہ کتب اور خطوط شامل ہیں۔ ممتاز ادیب اس مجلے کے قلمی معاونین میں شامل ہیں۔ تنقیدی و تحقیقی مضامین کا حصہ حسب معمول بہت اہم اور افادیت سے لبریز تحریروں سے معمور ہے۔ نامور ادیب اشفاق احمد کا مضمون ’’غالب کی عشقیہ شاعری تحقیق کے متعدد نئے پہلو سامنے لاتا ہے۔ غالب کی شخصیت کی تفہیم کے سلسلے میں یہ مضمون کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ محمد حمید شاہد کا مضمون ’’اُردوافسانے کا نیا تناظر ‘‘اور نبیلہ کیانی کا مضمون ’’منٹو اور ہم ‘‘اپنے تجزیاتی اسلوب کی وجہ سے بے احد اہم ہیں۔ طہور منصوری نگاہ کی رباعیات ،ایوب خاور ،سلیم شہزاد ،صفدر صدیق رضی ،ڈاکٹر نثارجیراج پُوری اور نسیمِ سحر کی نظمیں مجلے کی اہمیت میں اضافہ کر رہی ہیں۔ سمیع آہوجا اور نجیب عمر کے افسانوں حسن جعفری سید کے تحقیقی مضمون ’’پاکستان کی سیاسی تاریخ اور طارق محمود کی خود نوشت ’’گورنر ہائوس میں ماہ و سال ‘‘نے اس مجلے کے حسن کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ گوشہ اسد محمد خان نہایت محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس گوشے کے مطالعہ سے اسد محمد خان کی شخصیت اوراسلوب کے بارے میں قاری حقیقی شعورو آگہی سے متمتع ہوتا ہے۔ سید انور جاوید یاشمی نے ایوب خاور کی تصنیف ’’محبت کی کتاب‘‘ سے متعارف کرایا ہے۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی دو کتابوں پر انگریزی زبان میں تبصرے شامل اشاعت ہیں۔ یہ کتب کامل حسین اور اطہر قریشی نے لکھی ہیں۔ خطوط کے حصے میں محترمہ الطاف فاطمہ ،ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش اور گوپی چند نارنگ کے مکاتیب شامل اشاعت ہیں۔ موصولہ کتب میں نئی شائع ہونے والی کتب کی فہرست شامل کی گئی ہے۔ مطالعہ کے شائقین اس میںسے اپنی پسند کی کتب کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ یاد رفتگاں میں اس بار شفیع عقیل کو شامل کیا گیا ہے۔ شفیع عقیل پر راقم (ڈاکٹر غلام شبیر رانا ) کا مضمون اس شمارے میں شائع ہوا ہے۔ مجموعی اعتبار سے ادب لطیف کا یہ شمارہ قابلِ مطالعہ ادبی مواد کا ایسا مخزن ہے جس کی عطر بیزی سے قریۂ جاں مہک اُٹھا ہے۔ یہ کام یابی مجلسِ ادار ت کی محنت کا ثبوت ہے۔
٭٭٭