منت کشِ بے رخی
جلیل حیدر لاشاری
جب بھی وہ کسی ویگن یا بس میں بیٹھتا ایک بات ضرور سوچتا کرتا تھا کہ اگر وہ اس گاڑی کی اس سیٹ پر نہ بیٹھا ہوتا تو اور کون اس پر بیٹھا ہوتا؟ وہ اس خیال کو بہت فضول سمجھتا تھا لیکن وہ اب تک اس خیال سے پیچھا نہیں چھڑا سکا تھا، پتہ نہیں کیوں ؟آج بھی جب وہ لاہور جانے کے لیے مسافر کوچ میں بیٹھا تو اسے یہ خیال ایک بار پھر آیا۔ وہ زیرِ لب مسکرایا اور اس خیال کو جھٹک کر کوئی اور بات سوچنے لگ گیا۔ وہ کافی عرصہ بعد ایک بڑے شہر جا رہا تھا۔ وہ اب بھی نہ جاتا اگر اُس کے دوست اور چاہنے والے اسے پُر زور اصرار کر کے نہ بلاتے۔ وہ شاعر ہی ایسا غضب کا تھا کہ ہر کوئی اس سے بات کرنا، اسے دوست بنانا یا کم از کم اسے دیکھنا ضرور چاہتا تھا۔ اس کے دوسرے شعری مجموعے نے تو دنیائے شعر و ادب میں دھوم مچا کے رکھ دی تھی۔ مشاعروں میں اسے بطورِ خاص بلاکر پہروں اس کا کلام سنا جاتا اور ڈھیروں داد دی جاتی۔ شاعری کی دیوی اس پر کیسے مہربان ہو گئی اسے خود بھی پتہ نہیں تھا۔ ایک بڑے شہر کی ادبی تنظیموں نے بطور خاص اسے بلایا اور اس کے ساتھ شام منانے کا پروگرام بنایا تھا۔ مشاعروں میں تو وہ عام طور پر چلا جاتا تھا مگر شاعر کے ساتھ شام منانے والی تقریبوں سے وہ پتہ نہیں کیوں کتراتا تھا۔ وہ کافی دیر تک تو انہیں ٹالتا رہا لیکن دوستوں کے بے حد اصرار پر وہ بڑے شہر کو روانہ ہو گیا۔
وہ گاڑی میں عام طور پر کھڑکی والی سائیڈ پر بیٹھتا تھا اور آج بھی کوچ میں وہ سائیڈ والی سیٹ پر بیٹھا تھا اور باہر کا منظر جو بس کی سپیڈ کے ساتھ بڑی تیزی سے بدل رہا تھا، دیکھے جا رہا تھا۔ ۔ سڑک کنارے درخت بڑی تیزی سے گزر رہے تھے اور کچھ فاصلے پر موجود درخت نسبتاً آہستگی سے منظر سے غائب ہو رہے تھے۔ اس نے یہ منظر پہلے بھی سفر کے دوران کئی دفعہ دیکھا تھا لیکن اس دفعہ وہ یہ منظر دیکھ کر پتہ نہیں کیوں چونکا تھا۔ اسے لگا اس کے قریب رہنے والے لوگ جتنی تیزی سے اس کے قریب آتے ہیں اتنی تیزی سے اس سے دور چلے جاتے ہیں جبکہ دور اور دیر سے آنے والے لوگ دیر تک اس کے ساتھ چلتے رہتے ہیں ۔ یہ خیال سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اچانک اس کے ذہن میں کوندا، اور اس کا ذہن ایک نیا اور اچھوتا خیال پا کر شادمان سا ہو گیا اس نے سوچا اس خیال کو کسی شعر یا نظم میں باندھا جا سکتا ہے ابھی وہ یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ اسکے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ ’’یہ موبائل فون بھی عجیب بلا ہے سارے خیال کا بیڑا غرق کر دیتا ہے‘‘ وہ بڑبڑایا۔
’’ بس آدھے گھنٹے تک لاری اڈے پہنچ جاؤں گا‘‘
اسے یاد آیا جب موبائل فون نہیں آیا تھا اور اس کی یادداشت بھی کافی بہتر تھی تو سفر کے دوران ہی کوئی غزل یا نظم ہو جاتی تھی جسے وہ سفر کے بعد لکھ لیا کرتا تھا۔ اب تو اگر آپ کا موبائل نہیں بھی بجتا تو دوسروں کے موبائل بج بج کے آپ کی ساری یکسوئی ختم کر دیتے ہیں ۔
لاری اڈا پہنچنے پر ایک چمکتی بڑی سفید کار اس کی منتظر تھی جو اسے سیدھا اس تقریب میں لے گئی جہاں اس کا بڑی بے چینی سے انتظار ہو رہا تھا۔ اس کی آمد پر ہال تالیوں سے گونج اُٹھا اور دیر تک حاضرینِ مجلس کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے رہے۔ لوگوں کا جوش خروش اتنا تھا کہ اُسے ایک عوامی لیڈر کی طرح ہاتھ ہلا کر تالیوں کا جواب دینا پڑا تھا۔ جب تک وہ اپنے اعزاز میں سجی کرسی پر نہیں بیٹھا، ہال تالیوں سے گونجتا رہا تھا۔ اس کے بیٹھنے پر سٹیج سیکرٹری نے اس سے اجازت لے کر تقریب کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔ اس کے فن اور شخصیت پر کئی معروف نقادوں نے مقالے پڑھے۔ اور ایسے ایسے اس کی شاعری اور شخصیت کے گوشے عیاں کیے جن سے وہ خود بھی بے خبر تھا۔ اسے وہاں بیٹھے بیٹھے یوں لگا جیسے اس کے اندر نہایت محترم اور قابلِ احترام روح حلول کر گئی ہے۔ اسے اپنا یہ نیا روپ کافی بھلا لگا تھا۔ و ہ خوشی اور سرشاری سے جھوم اُٹھا تھا۔ اعلیٰ قسم کے ساؤنڈ سسٹم نے اس کی شان میں کہے گئے الفاظ کو اور زیادہ محترم اور معتبر بنا دیا تھا۔
پتہ نہیں کہاں سے اُڑتی ہوئی خواہش اچانک اس کے دل میں آ دھمکی کہ کاش وہ جانِ غزل جس نے محض اس کی غربت کی وجہ سے اسے ٹھکرا کر اپنے سے دگنی عمر کے ایک امیر جاگیردار سے شادی کر لی ، اپنے عاشق کی شان میں سجی اس محفل میں موجود ہوتی تو اسے اپنے عجلت میں کیے گئے فیصلے پر کتنی ندامت ہوتی لیکن دوسرے لمحے اسے خیال آیا الفاظ جتنے بھی محترم اور معتبر ہوں بھوکا پیٹ تو نہیں بھرسکتے۔
مقالہ جات کا سلسلہ ختم ہوا تو کلامِ شاعر بزبانِ شاعر کی فرمائش ہوئی۔ ایک غزل، دوسری غزل، ایک نظم پھر دوسری، تیسری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پتہ نہیں وہ اپنی کتنی نظمیں اور غزلیں سنا چکا لیکن حاضرین کی فرمائشیں ہی ختم ہونے کو نہیں آ رہی تھیں ۔ آخر اسے کہنا پڑا کہ رات کافی ہو گئی ہے دھند بھی کافی ہے اور اس نے واپس اپنے گاؤں بھی جانا ہے۔ منتظمین میں سے کسی نے کہا آپ فکر نہ کریں آج کی رات آپ ہمارے مہمان ہیں ۔ اس نے دو چار اور غزلیں سنائیں آخر اُسے خود ہی کہنا پڑا اب آخری غزل ہے اس کے بعد محفل برخاست۔ بالآخر محفل برخاست ہو گئی۔ اس کے گرد آٹو گراف لینے والوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا لیکن آہستہ آہستہ ہجوم کم ہونے لگا اور سب ایک ایک کر کے جانے لگے۔ آخر میں اس کے کچھ قریبی دوست رہ گئے۔ اس نے پوچھا وہ صاحب کدھر ہیں جس نے کہا تھا کہ وہ ان کے مہمان ہوں گے۔ سارے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگ گئے جیسے کہہ رہے ہوں انہوں نے تو نہیں کہا۔ آخر اس کو اپنے انتہائی قریبی دوست سے بڑے مان سے کہنا پڑا ’’ اچھا یار مَیں آج رات تمہارا مہمان‘‘دوست نے نظریں ملائے بغیر کہا ’’ یار بات دراصل یہ ہے کہ میرے گاؤں کے رشتہ داروں نے میرے گھر کو سرائے سمجھ رکھا ہے، کسی کو کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ فوراً میرے گھر پہنچ جاتا ہے۔ آج بھی گھر میں اتنے لوگ آئے ہیں کہ میں سوچ رہا ہوں کسی کا مہمان ہو جاؤں ‘‘
اس نے مجبوراً دوسرے دوست کی طرف دیکھا تو گویا اس نے پہلے سے ہی تیاری کر رکھی تھی ’’میری بیگم کو تو تم جانتے ہو، نری طالبان ہے، مجھ سے زیادہ وہ اپنے گھر میں غیر مردوں کے داخلے کو انتہائی ناپسند کرتی ہے۔ پچھلے دنوں غلطی سے مَیں ایک دوست کو گھر چائے کی دعوت دے بیٹھا اس کے بعد جو میرا حشر ہوا وہ مَیں اور میرا خدا ہی جانتا ہے‘‘
تیسرے دوست کی طرف رجوع کرنے سے پہلے ہی اس نے اعلان کر دیا کہ وہ ہوٹل میں رہے گا۔ اس کے اس اعلان نے اس کے دوستوں میں گویا نئی روح پھونک دی تھی اور ان کے چہروں سے مسرت چھپائے نہیں چھپتی تھی!!
اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ہوٹلوں کے کرائے اتنے بڑھ گئے ہوں گے۔ اس کی جیب میں جتنے پیسے تھے اس سے تقریباً دوگنا کرایے تھے۔ تین چار ہوٹلیں پھرنے کے بعد ایک ایسے ہوٹل میں کمرہ مل گیا جس کا کرایہ ادا کرنے کے بعد واپسی کا کرایہ بھی بچتا تھا۔ رات کافی گزر گئی تھی اور سردی بھی کافی تھی۔ بستر اور کمبل بھی بس واجبی سے تھے۔ نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ وہ سگریٹ پہ سگریٹ پیے جا رہا تھا۔ اس کے انتہائی قریبی دوستوں کے اس رویے نے اسے بہت دُکھ پہنچایا تھا۔ اس کے ذہن میں بار بار سڑک کے کنارے تیزی سے بھاگتے درخت گھوم رہے تھے۔ اسے اچانک لگا کہ یہ درخت تو استعارہ ہیں ان قریبی دوستوں کا جو بہت تیزی سے قریب آتے ہیں اور اس سے زیادہ تیزی سے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ۔ اس کا ذہن تیزی سے ایک نظم کا تانا بانا بننے میں مصروف ہو گیا۔ اس نے کمرے میں ادھر ، اُدھر دیکھا۔ پھر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا لیکن اسے کوئی کاغذ کا ٹکڑا نہیں ملا جس پر وہ تیزی سے ذہن میں اترتی نظم لکھ سکتا۔ موبائل پر اسے لکھنا آتا نہیں تھا اور کاغذ مل نہیں رہا تھا اور سرعتِ تخلیق کا یہ عالم تھا کہ مصرعے بہتے پانی کی روانی کی طرح چلے آرہے تھے کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔
’’دروازہ کھُلا ہے، تشریف لائیے‘‘
دوسری طرف سے ہوٹل کا کوئی ملازم تھا
’’ میٹرس(Mattress) چاہیے؟‘‘
وہ حیرت سے ملازم کو دیکھنے لگا کہ اس کا بستر بھی لگا ہوا ہے اور وہ ہے بھی اکیلا پھر پتہ نہیں وہ کیوں میٹرس کا پوچھ رہا ہے
’’ نہیں بھئی میٹرس نہیں چاہیے، دیکھ نہیں رہے مَیں اکیلا ہوں ‘‘
’’اسی لیے تو پوچھ رہا ہوں کہ میٹرس چاہیے‘‘ اس نے ایک ایک لفظ کو چبا چبا کر بڑے معنی خیز انداز میں کہا
’’ نہیں بھئی مجھے میٹرس نہیں کوئی سفید کاغذ کے ایک دو پرت ہیں تو دے دو‘‘
’’ نہیں صاحب سفید کاغذ اس وقت کہاں ؟ منیجر صاحب صبح آئیں گے، ان کے پاس کاغذ وغیرہ ہوتے ہیں ‘‘ وہ کندھے اُچکاتے کمرے سے نکل گیا۔
اس نے سگریٹ کی ڈبیا سے باقی سگریٹ نکالے اور ڈبیا کو پھاڑ کر اس کے اندر والے صفحے پر باریک لفظوں میں نظم لکھنا شروع کر دی۔ وہ سگریٹ کے کش پہ کش بھی لگائے جا رہا تھا اور ذہن پہ اترتے مصرعے اپنے گھٹنے پر رکھے سگریٹ کی ڈبیا کے کاغذ پر منتقل کیے جا رہا تھا۔ کاغذ ختم ہو گیا لیکن مصرعوں کا طوفان ابھی تھما نہیں تھا۔ اس نے بیگ سے نئی سگریٹ کی ڈبیا اور نکالی اس میں سے سگریٹ نکال کر اس کے کاغذ پر لکھنا شروع کر دیا۔ اب آخری مصرعہ بھی ہوا ا ور کاغذ پر لکھنے کی جگہ بھی ختم ہو گئی۔ اس نے آخری مصرعہ بائیں ہاتھ پر لکھا اور شانت ہو کر بستر پر سیدھا لیٹ گیا۔ اسے تصور میں تیزی سے دوڑتے ہوئے درخت اور تیزی سے دوڑتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ لکھی ہوئی نظم کو دوبارہ پڑھا تو وہ حیران رہ گیا کوئی مصرعہ بھی وزن سے خارج نہیں تھا۔ ایک دو مصرعوں میں ایک دو الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ نظم مکمل ہو گئی۔ اس کے اندر کا نقاد جو بہت ظالم تھا، پہلے کبھی اتنی جلدی مطمئن نہیں ہوا تھا۔ وہ دوستوں کا ممنون تھا کہ ان کی بے رخی نے اس سے ایسی شاندار نظم لکھوائی۔ دوستوں کی بے رخی، جاڑے کا رتجگا اور بے تحاشا تھکاوٹ کی سب تلخیاں بھول کر اپنی نئی تخلیق پر وہ اتنا خوش تھا کہ شاید ہی وہ اپنی زندگی میں اتنا کبھی خوش ہوا ہو!!
٭٭٭