غزل
سرور عالم راز سرور
کوچہ کوچہ نگر نگر دیکھا
خود میں دیکھا اسے اگر دیکھا
قصۂ زیست مختصر دیکھا
جیسے اک خواب رات بھر دیکھا
در ہی دیکھا نہ تو نے گھر دیکھا
زندگی! تجھ کو خوب کر دیکھا!
کوئی حسرت رہی نہ اس کے بعد
اُس کو حسرت سے اک نظر دیکھا
ہم کو دیر و حرم سے کیا نسبت؟
اُس کو دل میں ہی جلوہ گر دیکھا
درد میں ، رنج و غم میں ، حرماں میں
آپ کو خوب دربدر دیکھا
حال دل اپنا دیدنی کب تھا؟
دیکھتے کیسے ، ہاں مگر دیکھا!
سچ کہو بزم شعر میں کوئی
تم نے ‘سرور’ سا بے ہنر دیکھا؟