آزاد نظمیں

جزیروں میں بٹے لوگ

فیصل عظیم

ایک جزیرہ تیرے گھر کا

ایک جزیرہ میرے گھر کا

ایک جزیرہ بازاروں کا

ایک جزیرہ وہ ہے جس پر خود کو بیچ کے آ جاتا ہوں

ایک جزیرہ خوشیوں کاہے

ایک جزیرے پر مسجد ہے

ایک پہ رقص اور موسیقی کے ساز سجے ہیں

اور جزیروں کو آپس میں

سڑکیں جوڑ دیا کرتی ہیں

اب کے چھٹی کا دن ہو گا

تو ہم پھر اپنی گاڑی میں

اُن سڑکوں پر بہتے ہوں گے

فیونرل سروس  Funeral Services

 

فیصل عظیم

سنا تم نے ؟

وہاں گھر سے ذرا کچھ دُور

ایسا اِک اِدارہ ہے

جہاں خاصے مناسب دام پر

وہ لوگ

بندوبست سب کرتے ہیں

سبزہ بھی اُگاتے ہیں

وہ خوشبو بھی چھڑکتے ہیں

صفائی روز کرتے ہیں

وہ کتبہ خود لگاتے ہیں

اُسے گرنے نہیں دیتے

جو تم بے نام ہو جاؤ

مناسب دام لے کر

وہ بہت آرام دیتے ہیں

تہمت اور دعا

عبد السلام عاصم

ایک خوش حال نے

ایک بد حال  کو

دیکھ کر یوں کہا

اے خدا شکر ہے

 

ایک بد حال  نے

ایک خوش حال کو

دیکھ کر یوں کہا

اے خدا  رحم  کر

 

الاماں     الحذر

الاماں   الحذر

 

مرا دشمن نہیں کوئی

عبد السلام عاصم

مرا دشمن نہیں کوئی

مگر میں خوش نہیں ہوں

مجھے اس بات کا غم بھی نہیں کوئی

کہ میں دشمن نہیں رکھتا

نہ میں خوش ہوں نہ میں غمگیں

تو پھر کیا ہوں

 

میں شاید بے سرا ہوں

شور کے اس کار خانے میں

جہاں کچھ بھی نہیں

بس شر ہی شر ہے

واردات قلب کی اور ذات کی

بے چہرہ ، بے ہنگم حوالوں سی

کچھ ہے

اشوک باچپئی

 

کچھ ہے

جس کا کوئی نام نہیں

جو کسی رنگوں کی فہرست میں شامل نہیں

جسے کسی نے دیکھا نہیں

چھو نہیں پایا کوئی

میں اسے پکارتا ہوں

جیسے میری آواز

اس کا نام ہے

رنگ ہے

منظر ہے

لمس ہے

اندھیرے کے کنویں سے

کائنات قاضی

کہتے ہیں اجنمے بچے کی

یاد نہیں آتی

پر میرے اندر تو ہوک کی طرح اٹھتی ہے اکثر

کہتے ہیں

جس کی آنکھ ناک نہیں بنی

وہ یاد کیسے رہے گا؟

کیوں نہیں رہے گا

اس کا لحم شحم یاد ہے مجھے

میرا حصّہ

جس نے مجھے احساس کرایا

کہ میں عورت ہوں

اس کی نہ بن سکنے والی ماں

آنکھوں میں آج بھی ایک سپنا تیرتا ہے

اسے باہوں میں بھرنے کا

ایک سپنا

ایک جان کو ہمیشہ اپنا کہنے کا

بھلے ہی اس کا لمس محسوس نہ کیا ہو میں نے

پر کچھ ہفتے ہی سہی

سنجویا تو تھا

اپنے اندر کہیں

اس نے خود نہ رہتے ہوۓ بھی

مجھے یہ ثبوت دیا

میری تکمیل کا

میری زرخیزی کا

برسوں بعد بھی وہ یاد ہے مجھے

آج بھی وہ دوڑا چلا آتا ہے

اپنی باہیں پسارے

میری یادوں میں

آج بھی اسے کھونے کا دکھ

رِستا رہتا ہے میرے اندر کہیں

کاش یہی دکھ ہوتا اسے بھی

جس کا وہ حصّہ تھا

One thought on “آزاد نظمیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے