ناول کا فن زندگی کی تصویر کشی کا فن ہے۔ حالات اور زمانے کے ساتھ فنون لطیفہ میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کیونکہ تبدیلی فطرت کا قانون ہے۔ چونکہ ادب فنون لطیفہ کی ایک شکل ہے اس لئے اس کی تمام اصناف پر بھی حالات اثر انداز ہوتے ہیں۔ تخلیق کار نئے نئے تجربے کرتا ہے اور اپنی فکری و فنی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا ادب تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے جو زمانے سے آنکھ ملانے کے ساتھ قاری پر گہرا تاثر قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ رحمن عباس نے بھی اپنے ناولوں کے ذریعہ کچھ نئے تجربے کئے ہیں۔
اردو ناول نگاری کے حوالے سے رحمن عباس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ ’’ تین ناول‘‘ کی اشاعت نے خود ہی یہ فریضہ انجام دیا ہے۔ ان کے ناول عصری زندگی کے عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ قاری کے فکری دریچے بھی کھولتے ہیں۔ ان کی ناول نگاری کا جائزہ لینے سے قبل ان کی سوانح پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ کسی بھی فن کار کو ایک عام انسان سے تخلیق کار بنانے میں اس کی ذاتی زندگی کے علاوہ اس کے ماحول و معاشرے کے واقعات و حادثات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
رحمن عباس ۳۰ جنوری ۱۹۷۴ءکو مہاراشٹر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مہاراشٹر میں ہی حاصل کی۔ اپنے تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے ممبئی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۹۴ئ میں بی۔ اے، ۱۹۹۶ئ میں ایم۔ اے (اردو)، ۲۰۰۱ئ میں بی۔ ایڈاور ۲۰۰۵ئ میں ایم۔ اے (انگریزی)اسی یونیورسٹی سے کیا۔ اس کے علاوہ ۲۰۱۲ء میں انھوں نے ’’ مراٹھواڑایونیورسٹی‘‘سے ایم۔ ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔ بی۔ ایڈ کے بعد ان کی ملازمت کا آغاز ہوا۔ ۲۰۰۱ء میں ان کا تقرر ’’مہاراشٹر جونئیر کالج ‘‘میں ہوا۔ ۲۰۰۲ء میں ’’مستری ہائی اسکول‘‘(رتناگری)میں بہ حیثیت استاد مقر ر ہوئے۔ ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۵ء تک ’’انجمن اسلام جونئیر کالج‘‘ میں درس وتدریس کی خدمت انجام دی اور ۲۰۰۶ئ میں ان کا تقرر ’’ایم۔ کے۔ جونئیر کالج، تاراپور‘‘(تھانے )میں ہوا۔ اس کے علاوہ ۲۰۰۷ء سے ہی ’’اسٹریٹجک فور سائٹ گروپ‘‘strategic foresight group))میں ’’ریسرچ آفیسر‘‘ (Research Officer)کے عہدے پربھی فائز ہیں۔
رحمن عباس کے افسانے اور مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ انھوں نے ’’آل انڈیا ریڈیو ‘‘کے لئے اردو کے مشہور و معروف شاعروں اور نثرنگاروں کے انٹرویوز لئے۔ اس کے علاوہ انھوں نے دوردرشن کے لئے بڑے بڑے قلم کاروں کے انٹرویوز کئے ہیں جن میں ندا فاضلی، یوسف ناظم، جاوید اختر، سلام بن رزاق اور سلمیٰ صدیقی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے تین ناول ’’نخلستان کی تلاش‘‘(۲۰۰۴)، ’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘(۲۰۰۹)اور ’’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘‘(۲۰۱۱)کے عنوان سے شائع ہوئے اور ۲۰۱۳ء میں ان تین ناولوں کا مجموعہ ’’تین ناول‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ ۲۰۱۱ء میں انھوں نے مراٹھی مفکر’سندیپ واسلیکر‘کی تصنیف ’’یکادشے چاشودھ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’ایک سمت کی تلاش‘‘ کے عنوان سے شرین دلوی کے ساتھ مل کر کیا۔ ۲۰۱۳ء میں ہی تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ ’’اکیسویں صدی میں اردو ناول اور دیگر مضامین‘‘ کے نام سے شائع ہواجس میں فکشن کے حوالے سے غیر معمولی اور فکر انگیز مضامین شامل ہیں۔ یہاں ان کے ناولوں کا جائزہ لینا مقصود ہے لہٰذا دثات اہم کردار اد دیگر تفصیلات سے صرف نظر ضروری ہے۔
رحمن عباس کے تینوں ناول انفرادی خصوصیت کے حامل ہیں۔ زبان و بیان اور تہذیب و معاشرت میں مماثلت ہونے کے باوجود ان کے ناولوں میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو قاری کو چونکنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یہ خصوصیت مخصوص طور پر ان کے کسی ایک ناول میں نہیں بلکہ تینوں میں موجود ہے۔ موضوعات کی تلاش میں وہ کہیں دور نہیں گئے بلکہ اپنے معاشرے کے تلخ حقائق اس خوبی سے بیان کئے ہیں کہ سنجیدہ قاری اپنے اطراف بکھری تمام اشیاء کو نئے سرے سے دیکھنا شروع کرتا ہے اور اس وقت تک یہ عمل جاری رکھتا ہے جب تک کہ اس کی تحقیقی نظر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتی۔ بے شک وہ قاری کو ایک تخلیقی ذہن عطا کرتے ہیں۔ ان کے ناول اردو فکشن میں نئے باب کا اضافہ کرتے ہوئے انسان کے اس روپ کو بے نقاب کرتے ہیں جسے برسوں سے اس نے اپنی شخصیت کے پردے میں چھپائے رکھا تھا۔ ناول نگار نے انسان کی نفسیات اور اس کے حرکات وسکنات کے بیان میں اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا ہے اور ساتھ ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان خیر و شر کا مجموعہ ہونے کے باوجود فطری طور پر برا نہیں ہوتا بلکہ حالات اسے اچھا یا برا کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ انھوں نے عبدالعزیز، سکینہ اور عبدالسلام جیسے زندہ کردار پیش کر کے اردو ناول نگاری میں اپنی شناخت قائم کی ہے۔ ان کے کرداروں میں ’فنا فی العشق‘ کا جذبہ تو نظر آتا ہے لیکن ’فنا فی اللہ‘ کا حوصلہ نہیں۔
’’نخلستان کی تلاش‘‘ ان کا پہلا ناول ہے، جو ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا۔ یہ ناول ان کے لئے رحمت اور زحمت دونوں بنا۔ کیونکہ اس کی اشاعت نے انھیں شہرت بخشنے کے ساتھ ساتھ بدنامی کا تمغہ بھی عطا کیا۔ اس ناول پر فحاشی کا مقدمہ بھی قائم ہوا لیکن ناول نگار کی آزادہ روی، حوصلے کی بلندی، ثابت قدمی اور دیگر ناولوں کی اشاعت سے ذہن بے ساختہ غالبؔ کے درج ذیل شعر کی طرف متوجہ ہوتا ہے :
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
واقعی رسوائیوں اور بدنامیوں نے ان کی زندگی میں ہلچل مچا دی لیکن ان سے خوف زدہ ہو کر اپنا راستہ ترک کرنے کے بجائے انھوں نے جس جرأت مندی اور بے باکی سے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی قابل تعریف ہے۔
’نخلستان کی تلاش‘ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ بظاہر یہ جمال اور فریدہ کے عشق کی داستان ہے جس میں بے راہ روی اور غیر سنجیدگی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کا اصل موضوع عصری مسائل ہیں۔ ناول نگار نے نہ صرف موجودہ دور کے مسائل پیش کئے ہیں بلکہ عصری رنگینی اور دلکشی کے پس پردہ تلخی و محرومی، نا آسودگی و تاریکی میں ڈوبی زندگی گزارنے والے ان نوجوانوں کے جذبات واحساسات بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو بے گناہ و بے قصور ہونے کے باوجود سزا کے مستحق ٹھہرائے جاتے ہیں اور صدیوں سے اپنی الگ پہچان رکھنے کے باوجود بے شناخت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ در اصل رحمن عباس نے فسطائی نظام حکومت پر گہرا طنز کیا ہے اور ایسے سوالات قائم کئے ہیں جو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں ایسے کئی مواقع آتے ہیں جب اسے اپنی بے بسی کا احساس شدت سے ہوتا ہے اور بعض اوقات طاقت و قوت سے معمور ہونے کے باوجوداسے شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ناول میں اس طرح کے کئی واقعات بیان کئے گئے ہیں جو دل و دماغ کو بری طرح جھنجھوڑتے ہیں اور ایک انوکھا مگر تکلیف دہ احساس بیدار کرتے ہیں۔ یہ وہی احساس ہے جو انسان کی زندگی میں اضطراب و انتشار پیدا کرتا ہے۔
’نخلستان کی تلاش ایک پیچیدہ ناول ہے جس میں بڑی حد تک فکری توانائی اور فنی لطافت موجود ہے۔ ناول نگار نے مختلف علامتیں استعمال کر کے انسانی زندگی کی ان گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی ہے جس پر ایک عام انسان توجہ نہیں دیتا۔ اس میں حیات انسانی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے جس کے ذریعہ رشتوں کی کش مکش اور ان کی حقیقت و ماہئیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ناول نگار نے مسلمانوں کی مثال’ شجر صنوبر‘ سے دی ہے جس کی جڑیں تو مضبوط ہیں لیکن پھر بھی وہ تکلیف زدہ ہے۔ اس کا ذمہ دار وہ مسلمانوں کو ہی ٹھہراتے ہیں کیونکہ وہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور اپنے اصل منصب کو رفتہ رفتہ فراموش کر رہا ہے۔ مختلف مسائل اور آج کے تلخ حقائق بیان کر کے رحمن عباس نے انسانوں اور خاص طور سے مسلمانوں کو ان کی حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اس جانب خصوصی توجہ دلائی ہے کہ قرب و جوار سے شناسائی حاصل کرنا ہی فتح یابی نہیں بلکہ انسان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی ذات کے سمندر میں غوطہ زن رہ کر اصل جوہر تلاش کرے۔ کیونکہ بیک وقت ایک عام انسان دوہری زندگی گزارتا ہے اس کے ظاہر و باطن میں اکثر مکالمے ہوتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات اس کا باطن اسے لعنت و ملامت کرتا ہے لیکن اکثر و بیشتر انسان اسے نظرانداز کر دیتا ہے اور دھیرے دھیرے وہ فراموشی کے دلدل میں گرتا جاتا ہے۔ اپنی تلاش مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ہر دور میں ضرورت کے مطابق قلم کاروں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لیکن حالات اور زمانے کی تبدیلی نے اظہار کے انداز بدل دیئے ہیں۔ علامہ اقبال نے کچھ اس طرح کہا تھا:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن
جب کہ رحمن عباس کا انداز مختلف ہے کیونکہ ان کے سامنے ایک دوسرا ماحول اور معاشرہ ہے جو اقبال کے زمانے سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور رکھتا ہے لیکن دونوں میں ایک بڑا فرق ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
بہرحال رحمن عباس کے اس ناول میں بڑی وسعت و گہرائی ہے۔ انھوں نے عشق و عاشقی سے لے کر سیاست و مذہب کی اہمیت بھی بڑی چابکدستی سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اظہار عشق کے لئے جن وسائل کا استعمال کیا ہے اس سے عشق کی عظمت مجروح ہوتی ہے اور عاشق کی پاکیزگی کے بجائے اس کی مطلب پرستی اوربوالہوسی سامنے آتی۔
’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘ کوکن کے تاریخی وسماجی پس منظر میں لکھا گیا ایک پر اثر ناول ہے جس پر انھیں ۲۰۱۰ء میں ریسرچ اینڈ پیس سنٹر، اورنگ آباد نے ’نیشنل ایوارڈ‘ دیا۔ اس ناول میں کوکن اور اس کے اطراف کے مختلف علاقوں و گاؤوں کی تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کا نادر مرقع پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایسی محبت کی داستان ہے جس کا آغاز اور انجام دونوں حیران کن ہے۔ در اصل ناول نگار نے عشق و عاشقی کے روایتی قصوں سے انحراف کر کے کم سن اور معصوم عاشق کی وفاداری اور ثابت قدمی کا بیان کچھ اس طرح کیا ہے کہ قاری کا تجسس آخر تک برقرار رہتا ہے۔ عاشق کے بچپن سے اس کی موت تک کے تمام واقعات اس طرح پیش کئے گئے ہیں کے ایک کے بعد دوسرا واقعہ فطری معلوم ہوتا ہے۔ عاشق و معشوق کی عمر میں ایک طویل فرق ہونے کے باوجود ان کی محبت میں آخر تک تازگی نظر آتی ہے۔ ایک بچے اور ایک پختہ عمر کی شادی شدہ عورت کے درمیان پنپنے والے جذبۂ عشق کا بیان کر کے ناول نگار نے شاید یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو عمر کا محتاج نہیں ہوتا اور بچپن و جوانی کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ انسان کی عمر اتنی ہی ہوتی ہے جتنی وہ محسوس کرتا ہے۔ اس بے جوڑ محبت کو دیکھ کر بعض اوقات یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ناول نگار یہ یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ عورت کی محبت سے دامن بچانا اتنا ہی مشکل کام ہے جتنا خود کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھنا۔
رحمن عباس کے اس ناول کو ایک معصوم محبت کا المیہ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا انجام فطری ہوتے ہوئے بھی عجیب و غریب ہے۔ حضرت آدمؑ کو ممنوعہ شجر کا پھل کھانے کی سزا میں جنت سے بے دخل کیا گیا اور ناول کے مرکزی کردار عبدالعزیز کو محبت کی سزا کے طور پر دنیا سے بے دخل کر دیا گیا جو کہ ایک روایتی انداز ہے لیکن اس کی ہجرت اور پرواز قاتل کو حیران و ششدر کر دیتی ہے۔ ناول نگار نے بیٹے کے ہاتھوں باپ کے قتل کی بڑی دردناک تصویر پیش کی ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ در اصل یہ دو محبتوں کی کہانی ہے اور دونوں کا انجام تکلیف دہ ہے فرق صرف اتنا ہے کہ پہلی محبت کی قیمت ایک لڑکی نے ادا کی اور ایک عرصے بعد اسی مقام پردوسری محبت کے نتیجے میں ایک ایسے عاشق کا قتل کیا گیا جو محبت کا مفہوم سمجھنے سے پہلے ہی اس میں گرفتار ہو گیا تھا اور زندگی بھر اس کے سحر میں ڈوبا رہا۔ یہاں تک کہ جب اس کی نبض ڈوبنے لگی تب بھی اس کے ذہن میں اس کی معشوقہ کے خد و خال روشن تھے اور اس نے بالآخر اپنی معشوقہ کی یہ بات تسلیم کر لی کہ ’’محبت کی ہر نشانی خطرناک ہوتی ہے۔ ‘‘
’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘ صرف ایک رومانی قصہ نہیں بلکہ اس میں عصری زندگی کے تلخ حقائق بھی بیان کئے گئے ہیں اور ایک بدلتے ہوئے معاشرے کی زندہ تصویر کشی کی گئی ہے۔ واقعات و حادثات کی پیش کش کے انداز سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناول نگار نے قومی یکجہتی اور مذہبی انتہا پسندی کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے چھوٹے اور معمولی واقعات کے بیان سے گریز نہیں کیا بلکہ چھوٹے بڑے تمام واقعات اس طرح پیش کئے ہیں کہ ان میں ایک تال میل اور ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ بے شک یہ ناول دلچسپ ہے لیکن پھر بھی اس کی طوالت اور غیر ضروری تفصیلات بعض اوقات طبیعت پر گراں گزرتی ہے۔ یہ ایک ایسا ناول ہے جس میں شعبہ ہائے زندگی کے مختلف رنگ دیکھے جا سکتے ہیں۔ ناول نگار نے تعلیم کو ہتھیار بنا کر ایک جیتے جاگتے معاشرے کی تصویر بدلنے کے ساتھ بیداری کے نتائج اور تعلیم یافتہ و شدت پسند مذہبی پیشواؤں کی حقیقت کا پردہ چاک کر کے اپنی اعلیٰ مہارت کا ثبوت دیا ہے۔
’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘ ایک کثیر الجہات ناول ہے جس میں سیاسی رنگ بھی ہے اور سماجی کش مکش بھی، عشق و عاشقی بھی ہے اور انقلاب زمانہ بھی۔ در اصل یہ ایک بڑے کینوس پر لکھا گیا ناول ہے اور اس میں داستانی رنگ جھلکتا ہے۔ رحمن عباس نے عشق و محبت کے بیانات میں ان تمام مسائل کو سمیٹ لیا ہے جو صرف کوکن اور اس کے گردو نواح تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو یہ ناول عشقیہ داستان ہونے کے باوجود بڑے اہم، سنجیدہ اور فکر انگیز مسائل کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘ ان کے پہلے دونوں ناولوں سے قدرے مختلف ہے۔ ۲۰۱۳ء میں اس ناول پر انھیں ’مہاراشٹر اردو اکیڈمی‘ کی جانب سے ’فکشن ایوارڈ‘ ملا۔ در حقیقت یہ ایک نفسیاتی ناول ہے۔ رحمن عباس نے انسانی نفسیات کا بیان جس طرح کیا ہے اس سے ان کی حقیقت پسندی ظاہر ہوتی ہے۔ انھوں نے انسان کی ان خصوصیات کی طرف مخصوص توجہ دلائی ہے جو کم و بیش ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے۔ یہ ناول موجودہ دور کی طبقاتی و سماجی کش مکش اور نفسیاتی و ذہنی انتشار کا آئینہ ہونے کے باوجود بعض اوقات ایک عجیب سی آسودگی اور اطمینان کا احساس دلاتا ہے۔
یہ ایک ایسا انوکھا ناول ہے جس میں نیا پن بھی ہے اور فلسفیانہ خیالات کا اظہار بھی کثرت سے ہوا ہے۔ رحمن عباس نے انسان اور خدا کے متعلق اپنے مختلف نظریات جس آزادی اور بے باکی سے پیش کئے ہیں وہ انسان کو گمراہ بھی کر سکتے ہیں اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں کیونکہ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ انسان کو نیکی اور اچھائی کے مقابلے برائی اور بدی جلدی متاثر کرتی ہے اس لئے ناول نگار کی جسارت سے گمراہی کے امکان زیادہ نظر آتے ہیں۔ یہ ناول ایک تخلیق کار کی چیخ اور احتجاج ہے جس کی بازگشت دوسرے تخلیق کاروں تک پہچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں معاشرے میں پھیلی بے اطمینانی اور نا آسودگی کے پس پردہ اس اطمینان وسکون کی طرف واضح اشارہ کیا گیا ہے جو گناہ گار کو پشیمانی کے احساس میں مبتلا کرنے کے بجائے تسکین جاں عطا کرتا ہے۔
’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘ میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ان میں بیشتر سچائی اور حقیقت پر مبنی ہیں۔ اس میں ’شوکت صدیقی‘ کے ناول ’خدا کی بستی‘ کا ہلکا سا عکس نظر آتا ہے۔ اس ناول کے ذریعہ رحمن عباس نے جنسی خواہشات کی تکمیل کے فطری و غیر فطری طریقے پر اظہار خیال کر کے اعلیٰ سے ادنیٰ طبقے کے ان تمام افراد کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے جو بظاہر پاکبازی کی چادر میں لپٹے نظر آتے ہیں لیکن ان کے باطن میں کوئی دوسرا ہی شخص ہوتا ہے۔ گھر کے باہر کام کرنے والی خواتین ہوں یا چار دیواری کے اندر رہنے والی لڑکیاں و عورتیں، قول و فعل میں میں تضاد رکھنے والے اساتذہ ہوں یا سر پر آبرو کی پگڑی رکھنے والے مذہبی پیشوا، غرض کہ سماج کے ہر طبقے کے افراد اس عمل میں ملوث نظر آتے ہیں۔
رحمن عباس نے اس ناول کے ذریعہ صرف انسان پر ہی نہیں بلکہ ساری دنیا پر طنز کیا ہے۔ عبدالسلام کے ذریعہ انھوں نے انسان کی دو رخی شخصیت کو نشانہ بنایا ہے۔ لیکن اس میں بھی ایک سچا عاشق موجود ہے جس کے پاس وقت گزاری کے لئے بہت سے ذرائع ہیں اور وہ ان سے مستفید بھی ہوتا ہے لیکن اپنے اصل جذبۂ عشق کو فراموش نہیں کر پاتا۔
’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘ صرف عبدالسلام کی روداد نہیں بلکہ انسان کی اس قوم کی روداد ہے جو اپنی داستان بیان کرنے کی ہمت نہیں رکھتی بلکہ کسی انجانے خوف کے تحت اندر ہی اندر اسے دبائے رکھتی ہے۔ اس ناول میں نہ صرف انسان کے اس احساس کو بیان کیا گیا ہے بلکہ اس کے پس پشت ایک جیتے جاگتے معاشرے کی حقیقت بے نقاب کی گئی ہے۔
ناول نگار نے تمام باتیں اس طرح پیش کی ہیں کہ ہمیں عبدالسلام پر غصہ تو آتا ہے لیکن بعض اوقات اس سے ہمدردی بھی ہوتی ہے اور وہ حق بجانب نظر آتا ہے۔ بہرحال یہ ناول انسان کی ذات کا آئینہ بھی ہے اور سماج کا عکاس بھی۔ ناول نگار نے اپنی تخلیقی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے حادثات و واقعات کی پیش کش فطری طور پر کی ہے۔ شہر کی حالت ہو یا گاؤں کی تصویر، بازار کا نقشہ ہویا گھر کی صورت حال، تمام مناظر کا بیان مناسب الفاظ میں کیا گیا ہے۔ گاؤں کی تہذیب، رسم و رواج اور مرور ایام کی پیش کش کا انداز کچھ ایسا ہے کہ ہمارے سامنے ایک زندہ معاشرہ جی اٹھتا ہے۔ دوستوں کی محفل سے کلاس روم تک کے تمام واقعات فطری معلوم ہوتے ہیں جس سے ناول نگار کی فکری توانائی اور فنی بصیرت وچابکدستی کا علم ہوتا ہے۔
رحمن عباس کے ناولوں کا جائزہ لینے کے بعد ہم بہ آسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے تینوں ناولوں میں عشق ایک نئی شکل میں نظر آتا ہے اور تینوں ناول عصری مسائل کے عکاس بھی ہیں۔ ناول نگار نے قدم قدم پر ایسے سوالات قائم کئے ہیں جن کی متلاشی یہ ساری کائنات ہے۔ رحمن عباس نے اپنے قرب و جوار میں جو دیکھا اور محسوس کیا اسے تخلیق کا جامہ پہنا دیا انھوں نے موضوعات کو کامیابی سے برتنے کی کوشش کی ہے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں لیکن کہیں کہیں ان کے قلم میں لغزش بھی نظر آتی ہے جو ناول کے معیار کو متاثر کرتی ہے۔ ان کے ناولوں کا بہ غور مطالعہ کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ قلم کی یہ لغزش شدت جذبات کی دین ہے کیونکہ اکثر و بیشتر انسان کے خیالات و جذبات اس پر حاوی ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات خیالات کی رو اتنی تیز ہوتی ہے کہ طریقۂ اظہار متاثر ہوتا ہے۔ انسان کی زبان سے ٹوٹے پھوٹے اور بے ربط جملے ادا ہوتے ہیں۔ ناول نگار بھی شاید اس کیفیت سے گزرا ہے جس کے سبب ان ناولوں میں کہیں کہیں کمزور ساخت کے جملے نظر آتے ہیں۔ یہ ذہن میں کھٹکتے تو ہیں لیکن جلد ہی ناول کی سحرآفرینی اور پر تجسس فضا قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔
٭٭٭
مآخذ:۱؎ رحمن عباس کا سوانحی کوائف۔
۲؎ تین ناول۔
tamannashaheen25may@gmail.com
٭٭٭