بڑا ہے درد کا رشتہ
(قرۃ العین حیدر کی یاد میں )
ابوالکلام قاسمی
قرۃالعین حیدر بیسویں صدی کے نصف آخر کی شاید اردو میں سب سے ممتاز دانش ور تھیں ۔ اتفاق سے ان سے ناچیز کی محض رسمی راہ و رسم نہ تھی۔ نیاز مندانہ روابط رکھنے، بے تکلّفانہ باتیں کرنے اور ان کی خوش مزاجی سے بھی لطف اندوز ہونے کے مواقع ان کے ساتھ بار بار ملے۔ اس لیے ان کے علمی، دانش ورانہ اور ہمہ جہت باخبری کے باعث اکثر اس بات پر ناز بھی ہوتا تھا کہ اپنے زمانہ کی ممتاز ترین ادیبہ اور با بصیرت دانش ور سے ہمیں بھی نیاز حاصل ہے —- ان سے پہلی ملاقات سری نگر میں مظہر امام کے گھر پر ہوئی تھی۔ ان دنوں وہ اپنے بعض عزیزوں کے ساتھ کشمیر گئی ہوئی تھیں اور مظہر امام کے گھر کے قرب میں ہی کسی سرکٹ ہاؤس میں قیام پذیر تھیں ، وہ جسٹس جرار حیدر اور ان کے بچوں کے ساتھ کشمیر گئی تھیں ۔ میں اپنی بیگم دردانہ قاسمی کے ساتھ پہلی بار کشمیر کے سفر پر گیا تھا اور ہم دونوں مظہر امام کے ساتھ ہی قیام پذیر تھے۔ سری نگر پہنچ کر ہم ٹھہرے تو ایک ہوٹل میں تھے مگر مظہر امام صاحب نے ایک دو روز بعد ہی اصرار کر کے ہمیں اپنے گھر منتقل ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ یوں بھی مظہر امام کے اخلاق و تواضع کے ان کے تمام جاننے والے قائل رہے ہیں ۔ میرے ساتھ تو یوں بھی ان کا دوہرا تعلق تھا۔ ایک تو وہ میرے ہم وطن تھے اور دوسرے میرے رسالے ’الفاظ‘ کے شماروں میں ان کی شاعری متعدد بار چھپ چکی تھی۔ مظہر امام کے گھر پر ان کی بیگم، اپنے زمانے کی اہم افسانہ نگار مبینہ امام اور بیٹی ڈولی (فرزانہ) تھیں ۔ ان کے صاحب زادے شہیر امام ان دنوں سری نگر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ مبینہ بھابھی بڑی اپنائیت سے پیش آنے والی خاتون تو تھیں ہی فرزانہ، دردانہ سے عمر میں کچھ ہی چھوٹی رہی ہو گی۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہم سب لوگ دو ایک روز میں ہی گھل مل گئے تھے۔ ہم لوگ تقریباً پندرہ روز تک وہاں بالکل اپنے گھر کی طرح رہے۔ عینی آپا اکثر مظہر امام صاحب کے گھر پر آ جایا کرتیں اور دیر دیر تک بے تکلّفانہ باتیں کیا کرتیں ۔ ہم دونوں سے ان کو بے تکلف ہونے میں زیادہ وقت اس لیے نہیں لگا کہ دردانہ، ان دنوں عینی آپا کے والد سیدسجادحیدر یلدرم پر ریسرچ کر رہی تھیں اور عینی آپا سے ان کی متعدد بار خط و کتابت ہو چکی تھی۔ میں نے بھی اپنے رسالے میں ان کا ایک افسانہ چھاپا تھا اور اس سلسلے میں میری بھی ان سے خط و کتابت رہ چکی تھی۔ ان کے مزاج کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں ۔ وہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتیں ، تنک مزاج ہیں ، لوگوں سے سیدھے منھ بات نہیں کرتیں وغیرہ وغیرہ —- مگر ہمیں ان کی شخصیت میں ، شروع میں اس طرح کی کوئی بات دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہ تو وقت کے ساتھ بعد میں اندازہ ہوا کہ وہ حد درجہ نازک مزاج اور زود رنج تو ضرور ہیں مگر جن لوگوں کو ناپسند نہیں کرتیں ان کے ساتھ ان کا رویہ اکثر معتدل بلکہ خوش مزاجی کا ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں مجھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تدریس کے شغل سے وابستہ ہوئے محض چار سال ہوئے تھے مگر اپنے زمانے کے قدرے معیاری اور مقبول ادبی رسالے کی ادارت کے سبب مجھے ادبی حلقوں میں خاصا جانا جانے لگا تھا۔ دردانہ کی ریسرچ آخری مراحل میں تھی اور انھوں نے اس وقت تک یونیورسٹی کی ملازمت کا آغاز نہیں کیا تھا۔ سری نگر میں شمیم احمد شمیم، جسٹس جرار حیدر، کشمیری لال ذاکر اور ان کے علاوہ کئی اور ادیبوں ، صحافیوں اور ممتاز لوگوں سے عینی آپا اور مظہر امام کے وسیلے سے ملنے اور ان کی محفلوں میں شریک رہنے کا موقع ملا۔ عینی آپا تقریباً روز ہی صبح یا شام ٹہلتی ہوئی مظہر امام کے گھر آ جایا کرتیں اور دیر دیر تک بیٹھتیں ۔ اس سفر کی ایک بات ہنوز یاد ہے کہ مظہر امام چوں کہ سری نگر ٹی۔ وی میں اسسٹنٹ ڈائرکٹر تھے اس لیے انھوں نے عینی آپا کے متعدد پروگرام ریکارڈ کیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے مجھ ہیچ مداں کو بھی شرف بخشا اور انٹرویو کے ارادے سے ایک روز وہ مجھے لے کر ٹی۔ وی اسٹیشن کے لیے نکلنے ہی والے تھے کہ عینی آپا اچانک ان کے گھر آ گئیں ۔ دوچار رسمی باتوں کے بعد انھیں اندازہ ہو گیا کہ ہم لوگ ٹی۔ وی اسٹیشن جا رہے ہیں اور وہاں ہم دونوں کی گفتگو ریکارڈ اور نشر ہو گی، تو بے تکلفی سے بولیں کہ پھر تو صاحب ہم یہیں بیٹھیں گے، آپ لوگوں کا لائیو پروگرام دیکھیں گے اور مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولیں کہ دیکھیں کہ تم کیا عالمانہ باتیں کرتے ہو —- یہ ان کا بے تکلفی میں عام انداز تکلم ہوا کرتا تھا۔
کشمیر سے واپسی کے چند ہی ماہ بعد عینی آپا جامعہ ملیہ میں وزیٹنگ پروفیسر بن کر آ گئیں ۔ ان کا زیادہ تر وقت شمیم حنفی کے گھر گزرتا۔ ان سے کشمیر میں ہی طے ہو گیا تھا کہ ان کے دہلی آنے پر ان سے ملاقات کی جائے۔ چنانچہ دردانہ نے ان سے ملنے اور تحقیقی مقالے کے سلسلے میں ان کی بعض وضاحتوں کو آخری شکل دینے کا منصوبہ بنایا۔ کشمیر کی ملاقاتوں نے ہمارے درمیان کی اجنبیت کو پوری طرح ختم کر دیا تھا اور یہ اندازہ بھی ہو گیا تھا کہ وہ اپنے خاندان بالخصوص اپنے والد بزرگوار کے بارے میں ہر طرح کا تعاون دینے کو تیار ہیں ۔ دردانہ نے کچھ عرصہ پہلے جب ان کے نام بمبئی کے دورانِ قیام خط لکھے تھے تو انھوں نے بڑی دلچسپی لے کر جواب دیے تھے۔ دہلی میں جب شمیم حنفی صاحب کے گھر میں ان سے ملاقاتیں ہوئیں تو یلدرم سے متعلق اَن گنت کارآمد باتیں معلوم ہوئیں جن کی وجہ سے دردانہ کو اپنی تھیسس کے آخری مراحل میں خاصی سہولت رہی۔ اس زمانے میں علی گڑھ کے شعبۂ اردو میں پروفیسرثریا حسین سربراہ ہو کر ویمنس کالج سے آ گئی تھیں ۔ عینی آپا سے ان کی عزیزداری بھی تھی اس لیے وہ خاص طور پر اس بات کے لیے کوشاں رہیں کہ عینی آپا وزیٹنگ پروفیسر ہو کر علی گڑھ پہنچ جائیں ۔ جامعہ میں تو ان کی مدت قیام محض چند ماہ کی تھی مگر علی گڑھ میں سال ڈیڑھ سال کی مدت کی بات چل رہی تھی۔ اس سلسلے میں کاغذی کارروائی چل ہی رہی تھی کہ عین اس زمانے میں شعبۂ اردو کی طرف سے سجادحیدریلدرم کی صدی تقریبات منانے اور ان پر ایک بڑا سمینار منعقد کرنے کا پروگرام طے ہوا اور عینی آپا سمینار میں شرکت کی غرض سے علی گڑھ تشریف لائیں ۔ ثریاحسین اور ان کے اہلِ خانہ کے بعد عینی آپا کے شناساؤں میں شہریار اور ہم دونوں میاں بیوی نمایاں تھے۔ چنانچہ اچھا خاصا وقت ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا۔ وہ بہت لمبے عرصے کے بعد علی گڑھ تشریف لائی تھیں ۔ ان کو دیکھنے، ان سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کا علی گڑھ کے با ذوق ادب دوست حضرات کا اشتیاق قابلِ دید تھا۔ شاید وہ چھٹی دہائی کے آغاز میں پاکستان سے ’آگ کا دریا‘ کی اشاعت کے بعد آئی تھیں بلکہ وہ باقاعدہ طور پر پاکستان چھوڑ کر ہندوستان لوٹ آئی تھیں ۔ انھوں نے ایک محفل میں اپنا افسانہ بھی سنایا تھا۔ ان کے والد اور خاندان کا علی گڑھ سے ربط، پہلے رجسٹرار کی حیثیت سے ان کی تاریخی حیثیت اور سب سے زیادہ عینی آپا کی تحریروں کی علی گڑھ میں غیر معمولی پذیرائی نے ان کی علی گڑھ آمد کو ایک بڑے واقعہ میں تبدیل کر دیا تھا۔ یلدرم سمینار کے بعد ہی وزیٹنگ پروفیسر شپ کے مراحل بھی طے ہو گئے، وہ اس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بحیثیت ایک پروفیسر وابستہ ہو گئیں ۔ اس زمانے میں یونیورسٹی کی فراہم کردہ رہائش کے بجائے انھوں نے قیام کے لیے پروفیسر ثریاحسین صاحبہ کے گھر کا ہی انتخاب کیا۔ وہ ہر روز شعبۂ اردو آتیں اور باقاعدہ کلاس لیتیں ۔ ان کی کلاسوں کی نوعیت بالخصوص ریسرچ اسکالرز کے لیے روزانہ کم از کم دو گھنٹے اور ایم۔ اے کے طلبا و طالبات سے ہفتے میں دو تین بار ملاقاتوں اور استفادے پر مبنی تھی۔ علی گڑھ میں ان کے قیام اور ان کی محفل میں متواتر بیٹھنے اور تبادلۂ خیال کرنے کے دوران ان کے مزاج کو سمجھنے کا اچھا خاصا موقع ملا۔ گویا ان کے افسانوں ، ناولوں خاص طور پر ’آگ کا دریا‘ اور دوسری تحریروں نے جس نوع کا رعب و دبدبہ ہمارے ذہن پر قائم کر رکھا تھا، ان سے ملاقات اور اندازِ گفتگو نے اس میں اعتدال سا پیدا کر دیا۔ وہ نہایت فراخ دلی کے ساتھ طالب علموں سے گفتگو کرتیں اور تدریس کے پیشے سے وابستہ نہ ہونے کے باوجود مختلف موضوعات پر دیر دیر تک لکچر دیتی رہتیں ۔ ہم سب لوگ محدود جامعاتی انداز کے درس و تدریس سے وابستہ رہنے کے باعث بڑی حد تک رسمی لکچر دینے اور سننے کے عادی رہے ہیں ۔ اس عالم میں عینی آپا کی آزاد دانش ورانہ گفتگو ایک تو رسمی ہونے کا تاثر نہیں قائم کرتی تھی اور دوسرے ان کا علم و فضل اتنا پھیلا ہوا محسوس ہوتا تھا کہ شاید وہ خود بھی بہت شعوری تیاری کر کے ایسے عالمانہ اور مربوط انداز میں توسیع علم سے ہمیں آشنا نہ کر پاتیں ۔
علی گڑھ میں عینی آپا کا قیام اس زمانے کی عام ادبی سرگرمیوں کے نقطۂ عروج تک پہنچانے کا محرک بنا رہا۔ انھوں نے علمی اور ادبی طور پر خود کو بھی بے حد مصروف رکھا اور اپنے متعلقین کو بھی۔ ان کا قیام اس اعتبار سے بھی بڑا ثمر آور تھا کہ اپنے قیام علی گڑھ میں طلبا کی رہنمائی اور بعض تحقیقی مقالوں کی نگرانی کے علاوہ انھوں نے شعبۂ اردو کی تاریخ پر ایک کتابچہ بھی مرتب کر دیا جس کی طرف اس سے پہلے کسی شخص نے توجہ ہی نہیں دی تھی۔ اس کتابچے سے مدد لے کر شعبۂ اردو کی پوری تاریخ کو پوری تفصیل کے ساتھ اور بڑے کارآمد انداز میں مرتب کیا جا سکتا ہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے اپنا افسانہ ’دریں گرد سوارے باشد‘ لکھا تھا، اور یہ وہی زمانہ تھا جب ’گردش رنگ چمن‘ (ناول) کا منصوبہ بنا کر انھوں نے اس کے موضوع پر ریسرچ کرنا شروع کر دی تھی۔ ڈیرہ وار طوائفوں سے متعلق واقفیت کے لیے انھوں نے لکھنؤ اور کلکتہ کے بعض اسفار بھی کیے تھے۔ ان کی پروفیسری کی مدت تو سال ڈیڑھ سال تھی جو بہت جلد ختم ہو گئی، لیکن ’گردش رنگ چمن‘ لکھنے کی مصروفیت کے سبب علی گڑھ میں مزید ایک سال تک قیام پذیر رہیں ۔ ناچیز نے اس ناول کی تحریر کے زمانے میں عینی آپا کے ناول لکھنے کے انداز، ان کے ریسرچ کے مزاج اور بار بار نظر ثانی اور نظر ثالث کے طریقِ کار کو بہت قریب سے دیکھا۔ وہ عموماً ایک ایک باب کو بار بار لکھتیں اور اپنے کسی بھی مسودے سے آسانی سے مطمئن نظر نہ آتیں اور بسااوقات اپنے لکھے ہوئے صفحے کے صفحے کو مسترد کر دیا کرتی تھیں ۔ اس زمانے میں کتابوں کی فراہمی اور دوسرے علمی تعاون کے لیے انھوں نے ڈاکٹر دردانہ، ڈاکٹر نیلم فرزانہ اور ڈاکٹرنسرین ممتاز سے بھی رابطہ رکھا، لیکن مسودے کی صفائی وہ کسی نہ کسی ایسے شخص سے معاوضتاً کرایا کرتی تھیں جو اردو زبان کی نزاکت سے کچھ زیادہ واقف اور املا شناس ہو۔ نا چیز نے ان کی ’میز پر گردش رنگ چمن‘ کے کم از کم پانچ مسترد مسودات خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ۔ ان رویوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اتنی کہنہ مشقی کے باوجود اپنی کسی تحریر سے آسانی سے مطمئن نہ ہونے نے ہی شاید قرۃالعین حیدر کو ’قرۃالعین‘ بنایا تھا۔ انھوں نے اپنا کوئی ناول محض قصہ گوئی اور خالی خولی واقعات اور کرداروں کی کھتونی کی صورت میں نہیں لکھا۔ ہر ناول کا کوئی نہ کوئی تاریخی یا علمی یا ثقافتی پس منظر ہے جس کے لیے گہرے غور و خوض اور انتھک ریسرچ کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ میں نے اکثر اپنے ایم۔ اے کے طالب علموں اور ریسرچ اسکالرز کے سامنے نظر ثانی کرنے، اصلاح کی غرض سے مسودے کو بار بار پڑھنے، اور ابتدائی ڈرافٹ کو حرفِ آخر نہ سمجھ لینے کی تلقین کرتے ہوئے عینی آپا کے اس نوع کے تخلیقی عمل کی مثال پیش کی ہے۔ مجھے خود بھی اس طریقِ کار کے سبب خود تنقیدی کے مزاج کے باوجود مزید احتساب اور اپنی کسی تحریر سے جلد مطمئن نہ ہونے کا سبق ملا ہے۔
عینی آپا کے قیامِ علی گڑھ کے زمانے میں ، میرے اصرار پر انھوں نے دو بڑے اہم اور غیر معمولی مضامین لکھے۔ ہوا یوں کہ رسالہ ’الفاظ‘ سے کنارہ کشی کے بعد میں نے کسی اور ادبی رسالے کے نکالنے کی ٹھان رکھی تھی، چنانچہ ’انکار‘ کے نام سے ایک نیا کتابی سلسلہ شائع کرنے کا تہیہ کر لیا۔ ان ہی دنوں وہ ثریاحسین صاحبہ کے ساتھ حیدرآباد کے سفرپر گئی تھیں اور یادوں کا نہ جانے کیا کیا خزانہ اپنے ساتھ لائی تھیں ۔ وہ وہاں کی تاریخ، تہذیب، زبان، جغرافیہ اور بعض شناساؤں کا اکثر ذکر کیا کرتیں ۔ میں مصر ہو گیا کہ رسالہ ’انکار‘ کے پہلے شمارے کے لیے آپ حیدرآباد کا سفرنامہ لکھ ڈالیں ۔ ابتدا میں تو انھوں نے خاموشی اختیار کی، مگر مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ اس سفرنامے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ ہو گئی ہیں ۔ بعض حقائق کی تلاش و جستجو اور بعض دکنی مصنّفین کی نثر و نظم کی کتابیں ان کے مطالعہ میں رہنے لگیں اور جب ایک روز موصوفہ نے یہ بشارت دی کہ دیکھو تمہارے لیے مجھے جو سفرنامہ لکھنا ہے اس کا میں نے عنوان ڈھونڈھ لیا ہے۔ یہ ملا وجہی کا ایک مصرع تھا ع دکن سا نہیں ٹھار سنسار میں —- ظاہر ہے اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ میں تو نہال ہو گیا اور دوچار ہی ہفتوں میں انھوں نے سفرنامہ مکمل کر کے میرے حوالے کر دیا۔ میں نے جب پہلے شمارے میں اس سفرنامے کو چھاپا تو گویا اس شمارے کا سب سے بڑا سرمایہ وہی سفرنامہ بن گیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ’انکار‘ کے لیے دوسری تحریر ایران کے انقلاب پر لکھی تھی۔ انقلاب کا عمل جاری تھا اور پاسدارانِ انقلاب کے بارے میں ہیبت ناک خبریں آ رہی تھیں ۔ عینی آپا نے اس انقلاب پر جو مضمون لکھنا شروع کیا اس میں خاصا روشن خیال نقطۂ نظر اختیار کیا گیا تھا۔ اسی لیے واجب و القتل، واجب القتل کی تکرار اس میں بہت تھی اور لہجہ احتساب اور تنقید کا تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ عینی آپا نے اس مضمون (جس کا نام عالمِ آشوب رکھا گیا تھا) میں کثرت سے مرزا دبیر اور بعض مقامات پر میرانیس کے مراثی کے مصرعے کے مصرعے استعمال کر ڈالے تھے۔ پہلی نظر میں تاثر یہ ہوتا تھا کہ انھوں نے لکھنوی مرثیوں کی بنیاد پر کوئی اسمبلائز سا تیار کیا ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ درمیان میں بعض مصرعوں کی معنویت اور خود مصنفہ کے قائم کردہ سیاق و سباق نے اس میں چار چاند لگا دیے تھے اور بصیرت کے ساتھ عبرت کی فراوانی دکھائی دیتی تھی۔ اس عالم آشوب کا ذیلی عنوان تھا ’’قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے‘‘ جو حضرت مرزا دبیر لکھنوی کے ایک مرثیے سے لیا گیا تھا۔ اس عالم آشوب کے لکھنے کے زمانے میں ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہوئی کہ جب کبھی میں ان سے ملنے جاتا تو دیکھتا کہ وہ مرثیوں کے متعدد بند بہ آواز بلند دُہرایا کرتی ہیں اور جو مصرعے یاد نہ آتے انھیں یاد کرنے یا حوالہ دیکھنے کی کوشش کرتی تھیں ۔ اس سلسلے میں حیرت انگیز طور پر ان کی مدد پروفیسرثریاحسین کے خاوند پروفیسر اظہارحسین کیا کرتے۔ اظہار صاحب ادب دوست کی حیثیت سے ضرور جانے جاتے تھے مگر کیا پتہ تھاکہ علم ریاضیات کے ایک ممتاز اور نامور عالم اور پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی گھٹی میں شعر و ادب بالخصوص مرثیوں کی روایت اس حد تک پڑی ہوئی تھی کہ وہ جب سنانے پر آتے تو مختلف مرثیہ نگاروں کے مرثیے جگہ جگہ سے اپنی یادداشت سے سناتے چلے جاتے۔ خود عینی آپا جو اظہارحسین صاحب کی طرح سکہ بند شیعہ روایات کی شاید پروردہ نہ رہی ہوں مگر انھوں نے مرثیے کی معنویت میں کچھ ایسے اضافے کیے جن سے روایت اور روشن خیالی دونوں کی آمیزش ناگزیر طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔ ویسے قرۃالعین حیدر کے بارے میں اس بات کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں کہ شاعری میں ان کا ذوق نہایت بالیدہ تھا۔ ان کو کثرت سے اساتذہ کے ہی نہیں اپنے زمانے کے بھی پسندیدہ شعرا کا کلام ازبر تھا۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ وہ اپنے ناولوں اور افسانوں تک کے عنوان میں عموماً کسی نہ کسی شعر سے استفادہ کیا ہے ع: اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے، ع: میرے بھی صنم خانے تیرے بھی صنم خانے، ع: گردش رنگ چمن ہے ماہ و سال عندلیب، ع: دو نیناں مت کھائیو انھیں میں ملن کی آس، ع: اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو، وغیرہ وغیرہ۔ ان مصرعوں کی معنویت کو نظر انداز کر کے ان کے فکشن کی تحت البیان کو بہت زیادہ سمجھا بھی نہیں جا سکتا۔ فیض احمد فیض کی بہت سی نظمیں اور غزلوں کے اشعار اچانک ان کی زبان پر آ جایا کرتے۔ میں نے فیض کی نظم ’انتساب‘ پہلے بھی ایک سے زیادہ بار پڑھی تھی اور یوں ہی سرسری گزر گیا تھا۔ ایک روز جب انھوں نے یوں ہی پڑھا ع آج کے نام اور آج کے غم کے نام — آج کا غم کہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ، تو میں نے ان سے پوچھ لیا کہ یہ کون سی نظم ہے تو بولیں ، ارے تمہیں یاد نہیں کیا اور لگاتار کئی مصرعے پڑھ ڈالے۔
آج کا غم کہ ہے، زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں بھوکے جیالوں کے نام
بادشا ہِ جہاں ، والیِ مِاسوا، نائب اﷲ فی الارض دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے —
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں ، اور نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں سے سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زادیوں سے بہلتے نہیں ۔ ۔ ۔ ۔
اس لیے ناچیز کو اس اعتراف میں کوئی تکلف نہیں کہ فیض کی اس نظم کی معنویت مجھ پر عینی آپا کی باتوں سے نئے سرے سے منکشف ہوئی۔ اس گفتگو کے بعد جب میں نے فیض صاحب کی اس نظم کو مزید توجہ سے پڑھا اور اس پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ اس میں تو ترقی پسند جمالیات کا سارا جوہر سمٹ آیا ہے۔
عینی آپا کے قیام علی گڑھ میں انھیں مختلف موڈ اور کیفیت میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ شعبے میں ایک رفیقِ شعبہ کی حیثیت سے، ان سے تبادلۂ خیال کرتے ہوئے ایک استاد اور دانش ور کی حیثیت سے اور ذاتی ملاقاتوں میں ایک بزرگ اور شفیق معاصر اور دوست کی حیثیت سے۔ انھیں اپنے والد اور اپنے خاندان سے جو جذباتی لگاؤ تھا اس کا اندازہ ان کی عام تحریروں سے بھی کیا جا سکتا ہے اور خاص طور پر ان کی کتاب ’کارِ جہاں دراز ہے‘ سے۔ وہ میری بیگم دردانہ قاسمی سے کبھی ان کی ریسرچ کے حوالے سے اور کبھی ذاتی خوش گپی میں دیر دیر تک اپنی والدہ اور والد کے معمولات کی تفصیل بتلاتی رہتی تھیں ۔ ان کا اور والدہ کا ساتھ چوں کہ عرصۂ دراز تک رہا اور ہندوستان سے پاکستان ہجرت اور پھر واپسی جیسے تمام مراحل میں والدہ ان کے ہمراہ رہیں ، اس لیے اس طرح کی گفتگو میں والدہ کی یاد زیادہ غالب رہتی۔ ایک بار دردانہ نے انھیں کھانے پر اپنے گھر مدعو کیا۔ اس زمانے میں ہمارا گھر محض دو چھوٹے چھوٹے کمروں اور ایک ناکافی ورانڈے پر مشتمل تھا۔ پہلے سے تو انھوں نے کھانے میں نمک نہ ڈالنے یا سبزی اور گوشت کے بارے میں اپنی پسندو ناپسندیدگی پر متعدد ہدایات دے دی تھیں مگر جب آئیں تو حد درجہ خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتی رہیں ۔ دروازے کی چوکھٹ، کمروں کے دروازوں اور ریفریجریٹر وغیرہ پر جو آیتیں اور دعائیں لگائی گئی تھیں ان کو پڑھتیں اور مجھ سے ان کے معنی دریافت کرتی رہیں ۔ ویسے ان آیتوں اور دعاؤں کا ہلکا سا مفہوم ان پر پہلی نظر میں واضح بھی لگتا تھا۔ پھر بولیں کہ خدا کا شکر ہے کہ کوئی تحریر بے موقع اور نامعقولیت سے نہیں لگی ہوئی۔ بھئی تم تو خاصے معقول آدمی ہو۔ چوکھٹ پر گھر کی حفاظت، دروازوں پر عام صحت و عافیت اور فریج پر رزق سے متعلق آیتوں کو پڑھ کر انھیں خوب اندازہ ہو گیا تھا کہ جو آیت جس جگہ تھی اسے وہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ معمولی معمولی باتوں سے انسان کے معمولات اور رویوں کے بارے میں گہرائی سے رائے قائم کیا کرتی تھیں ۔ ایک بار میں ان کے پاس بیٹھا ان سے ہم کلام تھا کہ میں نے کسی وجہ سے گھڑی دیکھ لی، پھر کیا تھا وہ اچانک چراغ پا ہو گئیں ۔ بولیں ، اگر آپ کو کہیں جانے کی جلدی ہے تو آپ جا سکتے ہیں ، بار بار گھڑی کیا دیکھ رہے ہیں ۔ انھوں نے علی گڑھ میں اپنے قیام کے دوران اردو فکشن کے مطالعہ اور مقبولیت کا ایک سروے بھی کرایا تھا۔ ہوا کچھ ایسا تھا کہ انھوں نے ایک سوال نامہ تیار کیا جس میں نام، دلچسپی، شعبہ کا نام، ناولوں کے نام، اہم ناول اور افسانہ لکھنے والوں کے نام وغیرہ درج تھے۔ یہ سوال نامہ یونیورسٹی کی مختلف فیکلٹیوں اور شعبوں کے ایسے لوگوں کے پاس بھیجے گئے جو الگ الگ علوم و فنون کے ماہر ہونے کے ساتھ اردو ادب کے قاری بھی تھے۔ دراصل اس سروے سے یہ اندازہ لگانا مقصود تھا کہ فکشن کی مقبولیت اور عدم مقبولیت کی صورت حال کیا ہے اور یہ بھی کہ کون کون سی تحریریں زیادہ پڑھی جاتی ہیں اور کون سی کم ۔ ممکن ہے اس پورے عمل میں بحیثیت فکشن نگار خود اپنی مقبولیت یا درجہ بندی کا اندازہ لگانا بھی ایک ضمنی مقصد رہا ہو۔ اس طرح جب سروے مکمل ہوا تو اس کے نتائج بہت دلچسپ اور اہم نکلے۔ انھوں نے ان نتائج پر مبنی ایک رپورٹ بھی تیار کرنا شروع کی تھی۔ پتہ نہیں بعد میں اس رپورٹ کا کیا بنا۔ تاہم اگر وہ نتائج چھپ جاتے تو ان کی بنیاد پر اردو فکشن کی مقبولیت، نا مقبولیت، معیار وغیرہ پر خاصی کارآمد گفتگو کی جا سکتی تھی۔ اس سروے کی تیاری اور نتائج وغیرہ کی ترتیب و تدوین میں انھیں پروفیسرثریاحسین اور پروفیسر اظہارحسین کا بھی تعاون حاصل تھا۔ پروفیسرثریاحسین نے عینی آپا کے قیامِ علی گڑھ کے زمانے میں خود بھی متعدد علمی کاموں کا منصوبہ بنایا۔ ’پیرس و پارس‘ کے نام سے اپنا ایران اور فرانس کا سفرنامہ لکھا، ’’جمالیات شرق و غرب‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی اور متعدد مضامین قلم بند کیے۔ ان چیزوں میں انھیں عینی آپا کے بھرپور تعاون کے ساتھ ان کی رہنمائی بھی حاصل رہا کرتی تھی۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں ایک تو وہ شعبۂ اردو کی صدر ہو چکی تھیں اور باقاعدہ طور پر ادبی نظم و نسق میں شریک بھی رہا کرتی تھیں ۔ چوں کہ اس سے پہلے ان کا کوئی خاص علمی کام سامنے نہیں آیا تھا اس لیے عینی آپا کے ورود کو ان کے لیے ورودمسعود سے کم نہیں قرار دیا جا سکتاتھا۔
ایک بار مجھے عینی آپا کے ساتھ یونیورسٹی کے رجسٹرار آفس جانے کا اتفاق ہوا۔ شاید امتحان کے کسی کام کے معاوضے کا معاملہ تھا۔ (پیسے وغیرہ کے معاملے میں وہ اپنے واجبات کو کبھی ثانوی حیثیت نہ دیتی تھیں ) وہ تھوڑی دیر بیٹھی رہیں اور ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہنے لگیں کہ شاید یہ وہی عمارت ہے جو بچپن ہمارا گھر ہوا کرتا تھا، جس میں میری پیدائش ہوئی تھی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار کی کوٹھی سچ مچ وہی تھی جس میں کئی سال تک یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار سجاد حیدر یلدرم قیام پذیر رہ چکے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ میرا حافظہ یوں تو بہت اچھا نہیں مگر جیسا بھی ہے، ہے فوٹو جینک ہے، یعنی ان کی یادیں تصویری شکلوں میں ان کے حافظے میں محفوظ رہا کرتی تھیں ۔ یادوں کی بازگشت کے اس عمل کی انوکھی کارفرمائی ان کی تحریروں میں جگہ جگہ بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔
علی گڑھ سے واپسی کے بعد وہ بمبئی کے بجائے باقاعدہ طور پر دہلی منتقل ہو گئیں اور ذاکر باغ میں رہنے لگیں ۔ اس وقت BCCI کی طرف سے ہندوستانی ادیبوں کے وظیفے کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ کئی سال تک اس پروگرام کی سربراہ رہیں ۔ ہم لوگ جب بھی دہلی جاتے ان سے ملاقات کی غرض سے ذاکر باغ ضرور جاتے۔ وہ چاہتی تھیں کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ ان کے گھر جا کر ان سے ملا کریں ۔ یاد آتا ہے کہ ایک بار انھوں نے آموں سے ہماری ضیافت کی تھی۔ بچوں کو الگ الگ بٹھا کر سامنے اخبار بچھا دیے تھے۔ اسی موقع پر ہمارے چھوٹے بیٹے سمیر کی تیزی اور شرارت کی وجہ سے اس کا نام انھوں نے چالو چکر رکھ دیا۔ بعد میں عرصے تک وہ اس کی خیریت چالو چکر کے نام سے ہی پوچھا کرتی تھیں ۔ ذاتی تعلقات میں وہ یوں بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کی خاصی پرواہ کیا کرتی تھیں اور خیال بھی زیادہ رکھا کرتی تھیں ۔ دہلی میں ان کے مراسم پروفیسرشمیم حنفی، صبا بھابی اور ان کے بچوں سے بہت گہرے رہے۔ ان کے گھر عینی آپا کا آ جانا بھی بہت تھا اور شمیم صاحب کی ذاتی اور ادبی باتوں کو وہ اہمیت بھی بہت زیادہ دیا کرتی تھیں ۔
دہلی کے زمانۂ قیام میں ان کی روحانی عقیدت ایک صوفی ’میاں صاحب‘ سے بہت گہری ہو گئی تھی جو بہ ظاہر دیکھنے میں خاصے ماڈرن اور روشن خیال لگتے تھے۔ وہ جب دہلی آتے تو عینی آپا کے ہی گھر ٹھہرتے۔ ان کے ساتھ عموماً ان کے دوچار مریدین اور عقیدت مند بھی ہوتے۔ جب تک وہ وہاں ٹھہرتے ان سے ملنے والے لگاتار آتے جاتے رہتے۔ وہ عینی آپا، جو بے حد نفاست پسند تھیں اور غیر ضروری بھیڑ بھاڑ کو ناپسند کرتی تھیں ، وہ اب نہ صرف اپنے پیرکی عادات و اطوار سے مطمئن تھیں بلکہ ان کی ناز برداری میں بھی کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتی تھیں ۔ وہ خود بھی عینی آپا کو آپا ہی کہا کرتے اور اکثر اپنی گفتگو میں حسِّ مزاح کا مظاہرہ کرتے رہتے تھے۔ ان سے عقیدت کے معاملے میں عینی آپا کی غیر معمولی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے ناول ’گردش رنگ چمن‘ میں ان کے اور ان کے بعض عقیدت مندوں کے کرداروں پر تقریباً سو ڈیڑھ سو صفحات صَرف کیے ہیں اور ان کے کردار کو ماورائی کے بجائے حقیقی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوں تو بعض لوگوں نے اس صوفی کردار پر اعتراضات بھی کیے ہیں مگر زندگی کے معمولات میں اگر اس نوع کے کردار، ان سے غیر معمولی عقیدت اور بعض محیرالعقول واقعات کو ہم تسلیم کیے رہتے ہیں تو ناول کی یہ کون سی حقیقت نگاری ہوتی ہے کہ کردار کے ظاہر کے ساتھ باطن اور نفسیات کی ساری پیچیدگیوں کو اُبھارنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگر انسانی زندگی کے تضادات کو ناقابلِ یقین حد تک بیان کرنے کو تہہ دار حقیقت نگاری کا نام دیا جائے یا اگر آزاد تلازمۂ خیال وغیرہ کی تکنیک کی مدد سے تخلیقی عمل کے سارے داخلی رشتوں تک رسائی حاصل کرنے کو کردار کی زیادہ بہتر پیش کش کا بدل قرار دیا جائے، تو ایسے رویوں کو ناول نگاری کا حصہ بنانا قابلِ اعتراض کیوں کر کہا جا سکتاہے؟
قرۃالعین حیدر نے ہمیشہ تجرد کی زندگی گزاری۔ وہ جس حد تک نازک مزاجی اور اپنی پسند و ناپسند کے ساتھ جینا چاہتی تھیں ، شاید ان کا یہ فیصلہ زیادہ دانش مندانہ تھا۔ وہ اپنی زود رنجی کی بنا پر بلا تکلف اپنے غصے کا اظہار کر دیا کرتی تھیں اور کسی رو رعایت کی قائل نہ تھیں ۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی کے اوائل میں انھیں گیان پیٹھ کے اعزاز سے نوازا گیا تھا اور صحیح معنوں میں اس طرح اردو کے جس ممتاز ترین ادیب، دانش ور اور عالم کو اس انعام کا سب سے زیادہ استحقاق حاصل تھا وہ فرض پورا ہوا۔ اگر اردو والوں کو اس بات کا رنج ہوتا ہے کہ ہندوستانی ادبیات میں ٹیگور کو نوبل ایوارڈ ملا اور علامہ اقبال کو نہیں ملا تو اس بات کی خوشی ضرور ہونی چاہیے کہ اگر نوبل انعام نہیں تو کم از کم گیان پیٹھ کے انعام کو قرۃالعین حیدر کی پذیرائی کر کے وہ عزت ملی جو بلا تفریق زبان بہت کم ایوارڈ یافتگان کی پذیرائی کی بدولت مل سکتی تھی۔ عینی آپا اس موقع پر بھی علی گڑھ تشریف لائی تھیں جب اس ایوارڈ کا اعلان ہوا تھا۔ علی گڑھ میں مختلف جگہوں پر اس اعزاز کے سلسلے میں تقریبات منائی گئیں ۔ شعبۂ اردو کی تقریب میں اس موقع سے انھوں نے اپنا قدرے پرانا اور غیر معمولی افسانہ ’ملفوظات گل بابا بیگ تاشی‘ پڑھ کر سنایا تھا۔ یاد آتا ہے کہ اس موقع پر ناچیز اور شہریار نے ان سے ایک طویل گفتگو یا انٹرویو ریکارڈ کیا تھا۔ بعد میں یہ انٹرویو شعر و حکمت میں شائع ہوا۔ ان کے شائع شدہ انٹرویوز میں شاید یہ انٹرویو سب سے زیادہ کارآمد، جامع، معلوماتی اور گہری سنجیدگی پر مبنی گفتگو پر مشتمل تھا۔ شاید اسی باعث اس انٹرویو کو بعد میں میری معلومات کے مطابق کم از کم آٹھ دس جگہ نقل کیا جا چکا ہے۔
٭٭٭