اردو غزل بنام ہندی غزل (خوبیاں اور خامیاں )
پران شرما
اردو غزل کا نام زبان پر آتے ہی اس کے ارتقا کی تاریخ آنکھوں میں ابھرنے لگتی ہے۔ ان عظیم غزل کاروں کی تصویریں شعور میں تیرنے لگتی ہیں جو گاگر میں ساگر بھرنے کی اس صنف کو چوٹی تک لے گئے۔ امیر خسرو، ولی، درد، میر، ذوق، غالب، ظفر، اقبال، چکبست، حسرت موہانی، اکبر الہ آبادی، مومن، آغا حشر کاشمیری، آتش، سودا، رام پرساد بسمل، حفیظ جالندھری، جوش ملیح آبادی، جگر مرادابادی، فراق گورکھ پوری، فیض احمد فیض، ہری چند اختر، جوش ملسیانی، میلا رام وفا، شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی وغیرہ سیکڑوں اردو غزل کاروں نے بھاووں کے ایسے لبھاؤنے رنگ برنگے پھول کھلائے کہ ان کی بھینی بھینی خوشبو یہاں وہاں ہر طرف پھیلی۔
ان لوگوں نے زبان کی ایسی آسان رو بہائی جس کا بہاؤسب کو لبھا گیا۔ سنگیت کا ایسا جادو بہایا جو سروں پر چڑھ کر بولا۔ دلوں کو چھو لینے والی ایسی غزلوں کی تخلیق کی جو بحر و اوزان کی پابند ہونے کے ساتھ ساتھ اورجنل، فطری، واضح اور حسنِ بیان کی ایک عجیب و غریب کرن لئے ہوئے تھی۔ انہوں نے غزل کو چار چاند لگائے اور اسے اردو شاعری کی مرکزی صنف کے روپ میں قائم کیا۔ ان کا کرشمہ ہی تھا کہ غزل کا بول بالا ہوا۔ چاروں اور اس کا ڈنکا بجا۔ رکشا والا، تانگا والا، بس والا، امیر غریب، نواب خادم تقریباً ہر کوئی اس کی تازگی، شائستگی اور تاثیر سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ اپنی مقبولیت کے کارن غزل نے کبھی نعت کے روپ میں پیر پیغمبر کی شان میں گائی جانے کا، کبھی کوٹھوں پر پائلوں کی جھنکار کے ساتھ گونجنے کا اور کبھی مشاعروں میں لوگوں کی واہ واہ لوٹنے کا کمال حاصل کیا۔
اچھی غزل کے لئے کچھ خاص باتیں اہم ہوتی ہیں۔ ان پر وقت کے ساتھ کے چلتے ہوئے مہارت حاصل کی جائے تو عمدہ غزل کہی جا سکتی ہیں۔ ساتھ ہی ان کک کمی ہو تو غزل اپنا تاثر کھو دیتی ہے یا زیادہ مقبول نہیں ہو پاتی۔ یہاں ہم ان خصوصیات کی تفصیلی گفتگو کریں گے۔
مضامین کی وسعت
اپنے ابتدائی دور میں اردو غزل میں شرنگار کے دونوں حصوں وصل و جدائی کا ہی بیان رہتا تھا لیکن بعد میں اس میں تبدیلی آئی۔ اس میں نصیحت، سیاست، فلسفہ اور ملک و قوم پرستی کی باتوں کا ذکر کیا جانے لگا۔ اردو غزل کار جو کبھی حسن اور عشق کی باتیں کرنے سے تھکتا نہیں تھا وہ ‘اور بھی دکھ ہے زمانے میں محبت کے سوا’ کی بولی بولنے لگا۔ اس نے غزل کو قومی اور سماجی شعور کا لباس پہنایا۔غزل صرف ناز اور انداز کی ہی محتاج نہیں رہ گئی۔ وہ ملکپرستی ، بھائی چارہ اور سماجی سروکاروں کے جذبات کے جھولے میں جھولنے لگی اور ایسے شعروں کے ساتھ گونج اٹھی۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
اقبال
یہ نغمہ سرائی ہے کہ دولت کی ہے تقسیم
انسان کو انسان کا غم بانٹ رہا ہوں
فراق
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
وقت آنے دے بتائیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
رام پرساد بسمل
آج کی اردو غزل زندگی کے ہر مسئلے سے متعلق ہے۔ اب اردو غزل کار سماجی، سیاسی اور مذہبی تضادات پر کھل کر چوٹ کرتا ہے۔ وہ کسی کامنی کے روپ میں اتنی کشش نہیں محسوس کرتا جتنا بد عنوان سماج سے دکھی ہے۔ وہ اونچ نیچ، بد عنوانی، استحصال، فرقہ پرستی سے مایوس ہے اس لئے آج کے دور کی اردو غزل میں مایوسی، غصہ ، اسنتوش اور بغاوت کی آوازیں زیادہ سنائی دیتی ہیں۔ دیکھئے کچھ شعر۔۔
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے ذہن میں رستے بنا لئے
سبطِ علی شمیم
بیاباں میں کلیاں جھلستی رہیں
سمندر پر برسات ہوتی رہی
ساحر ہوشیارپوری
اینٹیں ان کے سر کے نیچے،اینٹیں ان کے ہاتھوں پر
اونچے محل بنانے والے سوتے ہیں فٹ پاتھوں پر
کرشن موہن
گھر لوٹ کے ماں باپ روئیں گے اکیلے میں
مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں
قیصر الجعفری
زبان کی روانی
اردو غزل نے ہندوستان کی لگ بھگ ہر زبان پر اپنی ان مٹ چھاپ چھوڑی ہے۔ ہندی میں بھارتیندو ہریش چندر، سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا، میتھلی شرن گپت وغیرہ کویوں نے غزلیں لکھیں۔ ہرکرشن ‘پریمی’ اردو نما گیت لے کر آئے۔ پچھلے چار دہوں سے ہندی میں ان گنت غزل کار پیدا ہوئے ہیں۔ ہندی کے ان غزل کاروں کی فہرست بڑی لمبی ہے۔ رام درش مشر، مہاویر شرما، ادے بھانو ہنس، بال سوروپ راہی، سوہن راہی، بلبیر سنگھ رنگ، رام اوتار تیاگی، گوپال داس نیرج، شمبھو ناتھ شیش، شیرجنگ گرگ، لکشمن دوبے، رما سنگھ، ونود تیواری، چندرسین وراٹ، ہستی مل ہستی، عدم گونڈوی، کورر بیچین، جان کی پرساد شرما، ظہیر قریشی، رام کمار کرشک، شوؤم انبر، ارملیش، گیانپرکاش وویک، اشوک انزم، مہیش انگھ، اوشا راجے سکسینہ، دیوی ناگ رانی، دیکشت دنکوری، دیومنی پانڈے، تیجیندر شرما، گوتم سچدیو، دوجیندر دوج، ستیہ پال خیال وغیرہ کئی اچھے غزل کار ہیں جنہوں نے اچھے اشعار لکھے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ ہندی غزل کی پہچان اردو غزل جیسی ابھی تک نہیں بن پائی ہے۔
کسی بھی نئی صنف کے استحکام کو چار دہائیاں کم نہیں ہوتیں۔ لیکن اردو زبان کا ہندی غزل پر حاوی ہونا اس صنف کے نکھار میں رکاوٹ ہے۔ ہندی کی ان گنت غزلیں تو لگتی ہیں جیسے وہ اس کی ہیں ہی نہیں ، وہ اپنی سوندھی سوندھی خوشبو سے جیسے عاری ہو۔ ‘زلف’، ‘ناصح’، ‘خلوت’، ‘بیداد گر’، ‘سوزِ درو’، ‘ذبح’ وغیرہ عربی فارسی کے لوظمں سے دب کر رہ گئی ہے۔ ان میں گڑ اور پانی کی طرح گھل مل گئے اردو کے لفظوں کا استعمال ہوتا تو بھی کچھ بات بنتی۔ چونکہ غزل اردو سے ہندی میں آئی ہے اسلئے یہ مان کر چلنا کہ جب تک اس میں اردو کے لفظ فٹ نہ ہو تب تک وہ غزل نہیں لگتی ہے، سراسر غلط ہے۔
غزل لکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اردو کی لغت کو ہی قبول کر لیں۔ مانا کہ اردو اور ہندی کے بول چال کے لفظوں کا دونوں زبانوں کے بیچ لین دین جاری ہے لیکن اس بات سے منھ نہیں پھیرا جا سکتا ہے کہ دونوں زبانوں میں گہرا فرق بھی ہے۔ فارسی یا اردو کے مشکل الفاظ ہندی کے ساتھ لکھنے یا سنسکرت اور ہندی کے مشکل شبدوں کو اردو کے ساتھ لکھنا شاعری کے حسن میں رکاوٹ کھڑی کر سکتا ہے۔ ‘اپون میں نسیم بہہ رہی ہے’ یا ‘گلشن میں بیار بہہ رہی ہے۔’ لکھنا کتنا مزاحیہ محسوس ہوتا ہے!!ہندی کے کچھ غزل کار اردو زبان سے نا واقف ہونے پر بھی ہندی غزل میں فیشن کے طور پر اردو کے مشکل لوظوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جن اردو کے لوظرں کو اردو والے سمجھنے میں دقت محسوس کریں ، ، ان کو ہندی بھاشی لوگ کیا سمجھیں گے؟ اردو کے وہی الفاظ ہندی غزل میں لینے چاہئیے جو اس میں کھپ سکیں ، اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا سکیں اور سونے میں سہاگہ کی کہاوت کو ثابت کر سکیں۔
ہندی غزل کار کو لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کے لئے غزل لکھتے وقت فارسی، سنسکرت، ہندی اور اردو کے مشکل شبدوں سے گریز کرنا چاہئیے۔ سب کی سمجھ میں آنے والے شبدوں کا استعمال وہ کرے تو ہندی غزل کے لئے بہتر ہوگا۔ خط کشیدہ الفاظ پر دھیان دیں ، کیا عام قاری ان اشعار کے مفہوم سمجھنے کے قابل ہے؟ اگر نہیں تو ایسے کٹھن شبدوں کو غزل میں استعمال کرنے کا کیا فائدہ؟
تہذیب و تمدن ہے فقط نام کے لئے
گم ہو گئی شائستگی دنیا کی بھیڑ میں۔۔کنور کسمیش
عزم کو میرے سمجھتا یہ زمانہ کیسے
زر کی میزان پہ تلتی ہے ہر اوقات یہاں۔۔خواب اکبرآبادی
مولیہ مانو کے سوکھلت پشورتیوں کے سامنے
اب ہردیہ پر صرف پیسوں کا ہنر حاوی ہوا ہے۔۔چندرسین وراٹ
ہندی کا لغت /شبد کوش بڑا بھر پور ہے۔ اس میں ہزاروں ایسے حسین آسان شبد ہیں جو ہندی غزل (غزل کو الگ سے ہندی غزل کہنادرست نہیں۔ غزل سے پہلے ہندی لکھنے کا میرا مقصد محض یہی ہے کہ اس کو لکھنے والا ہندی بھاشی ہے۔ ویسے بھی جب کوئی کوی مائک پر کوئی غزل پڑھتا ہے تو وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ وہ ہندی غزل سنانے جا رہا ہے۔) کی شکل کو ؑسن عطا کرنے کے قابل ہیں۔ آسان شبدوں میں اگر ہندی غزل لکھی جائے گی توسوال پیدا ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ عوام الناس کو نہ متھ سکیں۔ اگر غزل مںک عوام کی سمجھ میں آنے والےآسان مدھر شبد آئیں گے تو وہ نہ صرف اپنی بھینی بھینی خوشبو سے عوام الناس کو مہکائے گی بلکہ اپنی الگ پہچان بھی بنائے گی۔
موسیقی سے رشتہ
غزل کا سنگیت سے گہرا سمبندھ ہے۔ ہندی شاعری تو سدا سے ہی موسیقی سے متاثر رہی ہے۔ تلسی کی چوپائی ہو یا سور یا میرا کے پد۔ ان میں سنگیت کی لہر مختلف دھاروں میں بہہ رہی ہے اور وہی سنگیت کا سوتہ مختلف دھاروں میں ہندی غزل میں بہہ سکتا ہے۔ اردو غزل کی طرح ہندی غزل کو بھی متاثر کن بنایا جا سکتا ہے۔ کٹھن کام نہیں ہے۔ اس کے لئے ہندی غزل کار کو اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔ فارسی اور سنسکرت یا اردو اور ہندی کے کٹھن شبدوں کا موہ تیاگنا ہوگا۔ ہندی غزل کو مقبول عام بنانے کے لئے اس کو بول چال کی لفظیات کو چننا ہوگا، مشکل پسند غزل کی وکالت کو چھوڑنا ہوگا۔ کبیر، تلسی، سور، میرا وغیرہ کے کتنے ہی پد سنتے ہی سمجھ آ جاتے ہیں ، جو سیکڑوں سال بیت جانے پر بھی عوام الناس میں رچے بسے ہیں۔
غزل کی سادگی کے بارے میں ایک نا معلوم شاعر نے کہا تھا، "غزل کے اشعار ایسے ہوں جن کو سنتے ہی سامع یہ سوچے کہ ویسے اشعار تو وہ بھی آسانی سے لکھ سکتا ہے لیکن جب وہ لکھنے بیٹھے تو لکھ نہ سکے”۔ بول چال کے شبدوں میں ‘دیکھن میں چھوٹی لگے گھاؤ کرے گمبھیر’ جیسی سطریں لکھنا کتنا کارے دارد ہے، یہ صرف لکھنے والا ہی جانتا ہے۔ ‘اب وہ گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے، مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے’ یا ‘تیرا ملنا خوشی کی بات صحیح، تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں۔’ جیسے اشعار سننے والے کے دل پر فوری اثر کرتے ہیں۔
یہاں یہ بتلانا ضروری ہے کہ غزل کے مطلع اور دوہے میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ اگر فرق کوئی ہے تو یہی کہ مطلع کئی بحروں میں لکھا جاتا ہے اور دوہا ایک چھند میں ہی۔ مطلع اور دوہا دونوں ہی دو مصرعوں یا سطروں سے بنتے ہیں اور گمبھیر سے گمبھیر خیال کو سمیٹ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ہندی میں دوہا لکھا جا سکتا ہے تو غزل کیوں نہیں لکھی جا سکتی ہے؟ ساحر لدھیانوی اور جاں نثار اختر کی ذیل کی غزلیں بہترین ہندی غزلوں میں سے ہیں
سنسار سے بھاگے پھرتے ہو سنسار کو تم کیا پاؤ گے
اِس لوک کو بھی اپنا نہ سکے اُس لوک میں بھی پچھتاؤ گے
یہ پاپ ہے کیا یہ پنیہ ہے کیا ریتوں پر دھرم کی مہریں ہیں
ہر یگ میں بدلتے دھرموں کو کیسے آدرش بناؤ گے
یہ بھوگ بھی ایک تپسیا ہے تم تیاگ کے مارو کیا جانو
اپمان رچیتا کا ہوگا رچنا کو اگر ٹھکراؤ گے
ہم کہتے ہیں یہ جگ اپنا ہے تم کہتے ہو جھوٹھا سپنا ہے
ہم جنم بتا کر جائیں گے تم جنم گنوا کر جاؤ گے
۔۔۔ساحر لدھیانوی
ایک تو نینا کجرارے اور تس پر ڈوبے کاجل میں
بجلی کی بڑھ جائے چمک کچھ اور بھی گہرے بادل میں
آج ذرا للچائی نظر سے اس کو بس کیا دیکھ لیا
پگ پگ اس کے دل کی دھڑکن اتری جائے پائل میں
غوری اس سنسار میں مجھ کو ایسا تیرا روپ لگے
جیسے کوئی دیپ جلا ہو گھور اندھیرے جنگل میں
پیار کی یوں ہر بوند جلا دی میں نے اپنے سینے میں
جیسے کوئی جلتی ماچس ڈال دے پی کر بوتل میں
۔۔۔جاں نثار اختر
آج کل ہندی کے سبھی چھوٹے بڑے کوی غزل کے سمندرمیں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور موتی ڈھونڈنے کی امید کر رہے ہیں لیکن موتی ہاتھ کیسے لگے جبکہ گہرائی تک پہنچنے کت فن کو سیکھنے کا جتن کوئی نہیں کرتا ہے۔ عربی فارسی کے الفاظ ہندی غزل میں استماسل کرنے کا موہ تو تقریباً سب میں ہے لیکن غزل کی خصوصیات کو اپنانے سے وہ دور بھاگتے ہیں۔ اسلئے کچھ لوگوں کی یہ بات بے بنیاد نہیں لگتی ہے کہ ہندی غزل میں وہ اثر نہیں ہے جو اردو غزل میں ہے۔
مشہور کوی رام دھاری سنگھ دنکر نے اپنے مضمون "ہندی کوتا پر اشکتتا کا دوش” (١٩٣٨ میں بیتیا کوی سمیلن کا صدارتی خطاب) میں اردو شاعری کی تعریف کرتے ہوئے ہندی کوتا کی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگایا تھا "کیا سبب ہے کہ ہماری جنتا کی زبان پر ہندی کی بہ نسبت اردو کے مصرعے زیادہ آسانی سے چڑھ جاتے ہیں ؟ کیا بات ہے کہ ہمارے عہد کے نمائندہ شاعروں کے مجموعے عوام میں وہ لہر اور جوش پیدا نہیں کرتے ہیں جس کے ساتھ اقبال اور جوش کی شاعری اردو دنیا میں احترام پاتی رہی ہے؟”
اردو شاعری کی روایت ہے کہ شاگرد استاد سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے۔ بحروں پر قابو پانا سیکھتا ہے۔ اپنی زبان درست کرتا ہے، اس میں نکھار لاتا ہے۔ آسان اور سلد غزل کہنے کا گر سیکھتا ہے۔ لیکن ہندی غزل کار کو گرو ششیہ روایت کا بندھن ہی قبول نہیں ہے۔ گرو ششیہ کا سمبندھ سنگیت یا ادوسری کلاؤں میں تو ہے لیکن ہندی کوتا میں نہیں۔ ہندی کوی خود ہی گرو ہے اور خود ہی ششیہ ہے۔ وہ خود کو پیدائشی عظیم شاعر سمجھتا ہے۔ سیکھنے سے تو اس کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے کیوں کہ یہ اس کی فطرت، اس کے اطوار کے مطابق نہیں ہے۔ اس کے باوجود ہندی غزل کی امیج اتنی دھندلی بھی نہیں ہے کہ اسے نظر انداز ہی کر دیا جائے۔ کچھ قابل ذکر اشعار ہیں :
سب وقت کی باتیں ہیں سب کھیل ہے قسمت کا
بندھ جائے سو موتی ہے رہ جائے سو دانا ہے
۔۔رام پرساد بسمل
میرے گھر کوئی خوشی آتی تو کیسے آتی
عمر بھر ساتھ رہا درد مہاجن کی طرح
۔۔گوپالداس نیرج
میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی
ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئیے
۔۔دشینت کمار
تو نے کیسے جان لیا مںن بھول گیا،
رشتوں کا اتہاس ہے میری آنکھوں میں
۔۔سوہن راہی
مرے ہاتھوں کی گرمی سے کہیں مرجھا نہ جائے وہ
اسی ڈر سے میں نازک پھول کو چھو کر نہیں آیا
۔۔اوشا راجے سکسینہ
ہلی نہ شاخ کوئی اور نہ پتیاں کانپیں
ہوا گزر گئی یوں بھی کبھی کبھی یارو
۔۔دیومنی پانڈے
پہاڑوں پر چڑھے تو ہانپنا تھا لازمی لیکن
اترتے وقت بھی دیکھیں کئی دشواریاں ہم نے
۔۔گیان پرکاش وویک
گھر اپنے کئی ہوں گے کوٹھوں کی طرح لیکن
کوٹھوں کے مقدر میں گھر اپنے نہیں ہوتے
۔۔منگل نسیم
آج دستک بھی ابھرتی ہے تو سناٹے سی
جیسے کوئی کسی اجگر کو چھوا کرتا ہے
۔۔۔اودھ ناراین مدگل
میرے دل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ
بڑوں کی دیکھ کر دنیا، بڑا ہونے سے ڈرتا ہے
۔۔۔راجیش ریڈی
ایسی چادر ملی ہمیں غم کی
سی ادھر تو ادھر پھٹی صاحب
۔۔سویربھانو گپت
کون سا ستسنگ سن کر آئے تھے بستی کے لوگ
لوٹتے ہی دو قبیلوں کی طرح لڑنے لگے
۔۔راج گوپال سنگھ
تم ایسے کھو گئے ہو جیسے وواہ کے دن
کھو جائے سجتے سجتے کنگن نئی دلہن کا
۔۔کنور ‘بیچین’
یوں بھٹکتی ہوئی ملتی ہے غریبی اکثر
جس طرح بھیڑ بھرے شہروں میں اندھا کوئی
۔۔اونکار گلشن
دور بیٹی ہوئی تو یاد آیا
پھل کبھی پیڑ کا نہیں ہوتا
۔۔ہستی مل ہستی
سب کے کہنے سے ارادہ نہیں بدلہ جاتا
ہر سہیلی سے دوپٹہ نہیں بدلہ جاتا
۔۔منور رانا
میں نے سورج سے کی دوستی
آنکھ کی روشنی کھو گئی
۔۔دیکشت دنکوری
اچھا شعر نازک خیالی، واضح بیانیہ اور مناسب بحر و زمین کے ملن کا نام ہے۔ ایک بھی کمی سے وہ بے مزااور بے معنی ہو جاتا ہے۔ محل کے اندر کی شان و شوکت باہر سےنظر آ جاتی ہے۔ جس طرح قرینے سے اینٹ پر اینٹ لگانا تجربے کار معمار کے فن کی معراج ہوتی ہے، اسی طرح شعر میں خیالات کو حسین الفاظ اور مناسب لب و لہجے میں پرونا شاعر کے فن کی عمدگی کا اظہار کر سکتا ہے۔
جیسا میں نے پہلے لکھا ہے کہ یہ نتیجہ ملتا ہے استاذ کے آشیر واد اور ان تھک محنت سے۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ غزل لکھنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، وہ بھول بھلیاں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اچھا شعر کہنے کے لئے شاعر کو رات بھر بستر پر کروٹیں بدلنی پڑتی ہے۔ مںل نے بھی لکھا ہے
سوچ کی بھٹی میں سو سو بار دہتا ہے
تب کہیں جا کر کوئی اک شعر کہتا ہے
آسان طریقۂ اظہار
ہندی میں اچھی غزلیں لکھی جانے کے باوجود بہت سے ایسے اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں جو بیانیہ کی عدم وضاحت، بحر کی نا مناسبت ، قافیہ ردیف کے غلط استعمال اور زبان سے متعلق اغلاط سے پھیکے ہیں۔ اردو غزل کی سب سے بڑی خصوصیت ہے واضح بیانیہ اور حقیقت۔ کبھی کبھی شاعر مبالغے سے بھی کام لیتا ہے تخلیق میں حسن پیدا کرنے کے لئے۔ وضاحت اور حقیقت سے شعر کا گر جانا شاعر کی سب سے بڑی خامی مانی جاتی ہے۔ خیال چاہے کتنا بھی نازک ہو، زمین چاہے کتنی ہی مناسب اور خوب صورت ہو لیکن اظہار کے ابہام اور شعر کے غیر حقیقی ہونے سے شعر کا قتل ہو جاتا ہے۔ شعر کو سمجھنے میں دماغ چکر کھانے لگے تو سمجھیئے کہ وقت ہی ضائع کیا۔ شاعر کے سمجھانے پر ہی شعر سمجھا گیا تو کیا سمجھا؟ تشریح سننے میں تو اس کا لطف ہی ختم ہو جاتا ہے۔ شاعری کا ابہام شعر کو کہیں کا رہنے نہیں دیتا ہے۔
اردو میں بھی کئی غیر واضح اشعار لکھے گئے پر انہیں خارج کر دیا گیا۔ واضح شعر کے بارے میں بتانے کے لئے ذیل کی مثال دی جاتی ہے:
ایک شاعر نے محفل میں شعر پڑھا
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
شعر کو سمجھنے کے لئے سامعین نے بہت مغز پچی کی۔ کسی کے پلے کچھ نہیں پڑا۔ لگا، سب کے دماغ جواب دے گئے۔ آخر ایک نے پوچھا حضور آپ کے شعر کی بحر لاجواب ہے لیکن اس کا مموسن ہماری سمجھ کے پرے ہے۔ شاعر نے شعر کی تشریح کی اے باغبان! تو مگس (شہد کی مکھی) کو باغ میں ہرگز نہ جانے دینا، وہ گلوں کا رس چوس کر پیڑ پر شہد کا چھتہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس چھتے سے موم نکلے گا اور وہ شمع کی شکل اختیار کرے گا۔ جب شمع جلے گی تو بیچارہ پروانہ اس پر منڈلائے گا اور بے وجہ جل کر راکھ ہو جائے گا۔
اکثر مشہور شاعروں کی غزلوں میں بھی یہ خامی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثلاً:
کہاں کھو گئی اس کی چیخیں ہوا میں
ہوا جو پرندہ ذبح ڈھونڈتا ہے
سنجے معصوم
یہ شعر بھی واضح نہیں ہے۔ شائد شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ ‘ذبح’ (قتل) ہوا پرندہ ہوا میں کھو گئی اپنی ‘چیخیں ‘ ڈھونڈ رہا ہے۔ لیکن ‘ذبح’ لفظ غلط جگہ پر آنے سے مفہوم یہی نکلتا ہے کہ وہ ذبح کی تلاش میں ہے۔
کچھ کمی یا بے کلی، دیوانگی سب کی رہے
کاش، دل میں درد کی آسودگی سب کی رہے
۔۔لکشمن دوبے
اس شعر کے دوسرے مصرعے میں واضح نہیں کہ درد کی آسودگی رہے کہ سب کی آسودگی رہے؟
راج گھرانوں میں ہم نے درباری گائے نہیں کبھی
اسی لیے تو اپنے اندر بچی رہی خود داری جی
۔۔گیان پرکاش ‘وویک’
یہاں ‘درباری’ لفظ نے مفہوم کو گڑبڑا دیا ہے۔ راج دربار میں بیٹھنے والا بھی کہا جاتا ہے ‘درباری’۔ اگر غزل کار کا مطلب ‘درباری راگ’ سے ہے تو شعر کو واضح بنانے کے لئے اسے ‘درباری راگ’ لفظ کا استعمال کرنا چاہئیے۔
٭٭٭