تصنیف ادبی نگینے کا تجزیاتی مطالعہ
مصنف: ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل
مبصر: ڈاکٹر ضامن علی حسرتؔ
ضلع نظام آباد ہمیشہ سے ہی ادبی سرگرمیوں کا گہوارہ رہا ہے،اس سرزمین سے نثر و نظم کے ایسے بہترین قلمکار پیدا ہوئے جنہوں نے ا پنی نثری و نظمی تخلیقوں سے اپنے نام کے ساتھ ساتھ اپنے ضلع کے نام کو بھی دنیا بھر میں مشہور و مقبول کر دیا، ادب کے ان نگینوں میں محترم شیخ حسین سالک، محترم صابر زیرگیؔ، محترم مغنی صدیقیؔ، مرزا وحید احمد بیگ، عبدالشکور منظر ؔ، حمید الزماں، ضیاء جبلپوریؔ، عابد انصاریؔ، یعقوب سروشؔ، ابو الخیر صہباؔ، عبدالرشید اسیرؔ، عبدالغفار اسیرؔ، تنویر واحدیؔ اور نیر حسین نیرؔ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان قلمکاروں نے برسوں اردو ادب کی بے لوث خدمت کی، نہ انہیں صلہ کی پرواہ تھی اور نہ ہی ستائش کی تمنا،ادب کی تاریخ میں ان قلمکاروں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ادب کے اس سلسلہ کو آگے بڑھانے میں اور اس کو اپنی لگن، محنت، جستجو اور صلاحیتوں سے پروان چڑھانے میں ایک جانا پہچان نام ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل کا بھی ہے۔ سہیل نے نہایت ہی کم وقت میں اپنی فکر انگیز و عمدہ تحریروں سے (جن میں تبصرے، جائزے، مضامین، رپورتاژ وغیرہ سب ہی شامل ہیں ) اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ساتھ ضلع نظام آباد کے نام کو بھی وہاں وہاں تک پہنچایا ہے جہاں جہاں اردو ادب کے قاری موجود ہیں۔ حال ہی میں عبدالعزیز سہیل کو عثمانیہ یونیورسٹی نے ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے’’ ڈاکٹر شیلا راج حیات اور ادبی خدمات‘‘ پر ڈاکٹر آف فلاسفی کی کی ڈگری سے نوازا ہے۔ ادبی نگینے عبدالعزیز سہیل کی پہلی کامیاب کوشش ہے، انہوں نے اپنی تصنیف کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔حصہ اول میں جملہ 11مضامین ہیں جن کے عنوانات کچھ اس طرح ہیں،تہذیبی روایت کا امین محمد قلی قطب شاہ،سر سید احمد خان مصلح قوم، دانشور اور فروغ اردو کے محرک، الطاف حسین حالی بہ حیثیت سوانح نگار، فکر اقبال اور مسلمان، علم و ادب کی شمع مولانا ابوالکلام آزاد، امام الہند مولانا آزاد کی صحافتی خدمات، آصف سابع میر عثمان علی خان کی علمی و ادبی خدمات، آصف جاہی عہد اور ڈاکٹر شیلاراج، حیدرآبادی تہذیب اور ڈاکٹر شیلاراج، اقبال متین۔ فن اور فنکار اور تنویر واحدیؔ شخص اور شاعر۔ حصہ دوم میں تنقید و تحقیق سے متعلق جملہ 6 مضامین ہیں جن پر مصنف نے سیر حاصل گفتگو کی ہے اور حصہ سوم میں 3مضامین شامل ہیں جو خالص معلوماتی ہیں۔ ڈاکٹر سہیل کی تصنیف سے متعلق پروفیسر فاطمہ بیگم پروین اپنے مضمون ’’کچھ مصنف کے بارے میں ‘‘ میں لکھتی ہیں ان کی تلاش علم کی جستجو انہیں مختلف اور متنوع کتابوں کے مطالعہ، محافل میں شرکت اور اپنی نگارشات کے توسط سے اپنے نظریات کی عکاسی پر مائل رکھتی ہے چنانچہ مختلف اور متعدد موضوعات پر قلم اٹھانے کے بعد انہوں نے قارئین کی سہولت کے لئے مختلف اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں، قومی و بین الاقوامی رسائل اور انٹرنیٹ کے ادبی صفحات پر شائع ہونے والے اپنے تنقیدی، تحقیقی و ادبی مضامین کو ایک لڑی میں پرویا ہے اور اس کتاب کو ’’ادبی نگینے‘‘ کا روپ عطا کیا ہے۔(ص،6)
پروفیسر فاطمہ پروین نے چند سطور میں ہی عزیز سہیل کی ادبی فکر، ان کی لگن، جستجو اور ان کی تصنیف ’’ادبی نگینے‘‘ کا بڑے ہی جامع انداز میں احاطہ کرتے ہوئے نہ صرف ڈاکٹر سہیل کے قلم کو خراج پیش کیا ہے بلکہ ان کا حوصلہ بھی بڑھایا ہے۔ڈاکٹر سہیل عزیز آئے دن اپنے مضامین و تحریروں کی بدولت اخبارات ورسائل کی سرخیوں میں نظر آتے رہتے ہیں۔ ان کی یہ ادبی کاوشیں آنے والے دنوں میں انہیں مزید مقبولیت و شہرت دلائے گی۔ڈاکٹر عزیز سہیل اردو ادب سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مضمون ’’ لفظ لفظ آئینہ‘‘ میں رقمطراز ہیں ادب کے فروغ میں داخلی اور خارجی عوامل شامل رہتے ہیں ادیب یا نقاد اپنے سماج کی عکاسی کرتا ہے اور سماج کی ا چھی بری باتوں کو پیش کرتا ہے اور ایک محقق اپنے ادبی سرمایے سے کچھ پوشیدہ بیش قیمت نگینے ڈھونڈ لاتا ہے اسی طرح نقاد اپنے اطراف پیش ہونے والے ادب پر عصر حاضر کے تقاضوں کے تحت نظر ڈالتا ہے۔(ص 8)
یقیناً ایک محقق سماج کا نبّاض ہوتا ہے اور ہر محقق کی سماج کے تئیں یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سماجی ناسوروں، ناہمواریوں اور نا انصافیوں کو پوری دیانتداری کے ساتھ اپنے قلم سے اجاگر کرتے ہوئے سماج کی خدمت کرے۔ تصنیف ادبی نگینے میں حصہ اول کا پہلا مضمون ’’تہذیبی روایات کا امین محمد قلی قطب شاہ ‘‘ میں مصنف نے قلی قطب شاہ کی شاعری، اس کی حب الوطنی، قوم پرستی اور تہذیبی روایات پر اپنے قلم سے بھرپور روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر محمد علی اثرؔ، ڈاکٹر محی الدین زورؔ اور پروفیسر سیدہ جعفر کے تاثرات کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے مضمون کو جامع اور فکر انگیز بنا دیا ہے۔ اسی حصہ میں مصنف کا ایک اور مضمون ’’فکر اقبال اور مسلمان‘‘ قاری کو دعوت فکر دیتا ہے۔مصنف نے علامہ اقبال کی شعری خدمات کو بڑے ہی شاندار انداز سے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی گہری وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹر عزیز سہیل نے اپنے مضمون میں اقبال کے بہت سارے لازوال اشعار کو رقم کر کے اقبال کے فلسفہ کو ان کی خدمت کو، ان کے جذبہ کو بہترین خراج پیش کرتے ہوئے اپنی فنکارانہ چابکدستی کا ثبوت دیا ہے۔ حصہ اول کے ایک اور مضمون ’’آصف سابع میر عثمان علی خان کی علمی و ادبی خدمات‘‘ میں مصنف نے آصف جاہی دور کی 37 سالہ دور حکمرانی کی سچی اور بہترین تصویر پیش کی ہے جس میں ان کی شاعری، ادب نوازی، علم پرستی اور تہذیب کے سارے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ اسی حصہ کا ایک اور اہم مضمون ’’ اقبال متین۔ فن اور فنکار‘‘ بھی اس کتاب کی ندرت میں اضافہ کرتا ہے اس مضمون میں فاضل مصنف نے اقبال متین کے تحریروں کی عظمت کو ان کی بین الاقوامی شہرت کو ان کے جائز مقام کو ان کی جملہ تصانیف کو نہایت ہی عمدہ انداز سے پیش کرتے ہوئے جہاں اقبال متین کو خراج عقیدت پیش کیا ہے وہیں اپنی علمی ذہانت وفراست کا ثبوت بھی دیا ہے۔ حصہ اول کے ایک اور اہم مضمون ’’تنویر واحدیؔ ۔شخص اور شاعر‘‘ بھی ادبی نگینے کی توقیر میں اضافہ کرتا ہے۔ ضلع نظام آباد کے اس عظیم استاد شاعر کی حالات زندگی اور شاعری کا مختصر سا جائزہ لیکر ڈاکٹر سہیل نے اپنے وطن کے اس فنکار کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا ہے۔تنویر واحدیؔ نے اپنی شاعری کے ذریعہ سارے ملک میں شہرت پائی اور اپنے وطن کا نام ملک کے کونے کونے میں مشہور کر دیا۔ تصنیف کے حصہ دوم میں شامل پہلا مضمون ’’صحافت کی ابتداء اور ہندوستان ‘‘ہے اس مضمون میں مصنف نے صحافت کے معنی اور تعریف کے ساتھ ساتھ صحافت کی ابتداء اور ہندوستان کے پہلے روزنامے کا تذکرہ بھی کیا ہے اورساتھ ہی ساتھ آزادی کے بعد ہندوستان کی صحافت کے بدلتے ہوئے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے ایک خاص مضمون بنا دیا ہے۔ اسی حصہ میں ایک اور مضمون بعنوان ’’ نظام آباد کی ادبی انجمنیں ‘‘ بھی خاصا دلچسپ ہے۔ اس مضمون میں ضلع نظام آباد کی اہم فعال و کار کرد انجمنوں کی ادبی خدمات کا ذکر نہایت ہی سلجھے ہوئے ڈھنگ سے پیش کرتے ہوئے قارئین کو یہ پیغام دیا ہے کہ نظام آباد ہمیشہ سے ہی ادب کا گہوارہ رہا ہے اور یہاں کی ادبی انجمنیں برسوں سے اردو ادب کی ترقی و ترویج میں اپنا بھرپور حصہ ادا کرتی چلی آ رہی ہیں۔ اس حصہ کا آخری مضمون ’’تحقیق۔ اصول تحقیق‘‘ ہے اس مضمون میں تحقیق اور اصول تحقیق پر مصنف نے مدللّ انداز سے بحث کرتے ہوئے مضمون کو ایک انفرادیت اور تازگی بخشی ہے۔کتاب کے تیسرے اور آخری حصے میں تین معلوماتی مضامین شامل ہیں۔پہلا مضمون ’’تعلیم، طلبا اور سماجی خدمت ‘‘ میں عزیز سہیل نے ایک اہم نکتہ کو اُٹھایا ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے اس دور میں انسان اس قدر خودغرض اور لالچی ہو چکا ہے کہ وہ اپنے علم اور اپنی صلاحیت و ذہانت کے ذریعہ صرف اپنے لئے عیش و عشرت کا سامان مہیا کر لیتا ہے،دولت کماتا ہے اور سماجی ذمہ داریوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے خود کو الگ تھلگ کر لیتا ہے۔ڈاکٹر سہیل کے اس خیال سے راقم بھی متفق ہے۔ آج کے انسان کو اپنے ساتھ ساتھ اپنی سماجی ذمہ داریوں کا بھی احسا س ہونا چاہئے۔خود غرضی ایک ایسی دیمک ہے جو اندر ہی اندر انسان کو کھوکھلا کر دیتی ہے اور جب اُسے ہوش آتا ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ انسان کو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی بھی فکر کرنی چاہئے اور اپنے اُس خدا کو بھی یاد کرنا چاہئے جس نے اُسے اِس قدر صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ ادبی نگینے کے آخری دو مضامین ’’ دور حاضر کے چیلنجز اور مسلم نوجوان اور ’’منصوبہ بندی اور مقصد کا حصول‘‘ بھی کافی دلچسپ اور معلوماتی ہیں جن کے مطالعہ سے یقیناً قارئین کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔ ڈاکٹر سہیل کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے وہ مضامین کو تحریر کرتے وقت ان کے اہم نکتوں اور تقاضوں کا بھرپور خیال رکھتے ہیں یہ بات ان کی تصنیف ادبی نگینے کے مطالعہ کے بعد صاف ہو جاتی ہے۔ ان کی اس تصنیف کی اشاعت پر میں دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ وہ مستقبل میں بھی اپنی عمدہ و فکر انگیز تحریروں کے ذریعہ علم کی اور سماج کی خدمت یوں ہی مستعدی اور دیانتداری کے ساتھ انجام دیتے رہیں اور ان کے قلم کی روشنائی سماج کو ایک نئی راہ دکھلاتی رہے۔ خوبصورت ملٹی کلر ٹائیٹل سے مزین 144 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز دہلی نے شائع کیا ہے۔ کتاب کی قیمت 200/-روپئے رکھی گئی ہے جو نہایت واجبی ہے۔ڈاکٹر عبدالعزیز سہیلؔ کی تصنیف ’’ادبی نگینے‘‘ کو زم زم بک ورلڈ،معراج کالونی، ٹولی چوکی حیدرآباد کے علاوہ مصنف کے مکان نمبر 4-2-25،مجید منزل لطیف بازار نظام آباد سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس فون نمبر 9299655396پر ربط پیدا کرتے ہوئے کتاب کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭