پل پل ۔۔۔ سونالی سنگھ/ اصغر شمیم

 

صبح آٹھ بجے : ویرار سے چرچ گیٹ لوکل ٹرین میں دھکا مکی اور شور شرابے کے بیچ مسٹر المیڑاؔ سارے ڈبے میں چاکلیٹ بانٹ کر دعائیں بٹور رہے تھے۔ آج اُن کے جنم دن کو منانے والے یہ مسافر روز ویرار سے چرچ گیٹ تک کا سفر ساتھ ساتھ طے کرتے تھے۔ نریشؔ نے اپنا پارکر پین مسٹر المیڑاؔ کی شرٹ کی جیب میں لگا دیا۔ برسوں پہلے ایک حادثے میں اپنا بھرا پُرا خاندان کھو چکے مسٹر المیڑاؔ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ انہوں نے نریش ؔ کو گلے سے لگا لیا۔

دوپہر بارہ بجے : دفتر میں نریشؔ کے ساتھ کرم کرنے والی ریتاؔ pregnant تھی۔ نریشؔ نے جلدی سے اپنی فائلوں کو نپٹایا۔

’’تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر ریتاؔ کا کام خود کرنے بیٹھ گیا۔

شام چار بجے : باس کی بیوی شام کی شفٹ میں کام کرتی تھی۔ اس لئے باس کے بچے اسکول سے چھٹی کے بعد سیدھے آفس چلے آتے تھے۔ نریشؔ بچوں کو آئس کریم کھلانے لے گیا اور اگلے سنڈے چڑیا گھر جانے کا پروگرام بنا ڈالا۔

رات آٹھ بجے : تھک ہار کر نریش گھر لوٹا۔ بوڑھے باپ کے کھانسنے کی آواز سن کر اُس نے گالیوں کی بوچھار کر دی۔ بیوی نے کھانا لگایا تو ’’نمک کم ہے ‘‘ کہہ کر پورا کھانا دیوار پر پھینک دیا۔ بچے کارٹون دیکھ کر خوب ہنس رہے تھے۔ ’’کتنا شور مچاتے ہیں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے بچوں کو تھپڑ لگا دئیے۔ بچے سہم کر چپ ہو گئے اور پھر جب ہر طرف خاموشی چھا گئی تو نریشؔ سونے چلا گیا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے