وراثت ۔۔۔ احسن سلیم

 

آسمان

زمین پر کھونٹی تانے سویا ہوا ہے

دروازوں کی پستی

میرے اندر آ گری ہے !

اندھیروں اور اجالوں میں

خوش آمدید کہنے والی ہر ایک آنکھ

فریب کے پہلو سے اُٹھ کر آتی ہے

خواہش

خیالوں میں آگ لگاتی ہے

یہ میرے اندر کی سرکشی ہے

میں کسی بستی کو

آزمائش میں ڈالے بغیر

اپنے گیتوں کو ذبح کرتا ہوں

خوابوں کو ڈرا دیتا ہوں

زندہ لہجے میں اُترتی ہوئی شام

مُردہ مٹی کو بوسہ دیتی ہے

ہوا، اپنا رُخ بدل لیتی ہے

پھر رات چراغوں سے نکل آتی ہے

چوہے، بالا خانوں پر نظر آتے ہیں

چور اپنی آنکھیں

اجنبی گھروں میں چھوڑ آتے ہیں

 

کبھی دسترس میں نہ آنے والی یہ زندگی

مُردوں سے ہمیشہ جنگ ہارتی ہے

ہارے ہوئے بدگمان بھکاری

میری پناہ گاہ میں

شطرنج کھیلنے کی مشق کرتے ہیں

اور جھوٹ سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں

ان کے پیٹ

مقدس غار ہیں

جہاں چور

ظہورِ ثانی کے منتظر ہیں !

 

ملبوسات کی نئی فصل اُگ آئی ہے

میں فصل کاٹنے سے پہلے

درانتی کو آگ دکھانا چاہتا ہوں

مگر آگ تو قمار خانوں میں بند ہے

فصل کاٹنے

اور غبّارہ اُڑانے والے ہاتھ

آسمانوں کو ڈھونڈتے ہیں

زمیں کھودنے والی آنکھیں

آسمانوں کو لے اُڑی ہیں

کبوتر

اس بات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے

معبدوں کے دھوپ آلود صحن میں

کھلی مباشرت کرتے ہیں !!

 

 

اس سال

امرود کے درختوں نے

کیڑوں کو جنم دیا ہے

پچھلے سال

شہتوت نے سانپ پیدا کئے تھے

سانپ

ریشم سے نکل کر

جوان ہوتے ہوئے شیروں کو ڈس لیتے ہیں

جنگل کا دستور

تمہارے اوپر لیٹی ہوئی ننگی رات ہے !!

تمہارے غبارے میں

کسی نے عقل کی ہوا بھر دی ہے

اور تمہاری عقل نے

خدا کو اپنے اندر قید کر لیا ہے

تم،

ریستورانوں کے بند کیبنوں میں

بیکار، ماچس کی تیلیاں ضائع کرتے ہو

خالی بیٹھے رہنے اور پیٹ بھرنے سے زیادہ بہتر ہے

کہ تم،

اپنی سرد آوازوں کو میز پر رکھ کر

تیلی دکھا دو

اور آگ اپنے گریبانوں میں اُنڈیل لو

شاید خدا

تمہارے اندر

کچھ دیر اور زندہ رہ سکے !

 

ہم نوا____

میرے نام کا پہلا حرف

اور تمہارے نام کا آخری حرف

ایک دوسرے کے اندر چلتے ہیں

جیسے آگ،

کوئلوں میں سوتی اور جاگتی ہے

تمہاری یاد میں

برسات نے

سمندروں کو مٹی بنا دیا

یہ پھول

جو میرے ہاتھ میں ہیں

مٹی کے انگارے ہیں !!

 

نیند اور بیداری

سورج اور سایوں کے درمیان

تمہارے سانس،

چاند کی پوروں سے برستے ہیں

خوابوں کے چراغ

زینہ بہ زینہ اُترتے ہیں

ان چیزوں کی حفاظت کرنا

ہمارا فرض ہے

مگر_____

حفاظتی ملبوس میں سانس ٹوٹنے لگتے ہیں :

کل رات،

تمہارے گھر کی دیواروں پر

ایک اجنبی خواب اُتر آیا تھا

پتھر کے غاروں سے

چمکدار بوٹوں کی قطاریں نکل آئی تھیں

کھیتوں میں سوئی ہوئی چاندنی

زخمی حالت میں

آسمانوں کو پرواز کر گئی

چاند کی پوروں سے برستے پھول

تمہارے گھر کی جڑوں میں خون ہو گئے

تمہارے قدموں کے نشان

بے آب دنوں میں اُتر گئے

تمہاری کہکشاں

بوڑھے جنرل کو رسی میں لپیٹ کر

کالے پانی میں جا گری

دروازوں کی پستی میرے اندر آ گری

رات کے اوّلین حصے میں

صبح ہونے کا اعلان

ہمارے ساتھ ایک بھیانک مذاق تھا

ایسا مذاق

جو بوڑھی طوائف

عمر کے آخری حصے میں اپنے میک اپ سے کرتی ہے !!

ہم نوا____

میں تمہارے پیراہن سے

اپنے خیالات نچوڑنا چاہتا ہوں

پیار،

نفرت کا پہلا زینہ ہے

آخری زینے تک آتے آتے

میرے پاؤں پتھرا گئے ہیں

میں نہیں چاہتا کہ تم،

ساری عمر

اپنے پائنچوں میں پتھر چھپا کے چلتی رہو

تمہاری چھاتیوں کی تہہ میں

معدوم ہوتی ہوئی تہذیب …

نئے زمانوں کا آغاز ہے

تم،

اپنے ملبوس کو رخصت دینے سے پہلے

اپنی جوتیاں

چھاؤنی بنانے والوں کے منہ پر اُتار آنا!!

 

’وہ‘

میرے لئے

ہر روز ایک نیا بیان دیتے ہیں

زندگی

اُن کے بیان سے باہر

تتلی کے پیلے پروں میں گم ہوتی جا رہی ہے

سفر کے نیچے دبی ہوئی

کاغذ کی کشتی کا آخری درشن

میرے ہاتھوں کی لکیروں میں سو گیا ہے

تمہارے ماتھے کا ستارہ

میرے لہجے میں کھو گیا ہے

… اندھیرا ہو گیا ہے … اُن سے پوچھو

تم چراغوں کے بہانے …

کب تک ہماری راتیں جلاؤ گے !؟

صبح کے دھوئیں کو

اپنی آنکھوں میں بھر لو

یا کسی چٹان سے نیچے گر پڑو

کوئی بھی شمشیر انداز

تمہیں اُٹھا کر

تمہاری ماں کے حوالے کر دے گا

میں جانتا ہوں

تمہاری جنت

درندوں کی خوراک بن چُکی ہے

ننگے بھوکوں کی پوشاک بن چُکی ہے

 

دیکھو،

ایک بے لباس مکڑی

ہماری آنکھوں میں جالے بُن گئی

ہمیں،

جن راستوں پر چلنا تھا

وہاں

لومڑیوں کے دانش کدے کھُلتے دکھائی دیتے ہیں

تم کسی بھی بھٹ میں

اپنی ٹانگوں اور اپنے ہاتھوں سے

ملاقات کر سکتے ہو

ملاقات کا وقت

کاغذ کے ایک ٹکڑے کے برابر ہے

کہو !

ہم عظیم فنکار ہیں

کشتیاں جلانے کا جوش

ہمیں بستیاں جلانے کا فن دے گیا

ہمارے حریف

آبدوزوں میں اگلے جزیروں کو روانہ ہو چکے

ہم خوش ہیں کہ

اب ہمارا کوئی حریف نہیں رہا!!

یہ آخری بات

میرے لئے، تمہارے لئے اور اُن سب کے لئے ہے

جو‘ اپنی کھوج میں دھرتی کی آگ پیتے ہیں

سُنو!

ایک آواز

سمندروں کے جھاگ

اور صحراؤں کی دھوپ کو

چیرتی چلی آ رہی ہے

’وہ‘

ایک سرخ لکیر ہے

دھنک کی طرح

طویل اور خمیدہ کمان ہے

کھُردرے پتھروں کو چاٹتی ہوئی لانبی زبان ہے

حنوط شدہ گھروں

اور گونگے دفتروں کے درمیان

آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آ رہی ہے

وہ

ایک سرخ لکیر ہے

تمہیں شاید!

خون دکھائی دیتا ہو گا

مگر یہ میرے لہو کی آگ ہے

میرے دل کی آگ ہے

میری اُنگلیوں کی ایک ایک پور

ابد کے پڑا ؤ میں

سُلگتی دھڑکتی آگ ہے

لفظ

قلم

دوات

کاغذ کی طرح پھیلی ہوئی یہ رات

ہر چیز آگ ہے

تمہاری کائنات

بھوسے کا ڈھیر ہے

تمہارے اندھے بیل

بھوسے کے بجائے

میری آگ چاٹتے ہیں !

سنو!

مٹی کے انگاروں کی آواز سُنائی دیتی ہے

گلیوں میں کٹی ہوئی

اُڑتی پتنگ

کوئی بھی لوٹ سکتا ہے

تمہارے کئے ہوئے فیصلے

پہاڑوں کے چراغ نہیں بن سکتے

تم جہاں مقیم ہو

وہ گھر

میرے ہی مکان میں بند ہے !

پہاڑوں کا پِتّہ پانی ہو سکتا ہے

تم میری آگ سے اپنی آگ جلاؤ

خوابوں کے بغیر

ہمارے ہونے کا امکان بھی خواب ہے

تمام ذائقے

ازل کی طرف پرواز کرتے ہیں

¦

آؤ ہم

اپنے بوسیدہ کپڑوں کی باسی خوشبو

سورج کے منہ پر اُلٹ دیں

اور ہرے بھرے جنگلوں سے

نئی خوشبو سمیٹ لائیں

تلخی کا ایک گھونٹ

کئی ہزار شیروں کو جنم دے سکتا ہے

آؤ ہم

بھوسے کے ڈھیر میں

شیروں کے بیج بو دیں

ورنہ …۔

یہ ریشمی سانپ

تمہاری چھاتیاں پی جائیں گے

اور ہماری آگ کا دھڑکتا پھول

وقت سے پہلے یتیم ہو جائے گا

 

شاعر،

میری گفتگو میں تم نے خود کو بولتے سُنا

اور

آسمان ہو گئے

کھونٹی تان کر سوگئے !

میرے الفاظ

اور میرے خیالات

تمہارے لئے آئینہ مثال تھے

تم نے آئینے میں خود کو دیکھا

اور کہا

"مجھے آج تم پر پہلے سے بھی زیادہ پیار آیا”

یہ میرے لئے

دُکھ کی بات ہے یا خوشی کی بات ہے

اس کا فیصلہ

میں نے

آنے والے دنوں کی زبان پر رکھ دیا ہے :

تمہارے جذبات کی قیمت

میرے بے کنار آئینہ میں چمکتے ہوئے

اَن گنت ستاروں میں سے ایک ستارہ ہے

جو میں

کسی بھی سوالی کو دے سکتا ہوں

یا…

لسی بھی لڑکی کے بالوں میں سجا سکتا ہوں

ارسطو اور افلاطون کا

حوالہ نہ دو

داد و تحسین

پرانے بستر ہیں

جہاں تم سونا پسند کرتے ہو

میرے محسوسات

میری اپنی آگ کی سچی اولاد ہیں

اور میں

تم سے زیادہ اپنی اولاد سے پیار کرتا ہوں

میں تم سے

زمانوں کے سکون کا طالب ہوں

اور نہ قیامت کی بھیک مانگتا ہوں

میں،

اپنی وراثت میں

دھوپ یا دیئے

سُرخ یاسُپید

سورج یا سمندر

"کچھ بھی نہیں چھوڑوں گا”

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے