سرچشمۂ دانش و سخن: رؤف خیر ۔۔۔ خالد یوسف

تجھے خبر بھی ہے کیا کیا خیال آتا ہے

کہ جی ترے سخنِ ملتوی سے خوش نہ ہوا

یہ شعر ارضِ دکن کے خوش فکر شاعر رؤف خیر کا ہے اور ان کے خوبصورت شعری مجموعے ’’سخن ملتوی ‘‘کے سر ورق کی زینت ہے۔ محبوب کے ہزار ناز و غمزے برداشت کرنے کے باوجود کوئی بھی سچا عاشق بشمول رؤف خیر اور ہم اس کے سخن ملتوی سے خوش نہیں ہوتا لیکن اس سخن ملتوی کی بات ہی کچھ اور ہے جس میں اک گلزار کیف و نشاط اور جہانِ معنی پنہاں ہے۔ ان کے اشعار جہاں ایک طرف نغمہ و تغزل کا رس برسا رہے ہیں تو دوسری طرف علم و دانش کے بیش بہا موتی بھی بکھیر تے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں تصوف اور رومان ہاتھ پکڑے ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں مثلاً یہ اشعار:

ہم کسی اور کی صورت کے روادار نہیں

جتنے دروازے ہیں سب تیری طرف کھلتے ہیں

بے اثاثہ میں سہی تو تو اثاثہ ہے مرا

رات آنکھوں میں تجھے اپنی چھپا کر سو گیا

آتا نہیں یقین کہ وہ بد گمان ہیں

میرا خیال ہے کہ انھیں خط نہیں ملا

ان کے کلام میں جگہ جگہ پُر کار بندشوں اور قدرت کمال کی کار فرمائی نظر آتی ہے جیسے یہ شعر:

انھیں عجیب سا چسکا ہے لکھنے پڑھنے کا

تمام لوحِ بدن پر نظر سے لکھتے ہیں

ان کے فن کا دامن غم جاناں ہی نہیں بلکہ غمِ دوراں کو بھی اپنے حصار میں رکھتا ہے اور بین الاقوامی حالات و واقعات کے زیر اثر عصری حیثیت کے مظہر ایسے اشعار بھی ان کے ہاں وافر نظر آتے ہیں :

ہمارے حلق میں پھنستا رہا نوالۂ تر

ہماری آنکھ میں صومالیہ رہا پہروں

دلا دی قتل کے فتوے نے شہرت

دعا سلمان دے ایرانیوں کو پ

رؤف خیر کے افکار پر مذہب کی چھاپ بہت گہری ہے جس میں غالباً جناب مصلح الدین سعدی کی صحبت کا اثر ہے جنھیں انھوں نے ’’ پیر خیر‘‘ کے لقب سے یاد کیا ہے اور جو جماعت اسلامی کے متاثرین میں سے تھے۔ اپنی کتاب ’’دکن کے رتن اور ارباب فن ‘‘میں رؤف خیر خود رقم طراز ہیں ’’سعدی بھائی نے کوئی کتاب بھلے ہی نہ چھوڑی ہو، میں ان کی کتاب ہوں ‘‘

رسول کریمﷺ سے والہانہ عشق ہی نے ان سے واقعۂ طائف کی تصویر کشی کرتے ہوے ایسی خوبصورت نظم(نعت) تخلیق کر وائی جس کا مطلع ہے :

سنگ طائف کے بچوں کے ہاتھوں میں تھے آپ نے اُف نہ کی

پاؤں نعلین میں خون سے جم گئے آپ نے اُف نہ کی

یہ الگ بات ہے کہ رؤف خیر کا مذہب نفرت و فساد کا پرچار کرتے پھر تے روایتی ملا کا مذہب نہیں بلکہ اس میں فلسفیانہ افکار کی گہرائی، انسانیات کی اعلیٰ و ارفع اقدار پر یقین کامل اور ایک مرد مومن کی عظمت کر دار کی جھلکیاں نظر آتی ہیں جو ان کے مندرجہ ذیل اشعار سے واضح ہے :

کر دار سے بہتر کوئی ہتھیار نہیں ہے

مومن کو ضرورت ہی نہیں تیر و تبر کی

جو مرد حق ہو وہ اکثر شہید ہوتا ہے

حریف حق تو جہنم رسید ہوتا ہے

رؤف خیر بھلا تم سے کسےت خوش ہو گا

وہ مولوی جو کسی مولوی سے خوش نہ ہوا

بلوا لو شیخ کو بھی پئے فاتحہ ضرور

کہنا کہ میکدے میں نیاز شراب ہے

ہم جیسے جیالے تو دکھا دیتے ہیں کر کے

پھرتے نہیں کرتے ہوئے تقریر ہمیشہ

اور یہاں ہمیں پاکستان کے انقلابی شاعر حبیب جالب مرحوم یاد آ جاتے ہیں جنہوں نے کہا تھا :

بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا

مگر بدلی نہیں اب تک مری تقدیر مولانا

رؤف خیر کی نظر میں زندگی لائق قدر و احترام اور عالم اسلام میں گمراہ ملاؤں کے بہکانے پر خود کش حملوں کے بڑھتے ہوئے رجحان اور انسانی جانوں کی ارزانی پر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے :

حیات کا مرتبہ شہادت سے بھی ہے اونچا

یہ ماننے میں کوئی تامل نہ باک کرنا

یہ کیسی دشمن سے دشمنی ہے کہ خود شکن ہو

ہے اک تماشہ ہلاک ہونا ہلاک کرنا

خود ہم نے بھی اِسی ضمن میں کہا تھا :

ہم تو خود ہی گامزن ہیں خود کشی کی راہ پر

وہ ہمارے قتل کے احکام صادر کیا کریں

مضطر مجاز نے رؤف خیر کو وہابی شاعر قرار دیا ہے شاید اس لئے کہ وہ دنیائے اسلام کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی فضول رسومات بے ہنگم بدعتیں اور اوہام پرستی کہ مخالف ہیں۔ اگر چہ وہ اقبال کے مداح ہیں مگر وہ ان کی طرح سب کو خوش کرنے کے ہر گز قائل نہیں۔ بقول ان کے اقبال سے تو :

بدعتی اور خبیث بھی خوش تھے

ان سے اہل حدیث بھی خوش تھے

بدعت شکن اور اوہام شکن یہ اشعار دیکھئے :

شہ رگ سے بھی قریب ہے وہ اس کے باوجود

قائل رؤف خیر، وسیلے کے لوگ ہیں

جو خانقاہ کے قائل نہ بار گاہوں کے

قصیدے وہ تری چوکھٹ پہ سر سے لکھتے ہیں

جویائے حق کا دین تو دین حنیف ہے

باطل پرست حاملِ دین ضعیف ہے

رؤف خیر کے کلام میں ایک گونہ فلسفیانہ قناعت پسندی، حق گوئی کے کڑے تیور اور ناصحانہ انداز بھی نظر آتا ہے جیسے :

جو بولنا ہے بہر حال بولتے ہیں مگر

علامتوں میں زمانے کے ڈر سے لکھتے ہیں

ہر بات مان لینے کی عادت خراب ہے

نا قابلِ قبول کو رد بھی کیا کرو

میں اپنی خاک نشینی میں مست اتنا ہوں

کہ تخت و تاج بھی جلتے ہیں بوریئے سے مرے

جال میں دنیا کے پھنستے ہیں کہیں اہل نظر

یہ طوائف گرچہ کو شاں ہے رجھانے کے لیے

کچھ ہاتھوں سے کچھ ماتھوں سے کالک نہیں جاتی

ہر چند کہ بازار میں صابن بھی بہت ہے

رؤف خیر کی اب تک آٹھ (۹)کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں چار شعری مجموعے (۱) اقرا، (۲) ایلاف، (۳) شہداب(۴)سخن ملتوی کے علاوہ ایک تحقیقی مقالہ ’’حیدرآباد کی خانقاہیں ‘‘اور تنقیدی مضامین بہ عنوان ’’خطِ خیر ‘‘۔ اقبال کے ۱۶۳۔ فارسی قطعات ’’لالۂ طور‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ بنام ’’قنطار‘‘ اور تذکروں اور کوائف کی کتاب ’’دکن کے رتن اور ارباب فن ‘‘شامل ہے۔ (اس کے علاوہ تنقیدی مضامین کا ایک اور مجموعہ بچشم خیر کے نام سے چھپ چکا ہے )صبیحہ سلطانہ نے حیدرآباد یونیورسٹی سے ایم۔ فل کے مقالے کے لیے ان کی سوانح حیات مرتب کی ہے جو ’’متاع خیر‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ میدان ادب میں یہ کار ہائے نمایاں رؤف خیر کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ وہ خود بھی اس معاملے میں بے حد پر اعتماد ہیں اور تنقید نگاروں کی موشگافیوں کو چنداں خاطر میں نہیں لاتے۔ اس ضمن میں ان کے یہ اشعار دیکھئے :

نمو کا جوش سلامت میں بے نشان نہیں

کمال یہ ہے کہ ہر خاک نم ہے میرے لیے

ہم شعر کہا کرتے ہیں وجدان کے بل پر

کچھ لوگوں کو زعم فعلاتن بھی بہت ہے

ہمارے قامتِ زیبا پہ حرف رکھتے ہیں

وہ جن کی عمر کٹی آئینے سے ڈرتے ہوئے

بلا سے چیخ بنو، حرف زیرِ لب نہ بنو

کوئی نشان تو چھوڑو کہیں گزر تے ہوئے

رؤف خیر شخصیت پرستی کو بت پرستی کے مترادف سمجھتے ہیں اور اندھی تقلید کے سخت مخالف ہیں۔ ایک جگہ کہتے ہیں :

اسی لیے تو اطاعت نہ ہو سکی مجھ سے

بڑا سہی وہ مگر اُس کی بات چھوٹی تھی

(ہم نے بھی کہا تھا :

پوجا پہ شخصیات کی مائل نہیں ہوئے

ہم تو خدا کے بت کے بھی قائل نہیں ہوئے )

رؤف خیر نے ہجرت کو بھی کبھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا اور اسی لیے کبھی دشمن کو بھی ہجرت کا مشورہ نہیں دیا۔ یہ شعر دیکھئے :

مہاجرین سے انصار خوش نہیں ہوتے !

تو پھر کہاں کی یہ ہجرت، برا ہے بھارت کیا

 

ہماری بھی اگر بھارت سے پاکستان ہجرت کرنے سے پہلے ان سے ملاقات ہو جاتی تو ہم کبھی ہجرت کرنے کا نہ سوچتے۔ اگر چہ یہ ملاقات ممکن نہیں تھی۔ ایک تو اس لیے کہ ۱۹۴۹ء میں جب ہم نے پاکستان ہجرت کی تو ان کی عمر کوئی آٹھ ماہ ہو گی (یاد رہے ان کا یوم پیدائش ۵ نو مبر ۱۹۴۸ء ہے یعنی اُن کا برج عقرب ہے جو علم نجوم میں عموماً تحقیق، سراغ رسانی، روحانیات یا پھر جنسیات کا برج سمجھا جاتا ہے کہ اس روز کوئی چار سو سال قبل ایک شخص گائی فاکس نے بارود کے ذریعے دھما کے سے پارلیمنٹ کو تباہ کرنے کی نا کام کوشش کی تھی۔ ) دوسرے یہ کہ اگر ہم دکن ان سے مشورہ کرنے چلے جاتے، وہاں ان کی نظر میں ’’شمالئے ‘‘ ٹھیرتے جن کے بارے میں وہ اپنی یک مصرعی نظم میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں :

بہت سرافراز ہو گئے تھے شمالئے سب دکن میں آ کر

(یاد رہے کہ اس سے برسوں قبل بانی بدایونی نے کہا تھا :

فانی دکن میں آ کے یہ عقدہ کھلا کہ ہم

ہندوستاں میں رہتے ہیں ہندوستاں سے دور)

رؤف خیر نے ہئیت شعری اور اصناف سخن میں کئی چونکا دینے والے تجربے کیے ہیں۔ یک مصرعی نظموں کے تو وہ خود موجد ہیں۔ غزلوں، پابند و آزاد نظموں، نعتوں، منقبتوں اور حمدوں کے علاوہ انہوں نے بہت سی تکونیاں، سانیٹ، ہائیکو، ماہئے اور ترائیلے (آٹھ مصرعوں کی فرانسیاو صنفِ سخن )تخلیق کیے ہیں جو ان کی فکر کی گہرائی اور دانش و بینش کے مظہر ہیں اور ان میں ان کے نظریۂ زندگی، نظریۂ ادب اور سماجی شعور کی بھر پور عکاسی نظر آتی ہے۔ ان کی خوبصورت نظموں میں رکھشا بندھن، ٹیپو کی نذر، دینِ ضعیف، چلو سب خداؤں کو غرقاب کر دیں، صبح کاذب، دور درشن، میں اپنی آواز کھو رہا ہوں، بے اثاثہ، (والد مرحوم کی نذر )، چھاؤں (والدۂ مرحومہ کے نام )اور ’’ ماں /باپ کی قبر پر ‘‘شامل ہیں :

تمہاری قبر پہ کتبہ نہیں تو کیا غم ہے

تمہارا نام رواں ہے مرے رگ و پے میں

انہوں نے اسلامی تاریخ سے معنی خیز تلمیحات اور استعاروں سے اپنی نظموں کو آراستہ کیا ہے۔ نعت نگاری میں وہ بے حد احتیاط کے قائل ہیں کہ بعض نعت نگار مدح رسول میں اس قدر غلو کر جاتے ہیں کہ بات کفر کی حدوں کو چھونے لگتی ہے۔

رؤف خیر نے غزل میں بھی تجربے کیے ہیں مگر وہ آزاد غزل کے مخالف ہیں۔ ان کے خیال میں ابھی آزاد نظم بھی اردو ادب میں اپنا صحیح مقام نہیں بنا سکی ہے تو غزل کے ساتھ یہ کھلواڑ جائز نہیں۔ غزل میں ان کا تجربہ مندرجہ ذیل اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں تمام اشعار کے مصرع ہائے اولیٰ دوسرے اشعار کے اولین مصرعوں سے ہم قافیہ ہیں :

حروف ہیں تو بہت حرف مختصر ہی الگ

کہ وہ لکھا ہے جو لکھا ہوا نہیں دیکھا

ہے راستہ ہی الگ اپنا اور سفر ہی الگ

ہمیں کسی نے بھی بھٹکا ہوا نہیں دیکھا

اس طرز غزل کی پذیرائی ذرا مشکل ہی نظر آتی ہے کہ شعرا کی جدید نسل ہئیت میں نئی پابندیاں بھلا کیوں برداشت کرے گی جب کہ وہ موجودہ قیود سے بھی گریزاں ہے۔

اپنی روایتی شاعری کی مانند غیر روایتی شاعری میں بھی رؤف خیر نے دانش و حکمت کے موتی بکھیرے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی تکونیاں خصوصیت سے اظہار رائے کی بے باکی اور ان کی علمی بصیرت کی دلیل ہیں۔ مثلاً اقبالیے حضرات کے بارے میں ان کا کہنا ہے :

جن کی پہچان کچھ نہیں تا حال

ان کی پہچان ہو گئے اقبال

ترقی پسندوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے :

کھلا کہ ان کا جو فلسفہ تھا

شکم سے اُوپر نہ اُٹھ سکا تھا

جدید یوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں :

بس ایک پاسِ ادب نہیں تھا

وگر نہ جھولی میں ان کی سب تھا

انہوں نے اپنی تکونیوں میں کے لیے اور کریلے تک کا دلچسپ مقابلہ کروایا ہے اور بطور مبصر بڑے پتے کی باتیں کی ہیں۔ مثلاً:

تم اگر چاہتے ہو شہرت ہو

ہر بڑے آدمی کو گالی دو

یک مصرعی نظم :

(۱)سکوں حضر میں ہے لذت مگر سفر میں ہے

(۲)ہر سند سے بڑی سفارش ہے

 

ہائیکو :

 

دانش نیچے رکھ /بینش اس سے بھی نیچے /خواہش پیچھے رکھ

 

قصہ گو کا نام /لمبے چھوڑے قصہ کا /اتنا سا انجام

 

ماہیے :

 

جھانسہ تھا بلا سودی /اصل ہی کھا بیٹھے /ایسے بھی تھے بیوپاری

رؤف خیر نے اپنے ابتدائی دور میں بچوں کے لیے بھی شاعری کی ہے اور ماہ نامہ ’’کھلونا‘‘ جیسے معیاری رسالے میں ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔ ان کی نظمیں ’’جب میں اسکول جانے لگتا ہوں ‘‘اور ’’ ہمالیہ ‘‘مہاراشٹرا اور آندھراپردیش کے اسکولوں کے نصاب میں داخل ہیں۔ سبق آموز کہانیاں نقشی کٹورا، دھوکا، ٹیوشن اور مضامین ’’ بستہ ‘‘اور محلے کا نل مختلف جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔

رؤف خیر نے ترجمے کے میدان میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ علامہ اقبال کے ۱۶۳۔ فارسی قطعات کا جو ’’لالۂ طور ‘‘کے نام سے موسوم ہیں اردو میں اتنا خوب صورت ترجمہ کیا ہے کہ اصل کا دھوکا ہونے لگتا ہے جو ان کی فارسی زبان پر بھی مکمل دسترس کی دلیل ہے۔ اس کے علاوہ زبور عجم کی افتتاحیہ دعا اور نظم تنہائی کا منظوم اردو ترجمہ اور غلام علی آزاد بلگرامی کی چار فارسی غزلوں کا بھی دلکش منظوم اردو ترجمہ کیا ہے۔ مشہور نو مسلم شاعرہ کملا ثریا کی انگریزی نظم ’’یا اللہ ‘‘کو بھی انہوں نے اردو کے منظوم قالب میں ڈھالا ہے۔

رؤف خیر تذکرہ، تنقید کے میدان کے بھی شہ سوار ہیں۔ میں نے سب سے پہلے ان کا کلام بریڈ فورڈ کے ہفت روزہ ’’راوی ‘‘میں پڑھا جو مجھے ایک تازہ وہ توانا لہجہ محسوس ہوا۔ اس کے بعد برِصغیر اور برطانیہ کے مختلف ادبی جریدوں میں ان کی شعری اور نثری نگارشات پڑھتے رہنے کا سلسلہ تا حال جاری ہے اور طبیعت ہے کہ سیر ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ نقد و نظر کے ضمن میں ان کی معرکۃ الآرا کتاب ’’دکن کے رتن اور ارباب فن ‘‘ ہے جس میں انہوں نے کھل کر اپنی پسند اور نہ پسند اور ادبی نظریات کا اظہار کیا ہے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ کسی آبگینے کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اس کتاب انہوں نے جن اہل قلم اور اہل دانش کے حیات و فن پر روشنی ڈالی ہے ان میں خورشید احمد جامی، مخدوم محی الدین، شاذ تمکنت، سلیمان اریب، اقبال متین، ابن احمد تاب، مصلح الدین سعدی، سالار جنگ سوم، قلی قطب شاہ، میر غلام علی آزاد بلگرامی، محمد علی جوہر، حکیم منظور کشمیری، عرفان صدیقی، تاج بھوپالی، خواجہ میر درد، فضا ابن فیضی، محمد احمد سبزواری، بدیع الزماں، اقبال، رابندر ناتھ ٹیگور، راجہ رام موہن رائے اور سردار پٹیل شامل ہیں۔ کتاب کے آغاز ہی میں ادب سے اپنی سنجیدہ وابستگی کو واضح کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں

’’ میں نے ادب سے متعہ نہیں کیا ہے بلکہ یہ میرا عشق اول ہے اور میرے حرم میں داخل ہے ‘‘۔

رؤف خیر غزل کو اردو کی ایک منفرد صنف سخن قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں

’’ محض نظم گوئی پر تکیہ کرنے والے شعراء تو وہ حنوط شدہ لاشیں ہیں جن کا مسالہ کچھ ہی دن میں دم دے جاتا ہے ‘‘

اس ضمن میں ان کا یہ شعر قابل غور ہے ؎

مجروح کو غزل نے گلے سے لگا لیا

نظموں کے بیچ اختر الایمان پھنس گئے

رؤف خیر ایک اچھے شاعر کے لیے بنیادی شعری جوہر کی موجودگی ضروری قرار دیتے ہیں کہتے ہیں ’’ نیاز فتح پوری زندگی بھر جوش و جگر کے خلاف لکھتے رہے لیکن خود ان کی طرح ایک شعر نہ کہہ سکے۔ ۔ ۔ تفنن طبع کے طور پر اختیار کردہ صنف سخن کبھی سرخ رو نہیں کرتی۔ جگر لہو کرنے ہی سے چہرے پر نور آتا ہے۔ ‘‘

مولانا محمد علی جوہر کے ذکر میں ان کے ایک تجزیے سے مجھے اختلاف ہے وہ کہتے ہیں ’’ مولانا محمد علی جوہر کے جذبات کو دھکا اس وقت لگا جب خود ترکی کمال اتا ترک نے انگریزوں کی غلامی خوشی خوشی قبول کرتے ہوئے ترکی کو انگریزوں کے ہاتھ بیچ دیا‘‘۔ میرے خیال میں کمال اتا ترک نے ترکی کو کسی ہاتھ نہیں بیچا بلکہ اپنی جرات مردانہ سے اسے یورپ کی جارحانہ طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھا اور ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے اس کے وجود کو یقینی بنایا۔ البتہ اس ضمن میں محمد علی جوہر کی سیاسی دور اندیشی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ محمد احمد سبز واری کے تذکرے میں رؤف خیر نے حیدرآباد سے ان کے مراعات یافتہ ہونے کے باوجود شاکی رہنے کا ذکر کیا ہے اور کئی جگہ لفظ لکچرر شپ استعمال کیا ہے اگرچہ صحیح انگریزی لفظ لکچر شپ Lectureshipہے۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ میر عثمان علی خان نظام دکن کے دور میں بھی مرعوبیت کا یہ عالم تھا کہ ہر اعلی عہدے پر کسی نے کسی شمالیے Upian کا تقرر ہوتا تھا ‘‘۔ میرے خیال میں رؤف خیر جیسے وسیع النظر اور آفاقی سوچ رکھنے والے مرد مومن دانشور کو اس طرح تنگ نظری کے خارزاروں میں نہیں الجھنا چاہیے۔

فضا ابن فیضی کے تذکرے میں وہ کہتے ہیں کہ حمد و نعت کہنے والے پر مولوی کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے ’’ کیا حمد و نعت کہنا ترقی پسندی کی نفی ہے ؟ جب کہ ترقی پسند شعراء مرثیے اور نوحے کہتے رہے ہیں بلکہ اشعار میں بھی وہی کربلائی علائم برتنا فخر سمجھتے ہیں ‘‘۔ میرے خیال میں رؤف خیر کی یہ شکایت برحق ہے کہ محمد عربیؐ سے بڑا ترقی پسند کون ہو گا جس کا لایا ہوا نظام اپنے وقت کا سب سے زیادہ ترقی پسند فلسفہ تھا جہاں پہلی بار زمین پر بادشاہوں کے بجائے اللہ اور اس کے بعد محنت کش کسان کی حاکمیت تسلیم کی گئی اور خواتین کو با وقار حقوق سے نوازا گیا۔

رؤف خیر کے پسندیدہ شعراء میں خورشید احمد جامی، شکیب جلالی اور یگانہ کے علاوہ غالب، اقبال، فیض، جوش، بہادر شاہ ظفر اور ظفر اقبال شامل ہیں۔ وہ پر خلوص اور با مقصد شاعری کے علم بردار ہیں مگر پروپیگنڈہ فن کو صرف صحافت کے لیے موزوں گردانتے ہیں۔ ان کے خیال میں بہتر سماج کا خواب دیکھنے والا ہی بہتر ادب پیدا کر سکتا ہے اور میں ان کی اس رائے سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ وہ ادب برائے ادب، جدے دیت، ترقی پسندی اور مابعد جدے دیت کی کسی تھیوری سے متاثر نہیں کہ ان کے خیال میں فن کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ (اس ضمن میں ہم نے کبھی کہا تھا ؎

راہ فنکار میں بے سایہ نظریوں کا ہجوم

پیڑ یہ حال پرستوں کے اگائے ہوئے ہیں (خالد یوسف)

رؤف خیر اردو کے رسم الخط کی تبدیلی کے مخالف ہیں اور اردو کے مستقبل سے مایوس نہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’جب تک مذہب اسلام روئے زمین پر باقی ہے اردو بھی رہے گی‘‘۔ اور میں ان کے ان خیالات سے متفق ہوں۔ ترقی پسندی سے رؤف خیر کا اجتناب البتہ میری سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ ایک طرف وہ ملائیت اور اوہام پرستی کے مخالف ہیں اور ان کے افکار اسلامی فکر میں رچے بسے ہیں جس کی روشنی کے آگے تمام ترقی پسند فلسفے ماند نظر آتے ہیں۔ کہیں اقبال کے نطشے والا حال تو نہیں جس کے بارے میں انہوں نے کہا تھا اس کا دل مومن مگر دماغ کافر ہے۔ جب وہ اس ظلم و ستم اور رنج و آلام سے لبریز سماج کو بدلنے کی بات کرتے ہیں تو اپنے آپ ترقی پسند بن جاتے ہیں اور ان کا اسلام تو مزید نکھر کر سامنے آ جاتا ہے کہ ہم نے کبھی کہا تھا ؎

میری نظر میں داخل اسلام ہو گیا

جس کی زباں پہ حق و صداقت کی بات ہے (خالد یوسف)

رؤف خیر جیسے نابغۂ روز گار اور ہمہ جہتی فنکار اور دانشور کہیں صدیوں میں جا کر پیدا ہوتے ہیں انہوں نے جو کچھ بھی لکھا اپنی بھرپور توانائیوں اور بڑے خلوص سے لکھا اور ارض دکن ان پر جتنا بھی ناز کرے کم ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ اسی طرح اپنے علم و فن کی روشنیاں بکھیرتے رہے اور گیسوئے اردو کی تابناکی میں اضافہ کرتے رہیں۔ آخر میں میں اپنا ایک شعر ضرور ان کی نذر کرنا چاہوں گا ؎

جنگ محنت اور سرمایہ ہے جنگِ خیر و شر:::خیر کا جو ساتھ دے خالد وہ سچا انقلاب

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے