راز ۔۔۔ ابو فہد

 

’’بابا آپ اتنے خاموش کیوں رہتے ہیں ؟۔ ‘‘پتہ نہیں میں اس دن کس طرح کے مونڈ میں تھا کہ بنا کسی تمہید اور ہچکچاہٹ کے ان کے اندرونِ ذات کی پرتوں سے لپٹی ہوئی خاموشیوں سے متعلق سوال پوچھ بیٹھا۔ شاید اس لیے کہ ابتداء میں یہ سوال میرے لئے از رہ مذاق پوچھے گئے سوال کی سی معنویت ہی رکھتا تھا۔ یہ تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ میرا یہ سوال ان سوالوں جیسا نہ تھا جو محلے کے شرارتی بچے راہ چلتے بڑے بوڑھوں سے اکثر چھیڑ خانی کرنے کے لے کیا کرتے ہیں۔ بلکہ ایسا تھا جیسے کسی خاموش پیانو پر پے در پے کئی ضربیں لگا دی جائیں اور اندھیروں اورسناٹوں سے بھرا پڑا محل یک بیک جاگ اٹھے۔ بابا کا وجود سالوں سے ویران پڑے خاموش محل کی طرح تھا اور میرا سوال اس میں سالوں بعد کسی انجانے بھاری بھرکم قدموں کے در آنے کی مانند۔

بابا نے مجھے کنکھیوں سے دیکھا، ایک لمبی سرد آہ بھری اور ایک بار پھر گہری خاموشیوں کے پاتال میں اتر گئے۔

میں اس راہ سے اکثر گزرتا تھا۔ وہ دن کے زیادہ تر حصے میں خالی بیٹھے انسان اور سورج کی گزر گاہوں کو خالی خالی نظروں سے تاکتے رہتے تھے۔ جیسے آسیب زدہ تصورات میں گھرے ہوئے ہوں۔ خالی اور ویران آنکھیں اور انسان اور سورج کی وہی متحرک اور غیر متحرک گزرگاہیں۔

دو ڈھائی سال پہلے اسی جگہ پر ایک نو عمر لڑکا ہوا کرتا تھا، مجھے کچھ خاص آئیڈیا نہیں کہ وہ کون تھا اور بابا سے اس کا کیا رشتہ تھا، رشتہ تھا بھی یا نہیں، میں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ البتہ ان دونوں میں جو ایک قدر مشترک تھی اور جو پہلی نظر میں جانی جا سکتی تھی وہ یہی گہری خاموشی تھی۔ بابا کی طرح اس کے ہاتھوں میں بھی ہنر نہیں تھا اور وہ بھی اسی طرح خالی اور ویران نظروں سے لوگوں کے آہنی چہروں کو تکتا رہتا تھا۔

’’کیا تم جاننا چاہتے ہو ؟‘‘ بابا نے یہ جملہ اس طرح بولا جیسے اسے بولنے کے لیے خاصی جد و جہد کرنی پڑی ہو اور اپنے وجود سے لپٹی ہوئی خاموشی کے بخئے ادھیڑنے پڑے ہوں۔ جیسے لب کھولنا ان کے لیے کوئی دشوار کام ہو۔

’’ہاں ہاں، بالکل۔ ‘‘ میں نے بے تابی سے ہامی بھری۔

میں ان دنوں کالج میں پڑھنے والا ایک سرپھرا نوجوان ہو کرتا تھا اور مجھے لوگوں کی ذاتی کہانیاں سننے کا شوق تھا۔ اس لیے میں نے فوراً ہامی بھر لی۔ اور ان کے بغل میں رکھے ہوئے لکڑی کے چھوٹے سے صندوق پر شان کے ساتھ براجمان ہو گیا۔

’’آپ نے اسی جگہ پر دس پندرہ برس کے ایک لڑکے کو دیکھا ہو گا۔ ‘‘بابا نے یہ جملہ قدرے روانی سے بولا۔ جیسے انہیں اب کچھ کچھ عادت پڑ گئی ہو جیسے ہماری آنکھوں کو آہستہ آہستہ گھپ اندھیروں اور تیز روشنیوں کی عادت پڑتی ہے۔ اور ہمیں لگتا ہے کہ ہم انہیں پہلے سے بہتر طور پرسہہ سکتے ہیں۔

’’ہاں ہاں۔ اب وہ کہاں ہے اور کون تھا وہ، کیا وہ آپ کا بیٹا تھا۔ ‘‘ میں نے یکے بعد دیگرے کئی سوال کر ڈالے۔

’’آج سے تقریباً ڈھائی سال قبل ایک بوڑھا آدمی اس لڑکے پاس آپ ہی کی طرح عام گراہک کے طور پر مگر ذرا مختلف حالت میں اپنے جوتے پالش کروانے آیا تھا۔ اور اس وقت اسے یہ علم نہیں تھا کہ وہ لڑکا کون ہے۔ ‘‘

’’بیٹا ہمارے جوتے پالش کر دو گے۔ ‘‘بابا نے بڑے احترام کے ساتھ اس سے پوچھا۔

’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ‘‘ لڑکے نے اپنے سامنے کھڑے ادھ مرے، سڑے گلے بوڑھے آدمی کو ہمدردی کی نظر سے دیکھا۔

’’بابا آپ کے جوتے تو پھٹے ہوئے ہیں۔ ان پر کیا پالش کروں۔ اگر آپ پچاس روپئے دیں تو میں آپ کو دوسرے جوتے دیدوں، یہ ان سے اچھی حالت میں ہیں۔ ‘‘ لڑکا پتہ نہیں کیوں اس انجان بوڑھے سے ہمدردی جتا رہا تھا۔ شاید اس لیے کہ گزشتہ گیارہ سالوں میں اسے پہلی بار کسی نے بیٹا کہہ کر پکارا تھا۔

’’نہیں بیٹا آپ انہی پر پالش کر دو۔ ‘‘ بوڑھے آدمی نے اپنی تمام جیبیں ٹٹولیں، مگر دس روپئے سے زیادہ کچھ نہیں نکلا۔

’’بیٹا تم اسکول نہیں جاتے ؟ ‘‘لڑکے کی ہمدردانہ باتوں سے بوڑھا آدمی بھی اپنے دل میں اس کے لئے ہمدردیاں محسوس کرنے لگا۔

اسکول کا نام سن کر وہ جیسے روہانسا ہو گیا۔ اسکول کے بارے میں جو اسے پہلا خیال آیا وہ اسکول میں اس کے آخری دن سے متعلق تھا، جب اسے بتایا گیا تھا کہ اسکول سے اس کا نام خارج کر دیا گیا ہے، اس نے پرنسپل سے وجہ جاننا چاہی تو پرنسپل نے کالی پیلی آنکھیں دکھائیں۔

’’تم وجہ جان کر کیا کرو گے، تم بس گھر جاؤ اور دوبارہ کبھی اسکول نہ آنا۔ ‘‘پرنسپل نے اتنا کہا، زور سے فائل بند کی اور فون پر بات کرنے لگا۔

وہ جب پرنسپل کے آفس سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ سامنے تین منزلہ بلڈنگ کی دوسری منزل کی بالکونی پر بہت سے لڑکے اور لڑکیاں موجود ہیں۔ اور اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، شاید کچھ کمنٹس بھی پاس کر رہے تھے جنہیں وہ دور ہونے کی وجہ سے نہیں سن سکتا تھا۔ ان مںس سے ایک لڑکا جو ذرا لمبے قد کاٹھ کا تھا وہ بالکنی کی چھوٹی سی دیوار پر آدھا جھک گیا، اپنے دونوں ہاتھ منہ کے اردگرد رکھے اور زور سے چلایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ٹیر رسٹ‘‘۔ اس نے فوراً ً نگاہیں نیچی کر لیں اور مردہ جسم کے ساتھ گھر لوٹ آیا۔ اسے اسکول سے اخراج کی وجہ معلوم ہو گئی تھی۔

ایک ہفتہ پہلے اس کے باپ کو دہشت گردوں سے تعلق رکھنے کے الزام کے تحت ملک کی خفیہ ایجنسی کے سینئرافراد کے ذریعہ ان کے گھر سے اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا جب وہ اپنی شیر خوار بچی کی تیمار داری میں لگے ہوئے تھے۔ ایک ہفتے بعد جب اس کا غم کسی قدر ہلکا ہوا تو انجام سے بے خبر اپنے پیچھے اپنی امی اور بہن کو روتا بلکتا چھوڑ کر اسکول آ گیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اسکول آ کر وہ اپنے دوستوں سے ملے گا تو اس کا غم کسی قدر ہلکا ہو جائے گا۔ مگر اسے نہیں معلوم تھا کہ ’’دہشت گردی ‘‘ کا الزام گرچہ وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہو بہت دیر تک اور بہت دور تک پیچھا کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ پھر کبھی اسکول نہیں گیا۔

اس کی دو بہنیں تھیں ایک دو سال کی اور دوسری دو ماہ کی تھی۔ اِن دو بہنوں سے پہلے تقریباً تین چار سال کے فرق سے اس کا ایک بھائی اور بھی ہوا تھا مگر وہ زیادہ دنوں تک اس دنیا میں نہیں رہ سکا اور کھیلنے کودنے کی عمر ہی میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اس کے باپ کے بعد گھر کی ساری ذمہ داری اس کے ناتواں کاندھوں پر آن پڑی، حالانکہ وہ ابھی اس لائق نہیں تھا، ابھی تو اس کے پڑھنے لکھنے کی عمر تھی۔

جب دنیا اس کی آنکھوں کے سامنے بالکل اندھیری ہو گئی اور اپنے پرائے سب بیگانے ہو گئے تو اس نے بہت عجلت میں جوتے پالش کرنے کا کام پکڑ لیا، اس وقت اسے اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ جوتے پالش کرنے کا کام اس کے خاندان کا مستقل دھندا بن جائے گا۔ کچھ دن چند برش اور پالش کی ایک دو ڈبیاں اٹھائے ادھر ادھر گھومتا پھرتا رہا اور پھر مستقل طور پر یہاں ڈیرا جما کر بیٹھ گیا۔ ‘‘ بابا نے نگاہ اٹھائی اور اس باکس کی طرف اشارہ کیا جس پر میں بیٹھا ہوا تھا۔

’’بوڑھا آدمی جب اپنے جوتے پالش کروا رہا تھا تو اس کے من میں صرف یہ بات تھی کہ وہ اپنے گھر ذرا اچھی حالت میں جانا چاہتا تھا، صاف ستھرا اور نہایا دھویا ہوا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے بیوی بچے اسے اچھی حالت میں دیکھیں تاکہ اس کاسڑا گلا وجود ان کے زخموں کے لیے نمک نہ بن جائے۔ وہ انہیں مزید تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس نے انہیں خوشیاں ہی کتنی ساری دی تھیں، بیوی کے لیے ایک ٹوٹا پھوٹا مکان اور بچوں کے لیے سرکاری اسکول۔ اور بس۔

جوتوں پر پالش کروانے کے بعد وہ سیدھا ندی پر گیا، کپڑے دھوئے اور غسل کیا۔ اور جب رات کی تاریکی در و دیوار اور نیچی چھتوں کو پھلانگ کر اونچی اونچی چھتوں تک جا پہنچی تو وہ اپنے گھر میں داخل ہوا۔ حالانکہ وہ دن کے اجالے میں بھی گھر جا سکتا تھا مگر اس نے جان بوجھ کر شام کی، شاید وہ ایک دم سے بہت سارے لوگوں سے نظریں چار نہیں کر سکتا تھا، اس لیے وہ چاہتا تھا کہ لوگوں کی نظروں سے بچتا بچاتا گھر میں داخل ہو۔

وہ رات کی تاریکی میں اسی خاموشی کے صد ہزار لشکر اپنے جلو میں لئے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہوا، جس خاموشی کا راز آپ جاننا چاہ رہے ہیں ‘‘بابا بار بار مجھے دیکھتے جاتے تھے، جیسے یہ اطمینان کرنا چاہ رہے ہوں کہ میں سن بھی رہا ہوں یا نہیں۔

اس وقت بابا کا وجود کسی بہت گہرے سمندر کی طرح دکھائی دے رہا تھا، جس میں ہر لمحہ موجیں آتی جاتی ہوں، جس کے اندرون میں ایک پوری کائنات بسی ہو اور باہر سے دیکھنے والے کو اس کے چاروں طرف دور دور تک صرف سناٹے ہی سناٹے پسرے ہوئے دکھائی دیتے ہوں۔

’’آج سے قریب پندرہ سال پہلے جب اس بوڑھے آدمی کو اس کے گھر سے اٹھایا گیا تھا تو اس کے ساتھ اس کے گھر سے ایک شور اٹھا تھا، جو پولیس چوکی سے لے کر عدالت تک اور عدالت سے جیل کی کال کوٹھریوں تک اس کے وجود سے لپٹا ہوا اس کے ساتھ ساتھ گیا تھا۔ اس وقت وہ بھر پور عمر کا بھاری بھرکم کا آدمی ہوا کرتا تھا۔ یہ موٹی موٹی پنڈلیاں اور اتنا چوڑا سینہ۔ گھنیرے کالے بال اور اتنی چوڑی پیشانی، جس پر ہر وقت بل پڑے رہتے تھے۔ زبان میں بلا کی تیزی تھی اور قدم گھوڑے کی دُلکی چال کی طرح اٹھتے گرتے تھے۔ ‘‘بابا جب یہ سب بتا رہے تھے تو ان کی آنکھوں کی چمک دیدنی تھی۔ وہ تن کر بیٹھ گئے تھے اور سینہ پھول کر مزید چوڑا ہو گیا تھا۔

’’پہلے دن اس شور کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی تھی۔ پھر دھیرے دھیرے یہ شور کم ہوتا چلا گیا تھا۔ کچھ دنوں بعد اس شور کے ہلکے سروں میں ایک اور شور شامل ہو گیا۔ یہ اس کے درد انگیز نالوں اور چیخوں کا شور تھا۔ چند ماہ کی عدالتی کار روائی کے بعداسے کال کوٹھری کے کالے سناٹوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس نے وہاں پورے گیارہ سال گزارے۔ ان گیارہ سالوں میں کال کوٹھری کے کالے سناٹوں نے اس شور کو اس طرح نگل لیا جس طرح کوئی دیو پیکر اجگر ہرن جیسے بڑے جانور کو نگل جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے اس نے کبھی کوئی شور سنا ہی نہیں تھا۔ کئی بار تو اسے یہ گمان گزرا کہ اس نے کبھی بھی کسی انسان کی آواز نہیں سنی ہے یہاں تک کہ خود اپنی بھی نہیں۔ اور پھراس کے وجود سے کالے سناٹے اس طرح چمٹ گئے جس طرح کالی چمگادڑیں اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ویران حویلیوں کی چھتوں سے چمٹ جاتی ہیں۔ ‘‘

بابا بڑے انہماک سے بوڑھے آدمی کے وجود سے لپٹی ہوئی خاموشیوں سے پردے اٹھا رہے تھے۔ ان کی ساری توجہ لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتی ہوئی کہانی پر تھی، ان کے ہاتھ خود بخود رک گئے تھے اور میرا ایک جوتا ابھی تک ان کے پیروں کی ایڑیوں کی گرفت میں تھا۔ سلائی کرنے والا تیز دھار آلہ سُوا جس میں تاگے کی موٹائی کے برابر کٹ لگا ہوا تھا جوتے کی ایڑی میں پیوست تھا۔

’’اسے روشنی سے آنکھیں چار کئے ہوئے اور روشن زمین پر چلے ہوئے پورے گیارہ سال بیت گئے تھے۔ اور آج سے تقریباً دو ڈھائی سال قبل جب اسے با عزت رہائی ملی اور کال کوٹھری سے باہر نکالا گیا تو کال کوٹھری کے کالے سناٹے بھی اس کے ساتھ ہولیے اور اس کے وجود کے باہر اس کے گھر آنگن اور در و دیوار میں ہمیشہ کے لیے پسر گیے۔ اس کے بعد وہ جہاں بھی جاتا ہے کالے سناٹے اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ اس کے وجود کا ظاہری پہلو سورج کی روشنی سے روشن رہتا ہے مگر اندرونِ ذات کی تمام کائنات میں کالے سناٹے پسرے رہتے ہیں۔ لوگ اس سے بات بے بات لڑتے جھگڑتے ہیں، انہیں نہیں پتا ہوتا کہ کوئی اندر سے اتنا زخمی ہوتا ہے کہ سانس لینے سے بھی تکلیف ہوتی ہے اور معمولی لفظ بھی تیر و تفنگ سے زیادہ زخم دیتے ہیں۔ ‘‘

میرا داہنا پیر سن ہو گیا تھا، میں نے پہلو بدلا اور پہلے سے زیادہ تن کر بیٹھ گیا۔ مگر بابا اسی ایک پہلو پر بیٹھے رہے۔ انہیں ایک ہی پہلو پر دیر تک بیٹھے رہنے کی عادت جو تھی، شاید اس لیے۔

’’گیارہ سال میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ رات کا ابتدائی حصہ تھا، اسے اپنا گھر ڈھونڈنے میں تھوڑی دقت ہوئی۔ جب اس نے دروازے پر دستک دی تو ایک نوجوان لڑکا دروازے پر آیا مگر اس نے دروازہ نہیں کھولا۔ وہ بار بار استفسار کئے جا رہا تھا کہ وہ کون ہے اور کس سے ملنا چاہتا ہے۔ ایک کم روشنی والا بلب دروازے کی پیشانی پر اس طرح جل رہا تھا جیسے اسے آس پاس کی دنیا سے کچھ سروکار ہی نہ ہو، دروازے پر بیلے کے پھول کھلے ہوئے تھے، بے اختیار اس کا جی چاہا کہ کہ در و دیوار سے لپٹ جائے، پھولوں کو بوسہ دے اور بلب کو اپنی انگلیوں سے چھوئے۔ مگر بلب، پھول اور درو دیواربدستور انجان بنے رہے۔

’’زیدان۔ ..۔ زیدان۔ .‘‘ بوڑھے آدمی کے منہ سے اس سے زیادہ کچھ نہیں نکل سکا۔ اور دروازے پر بے سدھ گر پڑا۔

’’جاننا چاہتے ہو وہ کون تھا۔ ؟‘‘ انہوں نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا۔ ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں اور ان کا جسم کپکپا رہا تھا۔

’’ہاں ہاں کیوں نہیں ‘‘ میں نے ان کی بھری ہوئی آنکھوں سے نظر بچاتے ہوئے کہا۔

’’وہ وہی لڑکا تھا جس سے اس بوڑھے آدمی نے صبح میں اپنے جوتے پالش کروائے تھے۔ ‘‘

’’ تو آپ۔ ..اُف۔ . ‘‘ میرے منہ سے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں نکل سکا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے