خواجہ جاوید اختر : کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور ۔۔۔۔ امتیاز احمد

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

 

 

                   امتیاز احمد

 

 

شہریار صاحب کی موت کی آندھی ذرا دھیمی ہونے لگی تھی۔ زندگی کے معمولات متوازن ہونے لگے تھے کہ فلک کج رفتار نے دوستوں کے چہروں کی مسکراہٹ چھیننے کا جال بُن دیا۔ خواجہ جاوید اختر جیسا زندہ دل شخص، زندہ دل دوست، زندہ دل شاعر زندگی کی رونق سے محروم ہو گیا۔ ڈاکٹرخالدسیف اﷲ کا فون آیا کہ بواسبزقدمی نے خبر دی ہے:

وہ گیا جس سے بزم روشن تھی

پچھلی صدی کی نویں دہائی کا علی گڑھ، شعبۂ اردو اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وقار الملک ہال، میرس ہاسٹل اور اس کا روم نمبر پچاس آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ کھلکھلاتا، مسکراتا اور قہقہہ برساتا ہوا ایک باغ و بہار چہرہ آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ آرٹس فیکلٹی کے کمرہ نمبر چھ میں یومِ جمہوریہ یا شاید یوم آزادی کی شعری نشست تھی، وہی شخص مائک سے اپنی خوب صورت آواز بکھیر رہا تھا:

وہ دیکھنے میں بظاہر تو پھول ایسا ہے

چبھے گا چھو کے تو دیکھو ببول ایسا ہے

جلد ہی وہ دن بھی آ گیا کہ ہم نے اُس پھول کو دیکھنے کی سعادت بھی حاصل کر لی، اور زمانہ کے پیچ و خم نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ پھول کتنا ببول ہوسکتا/ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ بات شاید ۸۹۔ ۱۹۸۸کی ہے۔ یہ بے تکلفی، یہ کھلنڈرا پن، کم سے کم الفاظ میں اپنی بات کہہ دینے کا انداز، یہ بولتے ہوئے مصرعے اور بول چال کا لہجہ اُسی وقت سے خواجہ کی پہچان بنتا گیا۔ اُن کے مجموعے ’’نیند شرط نہیں ‘‘ میں اس کی بہ کثرت مثالیں مل جاتی ہیں۔ شاید ہی کوئی غزل ایسی ہو جس میں ان کی شاعری کی مذکورہ خصوصیات نہ ملتی ہوں۔ ان کے یہ اشعار اور مصرعے دیکھیے:

 

جنھیں بدنام کرنا چاہتے ہو

وہی مشہور ہوتے جا رہے ہیں

بڑھی ہے روشنی تہذیبِ نَو کی

مکاں بے نور ہوتے جا رہے ہیں

……

 

پہلے سوتی تھی چین سے دنیا

اب کوئی بے خبر نہیں سوتا

روشنی بانٹنے کی چاہت میں

اک دِیا رات بھر نہیں سوتا

……

بے پردہ ہیں لیلائیں

اور مجنوں محمل میں ہیں

……

صدیوں کا آثار گرایا

کس نے یہ مینار گرایا

……

سر اُٹھائے ہوئے جو شجر ہے میاں

اُس پہ آندھی کی گہری نظر ہے میاں

……

خوب ہے تیری گلی پھر بھی انا کہتی ہے

جس طرف ہوکے چلے آئے اُدھر کیا جائیں

……

شعلوں کی تمازت سے جو اب بھاگ رہے ہیں

سنتے ہیں وہی لوگ کبھی آگ رہے ہیں

……

ہم تو مکر و دَغا نہیں کرتے

آپ کرتے ہیں یا نہیں کرتے

……

آبرو سلامت ہے جھک کے چلنے والوں کی

آسماں نظر اپنی ٹوپیاں سنبھالے ہیں

……

حضور آپ کو لوگ کم جانتے ہیں

مگر آپ کیا ہیں یہ ہم جانتے ہیں

محبت کا انجام اﷲ جانے

نہ تم جانتے ہو نہ ہم جانتے ہیں

……

یہی جانتے ہیں کہ کچھ بھی نہ جانا

نہ اس سے زیادہ نہ کم جانتے ہیں

……

ہمیں بھی وہ جانیں ضروری نہیں ہے

یہ کم تو نہیں اُن کو ہم جانتے ہیں

……

مرے خدا مجھے کر دے چراغ راہ گزر

چراغ گھر کے سبھی کو ضیا نہیں دیتے

……

خواجہ جاوید اخترؔ میں بھی

شعر و سخن کا جَرم ہے بھائی

……

ڈھول بہت بے شرم ہے بھائی

جانے کس کا چرم ہے بھائی

……

تاریکی سے خوف نہ کھاؤ

رات ڈھلے گی دن نکلے گا

……

تنگ پڑتی ہے زمیں لاکھ تو پڑنے دیجیے

آسماں دیکھیے تا حدِّ نظر میرا ہے

……

بہت کچھ فائدے کا آج کل امکان ہوتا ہے

ہمیشہ جھوٹ سے کس نے کہا نقصان ہوتا ہے

……

نبھانا کس قدر مشکل ہے اب رسمِ محبت بھی

زباں سے یوں تو کہہ دینا بہت آسان ہوتا ہے

زمانہ تھا کہ ہم اک دوسرے پر جان دیتے تھے

کہاں کوئی کسی پر آج کل قربان ہوتا ہے

……

میاں کبھی بھی نہ آدمی ہو گے

تم نہ سدھرے ہو اور نہ سدھروگے

……

جیتے جی یوں جو چین سے سوگے

اپنے ہاتھوں سے قبر کو کھودو گے

……

دوست کیا اب تو دشمن بھی مفقود ہیں

بات کیا ہے کہاں مر گئے سب کے سب

……

تم کہتے ہو پھول کھلے ہیں

ہم نے تو انگارے دیکھے

……

اتنا اکڑ کے چلتے ہو پھر کیوں زمین پر

تم سیدھے آسماں سے اُتارے نہیں گئے

……

ہم بھی کسی کی زلف گرہ گیر کی طرح

الجھے ہیں اس قدر کہ سنوارے نہیں گئے

……

ہر اک کو اس دنیا میں

کچھ پانا کچھ کھونا ہے

……

وہ خود ہی آج کل ہے پناہوں میں غیر کی

پہلے کبھی جو ملک کا نگران تخت تھا

……

خزاں بھی اُس سے گریزاں ہے دوستو جس نے

جلا دیا تھا مرا گھر بھری بہاروں میں

رگڑ رہا ہے زمیں پر وہ ایڑیاں اپنی

شمار ہوتا تھا کل جس کا شہسواروں میں

……

ٹوٹنا اور بکھرنا الگ بات ہے

کچھ ستارے مسلسل سفر میں رہے

……

دل میں بس جائیں ایسا مقدر کہاں

کم نہیں ہم کسی کی نظر میں رہے

……

مٹھی میں الفاظ کرو

پھر لکھنا آغاز کرو

……

عجب خوشبو سی آتی ہے در و دیوار سے اب بھی

یہاں کوئی یقیناً صاحبِ ایمان تھا پہلے

……

مجھ کو چلمن سے دیکھیے لیکن

خود کو بھی میرے روبرو کیجیے

……

آپ اتنا نہ ہاؤ ہو کیجیے

نرم لہجے میں گفتگو کیجیے

 

اُس وقت خواجہ جاوید اختر ایم۔ اے (اردو) سال آخر کے طالب علم تھے، اور میں نے تازہ تازہ ایم۔ اے (اردو) سال اوّل میں داخلہ لیا تھا۔ استادِ محترم پروفیسر نورالحسن نقوی اور صدر شعبۂ اردو پروفیسر قاضی عبدالستار کی نوازشوں نے بلااستحقاق انجمن اردوئے معلی کا سکریٹری بنا دیا تھا۔ اُس سال پاکستان سے مشہور شاعرہ مرحومہ پروین شاکر اور جناب جون ایلیا ہندوستان آئے تو علی گڑھ کی کشش انھیں شعبۂ اردو میں بھی کھینچ لائی۔ ان دونوں کے اعزاز میں فیکلٹی آف آرٹس لاؤنج میں ایک شعری نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اب یاد نہیں کہ اُس نشست میں خواجہ صاحب نے اپنا کلام سنایا تھا یا نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ پروین شاکر کے ساتھ انھوں نے ایک بہت خوب صورت تصویر کھنچوائی تھی۔ بہت زمانہ بعد جب پچھلے سال (۲۰۱۲) الٰہ آباد میں ان کے نو تعمیر مکان میں جانے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی اور حیرت بھی کہ اُس تصویر کو خواجہ صاحب نے اُس وقت تک محفوظ رکھا تھا، بلکہ اُسے اِن لارج کرا کے اپنے بیٹھنے کے کمرے میں سجا رکھا تھا۔

علی گڑھ میں خواجہ صاحب کی ایک پہچان تو ایک اُبھرتے ہوئے شاعر کی تھی اور دوسری پہچان ایک اچھے کھلاڑی کی بھی تھی۔ وہ یونیورسٹی کی فٹ بال ٹیم کے کپتان تھے اور یونیورسٹی کی فٹ بال ٹیم کے لیے مخصوص کمرہ چوں کہ وقار الملک ہال کے میرس ہوسٹل (Marris Hostel) میں تھا اس لیے وہ میرے ہوسٹل کے ساتھی بھی بن گئے تھے۔ کپتان کے لیے مخصوص یہ کمرہ بہت اہتمام سے آراستہ کیا گیا تھا۔ عام طالب علموں کے کمروں سے یہ اس اعتبار سے ممتاز اور منفرد تھا کہ اس میں ایک بڑا سا بیٹھنے کا کمرہ تھا جس میں ایک دیوار سے دوسری دیوار تک کارپٹ بچھا ہوا تھا۔ کمرے کی دیواروں پر چاروں طرف پرانے کپتانوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ کنارے کنارے صوفے اور کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ اس میں داخل ہوتے ہی ایک تاریخ سے دوچار ہونے کا احساس ہوتا تھا۔ بیٹھنے کے کمرے کو طے کرنے کے بعد ایک مختصر سا سونے کا کمرہ اور پھر چھوٹی سی چائے وغیرہ بنانے کی جگہ تھی۔ خواجہ صاحب بہت اہتمام سے اس کمرے میں رہتے تھے۔ ان کے بال معمول سے کچھ زیادہ بڑھے ہوئے ہوتے تھے۔ مونچھیں گھنی اور خوب ترشی ہوئی اور شیو ہمیشہ تازہ بنی ہوئی ہوتی تھی۔ اُن کی یہ خصوصیات آخر تک برقرار رہیں۔ میں نے کبھی انھیں مضمحل نہیں دیکھا۔ کھیل کے میدان کے اُن کے دوستوں سے میں نہ تب واقف تھا نہ اب واقف ہوں۔ ایک جونیر کی حیثیت سے اپنے ایک سینیر کے کلاس کے دوستوں سے واقف ہوں۔ اُن کی کلاس میں بہت زیادہ طالب علم نہیں تھے، شاید نو یا دس طالب علموں کی کلاس تھی۔ ان میں سے ایک جناب اقبال حسین صاحب صدیقی جو اُس وقت علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر تھے آج کل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر، یونیورسٹی کے معاون پروکٹر اور یونیورسٹی گیس ایجنسی کے انچارج ہیں۔ دوسرے ساتھی رسول اختر پروانہؔ جو بعد میں ساقیؔ تخلص کرنے لگے، پہلے یونیورسٹی کے سینیر سکنڈری اسکول (بوائز) میں استاد مقرر ہوئے اور آج کل بیرون ملک میں اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔ اُن کا شعری مجموعہ ’’قلم گوید‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ تیسرے مجاہدالاسلام تھے جن کی ذہانت نے بعد میں دیوانگی کی شکل اختیار کر لی۔ انھوں نے احسن فاروقی کی تنقید نگاری پر قاضی افضال حسین صاحب کے ساتھ ایم۔ فل کا تحقیقی مقالہ تحریر کیا تھا۔ چوتھے نوشاد عاطرؔ تھے جو آج کل بی۔ این کالج پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں۔ اُس زمانہ میں اُن کی ایک نظم ’’اگر میں لڑکی ہوتا‘‘ بہت مشہور ہوئی تھی۔ ان لوگوں کے بیچ خواجہ صاحب ترشے ہوئے ہیرے کی طرح چمکتے نظر آتے تھے۔

میری یادوں کے خزانے میں خواجہ صاحب سے متعلق ایک اور واقعہ محفوظ ہے۔ ایم۔ اے کرنے کے بعد خواجہ صاحب الٰہ آباد میں اے۔ جی آفس میں ملازم ہو گئے تھے۔ حلال کی کمائی کھانے والے ملازمت پیشہ لوگوں کی جتنی تنخواہ ہوتی ہے اتنی ان کی بھی تنخواہ تھی۔ سفیدپوشی کے ساتھ ٹھیک ٹھاک زندگی گزار رہے تھے، لیکن زندگی میں ایک کمی بار بار کھٹکتی تھی۔ اردو غزل کے ظالم نے انھیں بھی مار رکھا تھا۔ جب رشتہ کی بات آئی تو اُس ظالم کے والد نے خواجہ صاحب سے ان کی تنخواہ معلوم کی۔ خواجہ صاحب نے ایک سیدھے سچے آدمی کی طرح اپنی تنخواہ بتا دی۔ اُن صاحب کا جواب تھا:

’’اتنے روپے کی تو میری بیٹی ایک دن میں مارکیٹنگ کر لیتی ہے۔ ‘‘

ظاہر ہے اس کے بعد بات آگے بڑھنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ خواجہ صاحب نے بھی علی گڑھ آنا کم کر دیا۔ اﷲ تعالیٰ نے انھیں بہت ہی محبت کرنے والی بیگم اور تین بہت پیاری پیاری بچیاں دیں۔ اُن کے گھر جا کر اندازہ ہوا کہ وہ اپنی اس خانگی زندگی میں انتہائی خوش تھے۔ الٰہ آباد کے قیام نے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کو بھی پھولنے پھلنے کے خوب خوب مواقع دیے۔ شب خون کے آخری زمانہ میں وہ فاروقی صاحب کے قریب آئے اور اُن کی کئی غزلیں شب خون میں شائع ہوئیں۔ وہاں کے عام ادبی حلقہ میں بھی وہ خاصے مقبول تھے۔ شاید ایک دوسال پہلے ہی الٰہ آباد میں انھوں نے بہت خوب صورت اور کشادہ مکان بنوایا تھا اور اس کے متعلق ایک بہت اچھی غزل بھی کہی تھی۔ اس غزل کا ایک مصرعہ آج بھی یاد ہے:

رستے تو ہیں خراب پر اچھا مکان ہے

خواجہ صاحب کا شعری مجموعہ ’’نیند شرط نہیں ‘‘ حال ہی میں شائع ہوا تھا۔ فاروقی صاحب نے اس پر ایک اچھا سا مقدمہ لکھا تھا اور پھر اُس مقدمہ کو اپنے مضامین کے ایک مجموعہ میں شامل بھی کیا تھا۔ ان باتوں سے وہ بہت خوش تھے، لیکن کسے معلوم تھا کہ ایسی ہنستی بولتی ہوئی شخصیت یوں اپنے چاہنے والوں کا ساتھ چھوڑ جائے گی۔ آج وہ جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اُن کی یادیں اور ان کے اشعار ہمیشہ ہمارے درمیان رہیں گے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے