’’خدا کے سایے میں آنکھ مچولی‘‘ ۔۔۔ پروفیسر علی احمد فاطمی

اردو کے افسانوی ادب میں رحمٰن عبّاس اپنی ممتاز و منفرد شناخت کے لئے جانے جاتے ہیں۔ جوش و جذبہ اور تجربہ سے پُر اس نوجوان فنکار نے اردو کو کئی قابلِ قدر تجرباتی قسم کے ناول دیے ہیں۔ اپنی انفرادیت کے لئے کچھ پہچان بنی بھی کچھ تقاضے بھی اُبھرے، کچھ مباحث، کچھ امیدیں جو ان کے تازہ ترین ناول ’’ خدا کے سایے میں آں کھ مچولی‘‘ میں بندھتی نظر آتی ہیں۔ مباحث ہنوز برقرار ہیں۔ یوں بھی ان دنوں اردو میں ناول کم لکھے جا رہے ہیں اور جو لکھے جا رہے ہیں دونوں ہی صورتوں میں بحث ضروری ہے کہ صحت مند بحث نہ صرف اسباب و عِلل کو تلاش کرتی ہے نیز تخلیقی صورتوں کے در بھی کھولتی ہے۔

ناول مختصر سا ہے لیکن مباحث بڑے۔ فکر و نظر کا دائرہ اس سے بھی بڑا جو ناول کی ساخت پر بھی غور کرنے پر مجبور کرتا ہے، اس لئے پہلی گفتگو میں واقعہ اس کے بعد نظریہ، سب سے آخر میں فلسفہ کہ لارنس نے کہا تھا فکشن جب تک فلسفہ نہیں بن جاتا بڑا فکشن نہیں کہلاتا۔

ناول کے آغاز میں جہاں انگریزی کے دو ایک اقوال ہیں اس سے قبل حضرت علیؓ حضرت عثمان غنیؓ کے اقوال زرّیں ہیں۔ ناول کا پہلا لفظ موذّن ہے پھر تکبیر اور جمعہ کی نماز اور پھر مرکزی کردار عبدالسلام جو بغیر ٹوپی کے نماز پڑھتا ہے لیکن صف بندی ہوتے ہی کان میں کھُجلی ہونے لگتی ہے اس کھُجلی سے طرح طرح کے خیالات، مسجد کی گھڑی کا پیچھے ہونا یہ سب نہ صرف بلیغ اشارے ہیں بلکہ ناول کی ابتدا کو معنی خیز بناتے ہیں اور قاری کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں۔ ادائیگیِ نماز، آمین کی گونج سے امینہ کی یاد آنا، چشم زدن میں دین کا دنیا میں بدل جانا اور پاکیزہ ماحول میں غیر پاکیزہ خیال کا عدد کرنا ایک ایسا کمزور عمل ہے جو ایک طرف انسانی اور سماجی حقیقت کو تو ظاہر کرتا ہی ہے ساتھ ہی نفسیاتی جبلّت اور نام و نہاد عقیدت کے بھی اشارے کرتا ہے کہ امام کی لُنگی، نظیر عمر شیخ کے سینے کی خوشبو اور پھر اس خوشبو کا اس کی زندگی سے جُڑ جانا اور یسّرنا القرآن کے آگے نہ پڑھ پانا اور ممبئی کی بھول بھلیّوں میں گُم ہو جانا یہ سب یاد کے ٹکڑے کے طور پر تو آتے ہیں لیکن ناول کا تانا بانا کھینچ جاتے ہیں۔ لیکن ناول کا اصل کردار عبدالسلام ہے، خاص قسم کی سوچ رکھنے والا ایک عام سا کردار۔ اس کے گفتار اور ناول کی رفتار پر ان جملوں سے روشنی پڑتی ہے :

’’عبدالسلام انجمن یادگاران مسلمین میں بطور انگریزی معلم برسرِ روزگار تھا۔ جہاں مذہبی اقدار کے فروغ کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ طالبات کے لئے اسکارف لازمی تھا۔ لڑکے کبڈّی کے کھیل میں بھی ٹوپی سر سے اتارنے کی گستاخی نہیں کر سکتے تھے۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ ان کا ساتھ نہیں دے گا۔ عبدالسلام کو اس وقت بہت حیرانی ہوتی جب دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے سروں پر سفید و سیاہ ٹوپیاں بازوؤں پر اماموں اور پیروں کے تعویذ اور ضامن بندھے ہوتے۔ ایسے وقت وہ سوچتا۔ اب خدا کس کو جتائے گا؟ کیا خدا کنفیوژ ہو گا؟ پھر وہ خود کو سمجھاتا کہ خدا طاقتور کے ساتھ ہو جائے گا کیوں کہ طاقت کی معنویت سے خدا سب سے زیادہ واقف ہے۔ ‘‘

خدا کا کنفیوژن، خدا کا طاقتور کے ساتھ ہونا بظاہر روایتی طور پر اعتراض کے پہلو اجاگر کرتا ہے لیکن دنیا کے حالات، طاقتور کی جیت، جھوٹ و بے ایمانی کا غلبہ، آج کے حالات پر ایک ایسا بلیغ اشاریہ ہے جو غور و فکر کے در کھولتا ہے۔ اس کے بعد اسکول کا تعارف، دو مرد اور پندرہ خواتین ٹیچرس، ان کے درمیان گفتگو کے موضوعات، ان کی ترجیحات ان پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں آج کے آدمی کا تعارف ہو رہا ہے جو ’’غیر آدمی‘‘ ہو گیا ہے بلکہ کچھ اور ہو گیا ہے۔ یہ بات عبدالسلام نے اپنی ڈائری میں اگرچہ صرف ٹیچروں کے لئے لکھی تھی لیکن عام انسانوں کی حالت اس سے کچھ الگ نہ تھی یا یوں کہئے کہ موجودہ سماج میں ٹیچر جیسی اہم شخصیت بھی معمولی اور کمزور ہو گئی ہے۔ عبدالسلام انگریزی کا استاد ہے۔ ڈائری لکھتا ہے ہر چند کہ ڈائری نویسی ایک نجی عمل ہوا کرتا ہے لیکن اس ڈائری میں ذاتی اور نجی باتیں کم، معاشرتی اور سماجی باتیں زیادہ ہیں کہ وہ ایک مفکر بھی ہے تھوڑا سا باغی بھی اور تھوڑاسا مذہبی بھی۔ کردار کی بوالعجبی قدرے حیرت زا ضرور ہے لیکن ناول نگار کی ذہنی اُپج کی غمّاز بھی کہ ایسے کرداروں کے ذریعہ ہی ناول نگار اپنے گفتار و آزار کے زخم کھولتا ہے بس دیکھنا یہ ہے کہ فکر و عمل میں یہ زخم پھول بنتے ہیں یا نہیں۔ سلام حالات حاضرہ کی بوالعجب تصویر دیکھ کر کبھی کبھی یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ’’خدا ہے بھی یا نہیں۔ ‘‘ اور اگر ہے تو پھر ’’ خدا سب کی ڈھال ہے اور چوری چوری چُپکے چُپکے سب کے ساتھ تھوڑا بہت وقت گذار لیتا ہے۔ ‘‘ اڈوانی اور مودی کے ساتھ بھی۔ اُسامہ صدّام کے ساتھ بھی۔ بُش پوتِن اور بلئیر کے ساتھ بھی اور میڈونہ کرشمہ کپور کے ساتھ بھی۔ اور پھر یہ جملے بھی:

’’انسان خود کو استعمال کرتا ہے اپنے آپ کو سماج میں مناسب مقام دلوانے کے لئے، قبولیت کے لئے۔ گویا صحرائے زندگی میں خدا ایک چادر ہے جو ہمارے سروں پر ہمیشہ رہے۔ ڈر ہے اس سایے سے باہر نکلتے ہی دھوپ کی تمازت سے ہمارے دلوں کے نرم ریشے تحلیل ہو جائیں گے۔ ‘‘

یہ سب کچھ اس کی اپنی ڈائری میں رقم ہے۔ اس کی اپنی سوچ، تکلیف اور دنیا کے حالات۔ ان خیالات میں سچائی تو ہے لیکن ہلکا سا ایک خوف بھی کہ ہم بہت کچھ عقیدت میں نہ سہی وراثت میں بھی پاتے ہیں۔ اسی لئے بے خوفی کے باوجود جملہ نکلتا ہے :

’’سُن اگر تو ہے تو میری سرپھری باتوں کا مجھ سے انتقام مت لینا۔ ‘‘

یہ خوف، کشمکش اس کی نفسیات کا حصّہ ہے جو کبھی کبھی اس کے اندرون سے نکل کر بیرون میں آ جاتی ہے۔ یہ کیفیت کچھ اس لئے بھی تھی کہ اصلاً وہ انسان دوست ہے اور شاید خدا ترس بھی اور تھوڑا سا حق پرست اور صاف گو بھی۔ اسی لئے اسی تناسب سے اس کی مشکلیں بھی ہیں۔ پھر کردار کی اسی سچائی کے حوالے سے دلچسپ باتیں، واقعات جو ناول کی فضا کو مکدّر کرنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی حق پرستی صاف گوئی اس کے لئے عذابِ جان تھی مذہب کے حوالے سے بطور خاص مثلاً وہ روزے نہیں رکھتا لیکن بہ حالتِ مجبوری وہ روزے دار کی حالت بنائے رکھتا ہے کہ وہ ایک مسلم ادارے میں ملازم ہے وہ بھی استاد۔ وہ عورت خود نہیں لیکن عورتوں کے بارے میں کچھ سچائیاں ہیں جنھیں بیان کرنے میں تکلّف بھی نہیں ایسا اس لئے بھی ہے کہ وہ ڈائری لکھتا ہے حالانکہ ڈائری لکھنا اور ناول لکھنا دو الگ الگ طریقے اور راستے ہیں لیکن ڈائری کے لکھے ہوئے پوشیدہ اور نجی مکالمے بیباکانہ طور پر یوں سامنے آتے ہیں :

’’مذہب کا زیادہ سہارا ذات کے گہرے انتشار اور آشفتگی کا اظہار ہے۔ ‘‘

اکثر ایسے گاڑھے جملے بھی:

’’عبدالسلام جب کسی برقعہ پوش ٹیچر سے بات کرتا ہے تو حبس بے جا میں محزون دل آب بستہ بدن کی فغاں کا اسے احساس ہوتا۔ ‘‘

کچھ یہ ترکیبیں بھی نسوانی ارتکازیت، زندہ ابدان، داخلی کم مائے گی، استقلال وغیرہ سے بھی گاڑھا پن جھلکتا ہے جو ڈائری کی زبان تو ہو سکتی ہے ناول کی نہیں۔ چونکہ ناول میں مسائل زیادہ ہیں عمل کم سے کم اس لئے زبان و بیان کا فکری ہونا اس کی مجبوری بھی ہے۔

تھوڑی دیر کے لئے ناول مذہب سے ہٹ کر عورت کی طرف آ جاتا ہے جو عموماً اردو ادب کا ہی نہیں عام زندگی کا بھی موضوع ہوا کرتا ہے۔ عورت مرد کے رشتے، عورت کی کمزوریاں کچھ زیادہ یا تو وہ فضول باتیں زیادہ کرتی ہیں یا عشق و جنس کا شکار ہیں۔ عبدالسلام جیسے منفرد شخص میں بھی کئی عورتوں کا گذر رہا۔ اس کا اپنا گھر، بیوی، بچّے کیا ہیں کہاں ہیں اس کا ذکر نہ کے برابر ہے۔ داستانِ عشق تو بیان ہوتی چلتی ہے لیکن داستانِ حیات کم کم ہے۔ ہجر کا درد ضرور ہے جو دوسری معشوقہ کے ملنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ کئی محبت، کئی محبوبہ، ہر ایک کی الگ الگ ڈائری۔ یہ جملے دیکھئے :

’’۵۲ ڈائریوں میں بعض کنواری لڑکیاں، چند معزّز افراد کی بیویاں، چار ممبئی کی اسکولی ٹیچرس، ایک کچی کلی، تین مطلقہ خواتین، دو گجراتی لڑکیاں، ایک ملیالم لڑکی، ایک تمل اور چار مراٹھی عورتوں کے علاوہ تین دوستوں کی بیویاں شامل ہیں۔ ‘‘

ایک بوالعجب انسان کی بوقلمونی قابلِ غور ہے جو خدا پر آسانی سے یقین نہیں کرتا ہے کہ وہ بظاہر موجود نہیں ہے عورت پر یقین ہی یقین ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے پورے لوازمات کے ساتھ۔ یہ بھی کائنات کی ایک حقیقت ہے اور ایک نازک حقیقت یہ بھی کہ ان سب عورتوں کا ذکر ہے جس سے آنکھوں کی یا بدن کی ہوس پوری ہوتی ہے لیکن ایسی معشوقہ کہ جس نے سلام کی زندگی روشن کر دی کہ اس کا ذکر نہیں کہ اس سے اس کو واقعی محبت تھی اور جس کا ذکر بوالہوسی کے حوالے سے وہ نہ کر سکا۔ اس کے نام کی ڈائری بھی نہ لکھ سکا کیوں کہ یہ وہ محبت تھی جو واقعی ناقابلِ تحریر تھی۔ پھر یہ احساس و عرفان ’’الفاظ جذبات کی شدّت کے مد مقابل بہت ادنیٰ اور کم احاطہ ہیں۔ ‘‘ اور پھر ناول نگار یہ بھی کہتا ہے :

’’یہ ہماری انسانی مجبوری ہے ہم اپنی ٹھوس حقیقی محبت کے علاوہ باقی تمام واقعات لکھ سکتے ہیں۔ ‘‘

یہی وجہ ہے کہ ڈائری میں بے شمار محبوباؤں کا ذکر ہونے کے باوجود ان میں سے کئی ایک کو بھول جاتا ہے لیکن جس کا ذکر نہیں کرتا اس کو بھول نہیں پاتا۔ اسی لئے ایک اور بلیغ جملہ نکلتا ہے ’’محبت غیر خیالی ٹھوس حقیقت ہے۔ ‘‘

ناول سماجی حقیقت کے بجائے انسانی بلکہ نفسیاتی حقیقت کی طرف مُڑ جاتا ہے۔ ہر چند کہ یہ نفسیاتی حقیقتیں سماجی حقیقتوں سے زیادہ الگ نہیں ہوتیں جیسا کہ خود ناول نگار نے ایک جگہ لکھا ہے :

’’عورتیں عموماً محبت کے لمحوں میں مُردہ پڑی رہتی ہیں، یہ مردانہ معاشرے کی نفسیاتی جبر کی انتہا ہے۔ ‘‘

ان باتوں پر غور ہو سکتا ہے اور بحث بھی۔ اور اس پر بھی بحث ہو سکتی ہے کہ عورت کے اندر کی بے چینی اور ہیجانی کیفیت انھیں دوسرے مردوں سے رشتے بنانے کی طرف مجبور کرتی ہے۔ یہ آج کے ایک بڑے شہر کی حقیقت تو ہو سکتی ہے جزوی حقیقت کلّیہ نہیں۔ عورت اور مرد کا رشتہ کل بھی اور آج بھی ہمیشہ ایک اہم اور دلکش موضوع رہا ہے لیکن اس رشتے کی نوعیت اور کیفیت بھی مختلف رہی ہے۔ جسم و جنس ایک اہم حوالہ تو ہو سکتا ہے لیکن جذبات و احساسات کے مظاہر الگ الگ انداز کے بھی ہو سکتے ہیں۔ ناول میں اس احساس کا اظہار تو عمدہ ہے کہ جسے وہ دل سے چاہتا ہے اس کا ذکر ڈائری میں نہیں کرتا کہ اپنی محبوبہ کو غلاظت میں ڈھکیلنا نہیں چاہتا۔ جس کا ذکر آتا ہے ان میں سے اکثر کو وہ بھول چکا ہے۔ محبت، غیر خیالی یا لاشعوری جذبہ کا ایک ایسا الفت آمیز عمل ہے جو خون میں سما جاتا ہے۔ عورتوں کے بارے میں طرح طرح کے جملے، مرد کے بارے میں کم کیوں ؟ جب کہ ناول کا مرکزی کردار ہے۔ ایک جگہ ایک جملہ ضرور ملتا ہے :

’’مرد دنیاوی طور پر ایسی عورت سے ہم آغوش ہونے کا متمنی ہوتا ہے جس کی روح کے نغمات بھی وہ سُن سکے۔ ‘‘

پھر ان بوالہوس مردوں کا کیا ہو گا جو صرف بدن کے نقوش پر نظر رکھتے ہیں۔

آگے چل کر کچھ سرسری باتیں شعر و ادب پر بھی۔ یہاں بھی عورت زیادہ ہے۔ یہاں بھی عورت اور خدا موجود ہیں۔ عورت کے بارے میں اگر یہ جملہ ہے :

’’اردو شاعری میں عورت کا تصور فلمی ہے۔ ‘‘

تو خدا کے بارے میں خیالات ملاحظہ ہوں :

’’خدا بھی ایک افسانہ نگار ہے اس کی حالت اردو افسانہ نگاروں سے بڑی ہے۔ اپنی کتابوں کو وہی لکھواتا ہے۔ وہی پڑھواتا ہے اور خد ہی سنتا ہے۔ ‘‘

اور یہ جملہ بھی:

’’اللہ سے نہ زیادہ دوستی اچھی، نہ دشمنی۔ ‘‘

کچھ سوالات، کچھ الجھاوے، کچھ سنجیدگی اور کچھ غیر سنجیدگی۔ پھر وہ سب ان کو پان کی دُکان پر جا کر کُتری سپاری کھا کر سٹار مار کر بھلا دینا چاہتا ہے کہ فرار و فراموشی کی راہیں بھی الگ الگ قسم ہوا کرتی ہیں۔

اگلے باب میں پھر عورت کا ذکر۔ عبادت کرتی ہوئی عورت پر بھی نظر پڑتی ہے تو اس کے جسمانی نقوش پر۔ کامریڈ دوست اور اس کی پڑھی لکھی عیسائی بیوی اس سے بھی رومان اور یہ فلسفیانہ جملہ:

’’عورت محبت جنس سے زیادہ ہم آہنگی، عزّت اور توجہ کی طلبگار ہوتی ہے۔ ‘‘

عورت اور مرد کے رشتوں پر تقریباًپچاس صفحات پر اظہار بظاہر عبدالسلام کی جنس زدگی ضرور ظاہر کرتی ہے لیکن سلام جیسا صاف ستھرا بیباک اور حق گو کردار کے ساتھ ایسا کیوں ہے۔ اس کا جواب آگے بڑھ کر اس جملے میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ :

’’زندگی کے تضاد نے عبدالسلام کو بد ظن کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ ایک طرح کے احساسِ زیاں میں بھی گرفتار ہو گیا۔ ‘‘

بادی النظر میں یہ احساس و اضطراب بھی اسے جنس کی طرف لے جاتا ہے کہ جسمانی نقوش میں وہ انسانی کرب کو بھلا دینا چاہتا ہے اور انسانی کرب ذاتی کم، سماجی زیادہ ہے۔ وہ ایک ٹیچر ہے پڑھتا ہے سوچتا ہے اور ڈائری لکھتا ہے لیکن زیادہ تر ٹیچر:

’’ٹیچروں کا طبقہ جس سے اس کا تعلق تھا وہ یوں تو پڑھنے پڑھانے کی بات کرتا ہے لیکن خود نرا جاہل اور کبھی نہ پڑھنے والا طبقہ تھا۔ ‘‘

مذہبی افراد کے بارے میں :

’’ مذہب کی چادر میں لپٹے ہوئے افراد جو اس کے اطراف پھیلے ہوئے تھے اور دو وقت دین دھرم کا پرچار کیا کرتے تھے وہ فی نفس جابروں، مفسدوں اور امیروں کے طرفدار تھے۔ ‘‘

اشتراکیوں کے بارے میں :

’’عوام کی بھلائی کے نام پر آئے دن ہڑتال اور جلسے کرنے والے بائیں بازو کے نادار لوگ عموماً بکاؤ بے ضر ر اور بے اثر تھے۔ ‘‘

اور پھر یہ جملہ:

’’ان سب کے درمیان اپنی شخصیت کے جوہر کی حفاظت کرنا اس کے لئے چیلنج تھا۔ ‘‘

اندرون، بیرون سے ہی متاثر ہوتا ہے۔ باطن خارج کے بغیر سانس نہیں لے سکتا۔ حسّاس و ذمّہ دار شخص کے لئے سماجی خلفشار، تضاد ایک عذاب بن کر نازل ہوتا ہے پھر یہ عذاب خود کشی کی طرف لے جاتا ہے یا انتقام یا پھر عورت کے اجسام کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اسی لئے یہ ناول، اردو کے بیشتر ناول افسانوں کے اوراق عورت کے جسمانی نقوش کے درمیان پھڑپھڑاتے رہتے ہیں۔

درمیان میں عبدالسلام کے دو ایک دوستوں کا ذکر آتا ہے۔ پہلے کمیونسٹ دوست اس کے بعد بچپن کے دوست رفیق و شفیق۔ ان سب کے واقعات کے ذریعہ زندگی کی جہات سامنے آتی ہیں۔ عبدالسلام حیات و کائنات کے بارے میں طرح طرح کی فلسفیانہ رائے بھی دیتا چلتا ہے کہ وہ محض ایک کمزور سا روایتی ٹیچر نہیں ہے گہری باتیں کرتا ہے اور اکثر طنز بھی کرتا ہے :

’’جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک لطیفہ ہے اور ہم جس اسکول میں ہیں وہ بھی اک لطیفہ ہے۔ ‘‘

ساری کلاس قہقہ بردار ہو جاتی ہے لیکن ایک بڑا سوال چھوڑ جاتی ہے۔ تعلیم اور تعلیمی نظام پر، تمام  ٹیچروں پر۔ اسی لئے ایک جملہ یہ بھی نکلتا ہے ’’کلاس کے باہر کھڑے رہ کر اپنی ناکامی پر قہقہہ لگا رہے تھے۔ ‘‘ اور پھر بچوں کا بے زبان ہو جاتا۔ یہ سب کہ بامعنی اشارے ہیں آج کے ہندوستان کے سماجی نظام کے۔ نئی نسل کی خاموشی اور بے حسی کی طرف بھی۔ زندگی رفتارِ زندگی یا معیارِ زندگی سے ایک سنجیدہ و حسّاس انسان کا مطمئن نہ ہونا۔ جہالت اور طاقت کا دور دورہ۔ عام انسانوں کی بے چینی اور بے حسی، حتیٰ کہ ٹیچروں کی بے حسی عبدالسلام جیسے انسان کے لئے تازیانے کا کام کرتی ہے۔ وہ صرف نظامِ وقت ہی نہیں خدا اور اس کے وجود پر بھی شک کرنے لگتا ہے، پھر ڈرتا بھی ہے۔ لیکن اس کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ یہ دنیا صرف دس فیصد طاقتور اور ہوشیار لوگوں کی وجہ سے چل رہی ہے باقی سب احمق ہیں یا مُردہ ہیں۔ اسی لئے وہ اپنے کمرے کی پیشانی پر انگریزی میں یہ لکھتا ہے :

Dead Peoples Conference Room

اور کتابیں جو اس کے اردو گرد ہوتیں اس کے بارے میں کہتا ہے :

’’کتابیں زندہ درگور لوگوں کا نوحہ ہیں۔ آؤ ان سے رونے کے آداب سیکھیں۔ ‘‘

جب کتاب کے آدرشوں اور زندگی کی سچائیوں میں گہرا تضاد ہو جائے۔ تو اسلام جیسا کردار زندگی کو مذاق سمجھنے لگتا ہے اور اس سے مذاق کرتا ہے۔ طرح طرح کی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ عید کے دن دیر تک سوتا رہتا ہے اور پھر دوستوں کو بلا کر بروز مسرّت انھیں رنجیدہ و متفکر کر دیتا ہے اور خدا سے مخاطب ہو کر یہ بھی کہتا ہے :

’’دیکھا تیرے بندوں کو میں نے عید کے دن بھی رنجیدہ کر دیا۔ تو کیوں انھیں فرضی خوشیاں دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ تیری اسی حرکت کی وجہ سے فطری طور پر خوش رہنے کی عادت نہیں پڑتی۔ ‘‘

اس لئے وہ چاہتا ہے کہ لوگ روز خوش رہیں اور خوشی خوشی زندگی کی سختی کو نرم کریں۔ سلام انسانی زندگی کو انسان کے حوالے سے دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ خوشی ہوں یا غم سب اس کے اپنے ہوں۔ تمیز تہذیب سب اس کے نہ کہ مشین کے۔ کہ انسان اپنے فکر و عمل سے نہ صرف ماحول بلکہ تاریں و تہذیب بھی بدل دیتا ہے نہ کہ نئی مشینی تہذیب اسے بدلے اور وہ ایک پُرزہ بن کر رہ جائے۔ اس کا اپنا تجربہ ہو پھر نظریہ اور فلسفہ۔ ناول نگار نے یہ سارے کام صرف ایک کردار، بلکہ کردار کی سوچ سے لئے ہیں۔ جو لوگ ناول میں پورا ایک قصّہ، قصّہ میں بہت سارے افراد اور افراد کی کشمکش تلاش کرتے ہیں انھیں اس ناول سے محرومی یا مایوسی ہو سکتی ہے۔ صنف ناول کے نئے مباحث میں یہ بات تسلیم کی جا چکی ہے کہ ناول محض قصّہ نہیں، ایک مخصوص اسلوب بھی نہیں بلکہ وہ بہر صورت زندگی اور طرزِ زندگی کو کسی بھی صورت میں اپنے ساتھ لے کر چل سکتا ہے کہ زندگی کے پیچ و خم اور کیف و کم کو کسی ایک سانچے میں قید نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آپ زندگی کے ذریعہ کرداروں تک پہنچ سکتے ہیں یا کردار کے ذریعہ زندگی تک۔ دوسرا عمل قدرے نازک و پیچیدہ ہوا کرتا ہے وہ بھی اس شکل میں ناول میں مرکزی کردار ایک ہو باقی سب سایے ہوں، دھوپ چھاؤں ہو۔ ناول نگار کی بہ زبان سلام بیباکی بھی کچھ لوگوں کو ناگوار گذر سکتی ہے کہ ادب بہر حال ایک تہذیب فن بھی ہوا کرتا ہے لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ ناول کا جدید فن محض زندگی کا نظام نہیں پیش کرتا بلکہ نظامِ حیات میں مداخلت بھی کرتا ہے، بشرطیکہ اس مداخلت میں صرف سوال نہ ہو بلکہ جلال بھی ہو اور اس سے زیادہ جمال۔ اسی لئے انگریزی ادب میں ناول کو Impure Artبھی کہا گیا کہ وہ خالص آرٹ نہیں ہوتا، تاریخ و تہذیب بھی ہوتا ہے۔ زندگی اور سماج بھی۔ اسی لئے لوکاچ نے کہا تھا کہ ناول زندگی کا وہ رزمیہ ہے جو اکثر خدا کی غیر موجودگی میں لکھا جاتا ہے۔ غالباً اسی لئے اس ناول کا مرکزی کردار یا ہیرو، آئیڈیل ہیرو کم کمزور زیادہ ہے۔ اس کی یہ کمزوری اور بوالعجبی ہی اس کی خوبی ہے اور یہی زندگی کا المیہ یا رزمیہ جو صرف ناول میں نظر آ سکتا ہے۔ اس لئے سلام کی کمزوری کو کردار کی کمزوری نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ زندگی کی کمزوری۔ اسی لئے زندگی کے معاملات پر سوال قائم کرتا ہے اور اکثر بڑا ادب یا بڑا کردار سوال قائم کرتا ہے۔ کل بھی اور آج بھی۔

علّامہ اقبال جسے عبدالسلام بڑا شاعر نہیں مانتا سوال تو کرتا ہی ہے ’’زندگی کا راز کیا ہے سلطنت کیا چیز ہے ؟‘‘ ناول نگار نے بھی سلام کو مرکز میں لا کر ناول ضرور لکھا ہے لیکن اس کی وساطت سے زندگی کا راز سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ سبھی دانشمند کوشش کرتے ہیں۔ یہ ناول بھی یہی کام کرتا ہے۔ ناول، شاعری، حرف و لفظ انسانی ذہن کے عجیب و غریب سہارے ہیں۔ ایک جگہ یہ بات بھی عمدہ طریقہ سے آئی ہے :

’’جب آدمی خیالات کو کاغذ پر اُتارنے سے محروم ہو جاتا ہے تو قلم اپنی ذمّہ داری نبھاتے ہوئے از خود افکار و تحریر کر لیتے ہیں۔ بعض بے روح تصور کیے جانے والے قلم ادیب سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ ‘‘

شاید رحمٰن عبّاس کے ساتھ یہی ہے۔ پورا ناول، احساس و ادراک اور اضطراب پر ٹکا ہے نہ زیادہ کردار نہ تکرار۔ بس گفتار ہی گفتار۔ درمیان میں انتشار۔ جو ذہنی زیادہ ہے عملی کم۔ اسی لئے یہ جملے بھی آتے ہیں :

’’جو کچھ اس میں ہے وہ اتنا ذاتی اور قیمتی ہے کہ کسی سے شئیر نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘

لیکن ناول نگار نے سلام کے ذریعہ یا سلام نے مصنف کے ذریعہ شئیر کیا ہے کہ فرد انفرادی ہوتے ہوئے بھی اجتماعی ہے۔ فرد انفرادی ہو سکتا ہے زندگی نہیں۔ اسی لئے مجبوراً سہی لمحہ بھر کے لئے سہی کچھ دوست، کچھ کردار درمیان میں آتے ہیں اور ناول نگار تو ہمہ وقت ساتھ ساتھ ہے اور پھر وہی سوال بہ زبان شعر ؎

کب تک رہے گا روح پہ پیراہنِ بدن

کب تک ہوا اسیر رہے گی حباب میں

غالب کے دیوان کا پہلا شعر بلکہ پہلا مصرعہ سوال ہی کرتا ہے ’’نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا‘‘ یہاں روح بدن سبھی آ گئے اور عورت کا بدن غائب ہو گیا کہ جب زندگی حیات و ممات کے فلسفیانہ دائرے میں آ جاتی ہے تو عورت مرد سب انسان ہو جاتے ہیں۔ ایک فانی دنیا کے فانی انسان لیکن کچھ کمزور ناول نگار عورت کے صحت مند بدن کے ذکر کو ناول کی صحت کے لئے ضروری سمجھتے ہیں لیکن کم لوگ سمجھتے ہیں بقول مصنف۔ زندگی کا حسن تضاد میں ہے۔ دن رات، نیکی و بدی مرد اور عورت صرف عورت نہیں (اور نہ ہی عورت کا بدن) بلکہ عبدالسلام جیسے مرد جو اس ماحول میں ان فٹ ہیں۔ اسی لئے ناول نگار کو بھی ایسے ان فٹ کردار پر ناول لکھتے ہوئے کئی قسم کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور درمیان میں ناول کی تخلیق سے ہٹ کر تخلیقی عمل پر بات ہونے لگی۔ تنقید کی اور منطق کی جس کی چنداں ضرورت نہ تھی کہ ناول نگار ناول لکھ رہا ہے تنقید کی کتاب نہیں۔ یہ سوالات الگ ہیں اور جوابات بھی بالکل الگ جن کا درمیان میں آنا گراں ہی نہیں ناگوار گذرتا ہے۔ تخلیق کا کوئی حتمی پیمانہ نہیں ہوا کرتا وہ اکثر ناہموار اور ناموافق ماحول میں خلق ہوتی ہے جیسے زندگی کا کوئی پیمانہ نہیں ہوا کرتا، تاہم مہذب و دانشمند انسانوں، فلسفیوں، نقادوں نے جہاں ایک طرف تہذیب زندگی کے معیار قائم کئے ہیں جو انسان اور غیر انسان کے درمیان فرق کرتے ہیں اسی طرح تہذیب ادب بھی ہوا کرتی ہے۔ ادبی تخلیق بھی ایک مخصوص توازن کی متقاضی ہوتی ہے ضرورت سے زیادہ نیا پن، فیشن یا بے باک پن زندگی کو گمراہ ہی کرتا ہے اور ناول کو بھی۔ ناول کو آئینۂ حیات ضرور کہا جا سکتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ وہ تصوّر حیات بھی ہے جہاں تخلیقیت کے ساتھ رومان کا دخل ناگزیر ہے۔ ایک بامعنی و  با مقصد ناول صرف اس کو نہیں دکھاتا کہ زندگی کیسی ہے بلکہ بین السطور میں یہ بھی کہتا چلتا ہے کہ اسے کیسی ہونی چاہئے۔ تصویر کشی اور تخلیق کاری میں یہ بنیادی فرق ہوا کرتا ہے۔ تخلیق میں تخلیقی تجربہ کے ساتھ ارمان اور وجدان کے یہی معنی ہوا کرتے ہیں۔ یہ باتیں اگر منطقی و استدلالی انداز میں واضح ہوں تو ان سوالوں کی چنداں ضرورت نہیں اور وہ بھی درمیان تخلیق۔ ایک رواں دواں ناول میں سوالات باطن سے جنم لیتے ہیں جو باتیں دیباچہ کی ہیں وہ ناول کے زائچہ میں نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن ناول نگار کا اعتراف محض اعترافِ عجز نہیں :

’’ناول کے آرٹ سے بھری واقفیت ابھی کم ہے۔ اس لئے غلطی اور لغزش کے امکانات ہوں گے۔ ممکن ہے دورانِ تحریر میں جگہ جگہ بہک جاؤں۔ ‘‘

اور یہ غور طلب جملہ:

’’صرف معلومات کی بنیاد پر ناول لکھنا آسان نہیں ہو گا۔ ‘‘

اچھی یا بری بات یہی ہے کہ علم و اطلاع کے اس جدید دور میں زیادہ تر سارے کام انھیں بنیادوں پر ہو رہے ہیں۔ یہ ناول بھی زندگی کے گہرے عملی تجربے کی بنیاد پر کم اطلاعات و مشاہدات کی بنیاد پر زیادہ کھڑا ہے، اسی لئے کردار کی نقل، حرکت کم کم ہے غور و فکر زیادہ۔ جملے فتوے زیادہ۔ نہ اس پر منظر نگاری، نہ جزئیات نگاری اگر ہے تو صرف ایک کردار۔ وہ بھی اکہرا۔ محبت کے ساتھ کم محنت کے ساتھ زیادہ۔ وہ بھی دماغی محنت کہ جہاں اکثر خلل زیادہ نظر آتا ہے۔ اب یہ جملے دیکھئے :

’’ہماری ٹریجڈی یہی ہے کہ ہمیں زندہ رہنے کا کام اس کی مشق کے بغیر دیا گیا ہے۔ ‘‘

زندگی کا انتشار، آزار، صدیوں کا بار، اجداد کی روایت، تاریخ کی صداقت تو ہے لیکن یہ حقیقت بھی سمجھتے چلنا چاہئے کہ پرندوں کے بچوں کو اُڑانا کون سکھاتا ہے۔ نوزائیدہ طفل کو کھانا پینا کون سکھاتا۔ زندگی فطرت اور حقیقت اور رومانیت کا ایک ایسا سنگم ہوا کرتی ہے کہ جہاں اکثر روایت شکنی ضروری تو ہوتی ہے لیکن بعض روایت کی پاسداری بھی ضروری ہے کہ زندگی، ادب، تہذیب اپنی تمام بدلتی صورتوں میں کہیں نہ کہیں کسی بنیادی قدر سے بہر حال الگ نہیں ہو پاتی اگر آپ کی وابستگی اور سپردگی معصوم اور سچّی ہو تو تراشیدم، پرستیدم اور شکستم کے راستے از خود ہموار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ناول نگار اور ناول کے مرکزی کردار کے مابین عمل دخل کچھ اتنا اور ایسا ہے کہ اکثر طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کون کس کی زندگی لکھ رہا ہے۔ یہ ایسی بڑی بات تو نہیں کہ کرداروں کے حوالے سے ناول نگار اپنی ہی بات کرتا ہے۔ بات کوئی بھی کہے اور کیسے بھی کہے مسئلہ یہ ہے کہ وہ ناول میں اُتر پایا یا نہیں، فن کے پیمانے میں جذب ہو پایا یا نہیں۔ یعنی ناول ناول بن پایا یا نہیں۔ حالانکہ ناول کے بننے یا نہ بننے کا عمل جدید دور میں کچھ اس قدر غور طلب یا بحث طلب ہو گیا ہے کہ کوئی حتمی بات کہہ پانا مشکل ہے۔ ناول نگار خود ایک جگہ کہتا ہے :

’’ایک ایسے آدمی کی کہانی میں ناول کے کلاسیکی فارم میں کیسے لکھوں گا جس کی زندگی میں انتشار تھا۔ افعال میں کبھی توازن نہیں رہا۔ ‘‘

انتشار اور عدم توازن تو ’’گؤدان‘‘ کے ہوری میں تھا۔ امراؤ جان میں اور شمّن (ٹیڑھی لکیر) میں بھی اور گوتم میں تو اس لئے کہ اکثر تاریخ، وقت عدم توازن کا شکار ہی رہتے ہیں لیکن ناول لکھے گئے اور تاریخ قائم کر گئے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ کل کے انتشار اور آج کے انتشار میں فرق ہے۔ استعمال اور استحصال میں بھی فرق آ چکا ہے۔ زندگی کا نیا رنگ ڈھنگ، ترقی و تبدیلی، نئی ٹکنولاجی میں سانس لیتا ہوا بلکہ محتاج آج کا انسان، انٹر نیٹ اور سائبر اسپیس میں سانس لیتا ہوا آج کا نوجوان، آج ناول ’’گؤدان‘‘ کی طرح ایک گاؤں کی کہانی نہیں بن سکتا کہ پوری دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ چمکتی اور رنگیلی اشیاء کی بھیڑ میں مقامیت اور ارضیت اور ارضی ثقافت بہت پیچھے چھوٹ چکی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے صرف کاروبار نہیں کر رکھے ہیں بلکہ برین واش بھی کر دیا ہے۔ آج کا نوجوان گاندھی نہرو کے آدرشوں سے بہت اوپر ہیرو ہیروئنوں کے ننگے اشتہاروں، طاقتور مافیاؤں کو اپنا آئیڈیل سمجھ چکا ہے۔ زندگی بدلی، اقدار بدلے تو ادب کے معیار بھی بدلے۔ بدلنا بھی چاہئے۔ میلان کندیرا نے تو باقاعدہ ’’آرٹ آف ناول‘‘ جیسی کتاب لکھ کر نئی بحث چھیڑ دی اور ناول کے تجزیہ کی ایک الگ لفظیات قائم کر دی۔ ضروری نہیں کہ ہم اس سے اتفاق کریں لیکن یہ تاثر تو بنتا ہی ہے کہ آج ناول کو سمجھنے کے لئے روایتی تعریف سے بڑھ کر نئے ناول کی نئی تفہیم کے لئے نئے سماج اور نئی دنیا کو سمجھنا پڑے گا۔ یہ حقیقتیں اپنی جگہ درست لیکن سوال یہ بھی ہے جب انسان اپنے علم، پروازِ فکر اور تصور و تخیل کی بنیاد پر کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے تو ناول بھی صرف کوری حقیقت نگاری یا منظر نگاری کا نام نہیں ہو سکتا۔ ناول نویسی یا تخلیقی ادب کا مطلب یہ کبھی نہیں رہا اور آج بھی نہیں ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے جیوں کا تیوں پیش کر دیا جائے بلکہ دکھائے جانے والے مناظر میں لا منظر بھی ہوں۔ حقائق کی بھیڑ میں ایک نئی حقیقت کی نئی دریافت ہو۔ تخلیق صرف ساکت تصویر کشی کا نام نہیں بلکہ تخیل کے ذریعہ اس مقام تک پہنچنے یا پہچانے کا بھی عمل ہے جہاں تک عام قاری کی نظر یا ذہن نہیں جاتا۔ اس میں اکثر ذہن انسانی الجھ بھی جاتا ہے جو کافکائی رنگ اختیار کر لیتا ہے اور بعض ناول نگار موجودہ حقیقت کی کثافت سے اتنی دوری بنا لیتے ہیں کہ محض تخیل کی دنیا میں چلے جاتے ہیں اور حضرت انسان کو ایک بازاری چیز میں نہیں بلکہ تہذیب کی روشن دہلیز پر کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں ہی صورتیں غلط تو نہیں کہ ناول نگار ہر طرح سے آزاد ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ناول محض کثافت کا نام نہیں اور نہ ہی طہارت کا۔ وہ تو مسرّت سے بصیرت تک کا ایسا سفر کرتا ہے جس کے لئے مشاہدہ تجربہ اور علم و آگہی کی شدید ضرورت ہوا کرتی ہے۔ بصیرت میں ایک ہلکی سی آرزو بھی جو امید و نشاط کے در کھولتی ہے۔ اگر یہ عناصر ناول میں نہیں ہیں اور محض یاسیت اور قنوطیت ہے، یا شور و غل یا جسم و جنس، ایک مربوط و متوازن ادراک کا تصور نہیں تو بات نہیں بنتی۔ نیا پن کچھ بھی ہو انسانی ذہن، صدیوں کے بار، گرد و غبار سے یک لخت الگ نہیں ہو پاتا اسی لئے ایک عمدہ ناول کے لئے کہا گیا ہے بقول رولاں بارتھ وہاں زندگی بولتی ہے ناول نگار کی موت ہو جاتی ہے۔ رحمٰن عبّاس کے اس ناول میں ناول نگار زندہ ہے، زندگی بوجھل ہے، کمزور ہے اور کہیں کہیں موت کے قریب بھی۔ ہر چند کہ رحمٰن عبّاس نے اپنے قلم سے گہرے اور معنی خیز جملے نکا لے ہیں جو زندگی کی بصیرتوں کی غمّازی کرتے ہیں۔ ناول کو آگے بڑھاتے ہیں۔ سلام کا متجّس و متحیّر کردار ناول میں تجسّس و تحیّر بھی پید اکرتا ہے لیکن ضرورت سے زیادہ ناول نگار کی موجودگی اکثر ناول کی کمزوری کا باعث ہوتی ہے۔ عمدہ ناول میں ناول نگار کم بولتا ہے، زندگی زیادہ بولتی ہے۔

بہر حال یہ ناول ایک تجرباتی ہوئے ہوئے بھی، بعض کمزوریوں کے باوجود چونکاتا ہے اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ سوال درسوال قائم کرتا ہے۔ صرف آج کی زندگی پر ہی نہیں بلکہ مکمل زندگی پر۔ خدا کے وجود پر۔ آج کے سماج پر۔ اظہار کے پیرائے پر۔ مرد اور عورت کے رشتے پر۔ اگر ایک مختصر سے ناول میں اتنے اہم سوالات معنی خیز اور فکر انگیز انداز میں آ جائیں اور آج کی زندگی سے جُڑ جائیں تو ناول کے پڑھے جانے کی سفارش کی جا سکتی ہے اور رحمٰن عبّاس کو مبارک باد بھی دی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے