حالاتِ بلدہ ۔۔۔ رؤف خیر

حالاتِ بلدہ

 

 

اشعار کا مفہوم کسالا ہی ذرا تھا

ہاں  خیر کا انداز نرالا ہی ذرا تھا
حق بات جو میں  بولنے  والا ہی ذرا تھا

سچ بن کے  زباں  پر مری چھالا ہی ذرا تھا

 

گھائل ہوں  میں  اسپیڈ بریکر کی بدولت

گاڑی کو ابھی گیر میں  ڈالا ہی ذرا تھا

 

منہ کھولے  گڑھے  میں  مجھے  گرنا تھا سڑک پر

میں  کیسے  سنبھلتا کہ اجالا ہی ذرا تھا

 

کھمبے  کو لگے  بلب کی معراج ہوئی تھی

پتھر کسی بچے  نے  اچھالا ہی ذرا تھا

 

کچھ دیر میں  کچرے  کا وہاں  ڈھیر لگا تھا

اک شخص نے  لا کر ابھی ڈالا ہی ذرا تھا

 

آٹو سے  کسی طرح وہ ٹکرا گئی جا کر

گاڑی کو گڑھے  میں  جو سنبھالا ہی ذرا تھا

 

ہر سمت تھے  بکھرے  ہوئے  پائیپ نلوں  کے

پانی سے  مگر ان کا حوالہ ہی ذرا تھا

 

غار ایسے  خطرناک سڑک پر تھے  کہ جن سے

نزدیک فقط عالم بالا ہی ذرا تھا

 

بارش جو دھواں  دھار ہوئی،بن گیا دریا

کوچے  میں  بظاہر تو وہ نالا ہی ذرا تھا

 

پانی کی نکاسی کا جہاں  نظم نہیں  تھا

سڑکوں  پہ ٹریفک کا گھٹا لا ہی ذرا تھا

 

پھولوں  کے  کئی پودے  ملے  بیچ سڑک پر

سڑکوں  کا جہاں  حسن دو بالا ہی ذرا تھا

 

کیونکر نہ سڑک پرہی ہو دیدار گڑھوں  کا

سیمنٹ کا ریتی میں  مسالا ہی ذرا تھا

 

لیتا رہا گتہ پہ وہ گتہ تو یقیناً

ہاں  کام مگر اس نے  نکالا ہی ذرا تھا

 

اے  کاش نئے  پل کی طرح پل ہو پرانا

بے  نام و نشاں  بالا ہی بالا ہی ذرا تھا

 

اب لوگ کتب جانوں  میں  آتے  ہی کہاں  ہیں

پبلک کے  کتب خانوں  پہ تالا ہی ذرا تھا

 

دیکھا ہے  کہ دفتر میں  اجالا تو بہت تھا

ہر شعبے  کے  ہر گو شے  میں  جالا ہی ذرا تھا

 

افسوس کہ لوگوں  میں سِوک سنس نہیں  ہے  (civic sense)

ہر شخص نے  چھجے  کو نکالا ہی ذرا تھا

 

بجلی کا بقایا کبھی پانی کا بقایا

اس کو کبھی اس کو کبھی ٹالا ہی ذرا تھا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے