اکیسویں صدی میں اردو ناول ۔۔۔ رحمن عباس

نئی صدی کی ابتدا سے تا حال جو ناول شائع ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر کو پڑھ کر میں مطمئن نہیں ہوں کیوں کہ یہ ناول حسن، معنویت اور ندرت سے اس قدر محروم ہیں کہ ان میں نہ کوئی کسی جہاں دیگر کی سیر کر سکتا ہے اور نہ ہی ان کے مطالعے سے نئی روشنی ملتی ہے۔ فرانز  کافکا کا کہنا تھا کہ A book must be the axe for the frozen sea inside us جبکہ یہ ایسی کتابیں ہیں جو اندر کی برف کو توڑنے کے بجائے اس احساس میں گرفتار کرتی ہیں کہ ہمارے ناول نگار آرٹ کے تقاضوں کا پاس نہیں رکھتے اور اس تخلیقی قوت سے محروم ہیں جو ناول کے گلستان میں ہزار رنگ بھر دیتی ہے۔ تخلیقی قوت کی کمی کے سبب یہ فن کار ناولوں میں الفاظ کا ڈھیر جمع کرتے ہیں جس میں ڈوبنا سیراب نہیں کرتا بلکہ جسم و جاں کو مزید منجمد کر دیتا ہے۔ دوسری طرف میں ان ناولوں کو پڑھ کر مایوس ہوا جنھیں نقادوں نے عمدہ ادب کہہ کر اردو معاشرے پر تھوپنے کی کوشش کی تھی۔ میں مایوس کیوں ہوا ؟ اس سوال کا مفصل جواب بھی اس مضمون کو تحریر کرنے کا ایک سبب ہے۔

گستاؤ فلابئیر کا ایک مشہور جملہ ہے Of all lies, art is the least untrue لیکن آرٹ کا سچ زندگی کے سچ سے مختلف ہوتا ہے۔ فلابئیر کا ماننا تھا کہ : there is no truth, there is only perception فلابئیر کے ان بظاہر متضاد جملوں میں ناول کی دنیا کے سچ کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ناول کی دنیا میں جس سچ کو ہمارے ناول نگار بیان کرتے ہیں وہ زندگی کے سچ سے قریب ہوتا ہے لیکن یہ سچ آرٹ کی جادو  ۔۔۔ نگری کو منہدم کرتا ہے۔ ناول صرف طویل کہانی بیان کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ آرٹ کے تقاضوں سے لبریز اور ر۔۔ عحمن عباسکارخانۂ ندرت سے معمور ہوتا ہے جبکہ ہمارے یہاں کہانی کو طول دینے کے لیے آس پاس کی معروف حقیقتوں کو بیان کیا جاتا ہے یہ حقیقت بھی آرٹ کی تاثیر کو ضائع کرتی ہے۔ دوسری طرف جو بات قابل توجہ اور باعثِ مسرت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے معاصر ناول سماجی و سیاسی زندگی کی تفہیم کی کوشش کر رہے ہیں۔ معاشرتی صورت حال میں آدمی کی باطنی و ذہنی کیفیات کا احاطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہاں جن لوگوں نے ناول لکھے ہیں ان میں شائستہ فاخری، ترنم ریاض، ثروت خان، صادقہ نواب سحر، ، نورالحسنین، سلیم شہزاد، عبدالصمد، علی امام نقوی، مشرف عالم ذوقی، پیغام آفاقی، غضنفر، خالد جاوید، احمد صغیر، جتیندر بلو اورشمس الرحمن فاروقی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ بیسویں صدی میں اردو ناولوں پر جو تھوڑی بہت تنقید ہے اس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ ہمارے نقادوں کی ناول کے آرٹ سے ناواقفیت کا نمونہ ہے تو ظلم نہیں ہو گا۔ شمیم حنفی نے کچھ ناولوں پر عمدہ مضامین لکھیں ہیں اس کے باوجود اتنا قابل شخص بھی خود کو ناول کے آرٹ سے متعلق Kitschکا شکار ہونے سے بچا نہیں سکا۔ ہمارے نقادوں نے بیسویں صدی میں ناول کو ایک ایسی صنف کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جس میں ان عناصر میں سے کسی نہ کسی کی موجودگی لازمی قرار دی گئی تھی:۱۔ صدیوں پر محیط تاریخ کا احاطہ کرنا۔ ۲۔ تہذیبی تاریخ کو ڈرامائی انداز میں پیش کرنا۔ ۳۔ تاریخ پرستی کی لعنت کو رومانی رنگ و روغن میں پیش کرنا۔ ۴۔ پلاٹ، کردار، موضوع، اور سماجی زندگی کی پیش کش سے گریز کرنا۔ ۵۔ کہانی کو اس انداز میں پیش کرنا کہ قاری آسانی سے سمجھ نہ سکے۔

ناول کے اس ناقص اور غیر فنی تصور کو پیشہ ور نقادوں نے عام کیا۔ اس رجحان نے اردو ناول کے ارتقاء فنی بالیدگی اور کینواس کی بو قلمونیت کو نقصان پہنچایا۔ نتیجتاً ہمارا ناول گدلا تالاب بن گیا جس میں قرۃ العین حیدر کو کنول کے پھول کے طور پر پیش کر کے تالاب کے گدلے پن کو چھپانے کی کوشش کی گئی۔ چونکہ مدرسانہ نقاد کی اخلاقیات عموماً زبان کی تہذیبی تاریخ، زبان استعمال کرنے والے افراد کی مقامی تاریخ اور’ اپنی زبان ‘ کے تحت حد درجہ رومانیت سے پیدا ہوتی ہے اس لیے ان کا سارا ڈسکورس ان عناصر کے اردگرد گردش کرتا ہے۔ گذشتہ پچاس ساٹھ برس ایسے بہت سارے مدرس نقاد اردو معاشرے اور اذہان میں authority بنے رہے اور ان کی رائے کو بصیرت سمجھا گیا۔ یہ بصیرت در حقیقت اردو معاشرے کے علمی اور فکری انحطاط کی روداد ہے۔ پہلے تین نکات کو ناول قرار دینے والوں میں شمیم حنفی پیش پیش رہے جبکہ پلاٹ، کردار، موضوع اور سماجی زندگی سے خالی تحریروں کو ناول کہلوانے کی مشق رائے گاں شمس الرحمن فاروقی نے کی البتہ جب خود فکشن لکھنے بیٹھے تو عمل شمیم حنفی کے نکات پر کیا۔ اس منفی فنی رویے کے سبب جن ناولوں میں تاریخ پرستی، ماضی پرستی اور ایک مخصوص نظریاتی تہذیبی تاثر پذیری تھی صرف ان تحریروں کو زیر بحث لایا گیا یا اچھا ناول قرار دیا گیا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ناول میں تاریخ کو موضوع نہیں بنایا جا سکتا بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر ناول میں تاریخ کو موضوع بنایا جاتا ہے تو یہ ایک قسم ہے ناول کی جسے ’تاریخی ناول‘ کہتے ہیں، لیکن ناول کی یہی ایک قسم اس کی کل کائنات نہیں ہے۔ تاریخی ناول بیشتر اوقات ادب میں ’جاسوسی ناول ‘ کی طرح خود کو درج کرتے ہیں۔ عمو ماًجس کی وجہ آرٹ کے سچ سے فرار یا انحراف ہے۔ جاسوسی ناول معاصر زندگی، انسانی نفس کی کیفیات اور ذات پر مکالمہ کرنے سے محروم ہوتے ہیں بالکل اسی طرح تاریخ کے موضوع یا تاریخی نوعیت کے ناول معاصر زندگی، سیاسی سماجی زندگی اور انسانی زندگی کے مسائل سے فرار کی ایک شکل بن کر رہ جاتے ہیں۔ ’ماضی کے آدمی کے مسائل‘ ایک پہلو ہے جسے کلید قرار دے کرتا ریخی ناول کو ادبی ناول کے قریب لانے کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن یہ کمزور پہلو ہے۔ کمزور اس لیے کے ماضی کے آدمی کے مسائل کا احساس رومانیت کو جنم دیتا ہے۔ بیشتر اوقات رومانیت : حسیت سے محروم ہوتی ہے۔ ’ماضی کے سماجی اور سیاسی حالات ‘ کی بنیاد پر ناول کی تاسیس فی نفس ایک مفروضاتی اور کمزور بنیاد ہے کیونکہ کسی بھی عہد کی عکاسی کے لیے سماجی زندگی اور سیاسی حالات کا بیان تاریخ کا مرہون منت ہو گا۔ ان کمزوریوں کے باوجود ماضی کے واقعات یا تصور پر خوب صورت ناول لکھا جا سکتا ہے اور لکھے جاتے رہے ہیں۔ حیرت صرف اس بات پر ہے کہ ہمارے نقاد اس بات کو سمجھ نہیں پائے کہ ناول محض تاریخ نگاری نہیں ہے۔ ناول کے فن میں بے پناہ وسعت ہے اور اس کی کوئی ایک تعریف متعین نہیں ہے اور نہ ہی ناول کو کسی مخصوص فریضے، نظریے اور دبستان کا پابند کیا جا سکتا ہے۔ ناول سیل وقت ہے، عکس کائناتِ ہے۔ یہ دل کی بھول بھولیوں کا نقشہ بھی ہو سکتا ہے اور مردہ روح میں دفن نادیدہ بہاروں کے نقوش تلاش کرنے کا وسیلہ بھی۔ ناول کے آرٹ کو آدمی کی کیفیات، معاصر سیاست، سماج اور وقت سے دور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی ایک ادبی نظریے کو ناول کی دنیا قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ محض سماج کی عکاسی ناول کا قاعدہ نہیں ہے بالکل اسی طرح تہذیبی تاریخ کا اظہار ناول کے آرٹ کا motif نہیں ہے۔

نئی صدی میں جو ناول نگار سامنے آئے ہیں ان میں سے چند ایک کی ناولوں کو پڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب اردو ناول مذکورہ بالا ناقص فنی نظریات کو بڑی حد تک رد کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ نصف صدی کی فکشن کی غیر صحت مند تنقید اور ناقدین کی جانبداری نے فن کار کو نقادوں کے چنگل سے نکلنے کا واضح پیغام دیا اور فن کار اسے تسلیم کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے یہاں نقادوں نے خود کو بے آبرو کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اس لیے فن کار اب تنقید کو ایک طرح کا گورکھ دھندا سمجھتا ہے۔ یہاں جو ناول سامنے آئے ہیں ان کے مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ اردو ناول نگار علاقائی، قومی اور بین الاقوامی ادب اور ناولوں کو پڑھ کر ناول کو فن کو آگے بڑھا نے کا متمنی ہے۔

٭٭٭

 

اکیسویں صدی کی ابتدا میں علی امام نقوی کا ناول ’بساط‘ (۲۰۰۰ء) شائع ہوا۔ اس ناول میں علی اما نقوی نے کشمیر کے مسئلے کو پیش کرنے اور مسئلے کے پس پردہ عناصر کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ہندستان اور پاکستان کی سیاست اور تز ویراتی (strategic) مفادات کے سبب سرزمینِ کشمیر پر آگ اور خون کی جو موسلادھار بارش گزشتہ ۶۵ برسوں سے جاری ہے اس کے پس منظر میں اردو میں ناولوں کا وجود میں نہ آنا بذات خود ایک اہم سوال ہے۔ کیا اس مسئلے کی سنگینی، اور اس کے اثرات سے اردو اذہان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سلمان رشدی کی میں ہزار بار مخالفت کروں یا آپ کریں لیکن کم از کم رشدی نے Shalimar the Clown (۲۰۰۵)جیسا اہم ناول کشمیر کے افراد، معاشرے، زندگی اور مسئلے کے پس منظر میں لکھا ہے جس میں آرٹ اور حسن کی جلوہ گری بھی بڑی حد تک دکھائی دیتی ہے۔ کشمیر میں لگی آگ کی بھینٹ اب تک ۱ لاکھ سے زیادہ لوگ چڑھ چکے ہیں۔ اتنے بڑے انسانی المیے پر ہمارے یہاں اندر کی برف اور اذہان کی خاموشی توڑنے والا ناول لکھا نہیں گیا۔ ایک ناول ترنم ریاض کا ہے لیکن یہ ناول کشمیر کے کلچر کو زیادہ پیش کرتا ہے سیاسی مسئلے سے ایسے سرسری طور پر اور تاریخی جملوں کو بیان کرتے ہوئے گزرتا ہے گویا سیاسی اور انسانی موضوع پر بے لاگ حقیقت نگاری سے کام لینا کوئی جرم ہے۔ ’بساط‘ علی امام نقوی کی ایک کوشش ہے لیکن مسئلے کی وسعت، سنجیدگی اور پھیلاؤ کے سامنے یہ ناول بھی زیادہ متاثر نہیں کرتا۔ تکنیک کے طور پر ناول میں کہانی بیک وقت دو ٹریکس پر چل رہی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار خود ایک ادیب ہے اور اپنے خاندانی تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔ گہری سماجی اور سیاسی بصیرت رکھتا ہے لیکن اپنی ہٹ دھرمی اور اپنے اصولوں کی پاسداری میں خود اپنے مسائل کو بھی حل کرنے کی لیاقت سے محروم ہے۔ ’بساط‘ خانگی زندگی کی ہو یا سیاسی تنازعات کی، تمام تر اصولوں کے باوجود ان کا کوئی ممکن حل نہیں ہے۔ اس ایک خیال کی پیش کش اگر ناول کی تخلیق کا بنیادی سبب ہے تو علی امام نقوی اس خیال کی عکاسی کرنے میں بری طرح ناکامیاب ہوئے ہیں۔ ہاں ! اس ناول میں ایک اہم وصف یہ ہے کہ اس ناول کی تہہ میں بمبئی کی ادبی روایت کو محفوظ کیا گیا ہے۔ اردو فکشن کی تاریخ کا بمبئی سے گہرا رشتہ ہے۔ یہ شہر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس، سریندر پرکاش، انور خان اور ساجد رشید کا شہر ہے۔ جن کی تحریروں اور افکار کا اردو فکشن کی ادبی تاریخ اور اس شہر کی ادبی روایت دونوں سے رشتہ ہے۔ لیکن ایسے بھی بہت سارے نام ہیں جو اپنی بلا کی ذہانت کے باوجود اپنی افتاد طبع کی سیلانی کے سبب بہت جلد صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ علی امام نقوی نے اس ناول میں غیر محسوس طور پر ایسے افراد اور ان سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے جو بمبئی کی ادبی فضا کو توانائی عطا کرتے ہیں۔ یہ ساری باتیں اشاراتی طور پر اس ناول میں موجود ہیں۔ ناول کا کردار ایک جگہ کہتا ہے ’ تم نے موجودہ عہد کے ہر مسئلے کو اپنی ذات سے وابستہ کر لیا ہے۔ اور یہیں تم سے غلطی ہوئی ہے۔ ‘ (صفحہ نمبر ۱۱۶) یہ ناول بھی اسی غلطی کا اعادہ نظر آتا ہے۔

جتیندر بلو کا ناول وشواس گھاس( ۲۰۰۳) میں شائع ہوا۔ جتیندر بلو نے دیباچے میں لکھا ہے ’در اصل جو بات ناول کے وسیع کینواس میں ہے، وہ مختصر کہانی کے محدود دائرے میں کہاں ؟ اپنی سوچ کا ہر پہلو، ہر پرت بلا کسی پابندی یا قدغن کے تفصیل سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ (صفحہ ۸)، اور ایک جگہ ناول میں ایک کردار کے وسیلے سے مصنف کہتا ہے ’فن کار کے فن میں تنوع ہو تو اس کی قدر بڑھ جاتی ہے۔ ‘ (صفحہ ۲۴۶)جتیندر بلو کے اس ناول کے مطالعے اور فن کے متعلق ان کا محولہ بالا بیان اس بات کا عندیہ ہے کہ ان کے نزدیک ناول تفصیل اور تنوع کا فن ہے۔ خیال غلط نہیں ہے لیکن ناول محض تفصیل اور تنوع کا نام نہیں ہے ناول اجتہاد، فلسفیانہ اختراع، زندگی پر تنقید، معاشرے کی عکاسی اور تفصیل کے جوہر کے ساتھ گہرائی اور تنوع میں تدبر کا آرٹ بھی ہے۔ بلو کے ناول میں تفصیل ہے۔ کچھ حد تک تنوع بھی ہے لیکن گہرائی، صداقت اور زندگی کی جدلیاتی آنچ بہت کم ہے۔ رشتوں کی روداد تو ہے لیکن رشتوں کے الجھاؤ کا مشاہدہ نہیں ہے۔ کردار تو ہیں لیکن حسن اور زندگی کی معنویت سے عاری ہیں۔ یک رخے ہیں۔ سوائے نندنی کے کوئی کردار اپنے باطنی انتشار یا جمال کے ساتھ ظاہر نہیں ہوتا۔ کسی کی اپنی دنیا نہیں ہے۔ کسی کی انفرادی ساخت نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ناول کرداری نہیں بلکہ موضوعی ہے تو زیادہ مایوسی ہو گی کیوں کہ واضح ہے : ناول کی کہانی انتہائی دقیانوسی انداز میں شروع ہوتی ہے اور حویلی کی تقسیم اور فروخت کے بعد زندگی کے بکھراؤ کو ٹی وی سریلز کے انداز میں پیش کرتی ہے۔ نندی کے کردار میں امکانات تھے کہ اس وسیلے سے نسائی جذبات اور عورتوں سے کئے جانے والے مردوں کے تقاضوں کے جبر کی المیاتی تصاویر کو پینٹ کیا جاتا لیکن جتیندر بلو اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس ناول میں تنوع ایشیائی تہذیب اور مغربی تہذیب کے سبب پیدا شدہ کلچر کی وجہ سے نظر آتا ہے۔ لیکن جب ادیب ایک کلچر کو دوسرے کلچر پر بیانیہ کے ذریعے فوقیت دے تو ناول پروپیگنڈہ بن جاتا ہے (خاص کر اس وقت جب ناول غیر سیاسی ہو) ناول کا کام کلچر کو پیش کرنا ہے احتساب کرنا نہیں اور اس کی بہترین مثال ہنری جیمس کے ناول European اور The Portrait of a Ladyہیں۔

عبدالصمد کو ۱۹۸۸ ء میں ان کے ناول’ دو گز زمین‘ پر ساہتیہ اکادمی انعام تفویض کیا گیا۔ نئی صدی میں ان کے دو ناول منظر عام پر آئے ہیں ’دھمک‘ (۲۰۰۴ء) میں اور ’بکھرے اوراق‘(۲۰۱۰ء) میں۔ دھمک کا موضوع ذات پات کی تقسیم اور اس تقسیم سے پیدا ہونے والی سماجی و معاشرتی صورت حال ہے۔ اس ناول کا ایک پہلو یہ ہے کہ سماجی عدم مساوات اپنے اسفل ترین اظہار کے طور پر اجتماعی عصمت دری، انتقامی سماجی تحریکات، سیاست میں اقدار کے زوال اور اسٹبلشمینٹ کی سفاکی کے طور پر سامنے آتا ہے۔ عبدالصمد نے جزئیات نگاری اور بیانیہ اسلوب کے بجائے مکالماتی فضا سے ناول کے کینواس کو پھیلانے کی خوب کوشش کی ہے اور وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہیں۔ ناول کی طوالت ناول کے کینواس کا ساتھ نہیں دیتی۔ دھمک میں عبدالصمد لکھتے ہیں : ’’ ایک دیہی علاقے میں اجتماعی عصمت دری کے معاملے کی بہت شہرت ہو گئی تھی۔ ایک خاص ذات کے چند نوجوانوں نے سات کنواری، معصوم اور بے گناہ لڑکیوں کی عزت کی دھجیاں اڑائی تھیں اور یہ شرمناک منظر ان کے گھر کے افراد کو دیکھنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ (صفحہ ۳۹) در حقیقت اس ایک واقع کی بنیاد پر یہ ناول کھڑا ہے اور عبدالصمد اس واقعے کے سیاسی، سماجی، طبقاتی اور انسانی امکانات اور اثرات کو ناول کے کینواس پر دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ ’بکھرے اوراق ‘ایسے بکھرے اوراق ہیں جن میں ہندستانی سماج کی سیاسی اور معاشی تصویر کے پس پردہ مسلمان خود احتسابی کر رہا ہے۔ ناول کا ایک اقتباس ہے : ’ میں سمجھتا ہوں، سرسید کے فارمولے کو ہم نے یکسر بھلا دیا، یہ ایک بڑی وجہ ہے، دوسری بات یہ ہے کہ ہم مزاجاً ماضی پرست ہیں۔ ہمیں اپنے ماضی میں بہت کشش محسوس ہوتی ہے اور ہم اسی میں مگن رہتے ہیں۔ جب کہ ماضی وہ تیز روشنی ہوتی ہے جو مستقبل کی نامعلوم راہوں کو روشن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ورنہ تاریکی طاری کر دینا بھی اس کی خصوصیت ہے۔ ہم روشنی سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے تو نقصان کس کا ہو گا؟‘ یہ ناول موضوع اور کرافٹ کی سطح پر عبدالصمد کی صلاحیتوں کا عکاس نہیں ہے۔ تخلیقی سطح پر بھی اس میں کوئی آنچ، کوئی چنگاری نہیں ہے۔ کہانی بیان کرنے کے لیے عبدالصمد نے جس پیرائے کا استعمال کیا ہے وہ بھی غیر متاثر کن ہے۔

نورالحسین نے ’اہنکار‘ کے عنوان سے ( ۲۰۰۵ ء) میں ناول سی کوئی چیز لکھی تھی اور عتاب دوستاں اور قہر دشمناں کو دعوت دی تھی۔ اس دعوت کی حسین یادیں اب بھی ان کے چہرے پر دکھائی دیتی ہیں۔ البتہ اس حسین دعوت کے سات برسوں کے سوگ کے بعد یہاں ان کا ناول ’ ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘ (۲۰۱۳) میں شائع ہوا ہے۔ ’ ایوانوں میں خوابیدہ چراغ ‘ کو نورالحسنین کی اب تک کی سب سے متاثر کن ادبی تحریر کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ عبد الصمد نے اس ناول کے بارے میں لکھا ہے کہ ’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘ کا مطالعہ کرتے وقت کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم تاریخ جیسے خشک موضوع کا مطالعہ کر رہے ہیں، لیکن یہ بھی نہیں ہے کہ انھوں نے اس میں محض دلچسپی کے لیے بھرتی کی چیزیں ڈالی ہیں۔ ‘ ( ایوان اردو، جون ۲۰۱۳ء)۔ ’ ایوانوں میں خوابیدہ چراغ‘ در اصل پہلی جنگ آزادی کے پس منظر میں لکھا گیا ایک تاریخی ناول ہے۔ ’ آہنکار ‘ کے پیش لفظ میں بشر نواز نے لکھا تھا کہ ’ تجسس برقرار رکھنے کے لیے نورالحسنین نے فلیش بیک اور فلیش فارورڈ کی تکنیک استعمال کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ نور الحسنین کی فنکاری یہی ہے کہ انھوں نے کہانی کی تمام شرائط کو پورا کیا ہے۔ ‘ (صفحہ ۱۵ اہنکار)۔ ایسے غیر ادبی پیش لفظ اکثر ادیبوں کے لیے عتاب لے کر آتے ہیں۔ ناول اگر اچھا نہ ہو تو کوئی پیش لفظ ناول کو سہار نہیں سکتا بلکہ ادیب کی رسوائی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس رسوائی کا کچھ مزہ میں نے بھی چکا ہے۔ ’آہنکار‘ ریاست مہا راشٹر کے ایک دیہات کی معاشرت، سماج اور اقدار کی کشمکش کو پیش کرنے کی کوشش ہے لیکن آرٹ کی سطح پر یہ ناول بہت کمزور تھا۔ اس ناول میں کچھ باتیں تلاش کرنے کی ایک کوشش خورشید اکبر نے کی ہے لیکن بالآخر وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ’ معمولات حیات پر مصنف کی گرفت ڈھیلی رہنے کے سبب جزئیات نگاری اور جذبات نگاری کا حق ادا نہیں ہو سکا۔ ‘ (آہنکار : علاقائی شناخت، معمولات حیات اور محرومی کی نفسیات کا تخلیقی تلازمہ؟ ) جبکہ ’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ ‘ میں نورالحسنین کی محنت صاف نظر آتی ہے۔ یہ ناول پہلی جنگ آزادی کے انتشار، انگریزوں کے خلاف لڑنے والے افراد کے افکار اور اس وقت کی معاشرت کے منظر نامے کو دریافت کرنے کی اچھی کوشش ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسمان‘ میں خانم بیگم کی زندگی کا احوال جاننے کے لیے جتنی تاریخی تاویلات کی سنگلاخی سے قاری کو گزرنا پڑتا ہے ویسا حال اس ناول کی قرأت میں نہیں ہوتا۔ نورالحسنین کے ناول میں جاری رومان کی نوک جونک ناول کی تاریخی فضا کو دلکشی عطا کرنے میں کامیاب ہے۔ علی احمد فاطمی نے ایک طویل مضمون (ان دنوں وہ ناولوں پر طویل مضامین ہی لکھ رہے ہیں ) میں لکھا ہے کہ ’نورالحسنین کا یہ ناول ان حوالوں سے خاصا کامیاب ناول ہے جو تاریخ کا ہی نہیں زندگی کے پیچ و خم اور کیف و کم کا مفکّرانہ و فنکارانہ آئینہ دار ہے۔ اس عہد میں جب عام سماجی معاشرتی ناولوں کا ہی فقدان ہے، نورالحسنین نے تاریخی بلکہ اور آگے بڑھ کر فلسفیانہ نوعیت کا ناول لکھ کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ ‘ میں اس ناول کو کارنامہ نہیں کہہ سکتا۔ میرے لیے یہ ناول صرف ایک ناول ہے۔ ایک تاریخی ناول ہے۔ یہ ناول’ کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘ جیسی بوریت، دستاویزیت اور بے جا طوالت کا شکار نہیں ہے جو ناول کے عیب ہیں۔ اب جب میں نے ان دو ناولوں کا تقابل کیا ہی ہے تو یہ بھی کہہ دوں کہ دوسری طرف یہ ناول خانم بیگم جیسے عمدہ کردار سے محروم بھی ہے۔

مشرف عالم ذوقی کا شمار اکیسویں صدی کے نمایاں ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ذوقی کو کچھ لوگ بسیار نویس کہتے ہیں لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا۔ ایک دہائی میں چار پانچ ناول لکھنا عام سی بات ہے۔ ورحان پاموک اور گارسیا ماکیز نے بھی بہت لکھا ہے۔ یہاں مشرف عالم ذوقی کے چار ناول منظرِ عام پر آئے ہیں بالترتیب :پوکے مان کی دنیا (۲۰۰۴ء)، پروفیسر ایس کی عجیب داستان : وایا سونامی (۲۰۰۵ء)، لے سانس بھی آہستہ( ۲۰۱۱ء) اور آتش رفتہ کا سراغ (۲۰۱۳ء)۔ مذکورہ ناول موضوع، ٹریٹمینٹ اور کینواس کے لحاظ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ ’پو کے مان کی دنیا‘ میں ذوقی نے عہد حاضر کی تکنیکی ایجادات کے پس منظر میں بچوں کی نفسیات میں در آنے والی تبدیلیوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس ہیبت سے قاری کو روشناس کیا جس کا ادراک تو قاری کو ہے لیکن اس کی سنگینی کو قاری نے دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی میں مصنف ایک جگہ لکھتا ہے ’موت: زندگی کو دیکھنے کا ایک بہانہ ہے۔ (صفحہ ۴۶۰)۔ مجھے ایسا لگتا ہے ذوقی نے معاصر زندگی کو دیکھنے دکھانے کے لیے یہ ناول لکھا ہے۔ اس ناول میں ۲۷ دسمبر ۲۰۰۴ ء کو واقع ہوئی سونامی جس نے دنیا کو تباہی اور بربادی کی ایک ہولناک تصویر دکھائی تھی اس کے پس منظر میں معاصر ادب میں جاری کرپشن اور اخلاقیات کی شکست کو ذوقی نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بھرپور ڈرامائیت کے باوجود ناول کی پرکاری اور اثر انگیزی اس ناول میں ان کے ہاتھ نہیں لگی۔ مشرف عالم ذوقی کا تا حال کامیاب ناول ’لے سانس بھی آہستہ ‘ ہے جس پر شائستہ فاخری کی یہ بات بڑی حد تک صحیح لگتی ہے کہ ’ یہ ناول نئی صدی کے دروازے پر ایک ایسی دستک ہے، جس کی گونج گزرتے وقت کے ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتی جائے گی۔ ‘ (لے سانس بھی آہستہ : مختصر جائزہ)

یہ ناول ہندستانی مسلمانوں کی سائکی، سماجی صورت حال اور معاشرتی کشمکش کا منظرنامہ بیان کرتا ہے۔ ہندستانی مسلمانوں کی تہذیبی روایات کے انتشار کا فسانہ ناول کا اہم موضوع ہے لیکن ساتھ ہی یہ ناول تقسیم کے نفسیاتی اثرات کا غم گین پورٹریٹ بھی ہے۔ ناول اخلاقیات اور با لخصوص انسانی جبلت اور جنسی اخلاقیات پر نشتر لگا تا ہے اور قاری کو بے شمار سوالات کے بھنور میں چھوڑ جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کے عہد میں تہذیبی شکست و ریخت کا جو سیلاب آیا ہے، اس کے ریلے میں پرانی اخلاقیات کی ساری کتابیں بہہ رہی ہیں اور ہم صرف خاموش تماشائی بن گئے ہیں۔ یہ ناول ان خاموش تماشائی لوگوں کی ذات کے ندبے کا بیان بھی ہے۔ ذوقی نے ’لے سانس بھی آہستہ ‘ کے ذریعے اخلاقیات کے نظام پر سوالات قائم کئے ہیں۔ اس کا اصرار ہے کہ انسانی اخلاقیات انسان کے نہیں بلکہ قدرت کے ہاتھ میں ہے۔ قدرت اپنے پھیلاؤ، ارتقاء اور دفاع میں انسانی فکر کو ہمیشہ شکست دیتی رہی ہے۔ زندگی بہر حال ارتقاء سے عبارت ہے اور انسان اس زمین پر قدرت کا اسیر ہے۔ قدرت اپنے قوانین، اصول اور نظریے خود انسانوں کے توسط سے خلق کرتی ہے۔ کہیں اس کے خلاف انسان بر سرِپیکار بھی ہوتا ہے اور اپنے ذاتی قوانین کو فوقیت دینے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ قدرت کی سفاکی اور آفاق کی کار گہی کے سامنے جیت نہیں پاتے۔ بلکہ ایسے افراد قدرت کے قوانین سے ٹکرانے کی صورت میں خود ہی ڈائنو سورس کی طرح اپنا وجود مٹا دیتے ہیں۔ ذوقی نے اس ناول میں تقسیم وطن، ہجرت، خون خرابے اور جنگوں سے پیدا ہونے والے کرائسس کو بھی پیش کیا ہے اور یہ درشایا ہے کے بچوں کی جذباتی اور ذہنی زندگی کو یہ آسیب کیسے آہستہ آہستہ دیمک کی طرح کھا کر کھوکھلا کر دیتے ہیں اور ایک دن ایسا بھی آتا ہے جب ان کا ربط دنیا سے کٹ جا تا ہے اور وہ درد اور کرب کی ایسی تاریک کھائی میں گر جاتے ہیں۔ ۔ جہان ان کی شخصیت ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے لیکن ان کے رونے کی آواز ہمارے کانوں پر دستک دیتی رہتی ہے۔ ۔ ۔ یہ رونے کا مرض بڑھتا جاتا ہے لیکن اس کا علاج نہ کسی ڈاکٹر کے پاس ہے نہ کسی تاریخی و تہذیبی مطب میں۔ ۔ ۔ لوگ اس حالت کو جناتوں اور غیر مرئی قوتوں سے منسوب کرتے ہیں لیکن یہ سب شکستِ ذات کے اظہار کے سوا کچھ نہیں۔ ناول کی کہانی آزادی کے دور سے شروع ہوتی ہے اور موجودہ بھارت کی سیاسی اور سماجی تاریخ کو پیش کرتی ہوئی بابری مسجد کے انہدام تک سفر کرتی ہے۔

’لے سانس بھی آہستہ ‘ ایک ایسا ناول ہے جس کے بیانیہ کی شادابی، تکنیک کی ہنر مندی، کردار نگاری، اور موضوع پر اظہار خیال ہوتا رہے گا۔ ذوقی نے فینتاسی، تجسس، مافوق الفطرت عناصر کی طلسمی دنیا کے خوب صورت استعمال سے ناول کے کینواس کو تازگی عطا کی ہے۔ ناول قاری کو اپنی گرفت میں کر لیتا ہے۔ دوسری طرف ’آتشہ رفتہ کا سراغ‘ سامنے کی حقیقتوں کا بیان ہے۔ اس ناول میں ہندستانی جمہوریت کی شکست کا اظہار ہے۔ جہاں اکثریتی فرقے کا ایک چھوٹا سا طبقہ سیاست پر قابض ہو کر پورے سسٹم کو کس طرح پراگندہ کرتا ہے، دیکھا جا سکتا ہے۔ ’آتشہ رفتہ کا سراغ‘ معاصر سماجی اور سیاسی حقائق پر مبنی ہے اور عام قاری کے تجسس کو برقرار رکھتا ہے لیکن ناول کے آرٹ کی سحرکاری کا احساس اس ناول میں ’لے سانس بھی آہستہ‘ کے مقابلے میں کچھ کم ہے۔ ناول کا کلائمکس اس ناول کو مزید دلچسپ بناتا ہے لیکن یہ دلچسپی ناول کو آرٹ میں کس حد تک بدلتی ہے، کہنا ابھی مشکل ہے۔

ثروت خان کا ناول ’اندھیرا پگ‘ (۲۰۰۵ء) میں شائع ہوا۔ یہ ناول راجستھانی پروہتوں اور پنڈتوں کی معاشرت، سماجی زندگی، رسم و رواج، اور مذہب و کلچر کی آڑ میں جاری عورتوں کے استحصال کو بیان کرتا ہے۔ مصنفہ نے کہانی بیان کرنے کے لیے جو بیانیہ استعمال کیا ہے وہ ایک عام سے موضوع کو قابل مطالعہ بنا دیتا ہے۔ ہندستانی معاشرے میں عورتوں کا استحصال ایک کڑوا سچ ہے لیکن یہ موضوع روزانہ میڈیا اور اخباروں میں زیر بحث رہتا ہے اور فکشن میں اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس موضوع کو متاثر کن انداز میں پیش کرنا مشکل ہے۔ صادقہ نواب، شائستہ فاخری اور ترنم ریاض نے اس موضوع کو اپنے اپنے طور پر برتا ہے لیکن ثروت خان نے موضوع کی نسبت ایک پورا تہذیبی معاشرہ خلق کر کے تھوڑی انفرادیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘ناول کے تیسرے باب کا یہ پیراگراف ناول کے موضوع کو بھی بڑی حد تک بیان کرتا ہے :’تا حدِ نظر ریت ہی ریت اور ریت کے اس سمندر میں بسا ایک چھوٹا سا قصبہ۔ دیش نوک کہ جسے گورنمنٹ کے ریکارڈ میں خوشحال قصبہ دکھایا گیا تھا، لیکن یہاں خوشحالی کو چھوڑ کر سب کچھ تھا۔ جہالت ایسی کہ میڑک  پاس ملنا محال تھا۔ لڑکیوں کی تعلیم کا رواج تو بالکل نہیں تھا۔ ہاں پروہتوں نے اپنے وراثتی علم یعنی تنتر منتر، کریا کرم کانڈ کو فروغ دے رکھا تھا۔ جو نسل درنسل چلا آ رہا تھا۔ گھرانے کے مرد جہاں سنسکرت، وید پران کے پنڈت تھے وہیں عورتیں ان پڑھ تھیں۔ حویلی کی اونچی دیواروں میں قید، جہالت کی لعنت سے لپٹی ہوئی نسائیت کے پاس، مرد کی چادر بننے کے سوا دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا۔  ’موکش کی راہ اتنی آسان نہیں ہوا کرتی۔ ‘ اور دوسری طرف یہ ناول عورت کی جبر سے نجات کی راہ تلاش کرنے سے بھی عبارت ہے۔ یہ راہ کسی نہ کسی سطح پر وہی راہ ہے جس کا انتخاب ’نادیدہ بہاروں کے نشاں ‘ کے مرکزی کردار علیزہ بھی منتخب کرتی ہے اور ترنم ریاض کے ناول ’برف آشنا پرندے ‘ کی شیبا تلاش سے محروم ہے۔

ترنم ریاض کا ناول’ مورتی‘ (۲۰۰۴ء) میں شائع ہوا۔ یہ ناول ازدواجی زندگی کی ناکامی اور اس ناکامی کے اسباب پر مبنی ہے لیکن سپاٹ پلاٹ اور مرکزی کرداروں کی محدود دنیا کے سبب یہ ناول اپنے موضوع کو بھی عمدگی سے پیش نہیں کر سکا۔ اس ناکامیاب ناول کے بعد ترنم ریاض نے ’ برف آشنا پرندے ‘ (۲۰۰۹ء) کی صورت میں ایک ضخیم ناول لکھا ہے۔ برف آشنا پرندے کشمیر کی سماجی، معاشرتی اور ثقافتی زندگی کو پیش کرتا ہے۔ اس ناول میں کشمیر کی روزمرہ کی زندگی کی جھلک کو مصنفہ نے بڑی تفصیل سے پیش کیا ہے۔ کشمیر کی قدرتی خوب صورتی کی جہاں تصویر کشی کی گئی ہے وہیں پر کشمیر کے پکوان اور طرز زندگی کو بھی نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ناول کشمیر کی سماجی تاریخ پر مبنی ہے اور کشمیر کا سیاسی مسئلہ اس ناول کا موضوع نہیں ہے لیکن مصنفہ نے کشمیر کی صدیوں کی تاریخ کئی صفحات پر بیان کی ہے۔ یہ تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں کشمیر کی شناخت، کشمیری افراد کے مصائب، کشمیر کے تہذیبی احیاء کو دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ناول براہِ راست مسئلہ کشمیر پر نہیں ہے پھر بھی مندرجہ ذیل پیراگرافس ناول میں پڑھے جا سکتے ہیں۔

’سن رسیدہ کشمیریوں کو یاد ہے پنڈت جی نے آدھ صدی قبل اس بات کو لال چوک میں دہرایا تھا کہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ ‘ (صفحہ ۲۷۰)

’صوبۂ جموں میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا گیا ہے۔ اس سے دوگنی تعداد کو جموں و کشمیر سے پاکستانی کنٹرول والے علاقے میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ۔ ۔ صوبۂ جموں جو ایک مسلم اکثریت والا صوبہ تھا، اب ایک مسلم اقلیتی صوبے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ ‘ ( صفحہ ۲۷۲)

’یہ واحد مسلم اکثریت والی ریاست تھی جس نے اپنی مرضی سے وفاق ہند میں شمولیت کی تھی۔ پوری فیڈریشن میں اسے خصوصی درجہ حاصل تھا۔ اس کا اپنا وزیر اعظم اور صدر ریاست تھا۔ ہند و پاک میں یہ تنہا ریاست تھی جسے اندرونی آئین مرتب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ اس ریاست کا اپنا ایک جھنڈا تھا جو ملک کے ترنگے جھنڈے کے ساتھ ساتھ لہراتا تھا۔ ‘( صفحہ ۲۷۳)

ناول میں کشمیر کی تہذیبی تاریخ کا پس منظر خوب صورتی سے استعمال کیا گیا ہے لیکن ناول کا مرکزی کردار، شیبا ایک غیر دلچسپ کردار ہے۔ چونکہ ناول کا سارامنظرنامہ شیبا کے اردگرد پھیلایا گیا ہے اس لیے شیبا کے کردار کی یکسانیت اور اکتاہٹ پورے منظر نامے کو بے رس کر دیتی ہے۔ شیبا کی زندگی بہت سپاٹ، بے رنگ اور بے اثر ہے۔ غالباً اسی لیے ناول کو پڑھنا مشقت سے کم نہیں۔ ناول وہ چمن نہیں بن سکا جس کی سیر کر کے دل شاداں ہو یا انسانی المیے کی سنگینی سے دل کے ریشے لرزاں ہوں۔ دوسری طرف جن سیاسی حالات اور واقعات کا ذکر مصنفہ نے کیا ہے وہ بھی لوگوں کی یاد داشت میں محفوظ ہیں اور پاکستان کے اخبارات میں روزانہ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ تاریخی حوالے لوگوں کی زندگیوں کے احوال سے محروم ہوتے ہیں اور ناول کو بوجھل کر دیتے ہیں۔ کشمیر پر پنڈت جی کا بیان علی امام نقوی نے بھی اپنے ناول میں استعمال کیا۔ ان دونوں ناول نگاروں نے کشمیر کے مسئلے پر ایک جیسے خیالات پیش کئے ہیں لیکن دونوں آرٹ کی سحرکاری اور جادوگری سے یکساں محروم ہیں۔

صادقہ نواب سحر کا ناول ’کہانی کوئی سناؤ متاشا ‘ (۲۰۰۸ء) میں شائع ہوا۔ سلام بن رزاق نے اس ناول کے بارے میں لکھا ہے کہ’ اس ناول میں سماج میں عورت کے استحصال کی داستان بڑی دل سوز ہے۔ ۔ ۔ جب کوئی عورت اس تھیم کو بیان کرتی ہے تو اس کی شدت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ ‘مانا کہ اس ناول کا سبجیکٹ ہندستانی معاشرے میں عورت کا استحصال ہے لیکن استحصال کے بیان میں دل سوزی کہاں ہے۔ دل سوزی استحصال کے ذکر سے نہیں بلکہ فنکارانہ پیش کش اور ندرتِ بیان سے پیدا ہوتی جو اس ناول میں عنقا ہے۔ یہ ایک سادہ سی تحریر ہے جس میں ایک عورت اپنے مسائل اور زندگی کی بساط پر درپیش چیلنجز کو بیان کرتی ہے۔ مسائل کی نوعیت اور عمومیت ناول کی ادبی اہمیت کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ سلام بن رزاق فرماتے ہیں کہ صادقہ نے ایک عورت کے کرب و بے بسی کو اس پر اثر انداز میں بیان کیا ہے کہ مظلومی نسواں کی ایک تصویر سی آنکھوں میں گھوم جاتی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار متاشا پورے ناول میں لہر لہر ڈوبتی اور گھاٹ گھاٹ ابھرتی ہے۔ ناول ختم ہو جاتا ہے مگر متاشا قاری کے ذہن پر دیر تک دستک دیتی رہتی ہے۔ سلام بن رزاق کا یہ بیان میرے ذہن میں بھی لہر لہر ڈوبتا اور گھاٹ گھاٹ ابھرتا رہا ہے اور میں سوچتا رہا اس بیان سے سلام بن رزاق کا گھاٹا کتنا ہوا اور صادقہ کا کیا نہیں گھٹا۔ متاشا کوئی غیر معمولی کردار نہیں ہے اور نہ ہی اس کی زندگی غیر معمولی ہے۔ یہ ایک سادہ سا کردار ہے۔ ناول کی دوسری بڑی کمزوری عورت کے ساتھ ہونے والی نا انصافیاں ہیں۔ یہ بہت پامال موضوع ہے۔ شائستہ فاخری کے ناول میں بھی عورت کے ساتھ ہونے والی نا انصافی موضوع ہے لیکن کم از کم یہ نا انصافی ایک دلچسپ کینواس اور منفرد زاویے سے پیش کی گئی ہے۔ انفرادیت اور موضوع کے ٹریٹمینٹ میں نیا پن نہ ہو تو ناول الفاظ کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ ثروت خان نے موضوع کی پا ما لی کے باوجود ایک منفرد انداز بیان اور لفظیات کا تجربہ کر کے ناول کے ادبی مطالعے کے کچھ امکانات تو متن میں پیدا کئے ہیں۔ اس کے باوجود صادقہ کا ناول قابل مطالعہ ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ کم از کم وہ افسانے کو تان کر ناول نہیں لکھتی ہیں۔

شائستہ فاخری کا ناول ’نادیدہ بہاروں کے نشاں ‘ کتابی صورت میں (۲۰۱۳ء )، میں چھپنے سے پہلے رسالہ ’آمد‘ میں ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا تھا۔ شائستہ فاخری نے مرد کی انانیت، حماقت اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھتی ہوئی عورت کی مجسم تصویر کشی کی ہے۔ اس ناول کا اسلوب، بے باک اندازِ بیان، اور زندگی پر مصنفہ کی تنقید ناول کو دلچسپ بناتی ہے۔ قاری اس ناول کی روانی میں تنکے کی طرح بہتا چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے اندر ایک اتھل پتھل جاری رہتی ہے۔ یہ ناول صرف عورت کی بے بسی، مظلومی جذبۂ جانثاری کو بیان نہیں کرتا بلکہ مرد کو خود احتسابی کے دائرے میں بھی کھینچ لیتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار علیزہ کا کہنا ہے کہ اس نے مردوں کے آگے خود کو برہنہ کیا اور یہ دونوں مرد اس کے اپنے تھے اور وہ بھی عریاں تھے۔ شائستہ فاخری نے علیزہ کے ایک خواب کے ذریعے ناول کے مرکزی خیال کو پیش کیا ہے ’بٹوارے میں بانٹی گئی زمین کی طرح اس کا جسم دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ وہ نڈھال چت پڑی ہے۔ جسم کے داہنے حصے کا کوئی تعلق بائیں حصے سے نہیں ہے اور نہ بایاں داہنے حصے کو چھو رہا ہے۔ سرچہرہ گردن سینہ پسلیاں ناک اور پھر ناف کے نیچے کی نازک سطح تک سب کچھ دوحصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ دماغ کے دو حصوں میں بنٹتے ہی منتھن فکر اور نتائج کے سلسلے بھی ٹوٹ گئے۔ ذہن کچھ سوچنے سے محروم ہو گیا۔ ناف کے اوپر کا آدھا یوگ اور ناف کے نیچے کا آدھا بھوگ۔ ۔ ۔ تکمیلیت کہیں نہیں۔ تکمیل کی پوری منزل ڈوبتے سورج کے عذاب میں گم ہو چکی تھی۔ ‘ علیزہ اپنے شوہر کے شک اور تنک مزاجی سے اپنی ذات میں رفتہ رفتہ گم ہوتی جاتی ہے اور ایک دن تقدیر اسے اپنے دیور کے ساتھ حلالہ کی صورت اپنے جسم کو تقیسم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ شاید اس کے دل میں سابقہ زندگی سے نجات کی ایک کونپل پھوٹنے کا امکان موجود ہے لیکن دیوار اس کے جسم کی دیور پر اس کے دل کی پھوٹنے والی کونپل کو پڑھ نہیں پاتا۔ یہ ناول مسلم معاشرے کے ایک بہت ہی نازک مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر خاطی مرد ہے تو اس کی سزا عورت کیوں بھو گے۔ اس سوال کا شاید ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے لیکن اس ناول کے تحت شائستہ فاخری نے اس مسئلے کی سنجیدگی کو پیش کیا ہے۔ بلکہ مذہبی احکامات کے جہنم سے گزرنے کے بعد علیزہ جو فیصلہ اپنے لیے کرتی ہے وہ عورت کی آزادی کا اعلانیہ بھی ہے۔ شائستہ نے انتہائی متاثر کن انداز میں علیزہ کی باطنی کیفیات کو بیان کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں :’اب وہ (علیزہ) کاٹھ کی پتلی کی طرح ٹوٹی کئی حصوں میں منقسم پڑی ہوئی ہے۔ آنکھوں کی دونوں پتلیوں کی وسعت سمٹ گئی۔ اب وہ محدود دائرے کو ہی دیکھ سکتی تھی۔ داہنی طرف کی پتلی نے دیکھا کہ اس کے دائیں پہلو میں فرحان مرزا لیٹا ہوا ہے اور بائیں پتلی گواہی دے رہی تھی کہ اس کے بائیں پہلو میں اعیان تھا۔ فرحان اس کے داہنے رخسار پر بوسہ دے رہا تھا۔ اس کی انگلیاں گردن سے سرکتی ہوئی اس کی داہنی پستان سے کھیلتی ہوئی ناف کے نیچے کی گھاٹی میں اترتی جا رہی تھیں۔ اور بائیں جانب لیٹا ہوا اعیان اس کے بائیں پیروں کے ناخنوں کو بوسہ دیتا ہوا اس کی برہنہ ٹانگوں کو چومتا ہوا ناف کے اوپر سے ہو کر پستان کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ چپ چاپ پڑی ہوئی تھی جیسے برف کے نیچے کوئی نرم ہری بھری کونپل بہار کے انتظار میں دم سادھے بیٹھی ہو۔ یہ بے نیازی اور بے بسی کا احساس یہ شاید روح کی آوارگی ہے۔ ‘ شائسہ فاخری کے اس ناول میں جو بات تھوڑی بہت کھٹکتی ہے وہ غیر ضروری ڈرامائیت ہے۔ بہت ممکن ہو موضوع کی سنجیدگی کو ماجرے کے کیف سے پر کرنے کی یہ کوشش ہو کیونکہ بہر حال شائستہ فاخری کے پاس تخلیقی نثر کی قوت تو موجود ہے جس کے بل بوتے وہ کسی بھی بات کو ڈرامائیت کے بغیر دور تک کھینچ سکتی ہیں۔

ساجد رشید نے ’جسم بدر‘ کے عنوان سے ایک ناول لکھنا شروع کیا تھا لیکن زندگی کی بے ثباتی نے انھیں اتنا وقت نہیں دیا کہ وہ اس کو مکمل کر لیتے۔ ساجد رشید اردو کے ان نمائندہ افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں جن کی زندگی کے اہم مقاصد میں سے ایک اردو فکشن کو ہئیت پرسی کے نا قابل فہم چیستان میں مبتلا ہونے سے بچانا تھا۔ جارج آرویل کا یہ بیان ساجد رشید کی زندگی کا احاطہ کرتا ہے In a time of deceit telling the truth is a revolutionary act، ساجد رشید کا اپنا ایک کردار تھا جس کا سایہ ان کے ادبی نظریات پر بھی پڑتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ادب کو سماج اور انسانی زندگی کے مسائل سے ماورا نہیں کیا جا سکتا اور غالباً اسی لیے بیک وقت ان کی زندگی کئی محاذ پر سرگرم گزری اور بطور ادیب بھی وہ ادبی اور نظریاتی مباحث میں دلجمعی سے شریک ہوتے رہے۔ ان کی کہانیوں میں بھی یہ تصور نمایاں ہے۔ سماج اور آدمی کی کشاکش پر مبنی ان کی کہانیاں اردو معاشرے سے دادو تحسین پہلے ہی حاصل کر چکی ہیں اگر ’جسم بدر‘ لکھنے میں کامیاب ہو جا تے تو بہت ممکن ہے سماجی اور سیاسی زندگی کی ہولناکی اور المیاتی صورت حال پر ایک عمدہ ناول لکھ لیتے۔ ’جسم بدر‘ کا جتنا حصہ وہ تحریر کر چکے تھے وہ پس مرگ شائع ہونے والے ان کے افسانوں کے مجموعے ’ایک مردہ سر کی حکایت (۲۰۱۲ ء )میں شامل ہے۔ ’جسم بدر‘ میں ساجدرشید ایک بہت الگ شخص کے طور پر سامنے آتے ہیں ان کی افسانہ نگاری میں محبت اور محبت کا بیان شاید ہی کہیں ہو لیکن اس ناول میں زیریں لہر کے طور پر محبت کی ایک کہانی بھی بہہ رہی تھی۔ ’جسم بدر‘ فسادات اور کرفیو کے پس منظر میں آدمی کی جبلت، سفاکی اور آدمی کے اندر کے جانور کی حیوانیت کو پیش کرتا ہے وہیں ایک خاندان کی زندگی کی پیچیدگی، اس خاندان کے افراد کی زندگی کا پھیلاؤ اور بکھراؤ بہت سبک روی کے ساتھ جاری ہے۔ ساجد رشید کا ناولوں کا مطالعہ کافی اچھا تھا۔ البانیہ کے مین بوکر پرائز انعام یافتہ ناول نگار Ismail Kadare کا ناول The Concert اور نوبل انعام یافتہ ناول نگارMario Vargas Llosa کا ناول Conversation in the Cathedral مجھے ساجد رشید نے پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ وہ اکثر ہندی اور بین الاقوامی ناولوں پر بہت جوش و خروش کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے۔ ناول کا خاکہ ان کے ذہن میں ان لوگوں سے مختلف تھا جو افسانہ لکھتے لکھتے ناول کو بھی طویل کہانی سمجھ بیٹھتے ہیں اسی لیے ’جسم بدر‘ کے مطبوعہ صفحات پر ہمیں کہانی کے مختلف دھارے بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سیاست، فسادات، اسٹبلیشمینٹ، مذہبی ٹھیکیدار، اور ان کے ماتحت زندہ کرداروں کی پستی کے بیان کے ساتھ ساتھ’ جسم بدر ‘میں ایک معصوم عشق کی کہانی کی مدھم آنچ بھی دکھائی دیتی ہے۔ خدا ہی جانتا ہے یہ آنچ ناول مکمل ہوتا تو کیسے شعلے میں بدل جاتی۔

شموئل احمد کا ناول ’مہا ماری‘ (۲۰۰۳ ء) میں شائع ہوا۔ شموئل احمد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے  ’ءئکرپشن کی مہاماری ہر طرف پھیل گئی ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں سوائے اس کے کہ پروٹسٹ درج کریں۔ میرا ناول مہا ماری آج کے سیاسی نظام کے خلاف پروٹسٹ ہے۔ (اردو دنیا۔ جون ۲۰۱۳ء ) اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ناول ہندستانی سیاست کی گلیاروں میں جاری کرپشن اور اور سیاست سے جڑے افراد کی اخلاقی گراوٹ کو درج کرتا ہے۔ مصنف کی یہ بات بھی قبول کہ ان کا ناول سیاسی نظام کے خلاف پروٹسٹ ہے۔ اس کے باوجود سچ یہی ہے کہ نا ول کا موضوع گھسا پٹا ہے۔ البتہ شموئل احمد نے مزاح کی چاشنی سے اس ناول کے کئی حصوں کو قابل مطالعہ بنایا ہے۔ اس ناول کی دنیا بہت محدود ہے۔ ناول پروٹسٹ کا میڈیم ہو سکتا ہے لیکن آرٹ کے جوہر کم ہوں تو پروٹسٹ ادب کے اسٹیج پر کمزور نظر آتا ہے۔ اس ناول کے مقابلے میں عبد الصمد کا ناول ’دھمک‘ سیاست کے کرپشن کو زیادہ وسیع معاشرتی کینواس میں پیش کرتا ہے۔

صلاح الدین پرویز عمدہ شاعر ہیں لیکن اگر کوئی ان کی نثری نظموں کو ناول کہے تو ایک ادبی مسئلہ پیدا ہو گا۔ بالخصوص وہ ناول جو انھوں نے نئی صدی میں لکھے۔ صلاح الدین کی کتاب دی وار جرنلس (۲۰۰۳ء ) میں شائع ہوئی۔ یہ ناول مصنف نے ’مشرق کے نام‘ منسوب کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ مشرق کے مقدر میں موت لکھی ہے۔ اس صفحے کے بعد مصنف کی پڑھنے والوں سے گذارش ہے کہ پڑھنے والے مصنف کے ساتھ، ساری دنیا کے امن کے لیے دعا کریں۔ اور اس کے بعد اگر آپ چاہئیں تو مصنف کے ساتھ کھڑے ہو کر دنیا کے ان سب مرنے والے افراد کے لیے ایک پل کی خاموشی اختیار کریں۔ یہ سب ڈرامہ ہے اور سنسی خیزی پیدا کرنے کے حربے ہیں اور ناول کے متن کو متاثر کرتے ہیں۔ ایسی حرکت خالد جاوید نے دیباچہ لکھ کر کی ہے۔ ایسا لگتا ہے جب ناول نگار کو اپنے متن پر اعتماد نہیں رہتا ہے یا وہ پڑھنے والوں کو احمق سمجھتا ہے تب ایسے گھٹیا حربے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نامور نقاد گوپی چند نارنگ نے ناول کا مقدمہ لکھا ہے۔ گوپی چند نارنگ اردو فکشن کی تنقید کا اہم نام ہے اور فکشن پر ان کے بیشتر تر مضامین عمدہ ہیں۔ اس ناول کے بارے میں ان کی رائے ملاحظہ ہو :’دی وار جرنلس میں بیک وقت ورلڈ ٹریڈ ٹاور کی ہیبت ناک تباہی بھی ہے اور افغانستان کے مجبور اور لاچار بچوں کی صورت حال بھی، گجرات کی ہولناک تباہی بھی اور عراق کی شکست و ریخت بھی جو صدیوں سے اسطور اور گمشدہ تہذیبوں کا محور بنا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ تحریر زباں و مکاں کا بے حد جنوں خیز تصور پیش کرتی ہے۔ ‘ (صفحہ ۱۲) یہ سب کچھ اس کتاب میں ہے ضرور لیکن مسائل کا انبار اور مسائل پر اشک شوئی کسی تحریر کو تجربہ تو قرار دے سکتی ہے ناول نہیں۔ : میرا ناول سے عشق اور ناول کی سمجھ اس تجربے کو انتہائی خراب تجربہ قرار دیتی ہے۔ صلاح الدین پرویز کا دوسرا ناول ’ایک ہزار دو راتیں ‘ ہے جو (۲۰۰۶ء )میں شائع ہوا۔ اس ناول پر محمود ہاشمی کی رائے تھی کہ عشق، تصوف، تاریخ اور انسانی باطن کی بازیافت پر مشتمل یہ ناول ان تمام پڑھنے والوں کے لیے ایک خوبصورت مشکبار ہے، جو موجودہ دور میں معدوم ہوتی ہوئی تخلیقی روایت کو زندہ اور تابندہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ محمود ہاشمی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’ایک ہزار دو راتیں ‘ صلاح الدین پرویز کا تازہ ناول ہے۔ پرویز نے اب تک اردو فکشن کو جو ناول دیے ہیں ان سے اردو ناول میں ایک نشاۃ ثانیہ کا عہد شروع ہوا ہے۔ ‘ یہ بیان بچکانہ اور نقاد کے ذہنی دیوالیہ پن کا اظہار ہے۔ بلکہ یہ بیان اس بات کے طور پر تاریخ میں درج رہے گا کہ ہمارے یہاں نقاد سیٹھ لوگوں سے اپنا الو سیدھا کرنے کی خاطر کس حد تک گرتے رہے ہیں۔ اس طرح کے پچاس ہزار بیانات بھی صلاح الدین پرویز جمع کر لیتے تب بھی وہ اپنی خراب ادبی کاوشوں کو اردو معاشرے پر تھوپنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ خراب تحریروں کو قبول کرنے کا ایک مطلب اجتماعی ذہانت کی موت بھی ہے اور میرا ضمیر کہتا ہے کہ اردو معاشرہ زندہ ہے۔ ان حماقتوں کا ایک سبب یہ تھا کہ ہمارے نقاد ناول کے آرٹ سے نہ صرف کم واقف ہیں بلکہ ناول کے قاری بھی نہیں ہیں۔ ناول کی تھوڑی بہت سدھ بدھ رکھنے والا فوراً سمجھ لیتا ہے کہ یہ ناول نہیں ہے۔ تجربے کے نام پر غیر ناول کو ناول ثابت کرنا ایک رذیل عمل ہے لیکن چونکہ ہم ایک جمہوریت میں سانس لے رہے ہیں ہم چند لوگوں کی اس آزادی کو بھی قبول کرتے ہیں۔

پیغام آفاقی کا ناول ’پلیتہ‘ (۲۰۱۱ء) میں شائع ہوا۔ یہ ایک مختلف ناول ہے۔ حالانکہ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ بہت سارے لوگ آج کل ناول لکھنے کے لیے ریسرچ کرنے کا دعوا بھی کرنے لگے ہیں لیکن ریسرچ کرنا اور اچھا ناول لکھنا دو الگ باتیں ہیں۔ پیغام آفاقی کے مذکورہ ناول میں تاریخی مآخذ اور تاریخی سچائیوں کی ایک دنیا آباد ہو گئی ہے لیکن ریسرچ ناول کے صفحات میں اس طرح سماگئی ہے جیسے دھواں بادلوں میں سما جاتا ہے اور ہم فرق نہیں کر پاتے۔ اردو ناول کی مختصر سی تاریخ میں سیاسی شعور اور سیاست کی ہولناکی پر یہ اچھا ناول کہا جا سکتا ہے۔ ناول سامراجی عہد میں کالا پانی کی سزا کاٹنے والے افراد، انگریز سامراج کی سیاہ کاریاں اور اس پس منظر میں موجودہ سماجی اور سیاسی زندگی کی سنگلاخی اور سفاکی کا قصہ ہے۔ ’پلیتہ‘ کی کہانی خالد سہیل کی پراسرار موت کے رمز سے شروع ہوتی ہے۔ خالد سہیل کی موت کے بعد اس کے کمرے سے کچھ تحریریں ستیاب ہوتی ہیں جن سے یہ احساس ہوتا ہے کہ خالد کی موت کے ساتھ ان تحریروں اور اس کے خیالات کا کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور ہے۔ ناول نگار قاری کو اس دنیا کی سیر کرانے لے جاتا ہے جسے کالا پانی کہتے ہیں اور جہاں خالد نے زندگی کی ایسی تصویر دیکھی تھی جس کا اظہار، شفافیت کے بلند بانگ دعووں کے باوجود سامراجی تصورات کی بنائی ہوئی مہذب دنیا میں نہیں کیا جاتا۔ یہ بہ ظاہر مہذب کہی جانے والی دنیا در اصل ظلم، مفادات کے حصول کے لیے استحصال اور محکوم اقوام پر مظالم سے عبارت ہے۔ پیغام آفاقی کا بیانیہ اس ناول کی طاقت ہے جو انتہائی باریک بینی سے انگریز سامراج کی فلسفیانہ بنیادوں میں دبی ہوئی غیر انسانی اخلاقیات کا پردہ فاش کرتا ہے۔ یہ وہ بیانیہ بھی ہے جس کی تعمیر قرۃالعین حیدر کے بیانیہ کی وجہ سے اردو میں کچھ مشکل ہو گیا۔ یہ بیانیہ قاضی عبدالستار کے محاورہ دار اور زبان کی چاشنی والا بیانیہ نہیں ہے لیکن سفاک حقیقت نگاری کے لیے درکار سفاک بیانیہ ہے۔ حالانکہ اس بیانیہ اسلوب کے ساتھ ایک مصیبت یہ ہوتی ہے کہ عام طور پر یہ قرأت کے سفر کو صحرا کا سفر بنا دیتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے ’لے سانس بھی آہستہ‘ میں اور شائستہ فاخری نے ’نادیدہ بہاروں کے نشاں ‘ میں جس بیانیہ کو برتا ہے وہ نسبتاً زیادہ دلچسپ بیانیہ ہے۔ ناول کی دنیا کے طویل سفر میں اس سے اکتاہٹ نہیں ہوتی۔ ’ پلیتہ‘ میں خالد سہیل اپنے دادا امیر علی کی زندگی کے حالات کی دریافت کے لیے انڈومان جاتا ہے۔ وہ اپنے دادا کے خلاف ہونے والے مقدمے کو ایک تاریخی لڑائی میں تبدیل کرنے کا متمنی تھا۔ لیکن اسے اس بات کا قطعی گمان نہیں تھا کہ اس کوشش میں اس کے ہاتھ ایک ایسا مقدمہ آئے گا جس کے سرے پوری انسانی تاریخ میں سمائے ہوئے ہوں گے۔ یہ حقیقت اور اس کا انکشاف کروڑوں افراد کی زندگی کی سنگین داستانوں سے اسے روشناس کرے گا۔ جن کا مداوا فلسفیانہ افکار کی نئی تفسیر اور تعبیر میں تلاش کیا جانا چاہیے ایک ایسا فلسفہ جو آج کی زندگی کی سچائیوں میں آدمی کو تھام سکے، آدمی کو آدمی رہنے کی اجازت دے سکے۔ لیکن یہی احساس اس کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔ پیغام آفاقی لکھتے ہیں خالد ’’تو در اصل اس بڑے واقعہ میں اپنے ہی موجودہ معاشرے اور ملک کو دیکھ رہا تھا البتہ اس کو اس وقت اس کا بالکل شعور نہیں تھا۔ ‘ ‘ناول آگے چل کر سول سوسائٹی کی اساس اور آدمی کی بے وقعتی پر سوالات قائم کرتا ہے جن سے قاری خود کو نہ صرف مربوط کرتا ہے بلکہ یہ محسوس کرتا ہے کہ جس طرح کے ’سوکولڈجمہوری نظام‘ میں وہ جی رہا اس میں اس کی حیثیت ایک قیدی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس کے حقوق، اس کی شناخت، اس کی آزادی، سب محکومی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ایک نئے معاشرے کی اسے ضرورت ہے جس میں اقتدار کی سفاکی سے نجات حاصل ہو۔ اس ناول میں تاریخی کرداروں اور کالا پانی کی سزا کی تفاسیر سے مصنف نے استفادہ کرنے کے بجائے ایک فراموش کردہ، ’ سازش کے طور پر فراموش کردہ‘ حقیقت کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے جس کے توسط سے مصنف یہ بات بیان کرنا چاہتا ہے کہ جو حقیقت ہمارے عہد میں اسٹبلیش کی جاتی ہے ممکن ہے کہ وہ جھوٹ ہو اور یہ جھوٹ اقتدار کی لبوریڑی میں پالیسی کے تحت تیار کیا جاتا ہے۔ اگر کسی کو سچ کا عرفان ہو جائے تو اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو خالد سہیل کا ہوا ہے۔ ’پلیتہ‘ سنجیدہ سیاسی ناول ہے۔ البتہ واقعات نگاری، تکرار اور خشک بیانیہ اس ناول کو پڑھنے والے کو امتحان میں ڈالتے ہیں۔ سوال یہ ہے کوئی یہ امتحان کیوں دے ؟

خالد جاوید کا ناول ’موت کی کتاب‘ (۲۰۱۱ء) میں شائع ہوا۔ خالد جاوید نے اس ناول کی اشاعت سے قبل شمس الرحمن فاروقی سے ناول کا املا اور زبان و بیان کی اغلاط درست کروائی ہیں بلکہ ناول کی ’’ نوک پلک‘‘ درست کرنے میں بھی نقاد صاحب کا تعاون حاصل کیا ہے۔ خالد جاوید نے ’عرض مصنف‘ کے تحت اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’میں نے بارہا ایمانداری کے ساتھ یہ سوچا ہے کہ مجھے لکھنا بند کر دینا چاہیے مگر میری بد مذ اقیوں کے یہ سلسلے ختم ہی نہیں ہو پاتے۔ ‘ اچھا ہوتا خالد جاوید کو اپنی بد مذاقیوں پر قابو ہوتا اور وہ اپنے دل کی بات سن لیتے۔ ناول نگار کہلانے کے لیے کتنی غیر فنی مشقت کی ہے۔ املا اور زبان کی غلطیاں شمس الرحمن فاروقی سے درست کروائیں اور نقاد موصوف سے ناول کی نوک پلک ٹھیک کرنے میں تعاون حاصل کیا، پھر اس ادبی جد و جہد کا اعلان بھی کیا۔ سوچا سرکار خوش ہو جائیں گے۔ یہ تخلیقی فنکار کو زیب نہیں دیتا اور اگر کسی ادیب کو یہ گمان ہو کہ نقاد نے ناول کی نوک پلک درست کی ہے اس اعلان سے اردو ناول کے قارئین پر رعب قائم کر سکتا ہے تو وہ بے وقوف ہے۔ ان حرکات کا رعب صرف ایسے نقادوں کے دیگر چمچوں پر تو پڑ سکتا ہے اردو کے عام قارئین پر ہر گز نہیں۔ اس ناول کو پروموٹ کرنے کی شمس الرحمن فاروقی اینڈ کمپنی نے بہت کوشش کی لیکن اردو کے قارئین اور سنیئر قلم کاروں نے فاروقی اینڈ کمپنی کی اس سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔ فاروقی نے افسانے کو معمہ اور گنجلک بنانے کی جو کوشش کی تھی اس کے اثرات اب نمایاں ہو گئے ہیں اور اردو معاشرہ اس پراگندگی کو رد کر چکا ہے۔ فاروقی نے جدیدیت کے نام پر اردو معاشرے کو پریم چند، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو اور قرۃ العین حیدر کی روایت سے کاٹنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اب یہ کھیل وہ ناول کے ساتھ کھیلنا چاہتے تھے لیکن اردو ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں نے فاروقی کے خلاف کھل کر اپنی آواز بلند کی ہے۔ خورشید اکبر نے لکھا ہے کہ ’ مقدمے کے توسط سے خالد جاوید نے ’موت کی کتاب‘ کے ’ غیر معمولی ‘ ہونے کا پورا نفسیاتی بندوبست کر ر کھا ہے لیکن ادب کا سنجیدہ قاری اس طرح کی اضافیات ور لغویات میں کب الجھنے والا ہے۔ ‘ (آمد شمارہ۔ ۱)۔ خورشید اکبر نے ’موت کی کتاب‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں ’ ان کی اس بات سے متفق ہوں کہ ایسی ایذا رساں تحریر قلم بند کرنے اور اسے کتابی صورت میں چھپوا کر منظر عام پر لانے کی کیا ضرورت تھی، جتنے مشورے قاری کو دیے جا رہے ہیں کاش مصنف نے خود ہی ان پر عمل کر لیا ہوتا۔ ‘در اصل خالد جاوید کے پاس بھی شمس الرحمن فاروقی کی طرح اپنے عہد سے آنکھ ملانے کی قوت نہیں ہے۔ یہ لوگ مردہ نظریات، ہئیت پرستی اور ذہنی طور پر بیمار لوگوں کی تکالیف کو رقت آمیز انداز میں بیان کرنے کو ادب سمجھتے ہیں۔ فاروقی تو خیر ذہین بھی ہیں اور چالاک بھی، وہ نئے لکھنے والوں کو ہئیت پرستی کی تعلیم ضرور دیتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ فکشن کی اب تک جتنی کوشش انہوں نے کی ہے اس میں وہ خود فکشن کے بنیادی اصولوں اور حقیقت پسند افسانے کے عناصر پر عمل پیرا ہیں۔ فاروقی کی کمزوری دوسری ہے۔ وہ عہد حاضر سے فرار میں عافیت سمجھتے ہیں۔ ان کے افسانے اور ناول دنوں معاصر زندگی کی سچائیوں سے خالی ہیں۔ چوں کہ ساری زندگی املا اور کلاسیکل شعرا کی قرأت میں صرف ہوئی، اس لیے دیمک زدہ لغت ان کو از بر ہے۔ قاری کو لگتا ہے کمال کر دیا مو صوف نے۔ ۔ حالانکہ یہ فکشن کے آرٹ کے ساتھ فراڈ سے کم نہیں۔ چوں کہ ہمارے یہاں ایک بڑا طبقہ آج بھی فکشن کے آرٹ کو شاعری کی جمالیات کے آئنے میں دیکھنے کا عادی ہے اس لیے ایسی تحریروں کی پذیرائی کرنے والے بھی فوراً میدان میں اتر آتے ہیں۔ موت کی کتاب ایک ایسے فرد کی کہانی ہے بیان کرتی ہے جس کی زندگی مادر رحم سے شروع ہوتی ہے اور جب وہ ماں کے رحم میں ہے اس وقت اس کا باپ اس کی ماں کے ساتھ مباشرت کرتا ہے جس کے سبب اس کے سر میں چوٹ آتی ہے۔ پیدائش کے بعد ماں باپ کے جھگڑوں سے اس کے ذہن پر منفی اثرات پڑھتے ہیں۔ باپ کے سخت گیر رویے سے اس کے اندر نفرت اور منفیت پنپنے لگتی ہے۔ جوانی میں اپنی بیوی کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے اور ذات کا کرب اسے رفتہ رفتہ نفسیاتی مریض میں بدل دیتا ہے اور وہ ایک پاگل خانے میں پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح کی ڈرامائیت، مبالغہ آرائی اور مریضانہ افراد کی بے شمار کہانیاں شب خون کی زینت بنتی رہی ہیں۔ اب بیماری، ذہنی انتشار اور مریضانہ نفسیات جیسے ہمدردی بٹورنے والے ہتھیار ایسے کار گر ر نہیں رہے۔ اگر کوئی مصنف غیر ضروری طور پر آدمی کو اس کے سماج، کلچر، تہذیب، ملک، زبان، روایات، مسائل، اور آگہی سے خارج کر کے کہانی سنانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ امر ایسا چونکانے والا نہیں کہ یہ کھیل بہت پرانا ہو گیا اور بہت سارے قلم کار اس طرح کا سرکس بتا کر اردو جدیدیت کی دلدل میں قبل از وقت ہی معدوم ہو چکے ہیں۔ کمزور مصنف کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ قاری کے لیے نہیں بلکہ اپنے آقا نقاد کی خوشنودی کے لیے لکھتا ہے۔ صرف ان کی آرا ء کو کتاب کی کامیابی سے مشروط کرتا ہے۔ خالد جاوید نے ناول نگار کہلانے کے لیے اسی زنگ آلود تلوار کو استعمال کرنے کی کوشش کی جس پر فاروقی اور شمیم حنفی زیتون کا تیل لگا کر چمکانے کی کوشش کرتے رہے۔ ایسے حربے ادب کی مجموعی صورت حال کے لیے مضر ہوتے ہیں اور ان کی مذمت کرنا ادب کو اقتدار پرستی اور امارت پرستی سے بچانے کی کوشش بھی ہے۔

غضنفر نے کئی ناول لکھے ہیں مثلاً پانی، کینچلی، دویہ بانی، وش منتھن، مم وغیرہ۔ اس کے باوجود ناول سے جڑا اردو معاشرہ ان کے ناولوں سے مکمل طور پر مطمئن نظر نہیں آتا۔ مجھے ان کے کچھ ناول تو افسانے کو طول دینے کی کوشش نظر آتے ہیں۔ افسانے کو کھینچ تان کر ناول بنانے کی کوشش کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ ناول زندگی کا عرفان، زندگی کی وسعت، افکار کی کثرت اور ندرت کا متقاضی ہوتا ہے۔ ناول محض کہانی نہیں ہے۔ ناول محض کردار نگاری نہیں ہے۔ ناول میں بیک وقت کئی چھوٹی چھوٹی ندیاں بہتی ہیں۔ ہر کسی کو ہر کنارہ نہیں ملتا لیکن کوئی پیاسا بھی نہیں رہتا۔ غضنفر کے ناول قاری کو سیراب نہیں کرتے۔ اس صدی کی ابتداء میں غضنفر کا ناول ’فسوں ‘ (۲۰۰۳ء) میں شائع ہوا۔ یہ ناول کوئی تاثر قائم نہیں کرتا البتہ ان کا تازہ ناول’ مانجھی‘ (۲۰۱۱ء) نسبتاً بہتر ناول ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار وی۔ این۔ رائے ایک متجسس، سنجیدہ اور آزاد خیال آدمی ہے جو الہ آباد میں سنگم کی سیر کرتا ہے۔ وہ اس سیر کے لئے ایک ایسے ملاح کا انتخاب کرتا ہے جسے اپنے مشاہدے اور فہم پر اعتماد ہے۔ نورالحسنین کا خیال ہے کہ دریا کا یہ سفر ایک استعارہ ہے۔ استعارہ ہو نہ ہو اس ناول کا یہ ایک اچھا پہلو ضرور ہے۔ اسی سفر کے دوران سمجھ دار ملاح وی این رائے کو کہانی سناتا ہے جو در اصل ذیلی قصے کے طور پر ناول کو آگے کھینچتی ہے۔ یہ کہانی صدیوں سے عورت کے استحصال کو بیان کرتی ہے، مرد کی حاکمیت کو پیش کرتی ہے۔ صارفیت زدہ معاشرے تک پھیل جاتی ہے۔ ناول نگار ایک جگہ لکھتا ہے :’ ’ اشتہاروں میں عورت کے جسم کو ہی کیوں دکھایا جاتا ہے۔ کہیں کسی اشتہار میں عورت کا دماغ کیوں نہیں نظر آتا۔ ؟‘ عورت کا دماغ بتانے کی کوشش ترنم ریاض نے ’برف آشنا پرندے ‘ میں کی ہے اور وہ کوشش ایک اشتہار بن جاتا ہے۔ عورت کے استحصال کو سادقہ نواب سحر نے پیش کرنا چاہا لیکن وہ استحصال عورت کو پیش نہیں کر سکا۔ شائستہ فاخری نے عورت کو پیش کیا اور بہت خوب کیا ہے لیکن اس عورت کے اطراف ڈرامہ بہت بنا گیا ہے۔ مجھے ان ناولوں میں مادام بواری جیسی عورت نہیں ملتی جو انسانی معاشرے میں عورت کی ذہنی، جسمانی اور روحانی کیفیت کی تعبیر کا سبب بنے۔ مجھے ان ناولوں میں رانو نظر نہیں آتی جس کے توسط سے بیدی نے زندگی کی ایک منفرد تعبیر تلاش کی تھی۔

شمس الرحمن فاروقی کی کتاب’ کئی چاند تھے سر آسماں ‘ (۲۰۰۶) کو سلام بن رزاق نے ایک انٹرویو میں ایک نیم تاریخی ناول کہا ہے۔ سلام بن رزاق کا بیان ہے : ’ یہ ناول بے جا تاریخی حوالوں اور اکتا دینے والی تفاصیل کے سبب بوجھل ہو گیا ہے۔ ناول کا بیانیہ جس لطافت کا متقاضی ہوتا ہے وہ اس ناول میں مفقود ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کا ناول ماضی پرستی کی ایک خراب مثال ہے۔ اس ناول کو پڑھتے ہوئے قاری ماضی کے دھندلکے میں کھو جاتا ہے جبکہ انتظار حسین جب بھی ماضی میں غوطہ زن ہوتے ہیں عبرت اور بصریت کے گوہر نایاب تلاش کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ‘ سلام بن رزاق کا بیان غلط نہیں لگتا۔ وجہ صاف ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے اس نیم تاریخی نیم رومانی ناول کو لکھنے کے لیے چالیس کتابوں سے استفادہ کیا ہے اور ’اظہار تشکر‘ کے عنوان سے ایک وضاحت کتاب میں تحریر کر کے اقرار کیا ہے کہ ’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘ کے مصنف کی گردن کرم فرماؤں، دوستوں، عزیزوں اور دوسری کتابوں کے مصنفین کے باراحسان سے خم رہتی ہے۔ یہ احساس خالص ادبی اور تخلیقی تجربے کی کمی کا اقرار ہے۔ فاروقی مزید لکھتے ہیں :وہ کتابیں جن کے خزینۂ علم و معلومات سے مصنف نے استفادہ کیا ہے، ان میں سے صرف کچھ ہی کا تذکرہ ہو سکتا، کہ استفادے کا عمل ایک مدت مدید کو محیط ہے اور بہتوں کے بارے میں مجھے یاد کیا، احساس بھی نہیں ہے کہ میں نے ان سے کچھ حاصل کیا ہے۔ فاروقی قاری کو ایک نصیحت بھی کرتے ہیں کہ یہ تاریخی ناول نہیں ہے۔ اسے اٹھارویں۔ انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب اور انسانی اور تہذیبی و ادبی سروکاروں کا مرقع سمجھ کر پڑھا جائے تو بہتر ہو گا۔ تاریخی ناول اردو میں بھی لکھے گئے ہیں اور انگریزی میں تاریخی ناول کی روایت بہت پرانی ہے۔ ہندستان میں ولیم ڈیلر مپل (William Dalrymple ) کے ناول خاصے مشہور ہیں جن میں دی سٹی آف جن The City of Djinns (1994)، وائٹ مغل White Mughals (2002)، دی لاسٹ مغل، دی فال آف آڈائنسٹی، دہلی ۱۸۵۷ The last Mughal, The Fall of a Dynasty, Delhi 1857 (2006)، اور رٹرن آف ا کنگ:د بیٹل فار افغانستان Return of a King-The Battle for Afghanistan (2012)عوام و خواص میں مشہور ہیں لیکن ان ناولوں کو ادبی ناولوں کے مد مقابل نہیں لایا جاتا۔ تاریخی مآخذ سے معلومات لے کر ناول لکھنا محنت و مشقت کا کام ہے اور اچھا کام ہے۔ اردو میں بھی تاریخی ناولوں کی اپنی ایک روایت ہے اور اس روایت کے آئینے میں فاروقی کی یہ کتاب اس روایت کو آگے بڑھانے سے عبارت ہے۔ افسوس یہ ہے کہ فوراً اس ناول کو عظمت کا تاج پہنانے کی کوشش کی گئی جو سراسر حماقت تھی۔ تاریخی ناولوں کو تاریخی ناولوں کے احاطے میں دیکھا اور پرکھا جانا بہتر ہے۔ دوسری طرف فاروقی نے ’کئی چاند تھے سرِآسماں ‘ کو تحریر کرنے کے لیے ولیم ڈیلرمپل کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس بات کا انکشاف بھی کیا ہے کہ ولیم ڈیلرمپل نے دہلی اور لاہور کے دفتر خانوں میں نواب شمس الدین احمد کے مقدمے، ٹامس مٹکاف کے مرض الموت، میرزا فتح الملک بہادر کی موت کے بعد میرزا جوان بخت کی ولی عہدی کے لیے بہادر شاہ کی کوششوں کے بارے میں دوران گفتگو مطلع کیا اور ٹامس بیکن کی نایاب کتاب First Impression کے ان صفحات کی نقل عطا کی جن پر نواب شمس الدین احمد کو پھانسی لگائے جانے کی تفصیلات ہیں۔ چنانچہ اگر لوگوں کو تاریخی ناول ہی پڑھنے ہیں تو ولیم ڈیلرمپل کے ناول فاروقی کی اس کتاب کے مقابلے میں زیادہ بہتر اوپشن ہیں۔ خود فاروقی ولیم ڈیلرمپل کے مطالعے اور خزانے کی معترف ہیں۔ ’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘ میں ایک کردار یہ اعتراف کرتا ہے کہ اگر میں زمانۂ قدیم میں ہوتا تو مجھے نساب کہا جاتا، اس معنی میں کہ مجھے خاندانوں کے حالات معلوم کرنے، ان کے شجرے بنانے اور دور دور کے گھرانوں کی کڑیوں سے کڑیاں ملانے کا بے حد شوق ہے ‘۔ (صفحہ ۲۲) یہ بات اس کتاب پر بھی صاد ہے کہ اس میں فاروقی نے وزیر خانم کے خاندان کی کڑیاں ملانے کی کوشش کی ہے اور تاریخی مآخذ  راارے ’  سے کڑیاں تلاش کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ اس ناول میں وزیر خانم کا کردار عمدہ ہے لیکن وزیر خانم کے کردار سے لطف اندوز ہونے کے لیے بہت ورق گردانی کرنا پڑتی ہے اور یہ کام اکتاہٹ پیدا کرتا ہے جس کی طرف سلام بن رزاق نے اپنے انٹرویو میں اشارہ کیا ہے۔ چونکہ فاروقی ایک بڑا انسٹیٹوشن ہیں اس لیے اس کتاب کو خوب پروموٹ کیا گیا۔ اس ناول کی حیثیت ایک تاریخی یا نیم تاریخی ناول کی ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ فاروقی کلاسیک کے ماہر ہیں اور زبان و بیان پر ان کو عبور حاصل ہے اور یقیناً انھوں نے درست زبان تحریر فرمائی ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا صرف درست زبان فکشن کی دلچسپی کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ درست املا تو رشید حسن خاں اور مولوی عبدالحق بھی لکھتے رہے لیکن متاثر کن اور دلچسپ نثر لکھنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس کتاب کے ساتھ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ بیشتر مقامات پر یہ غیر دلچسپ ہے اور  اکتاہٹ پیدا ہوتی ہے۔ فاروقی کے افسانے بھی تاریخ کے پس منظر میں ہیں اور یہ ناول بھی اسی کا ایک طویل نمونہ ہے جبکہ ادب کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اسلوب اور موضوع کی یکسانیت لطف کم کر دیتی ہے۔

ان ناولوں کے علاوہ بھی چند ناول ہوں گے جو میری نگاہوں سے نہیں گزرے ہوں اور کچھ ناول ایسے بھی ہیں جن پر میں کسی اور مضمون میں تفصیل سے لکھوں۔ گوپی چند نارنگ نے فکشن پر بحث کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے :’ ہر زندہ معاشرے میں زبان و ادب کا قافلہ ہمیشہ آگے بڑھتا رہتا ہے اور ادب میں ہر لحظہ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں روایت کی توسیع بھی ہوتی ہیں اور اس سے انحراف بھی، لیکن ادبی تاریخ کے دلچسپ مقامات وہ ہوتے ہیں جہاں کسی غیر معمولی رجحان کے تحت یا کسی دیو قامت ادبی شخصیت کی وجہ سے جست لگانے کی کیفیت پیدا ہو جائے یا پھر روایت سے انحراف بغاوت کی شکل اختیار کر لے، اور انقطاع اور اجتہاد کا نیا منظر نامہ سامنے آ جائے۔ ‘ (فکشن شعریات: تشکیل و تنقید، صفحہ ۲۶۷)یقیناً اردو ایک زندہ زبان ہے اور اردو فکشن مختلف تبدیلیوں، نظریات کی آزمائشوں اور اسلوبیات کے مباحث کے سائے تلے روز بروز آگے بڑھ رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں اردو ناول کا سفر تیز گام ہے لیکن اس سفر میں انقطاع اور اجتہاد کی ابھی بہت گنجائش ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے