کہتے ہیں مصیبت کبھی اکیلے نہیں آتی۔ بیچارے اللہ بخش پر بھی تین چار مصیبتیں اکٹھے آن پڑی تھیں۔ عید کے روز سب سے بڑا بیٹا موٹر سائیکل پرساتھ والے گاؤں خالہ کے گھر سوّیاں دینے جا رہا تھا۔ جیسے ہی وہ مین روڈ پر چڑھا سامنے سے آنے والے ایک بڑے ٹرالے سے ٹکر کھا کر شدید زخمی ہو گیا۔ ابھی وہ ایک بڑے شہر کے ایک ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا کہ اس کی بیوی نے دو گھنٹے سے گئی بجلی آنے پر پیڈسٹل فین چلا کر جونہی اس کا رخ ٹھیک کرنے کے لیے اسے ہاتھ لگایا، پنکھے کی باڈی میں دوڑتی برقی رو نے اسے پکڑ لیا اور وہ بے چاری موقعے پر ہی اللہ کو پیاری ہو گئی۔ اللہ بخش کو بیوی کے مرنے کی اطلاع ہسپتال میں ملی جہاں وہ بیٹے کے ہوش میں آنے کے لیے دعائیں مانگ رہا تھا۔ بیوی کے مرنے کی خبر سن کر اللہ بخش بے ہوش ہو کر گر پڑا تھا۔ لوگ اس کے ہاتھ پاؤں مسل کے اور چہرے پر پانی کے چھینٹے ڈال کر اسے ہوش میں تو لے آئے تھے لیکن صدمے کی وجہ سے کھوئے ہوئے حواس واپس لانا اس وقت شاید کسی کے بھی بس میں نہ تھا۔ گھر پہنچنے کے بعد جب وہ اپنے حواس میں آیا تو بچوں کی طرح دھاڑیں مارکر رونے لگا اور دیوار سے سر ٹکرا کر خود کو زخمی کر لیا۔ پھر جب وہ بیوی کی لاش سے لپٹ کر رو رہا تھا تو اس کے سر سے بہتے خون کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ وہ اس کی بیوی کے چہرے کو اس انداز سے رنگین کر گیا کہ اس کی مری ہوئی بیوی کے چہرے کو دیکھ کر دلہن کا گمان ہوتا تھا۔ لیکن ظالم آسمان نے تیز بارش بھیج کر خون سے کیا ہوا سارا مکت اپ اتار دیا تھا۔ بارش بھی اللہ بخش پر آئی ہوئی مصیبتوں کی طرح ایک دم تیز ہو گئی تھی اتنی تیز کہ میت کو باہر صحن سے اندر کمرے میں رکھنا پڑا تھا۔ کچے گھروں کی چھتیں بھلا کہاں موسلہ دار بارشوں کی تاب لا سکتی ہیں۔ کچھ دیر میں کمرے کی چھت نے بھی ٹپکنا شروع کر دیا تھا۔ پھر اچانک ایک دم بارش تھم گئی۔ لواحقین نے اس موقعے کو غنیمت جانا اور میت کو دفنانے کے لیے فوراًقبرستان کا رُخ کیا۔
بیوی کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارنے کے بعد ابھی وہ گھر نہیں پہنچا تھا کہ اطلاع ملی کہ اس کا بیٹا بھی زندگی کی بازی ہار گیا ہے۔ اس اطلاع پر اللہ بخش رویا اور نہ دیوار پر ٹکریں مار کو خود کو مزید زخمی کیا حالانکہ یہ سانحہ شدت کے لحاظ سے پہلے سانحے سے کسی طور بھی کم نہیں تھا۔ شاید اس کی آنکھوں میں مزید آنسو نہیں بچے تھے یا مزید آہ و فغاں کا اس میں حوصلہ نہیں رہا تھا، جو بھی تھا، اسے ایک چپ سی لگ گئی تھی۔ پھر اس چپ کو کئی دن بیت گئے۔
بڑے بیٹے اور بیوی کی موت کے بعد اب گھر میں اس سمیت کل پانچ افراد بچ گئے تھے۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی۔ بیٹے سکول کی بجائے اسلامی مدرسے میں پڑھ رہے تھے اور اکلوتی بیٹی پانچ جماعتیں پڑھ کر گھر کے کام کاج اور سلائی کڑھائی میں لگ گئی تھی۔ پرائمری سکول کے چپڑاسی کے لیے اتنا بھی بہت تھا کہ سر چھپانے کے لیے ایک آبائی گھر تھا اور بیٹے سرکاری یا پرائیویٹ سکول میں نہ سہی اسلامی مدرسے میں پڑھ تو رہے تھے۔ بیٹوں اور بیٹی نے بہت کوشش کی کہ ابا ان سے بولے انہیں حوصلہ دے لیکن ابا انتہائی ضروری جملوں کے علاوہ کچھ بولتا ہی نہیں تھا۔ بس خلاؤں میں گھورتا رہتا تھا۔ ابے کی چپ اس وقت ٹوٹی جب مسلسل بارشوں سے اس کا کچا مکان جو ایک کمرے ایک چھپر اور ایک چھوٹے سے باورچی خانے پر مشتمل تھا، گر گیا تھا۔ یہ تو شکر ہوا کہ دن کا وقت تھا اور کوئی کمروں میں نہیں تھا۔ بیٹے مدرسے پڑھنے گئے ہوئے تھے، وہ خود سکول اور بیٹی نانی کے گھر تھی۔ ابھی بیٹے اور بیوی کا چالیسواں بھی نہیں ہوا تھا کہ مکان گرنے کی صورت میں تیسری ناگہانی آفت اس پر آن پڑی تھی۔ مکان تو گر گیا لیکن اللہ بخش کا چپ کا روزہ ٹوٹ گیا۔ وہ اپنے گرے ہوئے مکان کی دوبارہ تعمیر کے لیے پہلے اپنے قریبی عزیزوں کے پاس گیا۔ ان سے اس مشکل وقت میں مدد کے لیے کہا لیکن سب نے اس سے بھرپور ہمدردی تو ضرور کی لیکن ایک دو کے سوا کسی نے امداد کی ہامی نہ بھری اور جنہوں نے امداد کی ہامی بھری انہوں نے بھی وقت آنے پر اپنے مسائل کے ایسے ایسے دفتر کھول دیے کہ اللہ بخش کو الٹا ان سے ہمدردی جتانا پڑی۔ اس سے برا حال اس کے دوستوں اور جاننے والوں کا تھا۔ کئی ایک نے تو ہمدردی کرنے یا دلاسا دینے کی بجائے اتنے تک کہہ دیا کہ یہ سب کچھ تمہارے اعمال کی شامت ہے، اللہ میاں سے توبہ کرو اور اسی سے مدد مانگو۔ اُس کے ایک د و رشتے دار اور دوست ایک بڑے شہر میں بھی رہتے تھے۔ وہ ان کے پاس بھی گیا۔ تین تین منزلہ اندر باہر ٹائلوں اور ماربل سے سجے مکانوں میں رہنے والے اس سے بھی زیادہ غریب نکلے۔ سب نے اپنی ’’غربت‘‘ کی ایسی ایسی دردناک داستانیں سنائی کہ ایک دفعہ تو اللہ بخش اپنا غم بھول گیا اور ان کی پریشانی میں اس کی آنکھیں بھیگ گئیں !!
وہ اگست کی ایک حبس زدہ رات تھی۔ اسے سسر کے مکان میں رہتے ہوئے تین ہفتے ہو گئے تھے۔ یہ تین ہفتے اللہ بخش کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھے۔ کسی سے ادھار تک نہ لینے والا آج نہ صرف کسی اور کے مکان میں خواہ وہ سسر کا ہی کیوں نہ ہو، رہ رہا تھا اور ہر کسی سے مکان دوبارہ بنانے کے لیے قرض اور امداد مانگ رہا تھا لیکن کہیں بھی امید کی کرن نظر نہیں آ رہی تھی۔ وہ اپنے بچوں کے ہمراہ صحن میں چارپائی پر لیٹا کروٹیں بدل رہا تھا۔ تقریباً سب لوگ سو گئے تھے۔ کبھی کبھی فضا میں اس کی ساس اور سسر، جو دونوں دمے کے پرانے مریض تھے اور اس بڑھاپے میں بھی محنت مزدوری کر کے اپنے گھر کا چولہا گرم رکھے ہوئے تھے، کے کھانسنے اور گلی میں آوارہ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں گونجتی تھیں جس سے کچھ دیر کے لیے مینڈکوں اور جھینگروں کی مسلسل آتی آوازیں دب جاتی تھیں۔ کافی دیر سے اسے نیند نہیں آ رہی تھی اوراُس کے ذہن میں عجیب و غریب سے خیال آ رہے تھے۔ اس نے اپنے آپ کو اتنا بے بس اپنی پوری زندگی میں نہیں پایا تھا۔ کبھی خیال آتا وہ اپنا ایک گردہ بیچ دے، اتنے پیسے تو مل ہی جائیں گے کہ اس کا مکان دوبارہ بن جائے گا۔ کبھی خیال آتا تین بیٹوں میں سے ایک بیٹے کو اسلامی مدرسے میں آئی ہوئی ایک خفیہ جماعت کو جہاد کے لیے دے دے جس کا معاوضہ پانچ لاکھ فی بچہ مل رہا تھا، کبھی خیال آتا شہر جا کر کسی اخبار یا ٹی وی چینل کے دفتر کے سامنے خود سوزی کی کوشش کر لے۔ ہر خیال جتنی دیر اس کے ذہن میں رہتا، اسے وقتی سکون ضرور دیتا لیکن جب وہ اسے ناقابلِ عمل قرار دے کے جھٹک دیتا، تو پریشانی اور بڑھ جاتی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ اسی کشمکش میں نجانے کب وہ نیند کی پر سکون وادی میں چلا گیا۔ ابھی اسے پھولوں کی وادی میں پہنچے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ موسلا دھار بارش اسے واپس کانٹوں کے دیس لے آئی۔ چھوٹے چھوٹے دو کمروں میں سات افراد بمشکل ہی پورے آ سکے تھے۔ بجلی حسب معمول نہیں تھی لیکن اس کی ضرورت بھی خاص محسوس نہیں ہو رہی تھی کہ بارش نے گرمی کا زور توڑ دیا تھا اور کمرے کے اندر بھی بغیر پنکھے کے سویا جا سکتا تھا۔ باہر بہت تیز بارش ہو رہی تھی۔ کچھ دیر اسی طرح ذہنی کشمکش میں رہنے کے بعد وہ پھر نیند کی پر سکون وادی میں چلا گیا۔ ساری رات وقفے وقفے سے بارش ہوتی رہی۔ گاؤں والوں کے لیے صبح ایک بری خبر منتظر تھی۔ لیکن اس دفعہ وہ خبر اللہ بخش کے متعلق نہیں تھی۔ گاؤں کی مسجد جس کے تینوں اطراف کافی دنوں سے بارش کا پانی جمع تھا، رات کی طوفانی بارش کی تاب نہ لاتے ہوئے چار دیواری اور حجرے سمیت گر گئی تھی۔ مزید المناک خبر یہ تھی کہ حجرے میں امام مسجد بھی سو رہا تھا جو حجرے کی چھت گرنے سے موقع پر جاں بحق ہو گیا تھا۔ گاؤں کے لوگوں نے مل جل کر پہلے گری ہوئی چھت کا ملبہ ہٹایا اور امام مسجد کی لاش نکالی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ پورے گاؤں میں نماز جنازہ پڑھانے والا کوئی نہیں تھا۔ میّت کی حالت فوری دفن کا تقاضا کر رہی تھی اور ساتھ والا گاؤں بارش کی وجہ سے پہلے کی نسبت زیادہ دور ہو گیا تھا۔ گاؤں کے لوگ میّت کے گرد کھڑے اس مسئلے کا اپنے تئیں حل سوچ رہے تھے۔ اچانک ایک آدمی نے کہا اللہ بخش کا بیٹا جو اسلامی مدرسے میں پڑھ رہا ہے، اس سے نمازِ جنازہ پڑھوا لی جائے۔ کسی نے کہا ابھی وہ بچہ ہے، لیکن جب اس کے باپ سے اس کی بالغ عمری کی تصدیق ہو گئی تو نمازِ جنازہ کے لیے صفیں کھڑی ہو گئی اور اللہ بخش کا بیٹا احمد بخش نماز جنازہ پڑھانے لگ گیا۔ ابھی دوسری تکبیر پڑھی گئی تھی اچانک ایک خیال اللہ بخش کے ذہن میں سیکنڈ کے لاکھویں حصے میں گونجا اور اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی، ایک مسرت کا احساس اس کے جسم میں داخل ہو گیا تھا۔ سر جو پہلے دائیں کندھے اور سینے کی طرف جھکا ہوا تھا سیدھا ہو گیا۔ لیکن فی الحال اس نے خیال کو ایک طرف رکھا اور نماز کی طرف توجہ دی۔ نماز جنازہ ختم ہوئی، سب لوگ بیٹھ گئے اور امام نے میّت کی مغفرت کی دعا منگوائی۔ دعا ختم ہوئی تو اچانک اللہ بخش کھڑا ہو گیا۔ لوگ سمجھے اللہ بخش نے اچھا موقع تاڑا ہے۔ پھر سب کو مکان کی تعمیر کے لیے اس کی درد بھری داستان اور امداد کی اپیل سننی پڑے گی لیکن اس کی تقریر کا موضوع ہی مختلف تھا!!
’’ جیسا کہ آپ لوگوں کے علم میں ہے کہ اللہ کا گھر گر گیا ہے، اب اسے ہم نے تعمیر کرنا ہے۔ مَیں اور میرے بیٹے اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کا گھر دوبارہ تعمیر نہیں ہو جاتا۔ اس دوران ہم عارضی انتظام کریں گے اور پانچ وقت نماز با جماعت ادا کی جائے گی جس کی امامت میرا اور آپ کا بیٹا احمد بخش کرائے گا‘‘اس نے یہ سب کچھ ایسے دل پذیر پیرائے میں بیان کیا تھا کہ بڑی بڑی پگڑیوں میں جکڑے سرتائید میں ہلنے لگے تھے اور تقریباً سب نے جذبۂ ایمانی سے مغلوب ہو کر اپنی جیبوں میں موجود ساری رقم یا اس کا بڑا حصہ اللہ بخش کے ہاتھوں پر رکھ دیا تھا۔ حالانکہ اللہ بخش اپنے مکان کی تعمیر کے لیے اس سے بھی زیادہ دل پذیر پیرائے میں تقریر کرتا تھا لیکن اس کا کسی پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا تھا!
امام مسجد کی میّت کی تدفین کے بعد باپ بیٹے مسجد کی بحالی میں لگ گئے۔ سب سے پہلے مسجد میں بجلی بحال کر کے چار لاؤڈ سپیکر جو مسجد گرنے سے اینٹوں میں دب گئے تھے، ان میں سے دو ٹھیک کر کے ایک لکڑی کے ڈنڈے پر باندھ دیے گئے۔ گرے ہوئے کمرے کا ملبہ ہٹا کر یوپی ایس کی بیٹری، مائک اور اس کا اسٹینڈ جو خوش قسمتی سے ایک الماری میں رکھے تھے اور الماری گرنے سے بچ گئی تھی، نکال لیے گئے تھے۔ اس کارِ خیر میں گاؤں کے لوگوں نے بھی بھر پور حصہ لیا اور ظہر کی نماز دو لاؤڈ سپیکروں سے دی گئی اذان سے مسجد کے صحن میں جہاں سے ملبہ ہٹا کر مکمل صاف کر دیا گیا تھا، احمد بخش کی امامت میں ادا کی گئی۔ ظہر کی نماز کے بعد احمد بخش نے تمام نمازیوں سے مسجد کی تعمیر کے لیے امداد کی اپیل کی۔ اور اب وہ یہ اپیل ہر نماز کے بعد کرنے لگاجس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ اور دو دنوں میں اتنی رقم جمع ہو گئی کہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کا کام شروع کرایا جا سکتا تھا۔ اللہ بخش نے مسجد کی تعمیر کے لیے ایک ماہ چھٹی کی درخواست دے دی جو ہیڈ ماسٹر نے فوراً منظور کر لی اور ساتھ ہی اس کارِ خیر میں مالی امداد کے ساتھ سکول کے کچھ بچوں کی ڈیوٹی بھی لگا دی کہ وہ مسجد کی تعمیر پر لگے مستریوں اور مزدوروں کو ٹھنڈے پانی کی کبھی کمی نہیں ہونے دیں گے۔ گاؤں کے تیس گھروں نے باری باری انہیں روٹی دینے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اللہ بخش نے چندے کی رقم سے چار نئے لاؤڈ سپیکر لے لیے۔ دو مسجد میں ٹوٹے ہوئے لاؤڈ سپیکروں کی جگہ لگا دیے اور دو گاؤں کے قریب سے گزرتی ہوئی شہر کو جاتی بڑی سڑک کے کنارے لکڑی کے ڈنڈوں پر لگا دیے اور ساتھ اسے بیٹری سے سپلائی بھی دے دی گئی۔ ایک لوہے کا چھوٹا صندوق جس پر چاروں طرف ’’ چندہ برائے مسجد‘‘ خوبصورت کر کے پینٹر سے لکھوایا گیا تھا، سڑک کے کنارے رکھ دیا گیا تھا۔ سڑک کے دونوں کناروں پر لگے درختوں کے سہارے ایک بڑے سے کپڑے پر ’’ مسجد کے لیے چندہ دیں، جنت میں گھر بنائیں ‘‘ لکھ کر لگا دیا تھا۔ ہیڈماسٹر سے ایک کرسی مستعار لے کر اس نے اپنے ایک بیٹے کو وہاں بٹھا دیا تھا جس نے موبائل کے میموری کارڈ میں مسجد کے چندے کے لیے اپنی آواز میں ایک دفعہ ریکارڈنگ کر لی تھی۔ کرسی کے ایک بازو پر مائیک اور موبائل فون آمنے سامنے رکھ کر انہیں موٹے دھاگے سے باندھ دیا گیا تھا۔ اس کا بیٹا سارا دن وقفے وقفے سے ریکارڈنگ چلائے رکھتا تھا اور آتے جاتے لوگوں کے مسجد کے لیے دیے گئے پیسے وصول کر کے صندوق میں ڈالتا رہتا تھا۔ کسی کے مشورے پر اس نے اپنے دوسرے بیٹے کو بھی اس طرح کا ایک پورا سسٹم شہر سے پہلے ٹال پلازے کے قریب لگا کر دے دیا تھا۔ اللہ بخش مسجد کے کام کی نگرانی اور گاؤں والوں سے چندے کی وصولی کے لیے سارا دن گاؤں میں ہی گزارتا۔ جب کوئی گاؤں کا فرد مسجد کے لیے چندہ دیتا تو وہ دینے والے کا نام اور رقم کا مسجد کے لاؤڈ اسپیکرسے ایسے دل پذیر اور تعریفی انداز میں اعلان کرتا کہ کہ دینے والے کے دل میں اور رقم دینے کی تحریک پیدا ہوتی اور جس نے ابھی تک چندہ نہیں دیا ہوتا وہ بھی چندہ دینے کے لیے مسجد کی طرف کھچا چلا آتا تھا۔ یوں رفتہ رفتہ سارا گاؤں اس کارِ خیر میں کئی کئی بار شریک ہو رہا تھا۔ ایک ہفتے میں تینوں مقامات سے جمع شدہ رقم اس کے اندازے سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اتنے پیسے اس نے اپنی ساری زندگی میں نہیں دیکھے تھے۔ اگلے ہفتے تو کمال ہو گیا ٹال پلازے والے مقام پر ایک ڈبل کیبن ڈالے جس پر آٹھ دس مسلح افراد سوار تھے نوٹوں سے بھرا ایک تھیلا مسجد کی تعمیر کے لیے دے گئے اور جاتے ہوئے کہہ گئے اس کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔ دوسرے ہفتے تو پہلے ہفتے سے بھی کئی گنا زیادہ رقم جمع ہو گئی۔ اس طرح ہر ہفتے پچھلے ہفتے سے زیادہ رقم جمع ہونے لگی تھی۔
اب اس نے مسجد کے قریب پڑا خالی پلاٹ جس میں بارش کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے مسجد گری تھی، منہ مانگے داموں خرید کر اسے بھی مسجد میں شامل کر لیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد گاؤں میں ایک عالیشان مسجد تعمیر ہو گئی جس کا رقبہ پہلے سے تقریباً دگنا تھا، جس کے اندر، باہر ماربل کی ٹائلیں لگی تھیں۔ ایک عالی شان، بلند قامت، چھ لاؤڈ سپیکروں سے لیس، منقش مینار اور دو انتہائی خوبصورت سفید گنبدوں کے ساتھ مسجد کی خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے تھے اور یہ سب اپنی اپنی بہار دکھانے لگے تھے۔ یہ عظیم خدمت سر انجام دینے کے چند ہی دنوں بعد اللہ بخش ساتھ والے شہر میں اپنے نئے عالیشان مکان میں منتقل ہو گیا تھا لیکن اس کے بیٹا احمد بخش نے گاؤں نہ چھوڑا اور وہ بدستور گاؤں کی مسجد کا امام رہ گیا تھا۔
٭٭٭