ہزاروں سال کی سچا ئیاں جھوٹی نہیں ہیں
(خدا کے لیے ایک نظم)
اعجاز عبید
ایک یُگ سے ہوا
گہرے پانی کی لہروں پہ
مانوس سے دائروں کی زباں میں
دعا کر رہی ہے
کتنی صدیوں سے
چٹانوں کے خشک قرطاس پر
آندھیاں کیا ثنائیں رقم کر رہی ہیں
پتیوں کی رگوں میں
ہرے خون کی شکل میں
ایک ہی نام ……………..
بس ایک نام ہے
اور دشمن اندھیروں نے اس جگمگاتے ہوئے نام پر
ایک چادر چڑھا دی ہے۔
اندھیرے کی چادر کے اس پار
’’ کوئی ہے‘‘
’’ کوئی بھی تو نہیں ہے‘‘
ان صداؤں کو خاموشیوں کے کسی مقبرے میں سلا دو
اندھیرے کی چادر کے اس پار کوئی
نوری کرنوں کے دھاگوں میں
معصوم گڑیاں پروئے
ان کو صدیوں سے انجان سی حرکتیں دے رہا ہے
انگلیاں ………
مہرباں
بوڑھی
چمکیلی ……………….نوری…….رحیم
صدا آ رہی ہے
’’ اندھیرے کے اس پار کوئی نہیں ہے ‘‘
صدا ڈوبتی جا رہی ہے
صدا ڈوبتی جا رہی ہے
ایپی لاگ Epilogue
پتیوں کی رگوں میں
ایک ہی نام ہے … جو ہرے خون کی شکل میں بہہ رہا تھا
دشمن اندھیروں کی موجودگی میں
خوف کے ساتھ
حلق کی گہری گہرائیوں میں
وہی نام اترنے لگا ہے
٭٭٭
Bahut achchi Nazm kahi gayee hai.