پلکوں سے موتی چنتے ہیں
ہم یوں خواب اکثر بنتے ہیں
غم ہوں تو ہم خوش رہتے ہیں
خوشیاں مشکل سے سہتے ہیں
ہم قطرے میں دریا ڈھونڈیں
اور ساگر سے ناراضی ہے
محرم کو مجرم ٹھہرائیں
نامحرم اپنا قاضی ہے
حیراں کن اپنی منطق ہے
کوا رنگوں کا عاشق ہے
بلبل جب گانا گاتی ہے
عاشق ہی کو بہلاتی ہے
جاناں کے چہرے پر خوشیاں
جب رقاصائیں بنتی ہیں
تب خوشبوئیں اس منظر کو
رنگوں کی صورت جنتی ہیں
تب جا کر پیدا ہوتی ہیں
کلیاں، جو عمدہ ہوتی ہیں
بادل کچھ کھویا کرتے ہیں
ورنہ کیوں رویا کرتے ہیں ؟
اک دن اک عاشق نے گل کو
کچھ یوں نرمی سے چوما تگا
بے خود ہو کر پہر گھنٹوں وہ
مستی میں آ کر جھوما تھا
تب سے ہم سنتے رہتے ہیں
پھولوں کو نازک کہتے ہیں
ہم بس جھونکے سے ڈرتے ہیں
طوفاں سے کھیلا کرتے ہیں
ہم عشق لاحاصل والے
ہم ساگر بن ساحل والے
نوشی ! گمشدہ منزل والے
کتنے پاگل ہیں دل والے
٭٭٭