دانیال طریر
الرجی
وہ کہتا ہے
اس جانب کچھ کتے بھیجو
سونگھنے والے
بو آئی ہے
آدم زاد کی بو آئی ہے
آدم زاد کی بو سے میرا دم گھٹتا ہے
سانس کی تنگی مجھ کو وحشی کر دیتی ہے
مجھ کو اپنے وحشی پن سے ڈر لگتا ہے
جلدی بھیجو دیر ہوئی تو خونی وحشی
جاگ اٹھے گا
جاگ اٹھا تو جس جس بستی سے گزرے گا
موت لکھے گا
لومڑیوں سے کہہ دو میرے پاس آ جائیں
چیتے کی خوراک گھٹا دو
کہاں گئے ہیں گدھ بلواؤ
آؤ آؤ لومڑیو !اس بو کو سونگھو
اور بتاؤ کیا کرنا ہے؟
میرے محل میں پھولوں کی تعداد بڑھا دو
آکسیجن کے سلنڈر بھر دو
جو کہتا ہوں جلدی کر دو
دیر نہ کرنا دن ڈھلتا ہے
جنگل ایسے کب چلتا ہے
٭٭٭
ایک سب آگ ایک سب پانی
ہمارے غم جدا تھے
قریہ ء دل کی فضا، آب و ہوا
موسم جدا تھے
شام تیرے جسم کی دیوار سے چمٹی ہوئی تھی
مجھ کو کالی رات کھاتی تھی
تجھے آواز دیتی تھی ترے اندر سے اٹھتی ہوک
مجھ کو بھوک میری روح سے باہر بلاتی تھی
تجھے پاؤں میں پڑتی بیڑیوں کا روگ لاحق تھا
مجھے آزادی پہ شک تھا
تجھے اپنوں نے اپنے گھیر کا قیدی بنایا تھا
مجھے بے رشتگی نے ذات کا بھیدی بنایا تھا
مسلسل لیکھ پر گردش میں رہنا، ناچنا
تیرا وتیرہ تھا
مری اک اپنی دنیا تھی
مرا اپنا جزیرہ تھا
کوئی دریا تھا اپنے بیچ
ہم دونوں کنارے تھے
الگ دو کہکشائیں تھیں
جہاں کے ہم ستارے تھے
٭٭٭