فراعین کی سپاہ
اعجاز گُل
سوراخ کشتیوں میں ہیں پانی فصیل سا
تم ہی بتاؤ کیسے یہ دریا عبور ہو
کاندھے پہ رکھ کے لا کوئی چپُو طلسم کا
سنگِ سفید خشتِ سیاہ خاکِ بے نمود
یا پھر عصا کہ پارۂ مامون ہو بلند
اور خشک راستے پہ چلے مفلسوں کی قوم
پیچھے لگی ہے جن کے فراعین کی سپاہ
ہر چند ہیں زمان و مکاں مختلف تمام
میدان نئے نئے ہیں فریقین ایک سے
آجر ہیں اور اجیر ہیں طرفین ایک سے
حاکم ہے ایک رعایا الگ الگ
اس کے گماشتے ہیں کہ موجود ہر جگہ
بازار کا ہجوم ہو یا پھر محل سرا
بیرون و اندرون پس و پیش ہر لکیر
اس کی ہتھیلیوں پہ ہیں نقشے جہان کے
پہنچے پلک جھپکتے کہیں بھی قدم دراز
ماہ و نجوم خشک کہ تر سب پہ دسترس
اس دشمن وصال سے بازی کا جیتنا
مشکل اگر نہیں ہے تو آسان بھی نہیں
٭٭٭
26
سید زادی
اعجاز گُل
اک خاتون ہمیشہ کالی شال لپیٹے گھر آتی تھی
اس کو دیکھ کے ماں گھبراتی اٹھ کر دوڑتی گر گر جاتی
دھوم مچاتی سیّد زادی آئی ہے
اس کو اپنی کرسی دیتی نیچے بیٹھتی سر اس کے زانو پر رکھتی
اشک لٹاتی سسکیاں بھر بھر کہتی جاتی
میں تیری مقروض ہوں
مجھ پر قرض ادا کرنا لازم ہے
حیرانی میرا حصہ تھی بچّہ تھا کم فہم تھا
بات سمجھنے سے قاصر تھا
کیسا قرض تھا جس کی میری ماں مقروض تھی
بچپن گزرا موسم بیتے شاید دودھ کی ہے تاثیر یا جانے کیا ہے
جب بھی عشرہ محرم کا وارد ہوتا ہے
اونچے کالے علم اٹھائے مجلس کرتا نوحے پڑھتا
سچائی کا سوگ سناتا بازاروں میں ماتم کرتا
معصوموں کے تعزیئے تھامے سرخ شکستہ ہاتھوں پر
تو میں روتا ہوں
آج بھی جب وہ سیّد زادی گھر آتی ہے
ماں اس کے زانو پر سر رکھ کر روتی ہے
میرے بچّے میری طرح کچھ حیران نہیں ہوتے ہیں
ان کو شاید علم ہے اس کا ان کے آباء میں سے کوئی
اس لشکر میں تھا جو وقتِ فیصلا حُر کے
پیچھے پیچھے چلنے سے معذور رہا تھا
وہ مقروض ہیں اس ساعت کے
٭٭٭