غزل ۔۔۔ منصور آفاق

                   منصور آفاق

 

دھڑکنوں کی بدزبانی تخلیہ

تخلیہ اے زندگانی تخلیہ

 

ظلِ سبحانی ہیں آئے درد کے

اے کنیزِ شادمانی تخلیہ

 

آ رہا ہے وہ چراغِ صبح پا

چاند تارو، مہربانی، تخلیہ

 

مہ وشو!اب یاسمن کے باغ کی

دیکھتے ہیں گل فشانی، تخلیہ

 

بجلیو! موسیٰ کلیم اللہ سے میں

سن رہا ہوں لن ترانی تخلیہ

 

بارگاہِ دل میں شرمندہ نہ کر

لمس کی اندھی جوانی تخلیہ

 

ہے دمِ عارف نسیمِ صبح دم

اے کلیمی اے شبانی تخلیہ

 

زندگی سے بھر گیا دل حسرتو!

اب کہانی کیا بڑھانی تخلیہ

 

واہ، آئی ہے کئی صدیوں کے بعد

پھر صدائے کن فکانی تخلیہ

 

جائیے کہ آئینے کے سامنے

شکلِ ہستی ہے بنانی تخلیہ

 

جا رہا ہوں میں عدم کے باغ میں

موسموں کی میزبانی تخلیہ

 

آ رہا ہے مجھ سے ملنے آفتاب

بادلوں کی سائبانی تخلیہ

 

ملنا ہے منصور نے منصور سے

گم کرو اب شکل یعنی تخلیہ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے