سید انور جاوید ہاشمی
شیشہ مثال جب رخِ زیبا تھا سامنے
آنکھ آئینے میں عکس ہمارا تھا سامنے
آنکھوں نے کیا نہ تہمت ِ گریہ اُٹھائی تھی
کیا کیا نہ پیش اِن کے نظارا تھا سامنے
اُس نے کہا کہ لکھو غزل میرے نام پر
جس وقت ایک قافیہ پیما تھا سامنے
ہجرت کے بعد ہجر بھی تقدیر میں رہا
لمحہ پس ِ وصال دوبارا تھا سامنے
لفظوں کے مول تول کی مہلت نہ مل سکی
ہر چند کہ لغت کا حوالہ تھا سامنے
٭٭٭
سکھاگئی ہے ہوا طائروں کو نغمہ گری
عطا ہوئی ہے غزالوں کو خوب عشوہ گری
بہا کے آنسو بہانے سے کام اُن نے لیا
اِک عُمر بعد کھُلی جا کے اُس کی حیلہ گری
بنَا رکھے ہیں تخئیل سے دل میں شیش محل
ہمیں بھی بخشا ہے فطرت نے کارِ شیشہ گری
سوائے فطرت غیبی کسی کا ہاتھ نہیں
اُسی کی جلوہ طرازی، اُسی کی جلوہ گری
٭٭٭
جناب اعجازعبید /سمت کی عنایات کا شکریہ کہ ہماری دو غزلیں منتخب کرکے ہماری شاعری کے دل دادگان اوراچھی شاعری کے شائقین تک پہنچادیں۔
سیدانورجاویدہاشمی،کراچی
ماہ جولائی کی نویں تاریخ سن دوہزارچودہ عیسوی