غزلیں۔ ۔ ۔ فریاد آزر

آزما کر عالمِ ابلیس کے حربے جدید
ہو گئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید

دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید

ننھا کمپیوٹر! قلم، کاپی، کتابوں کی جگہ
اِس قدر سوچا نہ تھا ہو جائیں گے بستے جدید

ہو گیا محروم بینائی سے بھی اب آخرش
دیکھتا تھا رات دن وہ آدمی سپنے جدید

کیوں نہیں لے جاتی اب وحشت بھی صحرا کی طرف
بن گیا کیوں شہر از خود آج صحرائے جدید

دادی اور نانی کے قصوں میں مزہ آتا نہیں
اب سناتے ہیں مرے بچے انھیں قصے جدید

سب سنائی دیتا ہے آزر ؔ اذانوں کے سوا
محوِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدید
٭٭٭

 

۔۔۲۔۔

لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی کی مسلسل قیامت میں ہیں !
ہم ازل سے چمکتی ہوئی خواہشوں کی طلسمی حراست میں ہیں

اس کے کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زندگی آخرت عکس ہے
اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم لوگ دوزخ میں ہیں یا کہ جنت میں ہیں

تجھ سے بچھڑے تو آغوش مادر میں، پھر پانووں پر، پھر سفر درسفر
دیکھ پھر تجھ سے ملنے کی خواہش میں کب سے لگاتار ہجرت میں ہیں

بس ذرا سا فرشتوں کو بھی سمتِ ممنوعہ کی خواہشیں بخش دے
اور پھر دیکھ یہ تیرے بے لوث بندے بھی کتنی اطاعت میں ہیں

اُس طرف سارے بے فکر اوراق خوش ہیں کہ بس حرفِ آخر ہیں ہم
اِس طرف جانے کتنے مفاہیم پوشیدہ اک ایک آیت میں ہیں

منتظر ہے وہ لمحہ ہمارا، ہمارے سب اعمال نامے لیے
اور ہم بسترِ زندگی پر بڑے ناز سے خوابِ غفلت میں ہیں
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے