سلیم کوثر: یہ چراغ ہے تو جلا رہے ۔۔۔ غلام شبیر رانا

مطالعہ

 

سلیم کوثر :یہ چراغ ہے تو جلا رہے

 

                   ڈاکٹر غلام شبیر رانا

 

سلیم کوثر کا شمار اُردو کے اُن ممتاز شعرا میں ہوتا ہے جِن کی شاعری معاشرتی زندگی کے مسائل سے براہِ راست منسلک ہے اور جِس میں عام آدمی کی زندگی کے حالات کی ترجمانی کی گئی ہے۔وہ جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ انسانیت کے وقار او ر سر بُلندی کو اپنے فکر و فن کی اساس بناتا ہے ذہن و ذکاوت پر اُس کے دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سلیم کوثر کے اسلوب کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ تخلیقِ  فن کے لمحوں میں عام آدمی سے براہِ راست مخاطب ہوتا ہے اوریوں اُس کی شاعری مکالمے کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور قاری اُس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔اُس کی بیش تر نظمیں دروں بینی کی مظہر ہیں اور ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے وہ  اپنے ذوقِ سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے،قاری کو اپنا حالِ دل سُنا کر تزکیۂ نفس کی ایک صورت تلاش کر لیتا ہے۔ اُس کا شعری مجموعہ ’’یہ چراغ ہے تو جلا رہے ‘‘محض شاعری نہیں بل کہ یہ تو ساحری ہے،جس کے ذریعے وہ قاری سے در دکا رشتہ استوار کرنے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔اُس کی نظموں میں سادگی،روانی،سلاست،خلوص اور دردمندی کی جو کیفیت ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔یہ شعری مجموعہ جو کہ نظموں اور غزلیات پر مشتمل ہے سلیم کوثر کی فنی مہارت کا منہ بو لتا ثبوت ہے۔اپنی نظموں میں سلیم کوثر نے زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔اس شعری مجموعے میں شامل سلیم کوثر کی نظمیں قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی معجز نُما اثر آفرینی سے لبریز ہیں۔ان نظموں کے مطالعہ سے قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ شاعر نے اپنی ذات کے بجائے کائنات کی پُوری حیات کے مسائل کو پیشِ نظر رکھا ہے۔شاعر نے ذاتی ملال اور اپنے  داخلی کرب کو لائقِ اعتنا نہیں سمجھابل کہ زمانے بھر کے غم کو اپنا غم سمجھ کر پُوری انسانیت کے دُکھوں کا مداوا کرنے کے لیے مرہم بہ دست پہنچنا اپنا شعار بنا لیا ہے۔اُس کی زندگی کے ہیجانات،جذباتی مد و جزر اور نشیب و فراز اُس کے لیے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔اُس نے معاشرتی زندگی کے مسائل کو ہمیشہ اوّلیت دی ہے۔کہیں بھی تعلی کی صُورت میں اپنی شخصیت کو اپنے اسلوب پر حاوی نہیں ہونے دیا۔اُس کی نظم نگاری اُس کے طویل ادبی سفر کے تجربات اور مشاہدات کی لفظی مرقع نگاری ہے۔اُس کی یہ نظمیں گہری معنویت کی حامل ہیں :

بنجمن مولائس کے لیے ایک نظم،سندیسہ،پُرانے ساحلوں پر نیا گیت،سال کی آخری شب،آوارہ ء شب رُوٹھ گئے،آؤ کمرے سے نکلتے ہیں،چلو اُن منظروں کے ساتھ چلتے ہیں۔

اُس کی نظم نگاری قاری کو معاشرتی زندگی کے تمام ارتعاشات سے آگا ہ کرتی ہے۔  اپنی نظم نگاری کے ذریعے سلیم کوثر نے محض تخلیقِ فن پر توجہ مرکوز نہیں رکھی بل کہ متعدد صداقتوں اور نئے حقائق کی جُستجو بھی کی ہے۔نامہ بر کو یہ’’ سندیسہ‘‘ دیتے وقت شاعر نے اپنے قلبی جذبات اور احساسات کو جس خلوص کے ساتھ زیبِ قرطاس کیا ہے وہ قابل غور ہے۔شاعر نے ہجر و فراق کے جان لیوا صدمات اوراس کے مسموم اثرات کی جو لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ قاری کو تمام صورتِ حال سے آگاہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اُس کی نظم’’ سندیسہ ‘‘پڑھ کر قاری دِل تھام لیتا ہے :

اُسے کہنا

اُسے ہم یاد کرتے ہیں

اُسے کہنا

ہم آ کر خود اُسے مِلتے

مگر مقتل، بدلتے موسموں کے خوں میں رنگیں ہیں

اور ہم

قطار اندر قطار ایسے بہت سے موسموں کے درمیاں

تنہا کھڑے ہیں

جانے کب اپنا بُلاوا ہو

کہ ہم میں آج بھی

اِک عمر کی وارفتگی اور وحشتوں کا رقص جاری ہے

وہ بازی جو بساطِ جاں پہ کھیلی تھی

ابھی ہم نے نہ جیتی ہے نہ ہاری ہے

اُسے کہنا کبھی مِلنے چلا آئے

کہ اب کی بار شاید

اپنی باری ہے

سلیم کوثر کے اسلوب کا کمال یہ ہے کہ اُس کی شاعری تفہیم سے قبل تسخیر قلوب پر قادر ہے۔اُ س نے وجدانی تخیل اور طبع زاد تخلیقات کے ذریعے جس طرزِ فغاں کو اپنایا اُس کی تاثیر مسلمہ ہے۔حریت ضمیر سے جینے کے لیے اُس نے ہمیشہ حریتِ فکر و عمل کو اپنا مطمحِ نظر بنایا۔اُس نے زندگی بھر چربہ ساز،سارق،کفن دُزد اور لفاظ حشراتِ سخن کی چیرہ دستیوں سے گُلشنِ ادب کو محفوظ رکھنے کے لیے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔اُس کی غزلیات میں تخلیقی عمل کے دوران قلبی احساسات کے سوتے دردمندی،خلوص اور ایثار سے پُھوٹتے ہیں۔ان کو صرف وہی دِ ل سمجھ سکتا ہے جو درد آشنا ہو اور بصیرت سے متمتع ہو۔مُسلسل شکستِ دِل کے باعث معاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈلا رہا ہے۔سلیم کوثر کو اس بات کا قلق ہے کہ وہ بے بس انسان جن کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا گیا ہے اُن کی خوں چکاں داستانوں کا احوال سنگلاخ چٹانوں اور جامد وساکت ایوانوں،کھنڈرات اور ریگستانوں کے سامنے بیان کرنا پڑتا ہے۔وہ روشنی کو محض روشنی ء چشم کے ایک عکس سے تعبیر کرتا ہے۔یہ بات اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ بند آنکھوں پر نمودِ سحر کا امکان بعید از قیاس ہے۔کور چشم کے سامنے فروغِ گُلشن اور طلوعِ  صبحِ بہاراں کا احوال بیان کرنا،بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ہمارے معاشرے میں مظلوم انسانوں کا کوئی پُرسانِ حال ہی نہیں،وہ کولھو کے بیل کی طرح دن بھر مشقت کرتے ہیں اور شام کو جب وہ کام سے فارغ ہوتے ہیں تو اپنے آپ کو اُسی جگہ پر پاتے ہیں جہاں سے اُنھوں نے دِن کا آغاز کیا تھا۔ساری دنیا بدل رہی،ہر طرف ترقی اور خوش حالی کے غلغلے ہیں لیکن مصیبت زدوں کے مقدر کی سیاہی کبھی ختم نہیں ہوتی اور ان کا حال جوں کا توں ہے۔سلیم کوثر کی غزلیات میں زندگی کے تلخ حقائق کی ترجمانی،جذبوں کی صداقت،تجربات و مشاہدات کی روداد،تجسس،جہدِ مسلسل اور ولولہ ء تازہ سے لبریز حیران کُن ڈرامائی کیفیت کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں کو دیکھ کر اس حساس تخلیق کار کی روح زخم زخم اور دِل کِرچی کِرچی ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں فرد کی بے چہرگی،بے بسی اور عدم شناخت کے مسئلے نے جو گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے وہ حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہے۔اِس دُنیا کے آئینہ خانے میں قاری کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونے پر مائل کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ سلیم کوثر کی غزلیات میں تخلیقی فعالیت اور تنقیدی بصیرت کا جو حسین امتزاج پایا جاتا ہے وہ قاری کے لیے ایک منفرد تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔اُس کا شیوہ ء گُفتار قاری کو منفرد تجربات سے روشناس کراتا ہے :

پیاس بھی ہم ہیں پیاس بُجھانے والے بھی ہم

تیر بھی ہم ہیں تیر چلانے والے بھی ہم

راہ تیری ہے،شجر تیرے ہیں،گھر تیرا ہے

میں مُسافر ہوں مِرا رختِ سفر تیرا ہے

یوں تو کہنے کو سبھی اپنے تئیں زندہ ہیں

زندہ رہنے کی طرح لوگ نہیں زندہ ہیں

ہماری پہلی گواہی گھروں سے آئی ہے

پھر اس کے بعد صدا پتھروں سے آئی ہے

قیمت ہماری زر کے برابر نہیں رہی

دولت کنھی ہُنر کے برابر نہیں رہی

صبح منسوخ ہوئی شب کے اشارے نہ گئے

اور ہم لوگ صلیبوں سے اُتارے نہ گئے

ذرا سی دیر کو منظر سہانے لگتے ہیں

پھر اس کے بعد یہی قید خانے لگتے ہیں

کوئی اُجالا اندھیروں سے کام لیتا ہوا

دیا جلاؤ ہوا سے دوام لیتا ہوا

تہوں میں کیا ہے دریا کی روانی بول پڑتی ہے

اگر کردار زندہ ہوں کہانی بول پڑتی ہے

اپنی شاعری میں سلیم کوثر نے قُلزم ہستی کی غواصی کر کے حقائق کے وہ گہر ہائے آب دار بر آمد کیے ہیں جِن کی تابانیاں نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہیں۔اپنی شاعری میں سلیم کوثر نے جس ترکیبی اور تجزیاتی اسلوب کو اپنایا ہے وہ اُس کی تنقیدی اور تخلیقی استعداد کے حسین امتزاج کا منفرد پہلو سامنے لاتا ہے۔اس شاعری کے دامن میں تخلیق کار کے وسیع تجربات،مطالعات،مشاہدات،تاثرات جذبات اوراحساسات کے جو خزینے موجود ہیں اُنھیں اشعار کے قالب میں ڈھالتے وقت اُس نے جس تنقیدی شعور کو رو بہ عمل لانے کی کوشش کی ہے وہ قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے۔قارئینِ ادب کے چہرے پر مُسکراہٹ دیکھنے کی تمنا میں سلیم کوثر نے انسانی ہمدردی،خلوص و مروّت اور ایثار کو زادِ راہ بنایا ہے۔یہ شاعری پڑھنے کے بعد قاری ایک نئے جہاں کی سیر کرتا ہے۔یہ ایک ایسا جہان ہے جہاں ہوس اور خود غرضی کا کہیں گُزر نہیں اور وہاں اندیشۂ زوال نہیں۔تخلیق کار نے حوصلے اور اُمید کا دیپ جلا کر منزلوں کی جُستجو کا پیغام دیا ہے کہ صرف اسی صورت میں نجاتِ دیدہ و دِل کی ساعت دیکھنا مقدر بن سکتا ہے ۔ اس طرح وہ ظلمتِ شب کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے حصے کی شمع فروزاں کر نے پر اصرار کرتا ہے جو اُس کے رجائیت پر مبنی مثبت اندازِ فکر کی دلیل ہے۔شاعر نے تزکیہ نفس کی جو صورت تلاش کی ہے وہ قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔زندگی کی اقدار عالیہ کی ترجمانی کرتے ہوئے شاعر نے تہذیبی،ثقافتی،معاشرتی، اخلاقی اور روحانی اقدار کے فروغ کی راہ ہموار کر دی ہے۔اپنی شاعر ی کوسلیم کوثر نے مطالعہ ء کائنات،ذہن و ذکاوت،جذبات واحساسات،فکر و خیال اور مواد و تکنیک کے دھنک رنگوں سے مزین کیا ہے۔ اپنے اسلوب میں صداقت کو کلیدی اہمیت دینے والے اس جری تخلیق کار نے تصنع اور ریاکاری سے ہمیشہ نفرت کی ہے اور کسی مصلحت کی پرو ا نہیں کی۔مواد اور ہیئت کا جو تنوع اور دل کشی سلیم کوثر کی شاعری میں پائی جاتی ہے وہ اس کے اسلوب کو انفرادیت عطا کرتی ہے۔جبر کے سامنے سپر انداز ہونا اس کے مسلک کے خلاف ہے۔اس کی شاعری حرفِ صداقت کا جو اعلا معیار پیش کرتی ہے وہ اس کی عظمت کی دلیل ہے۔

جشنِ رسن و دار کا کل آخری دِن ہے

کل میں نہیں ہوں گا مِری سچائی تو ہو گی

 

ملنے کا پتہ: ویلکم بُک پورٹ،کراچی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے