جدید لب و لہجہ کے مشہور شاعر اکمل حیدرآبادی مرحوم کہا کرتے تھے کہ دنیائے شعر و ادب نے حیدرآبادی شعرا کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ انھوں نے راقم الحروف سے ایک ملاقات میں کہا کہ حیدرآباد میں شاعری کا Production اچھا ہے لیکن اس کی صحیح Marketing نہیں ہوتی۔ لیکن رؤف خیرؔ کی شاعری اس کلّیے سے مستثنیٰ ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لئے نقادوں کی شاہراہ سے گزرنے کے لئے Green Signal کا انتظار کرنے کے بجائے خود اپنی پگڈنڈی بنانا زیادہ مناسب سمجھا۔ اور وہ اس وادیِ پر خار میں آبلہ پا بھی ہوئے اور دامن دریدہ بھی لیکن ہم آغوش منزل ہونے کے بعد انھوں نے اپنے آبلے کی ایک ایک بوند اور دامن کے ایک ایک تار کی قیمت وصول کر لی اور وہ بھی صرف اصل ہی نہیں بلکہ مکمل سود کے ساتھ۔ یہاں تک کہ آج وہ ہند و بیرون ہند اپنی شہرت کے لئے کسی وسیلے کے محتاج نہیں۔ وہ جہاں گئے ان کی شہرت ان کے استقبال کے لئے موجود تھی۔
رؤف خیر کے شعری ذوق کی سیمابیت نے انھیں کبھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ ان کا بربطِ سخن قناعت و استغنا کے سکوت کے بجائے ھل من مزید کے زیر و بم سے گونجتا رہا۔ اور ان کے طائر فکر نے تخلیق کے آسمانوں کی سیر پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی پرواز کا رخ بلندیوں کے بعد پنہائیوں کی طرف موڑ دیا اور منظوم ترجمے کو وقار اور اعتبار عطا کرنا اپنا ادبی فریضہ سمجھا۔ ایک ایسے شاعر کے لئے جو تخلیق کے میدان میں شہرت و مقبولیت کے براق کا سوار ہو، منظوم تر جمے کی دعوت مبارزت قبول کرنا بڑے جان جوکھوں کا کام ہے کیونکہ یہاں اس کی ساکھ متاثر ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ غالباً یہی سبب ہے کہ فیضؔ جیسے شاعر نے اقبالؔ کی فارسی تصنیف پیام مشرق ‘‘ کے انھی حصوں کو منظوم تر جمے کے لیے منتخب کیا جن میں وہ اپنی شاعرانہ حیثیت بر قرار رکھ سکتے تھے ورنہ منظوم تر جمے کے میدان میں خام کاروں اور دوسرے درجے کے تخلیق کاروں کی بڑی تعداد و ارد ہوئی اور اس امید کے ساتھ کہ بلند قامت شعرا کی تخلیقات کے تر جمے کے زینے کی مدد سے وہ بامِ شہرت تک رسائی حاصل کر لیں گے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوئے تو گوہر مراد ہاتھ لگا ورنہ سابقہ حیثیت تو برقرار ہے ہی۔ نتیجتاً ایسے سستے اور شاعر کے منشا کے بر عکس تر جمے سامنے آئے جنھیں دیکھ کرJOHN CIARDIکو مترجمین کی کاوشوں پر "No more than the best possible failure”اور FROSTکو "Poetry is what disappears in translation”جیسے ریماکس کرنے پڑے، اور یہ مشکل اس لئے بھی پیدا ہوئی کہ شاعر کے جذبات، احساسات، کیفیات، بین السطور، صوتی آہنگ، صنائع و بدائع اور لطف قوافی جیسی بہت سی خوبیاں ہیں جنھیں منظوم تر جمے کے شیشے میں اتارنا ایک کار محال ہے۔ ان سب سے کہیں بڑی مشکل اس وقت پیدا ہوئی ہے جب متر جم سے نفی ذات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ایسے مشکل حالات میں ایک ایسے شاعر کا منظوم ترجمے کے چیلنج کو قبول کرنا جوکسی شہرت اور تعارف کا محتاج نہ ہو، یقیناً لائق تحسین اور قابلِ قدر کارنامہ ہے۔
رؤف خیر منظوم ترجمے کے میدان میں نووارد ہیں۔ اس لیے ان کے تراجم کا سرمایہ کچھ زیادہ نہیں ہے۔ صرف ایک مجموعہ منظر عام پر آیا ہے جو اقبال کے فارسی مجموعۂ کلام ’’پیام مشرق‘‘ میں ’’لالۂ طور‘‘ کے عنوان سے شامل قطعات کے منظوم تراجم پر مشتمل ہے اور قنطار کے نام سے شائع ہو کر ادبی حلقوں سے زبردست خراج تحسین حاصل کر چکا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ دو برسوں کی قلیل مدت میں اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہو چکا ہے۔ ترجمے کے میدان میں رؤف خیرؔ اگر چہ کہ نو مشق ہیں تاہم اس نومشقی کے باوجود تراجم میں کہیں خام کاری باریاب نہیں ہو سکی ہے۔ بلکہ بعض تراجم پر تو کسی پختہ مشق بلکہ کہنہ مشق مترجم کے شاہکار ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ ان تراجم کے ذریعے رؤف خیرؔ نے یہ ثابت کر دیا کہ ایک قادر الکلام شاعر جس زمین پر قدم رکھتا ہے اسے آسمان کر دیتا ہے۔ چند مثالیں دیکھئے۔
بباغاں بادفروردیں دہد عشق
براغاں غنچہ چوں پرویں دہد عشق
شماع مہر او قلزم شگاف است
بما ہی دیدۂ رہ بیں دہد عشق
رؤف خیرؔ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے یکے سخت مافلھپ چکا ہے )صبہحسے آ
چمن کو عشق دے بادِ بہاری
ستاروں جیسی کلیاں جنگلوں کو
کرن اس کی سمندر چیر ڈالے
دکھاتا ہے وہ رستہ مچھلیوں کو
ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے
سحردم شاخسارِ بوستانے
چہ خوش می گفت مرغِ نغمہ خوانے
برآور ہر چہ اندر سینہ داری
سرودے، نالۂ، آہے، فغانے
رؤف خیر کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں
چمن کے شاخساروں میں گجر دم
کہا کیا خوب مرغِ خوش سخن نے
سرودو نالہ و آہ و فغاں سب
ترے دل میں ہے جو کچھ سب اگل دے
رؤف خیر کے ترجمے میں ’’ کہا کیا خوب‘‘ جز و ما بعد یعنی ’’ مرغ خوش سخن‘‘ کی مناسبت سے مزید حسین اور دل کش ہو گیا ہے۔ ترجمے کے سفر میں ایسے ہی مقامات پر مترجم درپردہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بیا لوہا منوا لیتا ہے اور یہی مقام ہوتا ہے جہاں متشاعر کی قلعی کھل جاتی ہے اور شاعر وجدان کی دولت خداداد سے بھر پور استفادہ کرتا ہے۔ منظوم ترجمہ نرا میکا نکی عمل نہیں ہے۔ میکانکی عمل کے ذریعے وجود میں آنے والے تراجم خشک اور بے مزہ ہوتے ہیں نتیجتاً قاری مطالعے کی شاہراہ پر ایسے تراجم کی رفاقت تا دیر گوارا نہیں کر سکتا۔ عمدہ ترجمے کے لیے مضطر مجاز نے بجا کہا ہے کہ جب تک ترجمہ نیم وجدانی عمل نہیں بنتا، بات نہیں بنتی، البتہ رؤف خیر کے تیسرے اور چوتھے مصرعوں میں ایک ہی قبیل کے الفاظ (سرود، نالہ، آہ، فغاں )کے لیے دو مرتبہ سب آیا ہے جو حشو قبیح ہے۔
ایک اور قطعے کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے
رہے درسینۂ انجم کشائی
ولے ازخویشتن نا آشنائی
یکے بر خود کشاچوں دانہ چشمے
کہ از زیر زمین نخلے بر آئی
رؤف خیر کا ترجمہ دیکھئے
بنایا سینۂ انجم میں رستہ
خود اپنی ذات سے ناواقفیت
شجر اک تیری ہی مٹی سے پھوٹے
کھلے خود پر جو تو کونپل کی صورت
رؤف خیر کے پہلے اور دوسرے مصرعے حسن اسلوب، بندش کی چستی اور متن کی قربت کے لحاظ سے عمدہ ترجمے کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ تیسرے اور چوتھے مصرعے بھی اصل کے ما فیہ کو واضح کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ خصوصاً خود پر کونپل کی صورت کھلنا لاجواب ہے۔ البتہ مترجم سے اتنا تسامح ہوا ہے کہ اس نے ’’دانہ‘‘ کے بغیر کونپل پیدا کی ہے جبکہ دانے کے بغیر کونپل کا وجود نہیں۔ تاہم یہ صرف ہیئت کی بحث ہے ورنہ فکر اقبال کا بادۂ تیز و تند رؤف خیر کے ترجمے کے جام میں کمالِ کیف وسرور کے ساتھ رقص کناں ہے۔ مترجم نے کلام میں حسن اور زور پیدا کرنے کے لیے تیسرے مصرعے کو موخر اور چوتھے کو مقدم کر دیا ہے جو کوئی عیب کی بات نہیں۔ ترجمہ در اصل شاعر کی مراد اور منشا کا ہوتا ہے نہ کہ لفظوں اور مصرعوں کا۔ EDWARD RODITI کا یہ قول ” The spirit of poetry resides entirely in its body "بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ترجمہ اسی روح کا ہوتا ہے۔ ایک قادر الکلام مترجم کسی زبان کی روح کو اپنی زبان کے قالب میں کمال احتیاط و شعور کے ساتھ اس طرح اتار لیتا ہے کہ تخلیق و ترجمہ ’من جاں شدم تو تن شدی، کے مصداق بن جاتے ہیں اور بلاشبہ رؤف خیر اس فریضے سے بہ حسن و خوبی عہدہ بر آہوئے ہیں۔ ان کے تراجم کے محاسن با ذوق قاری کے دامنِ دل کو بے ساختہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں ان تراجم میں معائب کا گذر کم سے کم ہے۔ یوں تو خامیاں کس میں نہیں ہوتیں۔ تاہم ترجمے کی صراط مستقیم پر رؤف خیر بہت کم لغزش پا کے شکار ہوئے ہیں۔ اور جو کچھ اسقام سرزرد ہوئے ہیں وہ کسی بتِ کافر کی طرح اتنے حسین ہیں کہ انھیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ کہہ رہے ہوں
حق کی تمیز ہوتی ہے باطل کے سامنے
’’ قنطار‘‘ رؤف خیر کی منزل نہیں ہے۔ یہ ان کے سفر کا پہلا اور عارضی پڑاؤ ہے۔ اب ان کے شائقین اور قارئین کو اس فن میں ان سے بڑی توقعات وابستہ ہو گئی ہیں۔ رؤفؔ خیر کے چاہنے والوں کو بلا شبہ اس بات کی خوشی ہو گی کہ ان کے ہیرو کی کثیر الجہات شخصیت کا ایک اور روشن پہلو سامنے آیا ہے۔ اپنے ترجمے کی لذت سے آشنا کر کے انہوں نے اپنے چاہنے والوں کی تشنگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور وہ ھل من مزید کی صدا بلند کرنے لگے ہیں۔ رؤف خیر کی فیاضیِ قلم سے یہ امید ہے کہ وہ تشنگانِ شوق کو لاتقنطوا کے جواب سے نوازیں گے۔ میخانۂ اقبالؔ میں رندانِ بلانوش کا جم غفیر بھی ہے اور اقبال کے فارسی کلام کی ’’ رگِ تاک‘‘ میں ’’بادۂ ناخوردہ‘‘ کی وافر مقدار بھی۔ اور یہ دونوں رؤف خیر کے ہنر بادہ ساذی کے منتظر ہیں۔
قنطار علامہ اقبال کی شہرۂ آفاق تصنیف پیامِ مشرق میں شامل فارسی قطعات ’’ لالہ طور ‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ ہے۔ ترجمہ ویسے بھی آسان کام نہیں اور شعر کا ترجمہ تو بہت ہی کٹھن کام ہے کیونکہ شعر کی حقیقی روح کو کسی دوسری زبان میں ڈھالنا ایک دوسرے ہمالیہ کو سر کرنے کے مترادف ہے پھر مترجم کو جب تک دونوں زبانوں پر عبور نہ ہو یہ عرق ریزی ممکن نہیں ہو سکتی۔ رؤف خیرؔ اس لحاظ سے بھی لائق تحسین ہیں کہ انہوں نے یہ مشکل کام کر دکھا یا۔ اب میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ موجودہ دور کے مسلمانوں کی حالت زار پر مغموم و بے چین علامہ اقبال کی روح نے عالمِ برزخ سے اپنے ایک زمینی پرستار کو ایک بار پھر اس بڑے کام کے لیے منتخب کیا یا اس سربکف عاشقِ اقبال نے خود ہی لالہ طور میں موجود جذبات میں ہلچل مچا دینے اور تڑپا دینے والے کلام کو حال کے نازک ترین عہد کے تناظر میں اپنے انداز میں اردو داں طبقے پر منکشف کروانا ضروری سمجھا۔ وجہ جو بھی ہو یہ کار نامہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
۱۶۳ قطعات کے اس منظوم ترجمے کے ذریعے ایک بار پھر اقبال اپنے فلسفہ خودی کے جاہ و جلال کے ساتھ عہد حاضر کی زندہ اور پائندہ زبانِ اردو میں ہم سے مخاطب ہیں۔ پیامِ مشرق جس میں لالہ طور کے عنوان سے یہ عظیم ذخیرہ موجود ہے فی نفسہٖ کوئی معمولی تصنیف نہیں کیوں کہ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کتاب کا دیباچہ خود علامہ نے تحریر کیا تھا جس میں ان کا یہ انکشاف موجود ہے کہ اس تصنیف کا محرک گوئٹے کا ’’دیوانِ مغرب‘‘ (WEST OSTLICHERDIVAN) تھا۔ یہ گوئٹے کی کتاب کی اشاعت کے سو سال بعد ظہور پذیر ہوئی۔ گوئٹے کی اس تصنیف کے بارے میں بھی علامہ اقبال کی یہ رائے ملحوظِ خاطر رہنی چاہیئے جو انہوں نے پیامِ مشرق کے مقدمے میں لکھی ہے۔ ’’ بعض مقامات پر گوئٹے کی شاعری حافظ کے اشعار کا آزاد ترجمہ معلوم ہوتی ہے جو یقیناً اس امر کا ثبوت ہے کہ گوئٹے کے خیالات اور فکر پر شعوری یا لاشعوری طور سے حافظ کے اثرات ضرور مرتب ہوئے ہیں۔ ‘‘ یہاں اس تذکرے کو میں نے یوں ہی مس نہیں کیا بلکہ خود مترجم نے ’’ حرفِ خیر‘‘ میں جس حقیقت کا عندیہ دیا ہے اس میں اس کی وضاحت کی ہیں۔ بہر حال رؤف خیرؔ خود بھی اقبال کے عقیدت مند ہیں اس لئے انہوں نے اس منظوم ترجمے میں بالاہتمام اس امر کا دھیان رکھا ہے کہ شاعرِ مشرق کے لہجے کی گھن گرج بھی اردو ترجمے میں بعینہٖ بازگشت بن کر ابھرے لہذا رؤف خیر اپنے اس دعوے میں بہر حال درست ہیں ’’ ترجمہ کرتے ہوئے میں نے اقبال کی فکر کو اقبال ہی کے اسلوب میں بیان کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے ‘‘ اس سلسلے میں اگر یہاں ان کے چند قطعات پیش کئے جائیں تو شاید نامناسب نہ ہو گا۔ منظوم ترجمہ
جہانِ راز ڈھونڈوں راز ہو کر
نہ میں انجام نے آغاز ڈھونڈوں
اگر ظاہر ہو بے پردہ حقیقت
’’مگر‘‘ ’’ شاید‘‘ کا پھر انداز ڈھونڈوں
٭٭٭
نہ شمشیر و علم ہیں نے سکندر
خراج شہر ہی باقی نہ زر ہے
رہی ہیں امتیں شاہوں سے بڑھ کر
گیا جم، دیکھ لے فارس مگر ہے
٭٭٭
چمن کے شاخساروں میں گجر دم
کہا کیا خوب مرغ خوش سخن نے
سرود و نالہ و آہ و فغاں سب
ترے دل میں ہیں جو کچھ سب اگل دے
میں نے تمام منظوم ترجمہ شدہ قطعات میں صرف مندرجہ ذیل تین قطعات کا انتخاب اس لیے بھی تمثیلاً لیا ہے کہ ان میں رؤف خیرؔ نے لالہ طور کے اصل روح کے جریب پہنچنے کی کوشش میں انتہائی خود اعتمادی کے ساتھ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ہر دو زبانوں پر ان کو کتنا عبور ہے اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ باقی تمام منظوم ترجمے ان کے اس ہنر سے عاری ہیں بلکہ یہ مشتے نمونہ از خروارے ہے۔
بر سبیل تذکرہ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ لالۂ طور کا ترجمہ دنیا کی بیشتر بڑی زبانوں میں ہو چکا ہے لیکن اقبال کی ہمہ گیریت کے سبب ہر نسل اپنے زمانے کے تناظر میں اقبال کی شاعری کو ایک نئے سرے سے ٹھیک اسی طرح دریافت کرتی رہے گی جس طرح غالب کی شاعری کو TIMELESS ہونے کے باعث ہر نئی نسل بازیافت کرتی چلی آ رہی ہے۔ میں یہاں خود رؤف خیرؔ کے الفاظ دہرا دوں تو پڑھنے والوں کو اس جدید ترجمے کی وجہ بھی آسانی سے معلوم ہو جائے گی (صفحہ ۱۳ )۔ ’’ بعض مشاق مترجموں کے کیے ہوئے لالۂ طور کے تراجم میرے سامنے ہیں۔ ان کی شخصیت اور علمیت کا میں معترف ہوں لیکن ان کی موجودگی میں میرا یہ ترجمہ خودا س بات کی دلیل ہے کہ میں ان ترجموں سے متفق نہیں ہوں۔ ترقی اور کمال کی خواہش جس طرح انسانی فطرت میں موجود ہے اسی طرح انسانی تخلیقی شاہ کاروں میں بھی اس جواز موجود ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان ترجموں میں مزید ترقی کی گنجائش نہیں ہے لیکن تابہ حد حدود خیر میں یہ کہہ سکتا ہوں :
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
مے خانۂ حافظ ہو کہ بت خانۂ بہزاد
یہاں میں رؤف خیرؔ کی اس پر خلوص عرق ریزی کو مزید استحکام بخشنے کے لیے اگر ’’ اردو بک ریویو‘‘ نئی دہلی کے ان الفاظ کو دہرا دوں تو شاید غلط نہ ہو گا :
’’ لالۂ طور کو رؤف خیرؔ نے اپنی شعری صلاحیت اور تخلیقی تجزیے کے ساتھ بہترین ترجمے کی شکل میں پیش کیا ہے۔ ‘‘
اپنی تحریر ختم کرنے سے قبل لفظِ قنطار پر بھی اگر دو جملے کہوں تو یہ بے محل نہ ہوں گے۔ قنطار کے لغوی معنی جیسا کہ مترجم نے خود ہی واضح کر دیا ہے، ذخیرۂ سیم و زر ہے لیکن میں ذرا اس کی معنوی تفہیم میں جا کر اسے دو حصوں میں منقسم کر دوں تو صورت حال یہ بنتی ہے کہ علامہ اقبال کا لالۂ طور اگر سونے کا ذخیرہ ہے تو اس کا منظوم ترجمہ جسے رؤف خیرؔ نے پیش کیا ہے وہ یقیناً چاندی کا درخشندہ ذخیرہ ہے اور سونے چاندی کا ساتھ تو سب کو معلوم ہے چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ امید ہے آنے والا مستقبل علم و ادب کے اس عاشق کو اردو کے نئے افق کی تلاش میں مزید کامرانیاں عطا کرے گا۔
٭ ٭ ٭