جاوید صدیقی کی خاکہ نگاری ۔۔۔ اسیم کاویانی

 

پچھلے چند برسوں سے جاوید صدیقی کے یہ مضامین سہ ماہی ’نیا ورق‘ (ممبئی) میں مطالعے میں آ رہے تھے۔ کوئی خاکہ لگا، کوئی خاکہ نما اور کوئی افسانہ، پر ہر تحریر لطفِ زبان کی حامل تھی۔ اب یہ ’روشن دان‘ اور’ لنگر خانہ‘ کے نام سے کتابی صورت میں آئے ہیں۔ ان کی باز خوانی کرتے ہوئے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ گو کہ ان مضامین کو خاکہ یا خاکہ نما کہہ کر پیش کیا گیا ہے لیکن اِن میں خود جاوید صدیقی کی سوانحِ حیات کی کڑیاں اس طرح سے بکھری ہوئی ہیں کہ اگر وہ ان مضامین کی ترتیب الٹ پلٹ دیں، ان کے سرناموں کو ذیلی سُرخیاں بنا دیں۔ کچھ ربط و تسلسل کی عبارتیں بڑھا اور کچھ زیبِ داستاں کی عبارتیں گھٹا دیں تو ایک نئی کتاب اُن کی خودنوشت سوانح کی تیار ہو جائے گی۔ ہمدم کشمیری کا ایک شعر بہ تصّرف عرض ہے ؎

میری ہی داستان لکھی تھی ورق ورق

میرا ہی کوئی نام کسی باب پر نہ تھا

اس مجوزہ حیاتِ جاوید کو آپ بھی اپنے تصور کی نگاہوں سے پڑھ سکتے ہیں۔ پہلا حصّہ اُن کے وطن رام پور دارلسرور سے متعلق ہے اور اس میں پانچ ابواب مدغم نظر آتے ہیں : حجیانی، بی حضور، بڑے پاپا، ممّا اور بجیا اور ایک تھے بھائی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جاوید کے پُرکھوں کی ایک شکستہ سی حویلی ہے، جس کے نوستلجیا سے وہ کبھی باہر نہ نکل سکے۔ اُس حویلی کی ویرانیوں، معیشت و معاشرت کے زوال اور ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کے پس منظر میں وہیں بچپن سے بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچی خادمہ حجیانی کا جیتا جاگتا کردار اُبھرتا ہے۔ اس حویلی کے کھنڈروں میں جاوید کا بچپن اور سفید بلّی موتی بھی جھانک رہی ہے۔ پھر اُن کے کتابوں کے شوق اور لائبریری کے مشغلے کا ذکر، جس کے ممبروں میں بڑے پاپا یعنی دیوان شیام بہادر بھی شامل ہیں۔ جاوید طفلی ہی سے اپنی دادی کے سایۂ عاطفت میں رہے تھے۔ دادی کے سگے بھائی اور بہن یعنی ممّا اور بجیا کے پُر اثر قصّے میں جاوید نے اُنھیں سانسیں لیتے کرداروں میں ڈھال دیا ہے۔ پھر اُن کی دادی کی حریف، جاوید کی نانی بی حضور، جنھیں وہ اپنی دل چسپ شرارتوں کا تختۂ مشق بنایا کرتے تھے۔ ایک پرانے فلمی پروجیکٹر کو پانے کی جاوید کی تڑپ، جس کی حسرت نے شاید اُن کا کبھی پیچھا نہیں چھوڑا۔ آخر میں یتیم الطرفین جاوید کا اپنے رشتے کے چچا زاہد علی کے بُلاوے پر بمبئی کے لیے آمادۂ سفر ہونا، جس کے لیے ٹکٹ خرچ اور زادِ راہ جٹانے کے لیے بھی اُنھیں کافی پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ اُن کے ’ایک تھے بھائی ‘ بالآخر اُنھوں نے بیڑا پار لگا دیا۔

دوسرے حصّے یعنی عروس البلاد بمبئی کی کشاکش حیات میں سات خاکے زاہد علی، سلطانہ جعفری، غلام احمد خاں آرزوؔ، عبدالحمید بے کسؔ، ابرار علوی، ستیہ جیت رے اور شمع زیدی کے سموئے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بمبئی کے خلافت ہاؤس میں جاوید کی گزران، وہیں صحافت کے رموز سیکھنے، تلاشِ معاش اور اُن کے جواں عمری کے عشق کی داستان شروع ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ایک انتہائی طاقت ور کردار زاہد علی کا تشکیل پاتا جاتا ہے، جسے اُنھوں نے انتہائی موزوں نام دیا ہے : ’ہارے ہوئے لشکر کا سپاہی۔ ‘ اس کے بعد جاوید کی رہایش اور ملازمت کی دقّتوں اور اپنے عشق کو شادی کے رشتے میں بدلنے کے مسائل کا دور آتا ہے اور ’موگرے کی بالیوں والی‘ سلطانہ جعفری اُن کی نیّا پار لگاتی ہیں۔ جاوید نے اپنے صحافتی کرئیر میں بانیِ اخبار ’ہندستان‘ آرزو مرحوم اور اپنے ساتھی صحافی عبدالحمید بے ؔکس کو یاد کیا ہے۔ بالخصوص موخرالذکر کو، جس نے جاوید کا خلافت ہاؤس سے نہرو نگر کر لا اور پھر وہاں سے اندھیری کے چار بنگلے تک کا سفر یا دوسرے لفظوں میں اُنھیں اخباری صحافت سے نکل کر فلم کی ڈگر پر گام زن ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس ضمن میں عزیز قیسی اور پھر فلم اسٹار محمود سے بے ارادہ ملاقات، جاوید کے فلم نگری میں داخلے، گروجی ابرار علوی سے اُن کی دوریوں اور نزدیکیوں اور نرم و گرم تعلّقات کا قصّہ اور بالآخر ابرار علوی کے شہرت کے آفتاب کا لبِ بام آنا اور جاوید صدیقی کی فلمی فتوحات کا سلسلہ دراز ہونا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ آخر میں شمع زیدی کے ساتھ ستیہ جیت رے کی فلم میں کام کرنے کی حسین یادیں اور پھر ایک عمر کی ہم کاری کے بعد اُن کی ہم دم وہم ذوق ’ساتھیا‘ کے دل چسپ خاکے پر یہ حصہ ختم ہو جاتا ہے۔ جاوید کی ان جزئیات سوانح کی جتنی تفصیل ان خاکوں میں بکھری ہوئی ہیں اتنی تو شاید کُچھ اصحابِ خاکہ کی بھی نہیں ہو گی۔ میرا ماننا ہے کہ اِن خاکوں کو الگ کر کے جاوید اگر اپنی سوانح عمری لکھنا چاہیں بھی تو یہ اُن کے لیے ممکن نہ ہو گا۔

واقعہ یہ ہے کہ جاوید صدیقی کا ادب و صحافت اور فلم اور تھیٹر کا جس طرح کا رنگا رنگ کرئیر رہا ہے، ویسی ہی اُن کی یادوں کی دنیا بھی ہے، جو ایسی بے بضاعت بھی نہیں اور اس میں اوروں کی دل چسپی طبع کا کافی سامان موجود ہے، اس کے باوجوداسے اُن کی انکساریِ مزاج کہیے یا فراستِ دُنیوی کہ اُنھوں نے اپنی سوانح عمری کو اپنی زندگی کی کچھ قریبی اور کچھ مختلف مرحلوں میں ملی یا آشنا ہوئی معروف شخصیتوں کے جلو میں پیش کرنے کا تکلّف یا تحفّظ اختیار کر لیا ہے، وہ بھی کچھ ایسے تجاہلِ عارفانہ کے ساتھ کہ ؎

کہانی میرے ہی گزرے ہوئے لمحات رنگیں کی

مجھی کو اب حدیثِ دیگراں معلوم ہوتی ہے

(خمار بارہ بنکوی)

اردو میں خاکہ نگاری نسبتاً ایک جدید صنف ہے جو ہمارے ادب میں بیسویں صدی میں مغرب سے آ کر شامل ہوئی ہے۔ ایک اچھے خاکے کی تعریف میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ ہم اختصار کے ساتھ خاکہ نگاری کے دو لوازم طے کر سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ موضوعِ خاکہ کچھ ایسی خصوصیت یا کمال یا اہمیت کا حامل اور اپنے کردار کی مقبولیت یا نا مقبولیت کی بنا پر ایسا غیر عمومی شخص ہو کہ جس کا مطالعہ قاری کے لیے دل چسپی کا باعث بنے۔ دوسرے یہ کہ خاکہ نگار اُس شخص یا کردار سے جذباتی و ذہنی سطح پر ایک خاص ربط رکھتا ہو اوراُس کی خارجی ہی نہیں داخلی شخصیت سے بھی کماحقہ واقف ہو۔ اگر موضوع خاکہ کوئی فنکار ہے تو وہ اُس کی شخصیت اور فکر و فن کے عیاں و نہاں نقوش مجموعی طور پر اس خوبی سے اُبھار دے کہ قاری قطرے میں دجلہ دیکھ لے۔ ان دو لوازم کے بعدکسی خاکے کی کامیابی یا ناکامی کے دوسرے پیمانے اپنے موضوع سے مصنّف کے برتاؤ اور اُسلوب پر منحصر ہوں گے۔

اختصار اور سلاست بیان کو ایک اچھّے خاکے کی خوبیوں میں بتایا گیا ہے لیکن اختصار، ابہام میں اور سلاست بیان، سطحیت میں نہیں بدلنا چاہیے۔ بقدرِ ضرورت شگفتہ بیانی اور مزاح کی چاشنی خاکے کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔ صاحب خاکہ سے مصنّف کا جذباتی تعلّق ضروری ہے لیکن اُس کا بیان معروضی اور بے تعصّبی کا مظہر ہونا چاہیے۔ مصنّف کی پسند، پرستاری اورناپسند، ناگواری کی صورت نہیں اختیار کرنی چاہیے۔ غالب نے کہا تھا ع ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال، اِس لیے کسی بھی شخص کا مطالعہ اُس کے خدوخال سے پرے، اُس کی شخصیت کے تجزیے، اُس کے نفسیاتی مطالعے، رجحانِ طبع اور اُس کردار کی خوبیوں اور کمیوں کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ بہ ایں ہمہ چونکہ اس محشرِ خیال کو مکمل طور پر جاننے کا دعوا کوئی بھی نہیں کر سکتا، اِس لیے جانے پہچانے کرداروں کو بھی نئے زاویوں سے دیکھنے دکھانے یا اُن کے نئے پہلوؤں کو منکشف کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

جاوید صدیقی کی ان دو کتابوں کے اٹھارہ خاکوں میں حجیانی، ہارے ہوئے لشکر کا سپاہی، ایک بنجارہ، موگرے کی بالیوں والی، اور ساتھیا بالترتیب بہترین خاکے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک پر تفصیلی مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ میں سرِ دست صرف ’ساتھیا‘ پر مختصراً اظہار خیال کروں گا۔

اسٹیفن اسٹلس ( Stephen Stills)نے کہیں لکھا ہے کہ مرد کے پاس عورت کے تین مصرف ہیں : ’اُسے پیار کرے، اُس کی جفا سہے، یا اُسے لٹریچر میں بدل دے۔ جاوید صدیقی نے اپنی ساتھی شمع زیدی کو ’ساتھیا‘ میں منقلب کر دیا ہے۔ یوں تو وہ ایک دو دوسرے خاکوں میں بھی کچھ نہ کچھ موجود ہیں۔ جیسے کہ نیاز حیدر اور ستیہ جیت رے، جن کی ایک فلم میں دونوں شریکِ کار تھے، لیکن ’ساتھیا‘ میں کہیں کہیں جاوید کا انداز ع کوچۂ یار میں چلیے تو غزل خواں چلیے کا سا ہو گیا ہے۔ اُنھوں نے لکھا ہے : ’شمع میری محبوبہ نہیں ہیں (پھراِس کے اظہار کی نوبت کیوں آئی!اسیم)، مگر وہ میری ہم خیال، ہم قدم، ہم نوا اور ہم درد ہیں۔ کسی ایک انسان سے ایک ہی وقت میں اتنے رشتے بنانا آسان نہیں ہوتا۔ ‘ (لخ : 144) فلم ’شطرنج کے کھلاڑی‘ میں اُنھوں نے شمع کے کام کرنے کی لگن کا یوں ذکر کیا ہے : ’میرو مرزا کے کمروں، دالانوں، دیواروں کے لیے وہ اس محبت سے چیزیں جمع کرتیں کہ ایسا لگتا جیسے کوئی ماں اپنی پیاری بیٹی کے لیے جہیز جمع کر رہی ہو۔ ‘ (لخ : 133) سچ پوچھیے تو کرنل بشیر حسین اور قدسیہ زیدی کی دختر اور ایم ایس ستھیو کی جیون سنگنی شمع کے کردار کے انیک رنگ جاوید صدیقی نے صفحۂ قرطاس پر بکھیر کر رکھ دیے ہیں۔ وہ یہ نہ بتاتے تو شاید بہت سوں کو پتا بھی نہ چلتا کہ کس طرح سوشلزم کو شمع نے محض زبان و قلم کا نعرہ نہیں بلکہ اپنی زندگی کا حصّہ بنا رکھا ہے۔ شمع کے گھر کی چھت تلے اُن کی بیٹیاں سیما اور شیلی اور ملازم بچن سنگھ اپنی پتنی سوشیلا اور چار بچوں سمیت یکساں ڈھنگ سے زندگی گزارتے رہے تھے۔ آخر کار بچے بڑے ہوئے اور پھر کامیابی کے مرحلے طے کرتے ہوئے اپنے گھروں کے ہو گئے، لیکن محبت کی ڈور سے بندھی سوشیلا آج بھی کار ڈرائیو کر کے آتی ہے اور شمع کے کچن میں کھانا بنا کر چلی جاتی ہے۔

جاوید نے لکھا ہے کہ شمع کم بولتی ہیں لیکن جب بولتی ہیں تو اچھے اچھوں کی بولتی بند کر دیتی ہیں۔ ایک دل چسپ واقعہ ستھیو کی فلم ’سوکھا‘ کی شوٹنگ کے سلسلے میں کرناٹک کے گانْو بیدر میں پیش آیا تھا، جہاں سارا اسٹاف ایک نواب کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک دن ڈائننگ ٹیبل پر نواب کے نوجوان بیٹے سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کنڑ زبان میں گالیاں کس طرح کی ہوتی ہیں، جو در اصل فلم کے ایک کردار کے منہ سے نکلوانی تھیں۔ نواب زادہ پہلے تو گھبرایا اور شرمایا، پھر اُس نے جو کچھ کہا تو بات بے وقوف، گدھا، کام چور اور نالائق سے آگے نہ بڑھ سکی۔ جاوید کے لفظوں میں شمع کچھ دیر تو اُس لڑکے کو اس طرح دیکھتی رہیں جیسے کہ ڈاکٹر مریض کو دیکھتا ہے، پھر اُنھوں نے لڑکے کی آنکھوں میں دیکھ کر ایسی خوف ناک گالی دی کہ اُن کے کان جھنجھنا اُٹھے۔ وہ لڑکا اپنی ٹوپی سمبھال کر نکل بھاگا اور دوسرے دن ان سب کو گیسٹ ہاؤس خالی کرنے کا الٹی میٹم مل گیا۔

یہاں پر بے اختیار اختر الایمان کا لکھا ہوا ایک قصّہ یاد آ گیا۔ ایک دن جوش نے اُن سے شکایتاً کہا: ’ارے بھئی کیا زمانہ آ گیا ہے۔ بچے بھی بڑوں کی سی باتیں کرنے لگے ہیں۔ ‘ اختر الایمان نے پوچھا: ’آخر ہوا کیا؟‘ تو جوش نے اُنھیں بتایا کہ ’اُس دن سویرے اُن کا نواسا اُن کے پاس یہ سوال لے کر آیا کہ ’نانا، بچے کہاں سے آتے ہیں ؟‘ چونکہ وہ بِنا جواب کے ٹلنے والا نہیں تھا، اس لیے اُنھوں نے ایک الُٹی سیدھی سی کہانی بنا کر اُسے بتایا کہ فرشتے لے کر آتے ہیں۔ اُن کا نواسا بیٹھا آرام سے سنتا رہا، جب جوش کہہ چکے تو بولا : ’’اماں نانا، کیسی چوتیا پن کی باتیں کرتے ہو!‘‘

’ساتھیا‘ میں ہمیں ہندستانی اردو تھیٹر میں شمع زیدی کے یوگ دان اور دوردرشن اور ETVکے اردو چینل جاری کرانے میں اُن کی جد و جہد کا پتا بھی چلتا ہے۔ مختصر یہ کہ جاوید نے اپنے اس خاکے میں اپنی مخلص و ہم دم ’ساتھیا‘ کا حقّ  رفاقت ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔

اِن مضامین کی سب سے بڑی خوبی مصنّف کی سلیس و رواں نثر اور بقدرِ ضرورت ہلکی پھلکی ظرافت کا استعمال ہے، جس نے اُن کے اسلوب کو دل کش بنا دیا ہے۔ کسی لکھنے والے کے یہاں چاندنی کے پیڑوں کا جھنڈ، موگرے کی وینیاں، پیڑھی (کھٹولی)، پان کی ڈھولی، جھانپل، موت گڑا اور گائے کے خالص دودھ کے لیے تھن تلے کا دودھ جیسے الفاظ تحریر میں موتیوں کی طرح جڑے نظر آئیں تو صاحبانِ ذوق کی نگاہوں میں تحسین کی چمک کا آ جانا یقینی ہے۔ آرزو مرحوم کے خاکے میں جب یہ عبارت میری نظروں سے گزری:

’’پہلے کمرے میں بہت سے کاتب گندے زیر مشق کے اوپر پتلے مسطر بچھائے کتابت کرتے دکھائی دیتے تھے۔ ‘‘ (رد: 159) تو حیران کن مسرت ہوئی۔ ایک زمانے میں کاتبوں کے گھٹنے پر مسطر تلے دبی گدّی کو دیکھ چکا تھا لیکن اُسے کیا کہتے ہوں گے کبھی سوچنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ جاوید صاحب کی ایجاد ہو یا کہیں سے لائے ہوں، انتہائی موزوں لفظ ہے۔ ہم عصر لکھنے والوں میں اُن کی تحریر میں کم لغزشیں نظر آتی ہیں۔ مثلاً ’حجیانی‘ میں ایک جگہ لکھا ہے :

’کہاں مر گئی تھی تُو، بول کے جاتی تو منہ میں دانہ نکل آتا کیا!‘ (رد : 53)

یہاں پر ’۔ ۔ ۔ بول کے جاتی تُو تو منہ میں چھالے پڑ جاتے کیا! ‘ لکھنا مناسب ہوتا کہ یہی صحیح محاورہ ہے۔ اُن کے خاکے ’ممّا اور بجیا‘ میں ایک جگہ ماموں شجاعت کے بارے میں لکھا ہے : ’ممّا کس کو کندھے پر ہاتھ رکھنے دیتے ہیں !‘ (رد : 124) محاورۂ زبان کا تقاضا ہے کہ ممّا کس کو پُٹھے پر ہاتھ رکھنے دیتے ہیں !‘ لکھا جائے۔ جاوید صاحب تو جانتے ہی ہوں گے کہ محاورے میں تصرّف جائز نہیں ہے۔ ’نور اللغات‘ میں ’پُٹھّا‘ کے معنی دیے گئے ہیں :گھوڑے کا چوتڑ، چوپائے کی دُم کی جگہ، اور محاورے کا مفہوم ہے :پاس نہ پھٹکنے دینا، قریب نہ آنے دینا۔ یہ اردو کے حیوانی محاورات میں سے ایک ہے۔ حیوانی محاورہ بقول پنڈت دتاتریہ کیفی اسے کہتے ہیں، جس میں کسی حیوان کا نام آئے یا اس کے کسی خواص کی طرف اشارہ ہو۔ حیوانوں کے نام کے محاوروں کو جاننا تو مشکل نہیں مثلاً:اُلّو بولنا، چیونٹی کے پر نکل آنا وغیرہ۔ حیوانی خواص کے محاوروں کی چند مثالیں یہ ہیں : پیٹ میں پانو ہونا(سانپ سے )، چوکڑی بھول جانا(ہرن سے )، دُم دبا کر بھاگنا، کان کھڑے کرنا(چوپایوں سے )، بازو تولنا، ہوا میں اُڑنا(طیور سے )، بگٹٹ بھاگنا، پُٹھّے پر ہاتھ نہ رکھنے دینا(گھوڑے سے )وغیرہ۔

’اکبری بوا‘ کے دو جملے ہیں :

’’اکبری نے اور کچھ نہیں سنا، بس ٹھیلا منگایا اور رمضانی کے گھر پہنچ گئی۔ ‘‘(لخ : 154)

’’مگر جب کبھی شام ہوتی تو بہت سے گھروں میں اکبری کو یاد کیا جاتا۔ ‘‘(لخ: 167)

ٹھیلا کوئی سواری گاڑی نہیں ہوتی۔ عموماً دو پہیّوں پر تختہ جڑا ہوتا ہے، جس پر اسباب لاد کر اسے ہاتھوں سے ٹھیل کر لے جایا جاتا ہے اور شام ہمیشہ اپنے وقتِ معینہ پر ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ’ کبھی‘ ہوتی ہے کبھی نہیں۔ اسی طرح ’برسیں گزر چکی ہیں ‘ (رد : 108) اور ’توبہ کر لیا‘ (رد : 143) میں چونکہ ’برس‘ مذکر اور ’توبہ‘ مونث ہے، اس لیے اِنھیں ’ برسوں گزر چکے ہیں ‘ اور ’توبہ کر لی‘ کر دینے سے بات بن سکتی تھی۔ اُن کے تقریباً ساڑھے تین سو صفحات کے قلمی سرمایے میں ایسی چند لغزشوں کا در آنا کوئی ایسی اہم بات نہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پروف ریڈنگ کی غلطیاں بکثرت موجود ہیں، ظاہر ہے کہ ہم اُنھیں مصنّف کے سر نہیں منڈھ سکتے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان کتابوں میں مصنف کی شستہ مذاقی اور شگفتہ بیانی کے نشانات اس طرح جا بجا بکھرے پڑے ہیں کہ قاری اُن کی زبان کے سحر میں گُم ہو جاتا ہے۔

ایک جگہ جاوید صدیقی نے فون پر ابرار علوی کی گرج دار آواز سن کر اُسے کھرج دار کا حسین متبادل دے دیا ہے۔ اُن کی نانی بی حضور جو بے چاری ’اللہ ہو، اللہ ہو‘ کی گردان میں لگی رہتی تھیں، جاوید کا اُنھیں ’ہُو‘ کے انگریزی معنی ’کون‘ سمجھا کر ’اللہ کون، اللہ کون‘ کے کفریہ کلمے کا مرتکب بنا کر پریشان کرنے اور صلواتیں سننے کا قصّہ پڑھ کر کون ہے جو خندہ بہ لب نہ ہو۔ شمع زیدی کے خاکے میں رقم طراز ہیں :

’جس زمانے میں شمع سے میل ملت بڑھی، وہ میری پیغمبری کا زمانہ تھا۔ فاقے بھی تھے اور مستی بھی، یعنی فاقہ مستی کا عالم تھا۔ ‘ (لخ : 132) اور بمبئی کے وہ اسمِ بامسمّا صحافی عبدالحمید بے ؔکس، جن کے گھر کے دروازے پر تختی لگی تھی: ‘A H BEKAS’۔ جاوید اُسے ’آہ بے ؔکس‘ پڑھا کرتے تھے اور اکثر مشورہ دیا کرتے تھے کہ ’بے ؔکس صاحب یہ نیم پلیٹ بدل دیجیے، اسے دیکھ کر بالکل ایسا لگتا ہے جیسے اردو اخبار میں انتقال پُر ملال کی خبر شائع ہوئی ہے۔ ‘ خلافت ہاؤس میں جاوید کو رہنے کے لیے ایک کمرہ دیا گیا تھا اور وہاں مقیم ایک بھوپالی ذاکر میاں کو اوپر کی منزل پر بھیج دیا گیا تھا۔ جاوید نے لکھا ہے : ’میرے پہنچنے پر ذاکر صاحب کا رتبہ بلند ہو گیا۔ ‘ مصنف کی شگفتگیِ تحریر کی چند اور مثالیں ملاحظہ فرمائیے :

٭ایم ایف حسین نے اپنی پہلی فیچر فلم ’گج گامنی‘ مادھوری ہی کے لیے بنائی تھی۔ جب ’الجزیرہ‘ کے ایک انٹرویو میں اُن سے پوچھا گیا کہ اُنھوں نے فلم بنانے میں اتنی دیر کیوں لگائی؟ تو اُنھوں نے جواب دیا، ’’فلم تو میں شروع سے ہی بنانا چاہتا تھا، مگر موقع نہیں مل رہا تھا۔ اس ساٹھ سال میں تیس سال مادھوری کے پیدا ہونے اور جوان ہونے کی وجہ سے بھی دیر ہوئی۔ ‘ (ص: 81-82)

٭ ایک کباڑی کی دکان کے کباڑ کا منظر یوں کھینچا ہے :

دکان پر گیا تو حیران رہ گیا۔ اوپر سے نیچے تک ایسی چیزوں سے بھری ہوئی تھی جن کا ایک دوسرے سے تعلق ہی نہ تھا۔ اس میں دھوپ کے چشمے، مذہبی کتابیں، المو نیم کے برتن اور بجلی کے پُرانے پنکھے اس طرح گھل مل کر بیٹھے تھے جیسے رنگ، نسل، ذات اور قبیلے کا کوئی فرق ہی نہ رہ گیا ہو اور سوشلزم آ چکا ہو۔ ‘‘ (لخ : 59)

٭ بابا (نیاز حیدر) نے کرتے کی جیب سے بیڑی کا بنڈل نکالا۔ ایک بیڑی منتخب کی اور ماچس جلا کر پہلے بیڑی کو سینکا اور پھر سلگا کر ایک لمبا کش لگایا۔ پھر بیڑی کو انگلیوں میں اس طرح پکڑ لیا جیسے بسم اللہ خاں شہنائی پکڑتے ہیں۔ (رد : 24)

٭ بابا کا ایک قہقہہ بردوش لطیفہ یہ بھی شامل ہے کہ ایک بار وہ ہری بھائی (سنجیو کمار) کی محفل میں گئے تھے۔ رات کو وہیں قالین پر سوگئے۔ سویرے اُٹھ کر باتھ روم گئے اور ہری بھائی کا سلک کا کرتا اور لنگی پہن کر چلے گئے۔ پھر ڈھٹائی دیکھیے کوئی دو مہینے بعد اچانک ہری بھائی کے یہاں جا دھمکے اور بولے : ’ہم پچھلی دفعہ اپنا ایک جوڑا کپڑا چھوڑ گئے تھے، وہ کہاں ہے ؟‘ ہری بھائی نے جواب دیا: ’آپ کے کپڑے تو میں نے دھلوا کر رکھ لیے، مگر آپ جو میرا لنگی کرتا پہن کر چلے گئے تھے، وہ کہاں ہے ؟‘ بابا نے بڑی معصومیت سے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور سرکو کھجلایا اور بولے : ’ہمیں کیا معلوم تمھارا لنگی کرتا کہاں ہے ! ہم کوئی ایک جگہ کپڑے تھوڑی بدلتے ہیں۔ ‘‘ (ل 35)

٭ اُن (بابا) کی پسندیدہ شراب رَم تھی۔ فرمایا: ’تمھیں معلوم ہے رم حرام نہیں ہے۔ عرض کیا: ’کس طرح‘۔ بولے : اگر حرام ہوتی تو نہ محرّم میں ہوتی اور نہ رمضان میں، پس ثابت ہوا کہ رم حرام نہیں ہے۔ ‘ (رد: 41، 40)

کہیں کہیں تو مصنّف نے محض one liner میں صاحبِ خاکہ کے مزاج و کردار کو نمایاں کر دیا ہے :

٭ مجھے چار ہی دن میں اندازہ ہو گیا کہ ابرار صاحب کے ساتھ کام کرنا مست ہاتھی کی سواری کرنے سے کم نہیں۔ ‘ (ابرار علوی۔ رد : 101)

٭ کیفی صاحب مزاجاً بڑے قناعت پسند تھے۔ قسمت کو مانتے نہیں تھے۔ زمانے سے مانگتے نہیں تھے۔ ‘‘ (کیفی اعظمی‘۔ل خ : 108 )

٭ مظفر ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے گھر میں داخل ہونے والا ہر شخص فوراًسمجھ جائے کہ مظفر اپنا لکھنؤ ہر جگہ اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ‘‘ (مظفر علی۔ رد: 23)

٭ ’’زاہد صاحب اُن لوگوں میں سے تھے جو زندگی کا بھرپور مزہ لے کے جیتے ہیں، اس ندیدے بچے کی طرح جو آئس کریم کھاتا ہے اور جب آئس کریم ختم ہو جاتی ہے تو اس کی ڈنڈی چاٹنا بھی نہیں بھولتا۔ ‘‘ (زاہد شوکت علی۔ رد : 158)

٭ وہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا کرتے تو نیاز حیدر کا ہے کو ہوتے۔ ‘‘ (رد : 37)

٭ ’’وہ تو اللہ بھلا کرے وارث علوی صاحب جن کی پھلجھڑیاں چھوڑتی نثر، ہلکی پھلکی چٹکیاں اور شریر جملے پڑھتے ہوئے کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ میں ایک سنجیدہ اور عالمانہ بحث میں پھنسا ہوا ہوں، جسے تنقید کہتے ہیں۔ ‘‘(لخ :117)

ان تحریروں کی ایک نمایاں خوبی مصنّف کی انکساری اور خاکساری ہے۔ اُس نے کہیں بھی خود کو اہمیت دینے یا اپنی قابلیت کا بکھان کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ بڑے خلوص اور فروتنی سے اپنی کمزوریوں کا اظہار کر کے قاری کے دل میں جگہ بنا لی ہے۔ کان پور کے حالات میں لکھتے ہیں کہ شجاعت ممّو کی ’میرے بارے میں رائے یہ تھی کہ میں آوارہ لڑکوں کے ساتھ گھومتا ہوں اور گندے ناول پڑھتا ہوں اور کام چور ہوں۔ اُن کی پیشین گوئی تھی کہ یہ کچھ نہیں کر سکتا۔ ایسے ہی جوتیاں چٹخاتا پھرے گا اور کرے گا بھی تو رکشا چلائے گا یا بیڑیاں بنائے گا۔ ‘(رد:177)، خلافت ہاؤس کے زاہد علی کا جس طرح کا مزاج تھا، اُنھوں نے جب جاوید کو پکارا تو یوں لکھا ہے :’میں نے خود کو گالیاں سننے کے لیے تیّار کیا اور اوپر پہنچ گیا۔ ‘ایک مقام پر مصنّف نے اپنی شادی کی تصویر میں پہلے تو اپنے حلیے کا خاکہ اُڑایا ہے، پھر لکھا ہے :’جو بھی ہماری شادی کی تصویریں دیکھتا ہے، بڑی حیرت سے فریدہ(مسزجاوید صدیقی) کو ضرور دیکھتا ہے۔ کئی ہم دردوں نے تو دبی زبان میں اُن سے پوچھ بھی لیا:’بی بی جب تم نے شادی کو ہاں کہی تھی تو پورے ہوش و حواس میں تھیں !‘(رد:71)۔ جب شمع زیدی نے انھیں اطلاع دی کہ ’شطرنج کے کھلاڑی‘ لکھنے کے لیے ستیہ جیت رے جاوید سے ملنا چاہتے ہیں تو جاوید کا ردِ عمل یوں تھا:’سوچنے کی بات تھی۔ راجا بھوج، گنگو تیلی سے کیوں ملنا چاہے گا!شمع بی بی ضرور کوئی شرارت کر رہی ہیں ‘(ل خ:30)۔ جب ابرار علوی نے جاوید کو پارٹنر شپ میں لکھنے کی دعوت دی تو لکھا ہے :’ایک آسمان جھک کر زمین کو ساتھ آنے کی دعوت دے رہا تھا‘۔ (رد:108)

مذکورہ بالا تفصیل سے ظاہر ہے کہ زبان و اسلوب کے اعتبار سے یہ مضامین قابل تعریف ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ بیشتر خاکے خاکہ نگاری کے تقاضوں پر پورے نہیں اترتے اور مثالی خاکوں کی تعداد پانچ سات سے زیادہ نہیں ہے۔ اس اجمال کی تفصیل آگے آئے گی۔

ایک امریکی مصور John Singer Sarger نے کہا تھا کہ میں جب بھی ایک پورٹریٹ بناتا ہوں، ایک دوست کھو دیتا ہوں۔ جاوید صدیقی کے خاکوں کے سلسلے میں فریقین میں سے کسی کو ضر ر کا اندیشہ نہیں۔ اُن کے قلم نے تو کہیں کہیں شناسائی کو بھی دوستی میں بدل دیا ہے۔ وارث علوی کے ساتھ اُنھوں نے صرف ڈیڑھ دن گزارا تھا۔ اُس روداد کو تو شاید وہ خود بھی خاکہ کہنا پسند نہ کریں گے۔ ایم ایف حسین اور حبیب تنویر سے اُن کی چند ملاقاتوں کی تفصیل نے اُن سے دو مضمون لکھوائے ہیں اور اُن کی آراستگی کے لیے اُن شخصیتوں کا کچھ دل چسپ اور مشہور و مشتہر مواد بھی درجِ داستاں کر دیا گیا ہے لیکن حسین و حبیب کی شخصیت کا کوئی نیا پہلو، کوئی خاص ذاتی تاثر یا اُن کی ذات و نفسیات کی کسی گرہ کشائی کا پتا نہیں چلتا۔ ان خاکوں کو پڑھ کر شجاع خاور کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے ؎

وہ جس سے پورا تعارف بھی ہو نہ پایا تھا

وہ ایک شخص ہمیں یاد عمر بھر آیا

جاوید کی ان دو کتابوں کی اشاعت کے بعد اُن کا گلزار پر لکھا ہوا جو خاکہ آیا ہے، وہ بھی محض گلزار سے اُن کے نجی تعلّق کا بیانیہ بن کر رہ گیا ہے۔ گلزار کی شخصیت کی ظاہری کشش، خوش پوشاکی، کلف شدہ لباس، شفیق مسکراہٹ، سفیدمونچھیں، اُن کی کم آمیزی، وقت کی پابندی اور اُن کے کہانی کار، نغمہ نگار، فلم کار اور ڈراما نگار ہونے کی اطلاعات اتنی بوسیدہ ہیں کہ اِس باب میں کوئی بھی پیج تھری کا ریڈر جاوید سے زیادہ باخبر مل جائے گا۔ مصنّف نے جہاں اپنے پروفیشنل یا مختصر مدّتی تعلقّات کی بنا پر کسی معروف شخصیات (مثلاً:حبیب تنویر، ستیہ جیت رے اور ایم ایف حسین) کو موضوع تحریر بنایا ہے، وہ اپنے تجربات و مشاہدات کا کوئی گہرا یا پائیدار نقش قائم کرنے میں ناکام رہا ہے اور قاری اُن شخصیات کی جانی بوجھی باتوں، وارداتوں سے زیادہ یا ان سے ہٹ کر بہت کم کوئی نئی بات جان پاتا ہے، البتّہ جن شخصیات سے مصنّف بہت قریب رہا ہے اور جن کے ساتھ اس نے دکھ سکھ جھیلے ہیں، اُن خاکوں کی اثر انگیزی قابلِ داد ہے، وجہ ظاہر ہے کہ وہاں صاحبِ خاکہ سے جذباتی تعلق یا ربطِ خاص کا لازمہ موجود ہے۔

آرزو مرحوم(کرسی خالی ہے )، دیوان شیام بہادر(بڑے پاپا) اور ’ایک تھے بھائی‘ کے خاکے سرسری ہیں اور بے رنگ بھی۔ ان کرداروں سے جڑے واقعات محدود، معمولی اور کسی بھی تہ داری سے خالی ہیں۔ ’ایک تھے بھائی‘ کے شجاعت علی یعنی جاوید کے دولھا بھائی ہی اپنی برات یعنی خاکے کا سب سے بے رونق کردار ہیں۔ در اصل اُنھیں جاوید سے کبھی کوئی ہم دردی رہی تھی نہ ہی جاوید کو اُن سے کوئی لگاؤ۔ قمر باجی کی شفقت اور مرادآبادی پھوپھی کی شقاوت تک کے رنگ کچھ چھوٹ چھوڑ جاتے ہیں لیکن شجاعت کا غیر متوقع طور پر اپنی گائے بیچ کر جاوید کے لیے چند جوڑوں اور جوتوں کا انتظام کرنا کوئی رنگ نہیں جما پاتا۔ حتّا کہ رام پور رضا شوگر فیکٹری کے ارد گرد کا لینڈاس کیپ اور گنّے بھرے چھوٹے چھوٹے ڈبّوں کو کھینچتے اُس ریلوے انجن کی گڑگڑاہٹ بھی شجاعت کے بتِ بے جان میں زندگی کی کوئی حرارت نہ بھر سکی جس کے وہ ٹریک سپروائزر تھے۔ جس طرح جاوید نے اس قصّے میں اپنے بمبئی کے سفر کے لیے زادِ راہ جٹانے کی مشقّتوں کی تفصیل کو بھر دیا ہے اور صاحبِ خاکہ پسِ پردہ چلا گیا ہے، اسی طرح ’بی حضور‘ کے کردار پر جاوید کے فلمی پروجیکٹر کے عشق کا قصّہ اس حد تک غالب آ گیا ہے کہ ’بی حضور‘ کا کردار دل چسپ ہونے کے باوجود پوری طرح تشکیل نہ پا سکا۔ ’مما اور بجیا‘ اور ’گروجی‘ کے کرداروں پر بھی جاوید کی اپنی داستان حاوی ہوتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے گو کہ اُن کا مطالعہ دل چسپی سے خالی نہیں۔ ’اکبری بوا‘ خاکہ تو نہیں ایک افسانہ ضرور ہے۔ اس کردار کی سوانحی جزئیات اور مہد سے لے کر لحد تک کی تفصیلات سے وہ خاکہ نہیں بن جاتا، نہ ہی ایسی تفصیلات کو خاکے کی خوبی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مجموعی طور پر جاوید صدیقی کی یہ دونوں کتابیں بڑی حد تک محبّانہ تحریروں کا مجموعہ ہیں۔ اگر آپ اُن کے کرداروں سے یہ توقع کر بیٹھے کہ ؎

طبیعت میں کسی کی کج ادائی

کسی کے گیسوؤں میں خم ملیں گے

(مدحت الاختر)

تو زیادہ کامیابی حاصل نہ ہو گی۔ چونکہ زیادہ تر شخصیات مصنّف کو محبوب رہی ہیں، اِس لیے بہت کم کسی کے محجوب ہونے کی نوبت آئی ہے۔ حجیانی، نیاز حیدر، مما اور بجیا اور زاہد علی جیسے چند خاکوں میں ان کے کردار کی کجی و نا ہمواری کو بھی عیاں کیا گیا ہے، اس لیے ان کی تصویر زیادہ حقیقی اور جیتی جاگتی نظر آتی ہے، لیکن منٹو کے ہاتھ میں جو قلم کہیں کہیں استرا بن گیا ہے، ویسی دھار کا آپ یہاں تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ اُنھیں نہ تو نیاز حیدر جیسے پرولتاری کا ’جانِ عالم‘ سیریل میں واجد علی شاہ جیسے رنگین مزاج کو نیشنل ہیرو بنا دینا اکھرا ہے اور نہ سردار جعفری جیسے کامریڈ کا میر، غالب اور کبیر کے کلام کے فائیو اسٹار اڈیشن چھاپنا(اور اُنھیں بیچ نہ پا نے پر اُن کا ردّی کے مول بمبئی کی فٹ پاتھوں پر بکنا۔ اسیم)۔ جاوید صدیقی نے اپنے ایک دو خاکوں میں ضمنی طور پر سردار عرفان نامی صحافی کا کتابت کے باکڑے سے صاحبِ فلیٹ بننے کا قصہ، پھراُس کے عشق اور قتل کیے جانے کے سانحے کا ذکر کیا ہے۔ بہتر ہوتا اگر پرسا پرسو سے پرس رام بننے یعنی مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکاڈمی کے سکریٹری بن جانے کے بعد سردار عرفان کے اردو اڈیٹروں اور ادیبوں سے روا رکھے گئے رعونتی کردار کو بھی واضح کر دیا جاتا۔ مانا کہ کسی ضمنی کردار کی تفصیلات مہیّا کرنا خاکہ نگار کے لیے لازمی نہیں، لیکن کسی کی اکہری تصویر اس کی صحیح ترجمانی بھی تو نہیں کرتی !مجموعی طور پر جاوید صدیقی کا اندازِ تحریر مجھے فیضؔ کے اس شعر کی یاد دلاتا ہے ؎

غمِ جہاں ہو، رُخِ یار ہو کہ دستِ عدو

سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا

جاوید ایک وسیع مطالعہ شخص ہیں اور اُن کی تحریروں میں کہیں کہیں اُن کے مطالعے کی پرچھائیاں بے ارادہ یا بالارادہ چلی آتی ہیں۔ مثلاً ’حجیانی‘ کی وجہِ تسمیہ میں ظ انصاری کے حاجی بمبا کی مشابہت دیکھی جا سکتی ہے۔ ’ایک تھے بھائی‘ نامی خاکے میں جاوید نے اپنے ایک دوست کی جس سائیکل پر مرادآباد تک سواری کی تھی۔ پطرس کی بائیسکل سے اتنی مشابہ تھی کہ خود جاوید کو شبہ ہو رہا تھا کہ کہیں چھے دہائی قبل پطرس نے اُن کی سائیکل کی سواری تو نہیں کی تھی! جوش ملیح آبادی اور مشاق احمد یوسفی کی فارغ البالی کی وجہ سے اُن کے منہ دھونے کی حد کھوجانے کا لطیفہ بھی جاوید کے شمّو  ممّا تک پہنچ گیا ہے۔ ریڈ فلیگ ہال میں شوکت کیفی کے گھر کا چولھا بجھا ہوا دیکھ کر اُن کی پڑوسن سلطانہ جعفری کے کہنے پر سردار جعفری کا کیفی کے فلیٹ میں جا کر چپکے سے بیس روپیے کا نوٹ کتاب میں اڑس کر آ جانا بھی خود شوکت کی ’یاد کی رہ گزر‘ میں سو روپیے کے نوٹ کی شکل میں جھلک رہا ہے۔ سمیر کے پاپا کی دو فٹ لمبی کین کی چھڑی ’اللہ بخش ‘ بھی ہمارے کلاسیکی ادب کے مولا بخش کی رشتے دار نظر آتی ہے۔ یہ سب اگر اتفاقات ہیں تو بڑے دل چسپ اتفاقات ہیں۔ یہاں تک کہ ’موگرے کی بالیوں والی‘ خاکے کے ستایش گر جاوید اختر کی داد کے اس انداز پر کہ ’اگر جاوید صدیقی اُن کے اوپر سلطانہ جعفری جیسا خاکہ لکھنے کا وعدہ کریں تو وہ کل مرنے کے لیے تیار ہیں۔ ‘ معترضہ طور پر عرض ہے کہ مجھے کوئی آٹھ دہائی قبل مولانا وحید الدین سلیم کی فرحت اللہ بیگ سے کئی گئی فرمایش یاد آ گئی کہ’ کاش اُن کی موت کے بعد کوئی اُن پر ڈپٹی نذیر احمد جیسا خاکہ لکھتا!‘اُس وقت اتفاق سے فرحت اللہ بیگ کے منہ سے نکل گیا تھا: ’’بسم اللہ کیجیے، مر جائیے۔ مضمون میں لکھ دوں گا۔ ‘ ناشدنی دیکھیے مولانا سلیم ایک ہی سال میں چٹ پٹ ہو گئے تھے اور فرحت اللہ نے اپنا دوسرا بہترین خاکہ سپردِ قلم کیا تھا : ’ایک وصیت کی تکمیل۔ ‘ جاوید اختر شکر منائیں کہ جاوید صدیقی نے اُن کی فرمایش پر فرحت اللہ کا جواب نہیں دہرایا۔

کئی خاکوں میں غیر ضروری جوڑ اور پیوند محض زیبِ داستاں کے دیکھے جا سکتے ہیں، مثلاً محبوب کی منہدی کا قصہ، جس کا نیاز حیدر سے کوئی تعلّق ہے نہ مصنّف سے، صرف اس لیے ٹانک دیا گیا ہے کہ نیاز بابا نے سنایا تھا۔ اسی طرح زاہد علی کے خاکے میں شمیم جے پوری کے عشق کا ماجرا بھرتی کا ہے۔ کیفی اعظمی کے تذکرے میں مجواں اورحسین کے خاکے میں مادھوری ڈکشت کے پامال قصّے کو دہرانا بھی مصنّف کی مجبوری بن گیا ہے کہ اس کے پاس کہنے کے لیے نئی باتوں کا ٹوٹا ہے۔ مولانا آزاد اور ایم ایف حسین میں چائے کی چاہت کا ذوق مشترک سہی لیکن مولانا کے لوازمات و تکلّفاتِ چائے نوشی کے سامنے حسین کی بد مذاقیوں کی مثالیں دے کر اُس کے سامنے ’ غبارِ خاطر والی چائے ‘ پھیکی لگنے کی بات کہنا بے مزہ کر دیتا ہے۔

اِن مضامین کے درمیان جہاں تہاں بیسیویں صدی کے نصف دوم میں بمبئی کی اردو صحافت کا منظر نامہ بھی دیکھا جا سکتا ہے اور اس پر مصنف کے تیکھے اور حقیقت افروز تبصرے بھی۔ مثلاً ایک شام نامے کے دفتر میں جس میں بمشکل سات آٹھ صحافی سما سکتے تھے، بارہ گھنٹوں میں تین اخباروں کے اوقاتِ کار تقسیم کر دیے گئے تھے، روزنامہ ’آشکار‘، شام نامہ ’آج‘ اور فلم ویکلی ’الماس‘۔ جاوید نے لکھا ہے : ’کمال کا Adjustmentتھا ع نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے۔ اسی طرح ناگپاڑا سے لے کرپائیدھونی تک کے کھانے پینے کے ان سستے اڈّوں کی تفصیل کو، جہاں اردو اخبارات کے صحافی شکم پُری اور لذّتِ کام و دہن دونوں کے تقاضے پورے کر لیتے تھے، جاوید نے کافی چٹخارے لے لے کر بیان کیا ہے لیکن سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ کوفتہ را نانِ تہی کوفتہ است۔ ایک بار وہ مستان تالاب میں کمیونسٹ پارٹی کے جلسے میں گئے تھے، لیکن کچھ نوٹ نہیں کر سکے۔ ’اردو رپورٹر‘ کے اپنے دفتر جا کر کچھ سنی سنائی اور کچھ اپنی طرف سے گڑھ کر ایک رپورٹ بنا دی اور کیفی کا نام ڈال دیا۔ رقم طراز ہیں : ’اچھی بات یہ تھی کہ اس زمانے میں بھی لوگ الیکشن کی تقریروں کو نہ غور سے سنتے تھے نہ دھیان سے پڑھتے تھے۔ ‘ اسی طرح اردو اخبارات کی افواہ پسندی اور غیر ذمّے دارانہ رپورٹنگ کا حال یہ تھا کہ اڈیٹر’ہندستان‘ نے کوما میں پڑے ہوئے اسٹا لن کی حالت نازک ہونے کی خبر سُن کر صفحہ اوّل پر سرخی لگا دی تھی کہ ’روسی ڈکٹیٹر اسٹالن فوت ہو گئے ‘؛اور وہ اتفاق سے سچ ثابت ہو گئی تھی۔ اردو صحافیوں کی بے کسی پر اُنھوں نے اپنے ساتھی عبدالحمید کے تذکرے میں لکھا ہے کہ ’اُس کے گھر کا گزارہ ریلوے ورک شاپ کی تنخواہ سے چلتا تھا۔ اخباروں میں لکھ کر اور کارٹون بنا کر جو ملتا تھا وہ تو بچوں کے بسکٹ خریدنے کے لیے بھی ناکافی ہوتا تھا۔ ‘ جاوید کی خود بیتی بھی کچھ الگ نہ تھی، لکھا ہے : ’جب میں نے صحافت چھوڑی یعنی ضمیر بیچنے سے توبہ کی تو حالات اتنے خراب ہو گئے کہ بیوی کے زیور بیچنے کی نوبت آ گئی۔ ‘اگرچہ ’صحافت چھوڑنے یعنی ضمیر بیچنے ‘کے رمز کی تفصیل سے وہ کنّی کترا گئے ہیں۔ اُنھوں نے سردار جعفری کے اِس دعوے ع ’ہر عاشق ہے سردار یہاں، ہر معشوقہ سلطانہ ہے ‘ کی نفی کرتے ہوئے لکھا ہے :’…یہ جھوٹ ہے۔ سلطانہ معشوقہ نہیں تھیں، وہ عاشق تھیں۔ ‘(رد، ص:74)سلطانہ نے سردار کی نوکری کی درخواستیں پھاڑ کر پھینک دی تھیں اور گھر چلانے کی ذمّے داری اپنے سر لے لی تھی، گو کہ سردار بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہے تھے لیکن سلطانہ ستّر سال کی عمر تک کام کرتی رہی تھیں (ایضاً)۔ جملۂ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ بیگم جعفری، بیگم فاروقی اور بیگم مہدی کی طرح کی کماؤ اور ایثار پیشہ بیویاں کچھ اور ادیبوں کو مل جاتیں تو اردو ادب کو کتنے سردار جعفری، شمس الرحمان فاروقی اور باقر مہدی مل جاتے !ان نیک خاتونوں کے بل بوتے پر تو فاروقی اور مہدی نے ’شب خون‘ اور ’اظہار‘ کی اڈیٹری کا شوق پورا کیا تھا، البتّہ جعفری کو اپنی ’گفتگو‘ جاری رکھنے کے لیے کچھ سرمایہ داروں کا سہارا مل گیا تھا۔

بمبئی میں ترقی پسندوں کے تعمیر کردہ ’عوامی ادارہ‘ کو مصنّف نے ایک کونے میں پڑی ہوئی بوسیدہ کتاب کی طرح پایا، جسے دیکھتے سب ہیں مگر پڑھتا کوئی نہیں۔ اس دور کے اِپٹا کے ڈراموں کے بارے میں انھوں نے بے لاگ لپیٹ لکھ دیا ہے کہ ہندی اور اردو میں ڈراما دیکھنے والے لوگ بہت کم ہیں اور پھر اِپٹا کے ڈراموں کے سلسلے میں لوگوں کی رائے بنی ہوئی تھی کہ اُن میں کمیونسٹ پارٹی کا پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ اُنھوں نے پیوپلس پبلشنگ ہاؤس کی کتابوں کی زبان کو جنّاتی بتایا ہے مثلاً: ’جدلیاتی ماہیت‘ اور ’استعماری فشار‘ وغیرہ اور ایمان داری سے لکھ دیا ہے کہ انھیں جو تھوڑا بہت مارکس ازم سمجھ میں آیا وہ فیض، سردار، منٹو، بیدی، عباس اور عصمت کو پڑھ کر آیا، PPPکی کتابوں سے نہیں۔ اردو شاعری کے زوال پر ایک جگہ رقم طراز ہیں : ’زیادہ تر شاعری ادب کے لیے نہیں، مشاعرے کے لیے کی جاتی ہے ‘ اور عصری تغیّر ات سے اردو ادب کی بے نیازی پر وارث علوی کا کیا کاٹ دار تبصرہ نقل کیا ہے :

’ویسے ادب کی حالت یہ ہے کہ آپ سال بھر تک کچھ بھی نہ پڑھیں تو بھی کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ‘

آخری بات یہ کہ مصنّف نے اپنی اِن کتابوں کے ناموں کے انتخاب کے سلسلے میں کوئی خاص دیدہ وری کا ثبوت نہیں دیا۔ اُن کی اوّلین کتاب میں شامل دس خاکوں میں سے نصف، مصنّف کے اقربا پر ہیں۔ جنھوں نے غالباً مصنّف کو طفلی سے لے کر جوانی کی منزلیں طے کرتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ اُن کے علاوہ سلطانہ اور آرزو مرحوم بھی مصنّف کی شادی و روزگار کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوئے تھے۔ نجانے مصنّف نے اتنی خاص اور قریبی شخصیتوں پر لکھی کتاب کے لیے ’روشن دان‘ کا نام کیوں پسند کیا!’روشن دان‘ مکان کی دیوار میں اونچائی پر بنا عموماً چوکور روزن ہوتا ہے، جس سے ہوا اور روشنی کا محدود گزر ہو پاتا ہے۔ مکین کو اُس تک دریچے کی سی دسترس حاصل ہوتی ہے نہ ویسی کشادگی اور وسعت نظارہ۔ سیڑھی یا کسی دوسرے وسیلے کے بنا وہ روشن دان تک نہیں پہنچ پاتا اور اُس کی تنگ دامنی اور فاصلے سے چھٹکی روشنی بھی مختصر سا قطعہ ہی منوّر کر پاتی ہے۔ دوسری کتاب کے نصف خاکے ستیہ جیت رے، حسین، وارث اور کیفی جیسی مشہور و معروف شخصیتوں پر ہیں۔ وہاں اپنے کاروباری، رسمی اور وقتی تعلقات کی محدود نوعیت کے با وجود مصنّف نے اسے ’لنگر خانہ‘ کا نام دے کر کچھ زیادہ ہی اظہارِ ممنونیت کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔

مجموعی طور پر جاوید صدیقی کی اِن کتابوں کا مطالعہ اُن کی عمدہ نثر اور حسنِ اسلوب کی بنا پر دل چسپی سے خالی نہیں۔

… … … … … … …

(نوٹ: ’رد‘ اور ’ل خ‘ ’روشن دان‘ اور ’لنگر خانہ‘ کے مخففّات ہیں اور میرے پیش نظر ان کتابوں کے اوّلین اڈیشن رہے ہیں۔ا ک )

٭٭٭

5 thoughts on “جاوید صدیقی کی خاکہ نگاری ۔۔۔ اسیم کاویانی

  • javed sidiqqi bilashuba ak bht aham khka nigar hn un ka roshandan k unan sy khako ka mjmoa mnzr am pr aya un k tmam khaky
    behtren aslob k hamil hn jo khaka nigari k fun pr pory utrty hn ak they bhai pr ki gai tnqeed jandar nhi h ak thy bhai un ka ak kamyab r behtren khaka h jis mn marksi nukta ujagr hta h r sat hi khamoshi r behtren andaz sy amer ki behisi r ghreb ki hmdardi ko byan kr dia gya h msanif ki bicycle k qisa ko ptrs ki bicycle sy tshbeeh dna drust nhi bicycle k qisa r us ki halt ko prhty wkt ya b zhn mn rkhna zrori h k asi bicycle kisi ameer ki nhi ghreb ki hi hoskty h r khaka nigar ny apny mashi halat biyan kiay hn jin ko paish nzr rkh kr bicycle ki khsta hali k biyan ki sdakt ka bakhobi azdaza l ga skty hn bilashuba ya khaka un ka behtreen khaka h marksi nzr sy iski ahmiat fun r aslob ki bina pr ya behtren khaka h jhan tk mozo shakhsiat k wakiat k mehdod hna h ya bja h mgr khaka nigar ny bht danishmndi ka sbot dty huay beshk chnd h i wakia t ka intkhab kia mgr tmam wakiat asy biyan kiay jo qari ko shakhsiat k bary mn mukml agahi dty hn dosry trf insani zndgi mn bht sy wakiat paish aty hn khaka nigar tmam wakiat ko biyan krny ka pabnd nhi hota javed sidiqi ny b wakiat k intakhab mn b fehmo frast sy kam lia h

  • javed sidiqqi bilashuba ak bht aham khka nigar hn un ka roshandan k unan sy pehla khako ka mjmoa mnzr am pr aya un k tmam khaky behtren aslob k hamil hn jo khaka igari k fun pr pory utrty hn ak they bhai pr ki gai tnqeed jandar nhi h ak thy bhai un ka ak kamyab r behtren khaka h jis mn marksi nukta ujagr hta h r sat hi khamoshi r behtren andaz sy amer ki behisi r ghreb ki hmdardi ko byan kr dia gya h msanif ki bicycle k qisa ko ptrs ki bicycle sy tshbeeh dna drust nhi bicycle k qisa r us ki halt ko prhty wkt ya b zhn mn rkhna zrori h k asi bicycle kisi ameer ki nhi ghreb ki hi hoskty h r khaka nigar ny apny mashi halat biyan kiay hn jin ko paish nzr rkh kr bicycle ki khsta hali k biyan ki sdakt ka bakhobi azdaza l ga skty hn bilashuba ya khaka un ka behtreen khaka h marksi nzr sy iski ahmiat fun r aslob ki bina pr ya behtren khaka h jhan tk mozo shakhsiat k wakiat k mehdod hna h ya bja h mgr khaka nigar ny bht danishmndi ka sbot dty huay beshk chnd hi wakiat ka intkhab kia mgr tmam wakiat asy biyan kiay jo qari ko shakhsiat k bary mn mukml agahi dty hn dosry trf insani zndgi mn bht sy wakiat paish aty hn khaka nigar tmam wakiat ko biyan krny ka pabnd nhi hota javed sidiqi ny b wakiat k intakhab mn b fehmo frast sy kam lia h

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے