اردو ادب کی تاریخ میں بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ یہاں سے نہ صرف فکشن کی اصل پر توجہ شروع ہوئی بلکہ موضوعاتی سطح پر بھی ایک تغیّر دیکھنے کو ملتا ہے، اسی طرح اسلوب اور تکنک کے وہ راستے جو گنجلک وادیوں کی طرف لے جاتے تھے انھیں بھی با معنی راہیں دکھائی گئیں، چنانچہ اسی آٹھویں دہائی میں اپنی شناخت بنانے والے افسانہ نگاروں نے جب ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھا تو موضوعات کے انتخاب میں بھی آنکھیں بند کر کے تقلید نہیں کی، بلکہ اُن موضوعات کا انتخاب کیا جو یا تو رات دن اُن کے مشاہدے میں تھے یا پھریا مطالعے کی کسوٹی نے اُنھیں قلم اُٹھانے پر مجبورکیاجس کے نتیجے میں شفق کے ناول، ’کانچ کا بازیگر‘، ’کابوس‘ اور’ بادل‘۔ انور خان کا ’پھول جیسے لوگ، ‘حسین الحق کا’ فرات‘، عبدالصمد کا ’دو گز زمین‘، ’خوابوں کا سویرا‘، ’دھمک‘، شموئل احمد کا ’ندی‘ اور ’مہاماری‘، عارف خورشید کا’ لہو لہو آرزو‘، سید محمد اشرف کا ’نمبر دار کا نیلا‘، الیاس احمد گدی کا ’فائر ایریا ‘، علی امام نقوی کا ’تین بتی کے راما‘، غضنفر کا ’ دو یہ پانی‘، ساجد رشید کا’جسم بدر ‘، احمد عثمانی کا’ زندگی تیرے لئے ‘، نورالحسنین کا’ آہنکار‘، ڈاکٹر احمد صغیر کا ’ جنگ جاری ہے ‘اور ’دروازہ بند ہے ‘، اور بالکل تازہ کار ادیب رحمان عباس کا ’نخلستان کی تلاش‘ اور مذکورہ ناول ’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی’ ہمارے سامنے ہے۔
ان ناولوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ زمین سے جُڑے ہوئے ناول ہیں ان کا پس منظر ’ماحول‘ کردار، علاقہ، رسم و رواج، بولی ٹھولی، کھیت کھلیان، باغ و چمن، پھل، پھول سب کچھ اپنی اصلی حالت میں دکھائی دیتے ہیں۔
ان ناولوں میں علاقائی رنگ و بو کے باعث بعض مقامات پر اجنبیت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ نئی زبان، محاورہ، لفٖظیات اور ماحول قاری کی نہ صرف دلچسپیوں کو بر قرار رکھتا ہے بلکہ اسے پورے ہوش و حواس سے مطالعے کی دعوت بھی دیتا ہے۔
رحمن عباس بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ادب کے افق پر نمودار ہوئے۔ یہ ان باکمال تعلیم یافتہ ادیبوں میں سے ایک ہیں جو بہ یک وقت اُردو، مرہٹی اور انگریزی ادبیات سے ٖ صرف واقفیت ہی نہیں رکھتے بلکہ گہرا شغف بھی رکھتے ہیں۔ دوسری خوبی رحمن عباس کی یہ ہے کہ وہ نہ تو کسی مصلحت کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی اُس معاشرے کی عکاسی کرنا چاہتے ہیں جسے اُنھوں نے بھوگا ہی نہیں ہے۔ وہ اپنی کھلی آنکھوں سے آج کے معاشرے کو دیکھ رہے ہیں اور سے پوری دیانت داری کے ساتھ سپرد قلم کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اُن کے قلم میں بے باکی بھی ہے اور اپنی بات پیش کرنے کا سلیقہ بھی۔
ناول ’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘ کوکن کے ایک دیہات ’سورل‘ کے بدلتے ہوئے سماجی، مذہبی، معاشرتی سروکار کے پس منظر میں ایک المیہ رومانی کہانی ہے۔ ناول میں موجود یہ رومان بھی پہلی نظر میں ہونے والا عشق نہیں ہے بلکہ اس کی شروعات ایک اتفاقی جنسی تجربے کی دین ہے، ناول کی ہیروئین سکینہ ایک شادی شدہ لا ولد خاتون ہے جس کا شوہر مجاور حسین ایک متموّل تبلیغی رجحانات کا حامل فرد ہے۔ عبدالعزیز کا جنسی تجربہ عنفوان شباب کے پہلے موسم کا تجربہ ہے یہ حادثہ اسے ایسے سرور سے آشنا کرتا ہے جو ساری زندگی اسے شاد رکھتا
ہے۔ اسی تجربے کی دین سے سکینہ کی گود ہری ہو جاتی ہے اور یوسف تولد ہوتا ہے۔ مجاور حسین اس اولاد کو اللہ کا انعام تصور کرتے ہیں۔ اور اسے دینی مدارس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یوسف ایک نہایت ہی ذہین لڑکا ہے خصوصاً اس کا حافظہ بہت تیز ہے۔ ایک دن وہ دینی عالم و حافظ کی صورت اپنے مقام ’سورل ‘ واپس آتا ہے۔ اور اپنی مذہبی سرگرمیوں کے باعث گاؤں کو متاثر کرتا ہے۔
عبدالعزیز کی ایک اور لڑکی شریفہ پاوسکر سے بھی دوستی ہے۔ جس سے اس کی پہلی ملاقات اپنے چچا کی سگائی کے موقع پر ہوتی ہے۔ اور دوستی پروان چڑھتی ہے کالج کی تعلیم کے دوران، شریفہ ایک آزاد خیال لڑکی ہے۔ ادب سے گہری دلچسپی رکھتی ہے۔ عبدالعزیز تعلیم مکمل کرنے کے بعد روزگار کی تلاش میں کویت چلا جاتا ہے روپیہ کماتا ہے اور اپنے آبائی مکان کو ایک شاندار بنگلے کی صورت عطا کرتا ہے۔ لیکن سکینہ کی محبت سے کسی پل بھی غافل نہیں رہتا۔
گاؤں میں مختلف مذہبی جماعتیں اپنا مشن جاری کرتی ہیں جس کے سبب شہریوں کے بدن پر ٹخنے سے اونچا پائجامہ، لمبا کرتا اور سروں پر جالی دار ٹوپیاں اور چہروں پر داڑھی آ جاتی ہے۔ ’سورل جہاں کی ہندو مسلم آبادی یا تو کوکنی زبان بولتی تھی یا پھر مرہٹی زبان میں تعلیم حاصل کرتی تھی۔ وہاں اب جماعتیں مرہٹی زبان کو ہندوؤں کی زبان قرار دیتی ہیں اور اردو کا چلن شروع ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سورل کی وہ گنگا جمنی تہذیب جس میں گنیش اتسو، دیوالی، دسہرا ہولی عرس، عیدیں مشترکہ طور پر منایا جاتا تھا اُن میں کافر اور مومن کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ خود مسلمان بھی مختلف فرقوں میں بٹ جاتے ہیں، ہر مسلک اپنے مسلک کو درست اور دوسرے کو باطل قرار دیتا ہے۔
عبدالعزیز شادی نہیں کرتا، اسے سکینہ سے ہی والہانہ عشق ہے اور سکینہ بھی اسے ٹوٹ کر چاہتی ہے اور دونوں کی خفیہ ملاقاتوں کا بندوبست بھی کرتی رہتی ہے۔
عبدالعزیز کوکن کی اس تہذیب کو زندہ رکھنا چاہتا ہے چنانچہ بعض معاملات میں وہ نہ صرف جماعتوں سے اختلاف رکھتا ہے بلکہ عملی اقدامات بھی کرتا ہے۔ جس کے سبب یوسف کو اُس سے شدید نفرت ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عبدالعزیز مذہبی امور کی پابندی نہیں کرتا تھا بلکہ اُلٹا جماعتوں کے شدّت پسند اصلاحی کاموں میں رخنہ ڈالتا تھا۔ نفرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایک بار اس نے سکینہ اور عبدالعزیز کی خفیہ ملاقات کو دیکھ لیا تھا۔ چنانچہ یوسف کا جذبۂ انتقام مذہبی بہانے کے آڑ لے کر اُس کا قتل کر دیتا ہے۔
یہاں عبدالعزیز کا قتل در اصل ایک شخص کا قتل نہیں تھا بلکہ ’سورل‘ کی اُس تہذیب کا قتل تھا جو صدیوں سے ہندوستان میں رائج تھی۔ اس رومانی کہانی کے بطن سے رحمن عباس نے مذہبی شدّت پسندی و تنگ نظری کو نشانہ بنایا ہے۔ ناول میں جگہ جگہ رحمن عباس کا مطالعہ اور اُن کی عملیت قاری کی معلومات میں اضافے بھی کرتی ہے۔
٭٭٭