اُردو غزل میں تصوّرِ زن
نسیم انجم
جب بات غزل کی ہوتی ہے تو زن کی طرف ذہن خود بہ خود چلا جاتا ہے چوں کہ لغوی اعتبار سے غزل کے معنی ہی عورتوں سے باتیں کرنے کے ہیں اور اس پوری کتاب میں شاعری کی کسی بھی صنف کے حوالے سے بات عورت کے حسن و جمال، ہجر و وصال اور اس پر ٹوٹنے والی قیامت تک ہی محدود ہے۔
غزل کو ہمیشہ ہی سے اُردو شاعری میں بلند مقام حاصل رہا ہے۔ ویسے تو غزل میں حسن و عشق کی داستانیں رقم کی جاتی رہی ہیں لیکن غزل کبھی بھی عشقیہ مضامین تک محدود نہیں رہی بلکہ اس میں زندگی کے تمام مسائل کوبہ خوبی بیان کرنے کی قدرت ہے۔
زمانے کی جہاں روش بدلی، وہاں غزل کے موضوعات میں بھی وسعت پیدا ہوتی چلی گئی۔ سیاسی و سماجی اور معاشرتی حالات، اندرونی و خارجی واقعات اور مختلف نظریات و خیالات کو غزل میں سمویا جانے لگا۔ غزل کے حسن اس کی ہیئت میں ذرا سا بھی فرق نہ آیا بلکہ اس کی شان بڑھتی چلی گئی۔ اس طرح غزل ایک ہمہ گیر صنف کی شکل اختیار کر گئی۔
اُردو میں غزل، فارسی غزل کے زیرِ اثر آئی اور اس صنف میں شعراء نے طبع آزمائی کی اور جلد ہی کام یابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ یوں تو اُردو کا پہلا شاعر امیر خسروؔ کو کہا جاتا ہے لیکن غزل کی ابتدا شمالی ہند کی بجائے دکن سے ہوئی اور پہلا صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ولیؔ دکنی کو اُردو شاعری کا اوّلین معمار تصور کیا جاتا ہے۔ مولانا محمدحسین آزادؔ کے مطابق ولیؔ اُردو شاعری کا باوا آدم ہے اور یہ شک گزرتا ہے کہ اُردو میں غزل کی ابتدا انہی سے ہوئی۔ ولیؔ کو یقیناً اس بات میں اوّلیت حاصل ہے کہ انہوں نے اُردو میں باقاعدہ غزل کی بنیاد ڈالی اور شمالی ہندوستان میں باقاعدہ اُردو شاعری کی تحریک پیدا کی۔ اُردو غزل کا جو مخصوص آہنگ ہے، اس کا تعین بھی ولیؔ نے کیا، غزل کے مزاج کی ترتیب میں انہیں بلا شبہ اوّل مقام حاصل ہے۔ ولیؔ دکنی کی ہی طرح ملا وجہیؔ کو بھی دکنی دور میں بے حد اہمیت اور مقبولیت حاصل رہی ہے۔ دکنی دور کا یہ شاعر محمد قلی قطب شاہ کا ہم عصر تھا۔ ملا وجہیؔ کی نمایاں خصوصیت اس کا سوز و گداز ہے۔ مثال کے طور پر یہی اشعار ؎
طاقت نہیں دوری کی اب تو بیگی آ مل رے پیا
تجھ بن منجے جیونا بہوت ہوتا ہے مشکل رے پیا
کھانا برہ کہتی ہوں پانی انجھو پیتی ہوں میں
تجھ نے بچھڑ جیتی ہوں میں کیسا سخت ہے دل رے پیا
ہر دم تو یاد آتا منجے اب عیش نہیں بھاتا منجے
برہا یوں ستاتا منجے شج باج تل تل رے پیا
جب ہم محمد قلی قطب شاہ کا ذکر کرتے ہیں ، تب ذہن کے دریچوں میں بہت ہی اہم کتاب ’’محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات‘‘ جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر شکیل الرحمن ہیں جن کا جمالیات کے حوالے سے اُردو ادب میں ایک خاص مقام و مرتبہ ہے۔
اس کتاب کو پڑھنے کے بعد محمد قلی قطب شاہ کا تصور کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ قلی قطب شاہ نے عورت کو کس انداز میں دیکھا ہے اور اس کے کون کون سے روپ اسے بھائے ہیں ۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ اس کا جمال محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کی جمالیات کا مرکز ہے۔ ایک بڑے حسن پسند اور حسن پرست اور ایک حیرت انگیز رومانی ذہن کے اس شاعر نے عورت اور اس کے جمال کو جیسے اپنے وجود میں جذب کر لیا تھا۔ ا س کے کلام میں رنگ و نور، نغمہ و آہنگ اور خوشبوؤں کی جو دنیا ملتی ہے وہ اسی جذبی کیفیت کی دین ہے۔ شاعر کی حسن پسندی نے ماحول کے تمام حسن کو سمیٹ لیا ہے۔ عورت کا معبود ایک نغمہ ہے۔ ڈاکٹر شکیل الرحمن محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کی خاصیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں عورتوں سے متعلق جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ مٹھاس اور شیرینی لیے ہوئے ہیں ۔ مثال کے طور پر یہ شعر ؎
چمن پھول سب باس خوشبو پائے
سگھڑ سندری جب اپس کیس کھولے
عورت کے تعلق سے یہ اشعار شاعر کے گہرے رومانی، جمالیاتی ذہن کو بڑی شدت سے نمایاں کرتے ہیں ؎
پیا کے نین میں بہوت چھند ہے
او دو زلف میں جیو کا آنند ہے
سجن یوں مٹھانی سوں بولے بچن
کہ اس خوش بچن میں لذتِ قند ہے
قلی قطب شاہ کی شاعری میں عورت کا حسن و جمال، ناز و انداز پنہاں ہے۔ انہوں نے عورت کو اسی انداز میں دیکھا، اس کے حسن و شباب کے گیت گائے ہیں ۔
مرزا محمد رفیع سوداؔ کی غزلیات عشقی جذبات سے مزین ہے۔ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی سوداؔ کی غزل گوئی پر بحث کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں ۔ ’’سودا کی غزلیات کا ایک حصہ جہاں خارجیت، معنی آفرینی، خیال بندی، تمثیل نگاری، سنگلاخ زمینوں میں سخن تراشی، قصیدے جیسے انداز اور بیان پر مشتمل ہے، وہاں ایک حصہ ایسا بھی ہے جو تجربات اور پُر خلوص جذبات کا آئینہ دار معلوم ہوتا ہے۔ یہاں بھی عشق کی ہی کہانی کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے ؎
عشق سے تو نہیں ہوں مَیں واقف
دل کو کچھ شعلہ سا لپٹتا ہے
جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے
اُردو شاعری اور خصوصاً غزل میں محبوب سے محبت، اس کی جدائی، ہجر و وصال کی داستانیں جنم لیتی ہیں ، جدائی کا کرب، محبوب کو کھو دینے کا غم، زندگی کا وبال بن جاتا ہے۔ تقریباً تمام ہی شعراء کی شاعری میں یہ کیفیت بدرجہ اتم موجود ہے، جس بھی شاعر کا کلام اُٹھا لیں غمِ جاناں سے پُر نظر آتا ہے۔ زندگی کے مسائل اپنی جگہ اور محبت کی تلخی اپنی جگہ۔ ۔
میر تقی میرؔ غزل کے میدان میں سب سے زیادہ کام یاب ہیں ۔ ان کا مزاج غزل کے مزاج سے خاص مناسبت رکھتا تھا۔ غزل سے خصوصی رغبت کی وجہ سے انھیں دوسری اصنافِ سخن کے مقابلے میں غزل میں نمایاں کام یابی حاصل ہوئی۔
دوسرے شعراء سے ان کا انداز مختلف ضرور ہے لیکن احساسات و جذبات ہر گز مختلف نہیں ۔ وہ بھی اپنے اندر ایک نازک و حساس دل رکھتے ہیں ۔ جب کبھی کوئی انھیں تکلیف پہنچاتا ہے تو وہ بھی کرب سے چیخ اُٹھتے ہیں اور یہ غم و تکلیف ان کی شاعری میں بے حد نفاست کے ساتھ جگہ بنا لیتی ہے۔ ویران دل کا حال اس طرح بیان کر رہے ہیں ؎
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
میرؔ کو محبوب کی اَدھ کھلی آنکھوں میں شراب کا نشہ نظر آتا ہے۔ وہ اس کی نشیلی آنکھوں کے دیوانے ہیں اور اسی دیوانگی نے ہی ان سے یہ شعر کہلوایا ہے ؎
میر اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
انھوں نے اپنے محبوب کی جدائی کے قصے کو اس طرح شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے ؎
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
اس طرح کے جینے کو کہاں سے جگر آوے
میرؔ کے پاس اتنا دل گردہ اور حوصلہ نہیں ہے کہ جب محبوب کا نام آئے تو وہ بے تعلق اور بے حسی کا مظاہرہ کریں ۔ انہیں یہ کسی قیمت منظور نہیں ہے کہ انہوں نے اسے دل و جاں میں بسایا ہے۔ یقینی بات ہے اس کی یاد انھیں بے چین و بے کل کر دیتی ہے کہ محبت سچی ہے ؎
میرؔ جی رازِ عشق ہو گا فاش
چشم ہر لحظہ مت پُر آب کرو
میرؔ اپنے د وست کو، اپنے چاہنے والے کو یاد کر کے رونے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ ان کا محبوب حسن و جمال میں یکتا ہے۔ اس کی خوب صورتی چاند جیسی ہے، مہتاب جیسا روشن چہرہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہے لیکن حسین تصور سے زیادہ تلخ حقیقت سے بھی وہ اسی لیے گریہ و زاری پر مجبور ہوئے ہیں لیکن بہت خاموشی کے ساتھ کہ محبوب کی رسوائی نہ ہو۔ ایک سچے عاشق کا حال کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار جو میرؔ کی حالتِ زار کو عیاں کر رہے ہیں ؎
یاد آوے ہے جب شب کو وہ چہرہ مہتابی
آنسو مری پلکوں سے تارے سے چھٹکتے ہیں
ہم طورِ عشق سے تو واقف نہیں مگر ہاں
سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے
جب بات غزل کی ہو گی تو خواجہ میر دردؔ کا نام لبوں پر ضرور آئے گا کہ میر دردؔ غزل کی شان اور آن بان ہیں ۔ خواجہ میر دردؔ کا خاص حوالہ تصوف ہے۔ وہ ایک صاحبِ عرفان بزرگ تھے لیکن ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں دنیاوی و مادی عشق کے تجربات بھی شامل ہیں ۔ شاید اسی عشق کی گرمی و تپش کی وجہ سے ہی امیرؔ مینائی کو چھپی ہوئی بجلیوں کا گمان ہوتا ہے۔
خواجہ میر دردؔ کی شاعری کے مطالعے کے بعد اس بات کا احساس بہ خوبی ہو جاتا ہے کہ ان کی شاعری میں وہ ہی جذبات اور احساسات موجود ہیں جو عام انسانی رشتوں کے ناتے وجود میں آئے ہیں ۔ چند اشعار نمونے کے طور پر ؎
قتلِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر مرے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا
شوخ تو اور بھی ہیں دنیا میں
پر تری شوخی کچھ عجیب ہے واہ
دردؔ کو اپنا محبوب بڑا ہی نرالا نظر آ تا ہے، اس جیسا پوری دنیا میں نہیں اور یہ ہی چاہت و محبت کی معراج ہے کہ اس کائنات میں ایک ہی شخص ایسا ہے جسے میر دردؔ کی محبت و چاہت نصیب ہوئی ہے۔
میرؔ بھی دوسرے شعرا کی طرح اپنے محبوب کی شوخی اور اس کی بے وفائی کا ذکر منفرد انداز میں کرتے نظر آتے ہیں اور محبت و عشق کے جذبات سے ان کا دل لبریز ہے۔ انہوں نے بھی اسی طرح محبت کی ہے جس طرح دوسرے لوگ کرتے ہیں ، بس فرق اتنا ہے کہ وہ عام لوگوں سے جدا ہیں ؎
میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے
مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا
دبستانِ دلی کی شاعری اپنے موضوع اور اسلوب دونوں اعتبار سے سادگی اور صفائی کی حامل نظر آتی ہے اور ایک قلندرانہ شان سے ہم آہنگ ہے۔ جب کہ دہلی کے مقابلے میں لکھنؤ کی رنگین فضا میں اُردو شاعری ایک نئے انداز سے سامنے آئی۔
لکھنؤ کے معاشرے میں عورت کو خصوصی اہمیت دی جانے لگی۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھنوی معاشرے کو عورت کا معاشرہ قرار دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شعر و سخن پر نسوانیت کا اثر غالب آ گیا تھا۔ مثال کے طور پر مختلف شعراء کے یہ اشعار ؎
اوپری تجھ کو خدا نے دی ہے صورت نور کی
تری ایڑی پر کروں صدقے میں چوٹی حور کی
(رندؔ)
تیرے چھڑیوں کے دوپٹے سے جو ملتا ہے مزا
لطف یہ پاتے ہیں ہم چھڑیوں کا میلہ دیکھ کر
(رشکؔ)
پھوٹ بہنے دو انھیں یار کے آگے آتشؔ
دل کا احوال بھی آنکھوں کو بیاں کرنے دو
(آتشؔ)
تمام عمر یوں ہی ہو گئی بسر اپنی
شبِ فراق کٹی اور انتظار آیا
(ناسخؔ)
دبستانِ دہلی ہو یا لکھنؤ، ہر شاعر نے بہ حیثیت انسان عورت کی محبت کو اپنے خانۂ دل میں جگہ دی ہے اور اس کی جدائی میں نالہ و فریاد شاعری کی شکل میں کیا ہے۔ گویا ان شعرائے کرام کا تصورِ زن، عورت کو اپنی سانسوں اور خوابوں میں بسانا، اس کی پوجا کرنا ہے۔ اس کی خوب صورتی پر فدا ہونا اور اس کی محبت اور توجہ کا حصول، خاص مقصد نظر آ تا ہے یا پھر فطری جذبات کا اظہار ہے۔ یہ قدرتی بات ہے کہ صنفِ مخالف میں ایک کشش ہے اور یہ کشش ہی اپنے محبوب کو پا لینے کی آرزو کرتی ہے۔
رشید احمد صدیقی نے غزل کو اُردو شاعری کی آبرو کہا ہے۔ اس حوالے کی روشنی میں ہم یہ بات اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ جگرؔ مراد آبادی ان شعراء میں سے تھے جو جدید غزل کی آبرو تھے۔ جن شعراء نے غزل کو نئے زمانے کے تقاضوں سے آشنا کیا، ان میں حسرتؔ موہانی، فانیؔ اور اصغرؔ کے ساتھ جگرؔ کا نام لازم و ملزوم ہے۔ جگرؔ نے شاعری میں مختلف اندازِ بیاں اختیار کے ہیں اور ہر جگہ ان کی بے ساختگی، ندرتِ بیاں ، والہانہ پن، سادگی و شعریت سے بھر پور انداز ایک نئی فضا قائم کر دیتا ہے۔ عشق و محبت کے خمیر میں گندھے ہوئے اشعار قارئین کے دل میں اُتر جاتے ہیں ۔ ان کی یہ غزل جس میں نغمگی بھی ہے، کیف و سرور بھی ہے ؎
محبت کار فرمائے دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ ہر دنیا دلِ شائستۂ غم ہوتی جاتی ہے
ہر اک صورت، ہر اک تصویر مبہم ہوتی جاتی ہے
الٰہی! کیا میری دیوانگی کم ہوتی جاتی ہے
ایک اور غزل ؎
نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے
نہ آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے
ستاتے نہیں وہ تو ان کی طرف سے
خود اپنے ستانے کو جی چاہتا ہے
کوئی مصلحت روک دیتی ہے ورنہ
پلٹ دیں زمانے کو جی چاہتا ہے
تجھے بھول جانا تو ہے غیر ممکن
مگر بھول جانے کو جی چاہتا ہے
تری آنکھ کو بھی جو بے خواب کر دے
وہ فتنہ جگانے کو جی چاہتا ہے
حسین تیری آنکھیں ، حسیں تیرے آنسو
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
جگرؔ اب تو وہ ہی یہ کہتے ہیں مجھ سے
میرے ناز اُٹھانے کو جی چاہتا ہے
ایک اور غزل کے چند اشعار ؎
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کب کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
اصغرؔ گونڈوی کا شمار بھی غزل کے اہم شعراء میں ہوتا ہے۔ اصغرؔ گونڈوی کی شاعری میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہے لیکن اصغرؔ گونڈوی کا تغزل نہایت دل کش ہے۔ وہ مومنؔ اور حسرتؔ کی سی شعریت اور تغزل تو پیدا کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں لیکن مومنؔ اور حسرتؔ کی سی رندانہ جرأت ان کے یہاں نہیں ۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ؎
کیا مرے حال پہ سچ مچ انھیں غم تھا قاصد
تو نے دیکھا تھا ستارہ سرِ مژگاں کوئی
نہ پوچھو مجھ پہ کیا گزری ہے مری مشقِ حسرت سے
قفس کے سامنے رکھا رہا ہے آشیاں برسوں
رشید احمد صدیقی نے فانیؔ بدایونی کو یاسیت کا امام لکھا ہے تو غلط نہیں کہا کہ فانیؔ بدایونی کی تمام شاعری ذاتی حالات اور داخلی کیفیات کا آئینہ ہے۔ فانیؔ بدایونی اپنے گھر اور باہر بہت سے صدموں سے دو چار ہوئے اور یاسیت کا یہی رنگ ان کی شاعری پر غالب آ گیا ہے۔
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا
دل اس کے ساتھ نکلے گا اگر یہ دل سے نکلے گا
گم کردہ راہ ہوں قدمِ اوّلیں کے بعد
پھر راہ بر مجھے نہ ملا راہ بر کو میں
بتا اب اے جرسِ کارواں کدھر جاؤں
نشانِ گردِ رہِ کارواں نہیں ملتا
حسرتؔ موہانی اور غزل کو لازم و ملزوم کہا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ حسرتؔ موہانی کا غزل سے جنون کی حد تک عشق ہے۔ حسرتؔ موہانی نے غزل کے مردہ جسم میں نئے سرے سے روح پھونک کر اسے وہ توانائی بخشی کہ اُردو کی دوسری اصنافِ سخن اس سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہ کر سکی۔
حسرتؔ کے رنگا رنگ دیوان میں عشق کا رنگ بھی بڑا گہرا نظر آتا ہے۔ ان کے تصورِ زن کو آنکھوں میں بسانے اور دل میں اُتارنے میں کہ ان کا کلام دل میں بسنے کے ہی قابل ہے ؎
آئینہ میں وہ دیکھ رہے تھے بہارِ حسن
آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے
اللہ رے جسمِ یار کی خوبی کہ خودبخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
بزمِ اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے
ہاتھ آہستہ مرا پھر بھی دبا کر چھوڑا
حالیؔ کی ابتدا کی غزلیں صفِ اوّل کا شاہکار ہیں ۔ غزل کا ایک شعر ؎
عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید
خودبخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا
اُردو غزل کا روشن ستارہ مرزا اسد اللہ خان غالب شاعری کے افق پر صدیوں سے جلوہ گر ہے اور اس حقیقت سے کسی کو انحراف نہیں کہ میرؔ کے بعد غالبؔ اُردو شاعری کے میدان میں سب سے بلند اور منفرد نظر آتے ہیں ۔ غالبؔ فطرت کی کھلی کتاب کا اپنے علم اور مشاہدات کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں ۔ غالبؔ کی شاعری مختلف رنگوں اور موضوعات کے تنوع سے مرصع ہے۔ بلاشبہ وہ ایک آفاقی شاعر ہیں ۔
غالبؔ کی شاعری میں محبت و الفت اور اس کی رونقیں جا بہ بجا موجود ہیں ۔ ان کے تصورِ زن کو دیکھنے کے لیے غالبؔ کی شاعری کا مطالعہ اور اس کا احاطہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ ان کا مشہورِ زمانہ شعر جس میں انہوں نے اس بات کی وضاحت بے حد خوب صورتی کے ساتھ کی ہے کہ مریضِ عشق اپنے محبوب کی جدائی میں بیمار پڑ گیا ہے اور اس کا علاج صرف اور صرف اس کی دید ہے، محبوب کی دید شاعر کے لیے تحفۂ عید ثابت ہو گی۔ وہ کہتے ہیں ؎
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
اپنے محبوب کو یاد کر رہے ہیں اور اس کی یاد، جدائی کا احساس اشعار کے قلب میں ڈھلتا جا رہا ہے ؎
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل جگر تشنہ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
پھر ترے کوچے کو جاتا ہے خیال
دلِ گم گشتہ مگر یاد آیا
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا
ڈاکٹر محمد حسن کے مطابق غالبؔ کا عہد ایک عظیم تہذیب کا اختتامیہ تھا اور نئی قدریں وضع نہیں ہوئی تھیں ۔ اس عمرانی خلاء میں غالبؔ کا وجود ایک نقشِ فریادی کی طرح اُبھرتا ہے اور نا کردہ گناہوں کی داد طلب کرتا ہے۔
یقیناً غالبؔ کا بیشتر کلام حسرتؔ و یاسؔ کا نمونہ ہے لیکن اس کے باوجود شوخی اور طنز و مزاح نے ان کے کلام کو اثر انگیز بنا دیا ہے۔ ان کی شاعری قاری کو ہرگز مایوس نہیں کرتی ؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
اُردو شاعری کی پوری تاریخ اور خصوصاً غزلیہ شاعری میں ، عورت جلوہ فگن نظر آتی ہے۔ اس کے مختلف انداز ہیں ، کہیں وہ محبت کی دیوی ہے تو کہیں بے وفائی کی تصویر۔ کہیں حسرت و تمنا کی شکل میں موجود ہے تو کہیں زندگی میں رنگ و نور بکھیرنے میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔
مومن خان مومنؔ کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ غزل کو روایت کے سانچے سے نکال کر باہر کی فضاؤں (ان کا محبوب اور رقیب دونوں کھلی فضاؤں میں سانس لیتے ہیں ) ہر شاعر کی طرح مومنؔ کی شاعری بھی عشق کے مثلث کے گرد گھومتی ہے۔ مومنؔ کا محبوب پردہ نشین ہے۔ وہ اپنی غزلیات میں اپنے محبوب کی نقاب کشائی کرتے ہیں ۔ ان کی غزلیات میں محبوب کا عکس کچھ اس طرح منور ہے ؎
میرے آنسو نہ پوچھنا دیکھو
کہیں دامان تر نہ ہو جائے
رشکِ دشمن بہانہ تھا سچ
میں نے ہی تم سے بے وفائی کی
عشق کی رنگا رنگی اور محبت کے جنون کو انہوں نے لفظوں کا جامہ اس طرح پہنایا ہے ؎
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
سچ ہے، عشق و محبت کسی کی میراث نہیں ۔ یہ جذبہ فقیر و ولی کے دل میں بھی جاگ سکتا ہے اور بادشاہ کی بادشاہت اور اس کی انا و تکبر پر بھی غالب آسکتا ہے۔ پھر تخت و تاج کی کس کو پروا، بس مرنا جینا عشق ہے، صحراؤں ، جنگلوں ، مرغ زاروں ، محلوں میں عشق ہی جلوہ دکھاتا ہے۔ جنونِ عشق کے حوالے سے کئی بادشاہ اور ان کی محبت و سلطنت تاریخ کے اوراق میں سما چکی ہے۔ جہانگیر اور نور جہاں کی مثالی محبت نے بھی اپنی چمک دمک دکھائی لیکن محبت اور بادشاہت کے حوالے سے میری نگاہ بہادر شاہ ظفرؔ کے کلام پر جا کر ٹھہر گئی ہے۔ بہادر شاہ ظفرؔ کو بھی اپنے محبوب سے بات کرنی اور اس کا دیدار کرنا پڑا ہی مشکل ترین نظر آ رہا ہے کہ حالات ان کے حق میں نہیں ہیں ۔ با اختیار ہوتے ہوئے بھی کاروبارِ زندگی اور محبت کے معاملے میں بے اختیار نظر آتے ہیں ۔ کس قدر متاثر کن اور سوز و ساز سے آراستہ یہ غزل ہے ؎
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
اس کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو
کہ طبیعت میری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی
عکسِ رخسار نے کس کے لیے تجھے چمکایا
تاب مجھ میں مہِ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی
اب کی جو راہِ محبت میں اُٹھائی تکلیف
سخت ہوتی کہیں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی
بہادر شاہ ظفرؔ محبت کے رنگین جال میں بری طرح جکڑے جا چکے ہیں ۔ محبوب کی آنکھوں کے سحر نے ان کی زندگی ہی بدل دی ہے۔
اس حقیقت میں شک کی گنجائش ہے ہی نہیں کہ محبت انسانی زندگی میں تبدیلی لانے کا باعث بنتی ہے۔ اب تبدیلی خوشی اور کام یابیوں کے حوالے سے ملے یا محبت کی ناکامی کی صورت میں اپنے اپنے حالات و واقعات اور قسمت کی بات ہے۔ کوئی جیل کی سنگلاخ چٹانوں سے اپنا سر ٹکراتا ہے تو کوئی صحراؤں کی خاک چھانتا ہے اور کسی کا منزل استقبال کرتی ہے اور کوئی محبوب کے ہاتھوں مقتول بن جاتا ہے۔ محبوب جس طرح چاہے ستم کر سکتا ہے اور عاشق بے چارہ تو دیوانگیِ عشق میں اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھا ہے۔ اسے اپنے اچھے برے کی ذرّہ برابر تمیز نہیں ہوتی لیکن بہادر شاہ ظفرؔ کا یہ کہنا ہے کہ میرے تو اوسان خطا ہو گئے ہیں اور میں جنون کی حد تک اس کی محبت میں مبتلا ہوں تو کوئی میرا غم گسا ر نہیں تھا جو میرے محبوب کو میرے عشق و محبت کے بارے میں بتاتا اور اسے مجبور کرتا کہ وہ آ کر مرا حالِ زار دیکھے کہ میرا اس کی جدائی میں کیا حال ہوا ہے۔ دیکھیے یہ اشعار آئینۂ دل کے عکاس ہیں ؎
کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا
کوئی یاں تک اسے لایا تو ہوتا
مزہ رکھتا ہے زخمِ خنجرِ عشق
کبھی اے بوالہوس کھایا تو ہوتا
کیا کس جرم پر تو نے مجھے قتل
ذرا تو دل میں شرمایا تو ہوتا
دل اس کی زلف میں اُلجھا ہے کب سے
ظفرؔ اِک روز سلجھایا تو ہوتا
اخترؔ شیرانی نے اپنے دل کا حال غزل کی شکل میں اس طرح بیان کیا ہے اور اپنے دوست کے حسن و عشق سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں ۔ انھیں شکایت ہے کہ ان کا محبوب فراق کی گھڑیاں بخش کر چلا گیا ہے اور اب وہ تنہائی اور فراق کے دکھ سہنے پر مجبور ہیں ؎
وہ دور سے نقاب اُٹھا کر چلے گئے
آنکھوں پہ بجلیاں سی گرا کر چلے گئے
سینے میں اِک تپش سی بسا کر چلے گئے
کیسے مزے کی آگ لگا کر چلے گئے
ساحرؔ لدھیانوی کی غزلوں کے ترش و شیریں ذائقے کو بھلا کون فراموش کر سکتا ہے اور ساحرؔ کے راز و نیاز سے بھلا کون واقف نہیں ، عشق و محبت کے شاعر ساحرؔ لدھیانوی کے دل سے نکلے ہوئے اشعار دل میں اُتر جاتے ہیں ۔ آئیے ان کا حالِ دل پڑھتے ہیں ؎
تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
مایوسیِ مآلِ محبت نہ پوچھیے
اپنوں سے پیش آتے ہیں بیگانگی سے ہم
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ اُمید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم
مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی، والا معاملہ ساحرؔ لدھیانوی کے ساتھ پیش آیا۔ انہوں نے محبت کے معاملے میں ثابت قدم رہنے کا عزم کیا ہے۔ اس حقیقت کا اظہار پوری غزل میں نمایاں ہے ؎
جرمِ الفت پہ ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں
کیسے نادان ہیں شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
ہم سے دیوانے کہیں ترکِ وفا کرتے ہیں
جان جائے کہ رہے بات نبھا دیتے ہیں
آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں
ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں
تخت کیا چیز ہے لعل و جواہر کیا چیز
عشق والے تو خدائی بھی لٹا دیتے ہیں
اُستاد قمرؔ جلالوی بھی محبت کے معاملے میں ذرّہ برابر پیچھے نہیں ۔ بقول آتشؔ۔ یہ وہ آتش ہے۔ وہ محبت کے خارزاروں میں ننگے پاؤں چلے ہیں اور اس قدر آگے نکل گئے کہ زندگی کا سفر تھمنے پر آ گیا ہے۔
قمرؔ جلالوی اپنے محبوب کی بے وفائی کا ذکر بھی بے حد محبت بھرے انداز میں کر رہے ہیں ۔ انھیں اپنے محبوب سے کچھ شکایتیں بھی ہیں ، اس کی بے وفائی کا گلہ اور اپنی بے مثال محبت اور جنونِ عشق کا احساس بھی ہے جس کا تذکرہ انہوں نے بے حد نفاست اور محبت کے احساس کے ساتھ کیا ہے ؎
مریضِ محبت انھیں کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر ذکر شامِ الم کا جب آیا چراغِ سحر بجھ گیا جلتے جلتے
انھیں خط میں لکھا تھا دل مضطرب ہے جو اب ان کا آیا محبت نہ کرتے
تمہیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے
شاعر پر محبوب کی محبت بوجھ بنی ہوئی ہے کہ اس کی توجہ و التفات کو حاصل کرنے میں وہ ناکام ہو چکے ہیں اور بے حد مایوسی کا عالم، نزع کا عالم ہے اور آنکھوں کے آگے سفر آخرت کا، یاسیت بھرا منظر، محبوب کے فراق کو مایوسی اور کرب ناکی میں بدل رہا ہے۔
گویا قمرؔ جلالوی کے ہاں تصورِ زن محبوب کی چاہت، اس کی جدائی، ملاقات کی تمنا کے گرد گھومتا ہے۔
غزل کے یہ اشعار جو سوز و گداز کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ، قاری کے دل و دماغ پر محبت اور اس کی ناکامی کے اثرات اثر انداز ہوتے اور وہ بھی شاعر کے غم میں برابر کا شریک ہو جاتا ہے۔ درد و غم سے آراستہ و پیراستہ یہ غزل دیکھیے ؎
کب مرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اُتارا کرتے ہیں
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی للہ تم اُٹھ کر نہ آ سکے
دوچار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں
ساغرؔ صدیقی اُردو شاعری خصوصاً غزل کے حوالے سے اہم نام ہے۔ ان کی غزلیات دل کو گرماتی ہیں اور ایک ایسی فضا میں لے جاتی ہیں ، جہاں محبت کی دھیمی دھیمی آنچ ہے، یاسیت کے اندھیروں میں روشنی ہے اور شاعر کی بے بسی سرِ عام کھڑی نوحہ کناں ہے۔ اس کا دل و دماغ مضطرب و بے چین نظر آ رہا ہے۔ اس کی آہ میں ایک التجا ہے۔ اس کی چاہ میں ایک سوز ہے ؎
چراغِ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اُٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے
انھوں نے اپنی شاعری کو جدت طرازی کے رنگ و آہنگ میں سمو دیا ہے۔ ایک اچھوتا سا انداز ہے جو قارئین کو متاثر کیے بنا نہیں رہتا ہے۔
ساغرؔ صدیقی کی یہ غزل مے و ساغر میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے کہ ان کا تخلص ساغرؔ نے ان کی شاعری نے خود شاعر کو مکمل طور پر اپنے اندر جذب کر لیا ہے ؎
میں تلخیِ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام، پریشاں تھی زلفِ یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
کمال کی بات تو یہ ہے کہ وہ مے نوشی کا الزام بھی اپنے سر رکھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ اس کا ذمے دار بھی حالات کو ٹھہرتے ہیں بلکہ انہوں نے فیض احمد فیضؔ اور دوسرے شعراء کرام کی طرح نظمیہ شاعری میں ہی مقبولیت اور اہمیت حاصل نہیں کی بلکہ ان کی غزلیات نے بھی اُردو شاعری میں اپنی جگہ بنائی ہے اور خاص و عام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ فیضؔ کی غزلیں شگفتگی و نغمگی سے آراستہ ہیں ۔ وہ بھی محبت کی آنچ میں اور ہولے ہولے جلے ہیں اوردوست کے فراق میں تڑپے ہیں ۔ ان کا تصورِ زن بھی د وسرے شعراء سے جدا نہیں ہے اور اس بات کی گواہی ان کے اشعار میں موجود ہے ؎
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو! صبا سے کچھ نہ کوہ
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
جو ہم پر گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
اپنے لہجے کے کھرے اور انقلابی شاعر جالب اپنی غزلیات میں ذرا مختلف نظر آتے ہیں اور دھیمے لہجے میں اپنی دل کے داستان بیان کر رہے ہیں کہ ان کا محبوب کوئی آمر یا جمہوریت دشمن تو ہے نہیں بلکہ نازک اندام من مو ہنی صورت والا محبوب ہے، جس نے ان کے دل و دماغ پر قبضہ جما لیا ہے۔ دل کی بات کہہ کر وہ خوش نہیں رہ سکے، اس لیے کہ ان کی قسمت میں دکھ درد اور جدائی کے شب و روز در آئے ہیں ؎
دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اسی بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
جناب احمد ہمدانی کا شاعری اور خصوصاً غزلیات میں اہم مقام ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی احمد ہمدانی کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ ’’احمد ہمدانی غزل کا شاعر ہے، اس کی فکر کے جوہر اور اس کے احساساتِ زندگی کے کسی ایک رخ یا کسی خاص پہلو ہی پر محیط نہیں ، ان میں ہمہ گیری اور موضوعات کا تنوع ہے۔ محبت کی سلیقہ مندی اور گل و ثمر کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے کی شدید خواہش بھی ہے۔ ‘‘
مجنوں ؔ گورکھپوری کی رائے کے مطابق ان کی غزلوں میں جو ان کا اصلی سرمایہ ہے۔ ایمائیت اور ابہام کے باوجود کسی قسم کا الجھاؤ پیدا نہیں ہوتا۔ خصوصیت کے ساتھ فراقؔ اور فیضؔ کی آوازوں کے ارتعاشات ان کی غزلوں میں محسوس ہوتے ہیں مگر یہ ارتعاشات ان کے اپنے تاثرات اور اپنے لہجے میں سموئے ہوئے ہیں ۔ وہ اپنے ہم عصر اُردو کے غزل سراؤں میں اپنا منفرد انداز رکھتے ہیں ۔ یہ مجموعہ (پیاسی زمین) غزلیات پر مشتمل ہے اور ہمدانی غزل کے شاعر ہیں ۔
جناب احمد ہمدانی کی غزلیات میں جدائی کا دکھ، محبوب کی بے وفائی اور ذات کا کرب اور تلخیِ زمانے کا رنگ بہت گہرا اور دیرپا ہے۔ یہ غم ان کی سانسوں اور خون میں شامل ہو چکا ہے۔ قاری کو اشعار کی گہرائی اور گیرائی متاثر کیے بنا نہیں رہتی۔ ساز و سوز سے پُر اشعار نے ایک مسحور کن کیفیات سے دوچار کیا ہے ؎
کب اس سے فرق کہیں چاہتوں میں پڑتا ہے
یہ بات سچ ہی سہی کوئی ہم سے روٹھا ہے
کٹی ہے عمر محبت کی، جب کہیں جا کر
ہوا یہ درد سا حاصل جو آج اٹھتا ہے
ایک اور غزل کے چند اشعار ؎
نہ آرزو، نہ تمنا کہاں چلے آئے
تھکن سے چور یہ تنہا کہاں چلے آئے
رکی رکی سی ہوائیں ، گھٹا گھٹا ماحول
یہ رات رات اندھیرا کہاں چلے آئے
گھروندا ایک بنایا تھا ہم نے خوابوں کا
گرا کے خود وہ گھروندا کہاں چلے آئے
شعروسخن کے قدردان اور قارئین و ناقدین اچھی طرح اس بات سے واقف ہیں کہ جونؔ ایلیا نے عورت کو کس طرح دیکھا اور اپنی داخلی و خارجی کیفیات کو شاعری کے رنگ و آہنگ میں کس انداز میں سمویا ہے۔ جونؔ ایلیا کا نام شاعری کے باب میں ستاروں کی طرح چمک رہا ہے۔ آئیے ہم بھی دیکھتے ہیں ، ان کی طرزِ ادا اور طرزِ بیاں ؎
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمہاری ہے
اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتظاری ہے
سحرؔ انصاری علم و ادب اور شعر و سخن کے حوالے سے ایک اہم شخصیت ہیں ۔ ان کی شاعری بھی غمِ زمانہ، غمِ عشق اور غمِ جاناں سے سجی ہوئی ہے۔ احساس کی تپش نے شعر و سخن کے قالب میں سوز کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ انھیں اپنے ہم راز سے دلی محبت ہے۔ اس لیے اسے پریشان دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھے ہیں ۔ ان کی بے قراری اور اضطرابی کیفیت ان کے کلام میں جا بہ جا نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ چند اشعار شاعر کی دلی حالت کے غماز ہیں ؎
کیا کسی لمحۂ رفتہ نے ستایا ہے تجھے
ان دنوں میں نے پریشان سا پایا ہے تجھے
تیری تنویر سلامت مگر اے مہر جبیں
گھر کی دیوار پہ یوں کس نے سجایا ہے تجھے
شکوۂ تلخیِ حالات بجا ہے لیکن
اس پہ روتا ہوں کہ کیوں میں نے رلایا ہے تجھے
شاعرؔ صدیقی شاعری کے حوالے سے ممتاز شخصیت ہیں ۔ انھوں نے اپنی عمر اسی کوچے میں بسر کی ہے۔ اسی لگن اور شعری جنون کے نتیجے میں ان کی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں ۔
دیکھتے ہیں انہوں نے زندگی کو کس طرح بسر کیا ہے اور عشق و محبت نے کیا گل کھلائے ہیں اور وہ محبت کے سفر میں کس طرح ثابت قدم رہے۔ ان کی شاعری کے مطالعے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے قناعت جیسے اعلیٰ وصف کو اپنا شعار بنا لیا ہے ؎
کچھ اس طرح سے غمِ زندگی گوارا کیا
جو اشک آنکھ میں آیا اسے ستارا کیا
بس ایک عشق کافی تھا زندگی کے لیے
مواقع خوب ملے عشق نہ دوبارہ کیا
جو کر گیا ہے حوالے مجھے اندھیروں کے
عجیب شخص تھا وہ جس کو نین تارا کیا
عبید اللہ علیمؔ غزل کی دنیا میں زندہ و تابندہ نظر آتے ہیں اور پریم کہانی کچھ اس طرح سنا رہے ہیں ؎
تیرے پیار میں رسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ
جانے کیا کیا پوچھ رہے ہیں یہ جانے پہچانے لوگ
جیسے تمہیں ہم نے چاہا ہے کون بھلا یوں چاہے گا
مانا اور بہت آئیں گے تم سے پیار جتانے لوگ
جناب سعید الظفرؔ صدیقی کا تصورِ زن بھی اپنے ہم عصر شعراء سے جدا نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے احساسات اور جذبات کو شاعری کا خوش رنگ دوشالا اس طرح اُوڑھایا ہے کہ محبت کا رنگ واضح ہو گیا ہے ؎
تمہارا بھی محبت میں کوئی کردار ہونا تھا
ہمیں تو خیر سے رسوا سرِ بازار ہونا تھا
گماں تھا ان سے اب کی بار کھل کر گفتگو ہو گی
خبر کیا تھی یہ محشر بھی پسِ دیوار ہونا تھا
سعید الظفرؔ صدیقی کام یابیوں کے سفر پر گامزن رہے ہیں ۔ یقیناً یہ ان کی خوش بختی ہے لیکن یکسانیت بھی کیا چیز ہے اور ساتھ میں یہ کہ انسان بھی کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔ شاعر کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوا ہے۔ ان کا کلام ان کی حالتِ زار اور احوالِ محبت کا چشم دید گواہ ہے۔ محبت کے خمیر میں گندھے ہوئے اشعار قارئین کی عدالت میں محبت کی کہانی بیان کر رہے ہیں ؎
زندگی اور طرح اب تو گزاری جائے
عشق کی جیت کے بازی کوئی ہاری جائے
آج پھر ہے لب و رخسار پہ گل رنگ بہار
آئیے آپ کی تصویر اُتاری جائے
اب کوئی اس سے تعلق، نہ مراسم، نہ قرار
اب اگر جان یہ جاتی ہے ہماری جائے
ہم بھی کچھ اپنی وضع داریاں کم کر لیں گے
پہلے یہ ضد تو طبیعت سے تمہاری جائے
زلف کا کیا کہ یہی اس کے شب و روز سعیدؔ
صبح بکھرے تو سرِ شام سنواری جائے
یاور امان کے مجموعۂ کلام ’’انہدام‘‘ سے غزل کے چند اشعار، انہدام مجموعۂ غزلیات ہے اور یارو امان کی عمر بھر کی کاوشوں کا صلہ ہے۔ اس بات سے ہر وہ شخص جو شعری ذوق رکھتا ہے، یاور امان کی شاعری اور ان کے لہجے کے کھرے پن سے اچھی طرح واقف ہے۔ دل سے نکلی ہوئی بات دل میں جگہ بنا لیتی ہے۔ انہوں نے بھی محبوب کے ستم اور جدتِ ادا کو لفظوں کا وہ جامہ پہنایا ہے جو دل فریب بھی ہے اور دل نشین بھی ؎
وہ سرِ آئینہ چہرہ نہیں ہونے دیتا
اور پسِ آئینہ پردہ نہیں ہونے دیتا
لطف لیتا ہے نئے زخم لگا کر لیکن
درد کو حد سے زیادہ نہیں ہونے دیتا
وہ سہولت بھی فراہم نہیں کرتا کوئی
مشکلوں میں بھی اضافہ نہیں ہونے دیتا
اجنبیت بھی وہ رکھتا ہے شناسائی میں
اور بہ ظاہر کوئی رشتہ نہیں ہونے دیتا
ایک اور غزل کے چند اشعار ؎
وہ مجھ سے دور تھا لیکن مری نظر میں رہا
چراغ اور کہیں تھا اجالا گھر میں رہا
دباؤ اتنا اسیری کا بال و پر میں رہا
رہا ہو کے میں صیاد کے اثر میں رہا
عجیب ربط ہے اس کی گلی کے پتھر سے
کسی کو چوٹ لگی درد میرے سر میں رہا
یہ میرا جرمِ وفا تھا کہ ایک مدت تک
ترے سلوک سے بدنام شہر بھر میں رہا
نقوشؔ نقوی بھی دل کے معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور کیوں رہیں پیچھے کہ وہ بھی ایک انسان ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ شاعر ہیں ، اپنے لطیف جذبات کو شاعری کے پیراہن میں ڈھالنے کی صلاحیت بہ خوبی رکھتے ہیں ۔ انہوں نے بہ بانگِ دھل محبت کے گیت غزل میں گائے ہیں ۔ بہت اچھے شاعر ہیں ؎
یہ کس کی یاد اچانک آ گئی ہے
کہ دل میں روشنی ہی روشنی ہے
ترا حسنِ سماعت چاہتی ہے
صدا جو میرے ہونٹوں پہ آتی ہے
مجھے محسوس کیوں تنہائیاں ہوں
خیالِ رفتگاں سے دوستی ہے
ابھی کیا موت کی بابت بتاؤں
ابھی تو زندگی مجھ پر کھلی ہے
خیال آیا تری قربت میں یہ بھی
مرے نزدیک کوئی اور بھی ہے
نقوشؔ نقوی کی شاعری میں غنائیت بھی اور انفرادیت بھی ہے۔ ۔ ان کا شمار غزل کے اچھے شعراء میں ہوتا ہے۔
جناب فضاؔ اعظمی کی غزلیات کے بارے میں حسین انجم کی رائے کچھ اس طرح ہے۔ فضاؔ اعظمی نے شعر گوئی کا آغاز غزل سے کیا اور ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’’جو دل پہ گزری ہے۔ ‘‘ 1996ء میں شائع ہو کر دادِ سخن حاصل کر چکا ہے۔ ’’تری شباہت کے دائرے میں ‘‘ ان کا دوسرا مجموعۂ غزلیات ہے جو 2006ء میں شائع ہو ا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری جناب فضاؔ اعظمی کی غزلیات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ فضاؔ اعظمی طبعاً نظم کے نہیں ، غزل کے شاعر ہیں ۔ ان کی غزل کے بہت سے اجزا ایسے ہیں جو تا دیر لطف سے پڑھے جائیں گے۔ ان پر توجہ دی جائے گی۔ ‘‘
ان ناقدین کی رائے کے تناظر میں ہم یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ فضاؔ اعظمی کو غزل سے محبت نہیں بلکہ عشق ہے اور غزل سے ان کا رشتہ دیرینہ ہے۔ جیسے بھی حالات ہوں اور اگر غزل لکھنے کا موڈ ہو تو وہ غزل لکھنے میں منہمک رہتے ہیں ۔ قلم ان کے ہاتھ اور قلم کی نوک ان کی گرفت میں ہوتی ہے۔ وہ جنبش کریں تو شاعری کے گلشن میں بے شمار مہکتے ہوئے پھول کھلا دیں اور ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ بے شک یہ اللہ کی دین اور اس کی مہربانی ہے۔
’’شیدائے غزل‘‘ کے عنوان سے وہ قطعہ کی شکل میں اس طرح رقم طراز ہیں ؎
لہو بہہ رہا ہے غزل لکھ رہے ہیں
مکان جل رہا ہے غزل لکھ رہے ہیں
چمن لٹ رہا ہے غزل لکھ رہے ہیں
سزا مل رہی ہے غزل لکھ رہے ہیں
یقیناً یہ جنونی کیفیت اور جناب فضاؔ اعظمی اس کیفیت میں گویا ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ والا معاملہ ہو چکا ہے اور ان کا یہی عمل ایک سچا شاعر ہونے کی روشن دلیل ہے۔
فضاؔ اعظمی کا اپنی غزلیات میں اپنے محبوب اپنے ہم راز سے رویہ ذرا مختلف نظر آتا ہے۔ ایک طرف وہ محبوب کو ظالم قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف اس کی حمایت اس طرح کرتے نظر آتے ہیں ؎
کرنے کو ستم ہم پر وہ کیا کیا نہیں کرتے
پر جاں سے گزر جائیں وہ اتنا نہیں کرتے
رِستے ہوئے زخموں کی نمائش نہیں کرتے
تپتے ہوئے احساس کا چرچا نہیں کرتے
تاریخ کے صحرا میں اُڑاتے نہیں ہم خاک
مجنوں ہیں مگر ویسا تماشا نہیں کرتے
باریک بہت ہیں خطِ آدابِ محبت
پر حد سے گزر جائیں ہم ایسا نہیں کرتے
فضاؔ اعظمی پُر سکون اور فرحت بخش ماحول میں ہی شاعری کرنے کے عادی نہیں ہیں بلکہ جیسا بھی ماحول ہو، حالات ہوں ، گرمی کی حدت اور بادِ صرصر کی غضب ناکی ہو، وہ غزل لکھنے میں محو ہیں ۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر شاعری کی طلسماتی نگری میں گم ہیں ۔ انھوں نے دوزخ کو بھی نہیں بخشا۔ جب تخلیق کار ہوش و ہواس سے بے گانہ ہو تو یہی صورت جنم لیتی ہے، بس ہوش ہے تو شاعری کو نئے نئے انداز بخشنے کا۔ ان اشعار پر توجہ فرمائیے۔ یقیناً یہ کسی عام شاعر کا کلام نہیں ہے ؎
فردا کی کتاب لکھ رہا ہوں
آئینے پہ خواب لکھ رہا ہوں
دیکھا ہے پسِ نقاب اس کو
بن دیکھے گلاب لکھ رہا ہوں
فضاؔ اعظمی کی پروازِ تخیل کچھ اس قدر برق رفتار ہے کہ محبوب کو پردے میں دیکھ کر گلاب جیسا دل کش، نازک اور حسین تصور کر لیا ہے۔ ان کے خیال کی اُڑان انھیں کہاں سے کہاں لے گئی اور دل کش و دل ربا چہرہ ان کے سامنے آ گیا ہے۔
شاعر نے اپنے دوست سے کس انداز میں محبت کی ہے اور عشق کی اہمیت اور محبوب کے جلووں کی عکاسی اس طرح نمایاں ہوئی ہے۔ آئیے یہ غزل پڑھتے ہیں ؎
عشق سے ہم کو کام بہت ہے
عشق مگر بدنام بہت ہے
حسن کے جلوے اللہ اللہ
اس پہ مگر الزام بہت ہے
شغلِ محبت خوب ہے لیکن
اُجرت کم ہے، کام بہت ہے
فضاؔ اعظمی نے محبت کے سفر میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ بہت سے تلخ تجربات سے گزرے ہیں ۔ لوگوں کے سلوک کو پرکھا ہے۔ لہٰذا انھیں اب اس بات کا احساس شدت سے ہو گیا ہے کہ زیست کو کس طرح بسر کرنی چاہیے اور علاجِ درد اور تسکینِ دل کے لیے کون سے طریقے استعمال کرنے ہیں ۔ وہ شاعری کی زبان میں اپنے خیالات کی نشان دہی اس طرح کر رہے ہیں ؎
نیا طوفان اُٹھاتے ہیں ، نیا ساحل بدلتے ہیں
علاجِ دردِ دل کے واسطے ہم دل بدلتے ہیں
ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ہمیں تو قتل ہونا ہے
چلو تسکینِ دل کے واسطے قاتل بدلتے ہیں
محبت کب تلک پلتی رہے گی داستانوں میں
نہ ہم لیلیٰ بدلتے ہیں اور نہ محمل بدلتے ہیں
نہ تم قیدِ محبت میں ، نہ ہم جبرِ وفا میں ہیں
جو تم پہلو بدلتے ہو تو ہم محفل بدلتے ہیں
شاعر خود انا پرست ہے، وہ دوستی میں بھی عزت و روا داری برقرار رکھنے کا خواہش مند ہے۔ اسی لیے محبوب کی ذرا سی لاپروائی پر وہ محفل چھوڑنے پر تیار ہے کہ لطف اسی وقت ہے کہ محبت کی آگ دونوں طرف برابر لگی ہو۔
جب ہم فضاؔ اعظمی کی غزلیات کا مطالعہ سنجیدگی سے کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگتی کہ ان کی غزلوں میں مایوسی کم اور شگفتگی زیادہ ہے۔ بہارِ امید کا پیغام دیتے ہیں ۔ ان کی غزلیات میں ، شوخیِ جذباتِ ادا، محبوب سے ملنے کی اُمید اور خوشی نظر آتی ہے۔ تشبیہات و استعارات اور نئی تراکیب نے شاعری کے حسن میں اضافہ کر دیا ہے ؎
محشرِ خواب و خیالات لیے بیٹھے ہیں
تم سے اُمیدِ ملاقات لیے بیٹھے ہیں
تم نہیں ہو تو عجب عالمِ تاریکی ہے
صبح ہوتی ہی نہیں رات لیے بیٹھے ہیں
آپ بے رنگیِ موسم سے نہ گھبرائیں کہ ہم
آپ کے واسطے برسات لیے بیٹھے ہیں
ہم اس سے پہلے کہ اپنے مضمون ’’اُردو غزل میں تصورِ زن‘‘ کو اختتام تک پہنچائیں ، چند اور خاص شعراء کے ’’تصورِ زن‘‘ کو واضح کرنا اور دل کے صنم خانے کی تصاویر کو دکھانا مناسب ہو گا تاکہ تشنگی برقرار نہ رہے ؎
دیدنی ہے شکستگیِ دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے
(میر تقی میرؔ)
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاۂ آئینہ ساز میں
(علامہ اقبالؔ)
دل میں آ کر نہ دل سے پھر نکلے
تم تو ارمان بن گئے دل کے
(امیرؔ مینائی)
میں ڈھونڈ رہا ہوں عالم عالم
وہ دل میں سما کے چھپ گئے ہیں
(سیف الدین سیفؔ)
کسی کے سامنے کیوں کر کہا جائے
خود اپنا دردِ دل اپنی زباں سے
(ثاقبؔ لکھنوی)
حدیثِ دردِ محبت سنائی جاتی ہے
مگر وہ ہیں کہ انھیں نیند آئی جاتی ہے
تم کیا سمجھ سکو گے مرے دل کی واردات
تم کو بھی ہوتی کاش محبت کسی کے ساتھ
(صادقؔ القادری)
فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں ، پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیبِ داستاں کے لیے
(شیفتہؔ)
یارب کہیں سے گرمیِ بازار بھیج دے
دل بیچتے ہیں کوئی خریدار بھیج دے
(لالہ کھیم نرائن رندؔ)
زندگی دردِ سر ہوئی حاتمؔ
کب ملے گا مجھے پیا میرا
(شاہ حاتمؔ)
ملنے کو تجھ سے دل تو مرا بے قرار ہے
تو آ کے مل نہ مل پہ تیرا اختیار ہے
سرخ ڈورے حسین آنکھوں میں
جیسے اُٹھے ہوں وہ ابھی سو کے
(رفعت سلطانؔ)
جب سے دیکھا ہے ترے ہاتھ کا چاند
میں نے دیکھا ہی نہیں رات کا چاند
(ناصرؔ کاظمی)
اس دہن کو غنچۂ دل کیا کہوں
ڈر لگے ہے مسکرانا چھوڑ دے
(مومنؔ)
کہتے ہیں تیرے قامت و عارض دیکھ کر
بالائے سرو، پھول کھلا ہے گلاب کا
(ناسخؔ)
جذبۂ دل اپنا سلامت ہے تو انشاء اللہ
کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے
(انشاؔ)
بے سبب جی نہیں نڈھال اپنا
پھر کہیں دل نے چوٹ کھائی ہے
(نظیرؔ صدیقی)
غزل کو اُردو شاعری کی دلھن کہا گیا ہے اور اس دلھن کے جلووں اور اس کی آب و تاب نے پوری شاعری کو جگمگا دیا ہے۔ غزل کے تقریباً ہر شاعر نے مقصد سے ہٹ کر عورت کی سندرتا، وفا و بے وفائی، اس کے خد و خال، گیسو، غزالی آنکھوں ، نشیلے نین، عارض، قد و قامت، حسن و نزاکت کے قصیدے جھوم جھوم کر پڑھے ہیں ۔ اسی وجہ سے شاید اُردو غزلیات کی روح میں کیف و سرور نے جگہ بنا لی ہے، جو پڑھتا ہے اسے ایک انوکھا مزہ محسوس ہوتا ہے۔ سرشاری کی کیفیت اس پر غالب آ جاتی ہے اور غزل کی معنویت پرت در پرت کھلتی چلی جاتی ہے۔ یہی غزل کی آن بان اور شان ہے۔
قدیم و جدید شعراء کا تصوّرِ زن
ہر دور کے شعراء نے عورت کے حسن و عشق کے قصے بیان کیے ہیں ، ہجر و وصال اور اس کے حسن و جمال کو شاعری کا لباس پہنایا ہے۔ فیضؔ نے کہا :
موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
اقبالؔ نے کہا :
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اخترؔ شیرانی سلمیٰ کے گیت گاتے ہیں ۔
سنا ہے میری سلمیٰ نور برسائے گی وادی میں
سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں
ناصرؔ کاظمی:
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی
حسرتؔ موہانی:
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے تیرا وہ منہ چھپانا یاد ہے
آتشؔ اپنے محبوب کے بارے میں اس طرح اپنے دل کی بات کہہ رہے ہیں ۔
جو دیکھتے تیری زنجیرِ زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
فضاؔ اعظمی نے اپنی کتاب ’’خاک میں صورتیں ‘‘ میں عورت کے حسن و عشق کی داستان سنانے کی بجائے اس کے دکھ درد بیان کیے ہیں ۔ سراب کا خوب صورت پردہ ہٹایا ہے تاکہ مرد و عورت کی واضح تصویریں سامنے نظر آ جائیں ۔ انہوں نے اس کے حسن و محبت کا ذکر ذرا دوسرے انداز میں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ۔
بو صفِ صنفِ نازک کچھ عجب رنگِ زمانہ ہے
اسی کے حسن سے جاری جنوں کا کارخانہ ہے
وہ مشرق ہو یا مغرب، اس کے دیوانے ہیں ہر جانب
اسی کے دم سے وابستہ محبت کا فسانہ ہے
کوئی کرتا ہے رقصِ حسن بے پردہ سرِ محفل
کوئی نذرانہ دیتا ہے درونِ پردۂ محمل
ڈاکٹر منظور احمد فضاؔ اعظمی کی شاعری کے حوالے سے اس طرح رقم طراز ہیں ۔
’’پچھلی ربع صدی میں فلسفۂ نسواں پر جتنا کام مغرب میں ہوا ہے، اس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ مغرب میں بھی یہ کام دو نوعیتوں کا ہے، ایک عورتوں کی آزادی، حقوقِ نسواں اور کارِ زندگی میں مردوں کی برابری سے متعلق ہے اور دوسرا کام زیادہ فکری نوعیت کا ہے، جو یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ مغربی معاشرہ پچھلے تین چار سو سال کی روشن خیالی کے باوجود منفی مساوات کا قائل کیوں نہ ہوسکا، وہ ان فلسفیانہ اور معاشرتی نظاموں اور افکار کا بھی بڑی دیدہ ریزی سے جائزہ لیتا ہے جو خاص طور پر جنسی عوامل کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں ۔
فضاؔ اعظمی کی یہ کتاب بڑے موثر پیرائے میں موجودہ معاشرے کے ان تمام مسائل کا نہ صرف یہ کہ جائزہ ہے بلکہ ان کے ہر شعر میں وہ فکر کار فرما ہے جو اسلام کی ایک انقلابی اور ترقی پسند فکر تھی۔ ‘‘
٭٭٭