اعجاز عبید کی خوش رنگ ’’تتلی کے پر‘‘
ڈاکٹر سلیم خان
کہانی بھیزندگی کی مانند نہایت سہل اور آسان سی شہ ہے لیکن نہ جانے کیوں یارانِ نکتہ داں نے اسے پیچیدہ اور مشکل بنا کرحیات انسانی سے منقطع کردیا۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں اچھی کہانی صاف ستھری نہیں ہو سکتی۔ جن کو ایسا لگتا ہے کہ کہانی میں گہرائی و گیرائی کیلئے ابہام لازمی ہے۔ جن کا خیال ہے کہ جب تک کوئی تنازعہ نہ پیدا کیا جائے وہ دلچسپ اور پر کشش نہیں ہو سکتی۔ ایسے تمام لوگوں کو چاہئے کہ وہ اعجاز عبید کا افسانوی مجموعہ ’’تتلی کے پر‘‘کا مطالعہ کریں مذکورہ بالا سارے تحفظات اور کنفیوژنس آپ سے آپ دور ہو جائیں گے۔ ’’تتلی کے پر‘‘ نہایت پاک صاف ماحول میں لکھی ہوئی شگفتہ کہانیاں ہیں۔ یہ ایسا ماحول ہے جو ہر انسان اپنے گھر میں دیکھنا چاہتا ہے اور ایسی شگفتہ فضا جس میں ہر کوئی جینا چاہتا ہے۔ اس (برقی) کتاب میں ۱۳ عددافسانے شامل ہیں جو ۱۹۶۷ سے لے کر ۱۹۷۶ کے درمیان سپردِ قلم کئے گئے۔ سپردِ خاک کے وزن پر سپردِ قلم کا استعمال مصنف کی جانب سے اس صنف سخن پر خاک ڈال دینے کے خلاف ایک قاری کی صدائے احتجاج ہے۔
اس انتخاب کا سب پہلا عنوان ’’اپنا تعارف‘‘ یہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے کہ اس میں مصنف کی آپ بیتی، اس کے کارہائے نمایاں، تعریف و توصیف اور بلند بانگ دعوے ہوں گے اس لئے میں نے اس کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کا ارادہ کیا لیکن اس کا اختصار میرے قدموں کی زنجیر بن گیا۔ میں نے سوچا کہ جب اس قدر مختصر ہے تو لاؤ اسے بھی دیکھ لیں لیکن جب پڑھنا شروع کیا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اس لئے کہ یہ نہایت پر مغز اور با معنیٰ افسانہ تھا۔ اور ایسا بھی نہیں کہ اس کا نام غلط تھا بلکہ اس میں نہ صرف اعجاز عبید بلکہ ہر انسان کا بنیادی تعارف موجود تھا۔
’’اپنا تعارف‘‘ میں افسانہ نگار نے انسان کے طبعی اور روحانی وجود کی انفرادیت کو اس خوبی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔ انسان کے طبعی وجود کی مادی ضروریات اس سے پے درپے مصالحت کرواتی چلی جاتی ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ مجبوراً زمین کی گہرائیوں میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کا روحانی وجود اپنی ذات کے تکمیل کی طلب میں افق کی وسعتوں میں محو پرواز ہوتا ہے۔ زندگی کی گاڑی انہیں دو پہیوں پر گامزن رہتی ہے اور اس سفر میں وہ مرحلہ بھی آتا ہے کہ جب یہ دونوں کو ایک دوسرے الگ ہو جانا پڑتا ہے۔ یہ پیچیدہ عمل کس طرح ہوتا ہے اس کو اعجاز عبید کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں ’’ اور اچانک مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں اپنے آپ کو پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔ اور مجھے بڑا عجیب سا خوف محسوس ہوا کہ کمپارٹمنٹ کے باقی لوگ کہیں میری کمی محسوس نہ کر لیں۔ اور میں تیزی سے کھڑکی سے سب سے زیادہ دور بیٹھ گیا۔‘‘ تو گویا اس کہانی کے حوالے سے مصنف نے قارئین کو ان کی اپنی حقیقت سے متعارف کرا دیا۔
’’تتلی کے پر‘‘ بجا طور پر سرِ ورق کی کہانی ہے۔ اس کہانی کا حسن نہ صرف اس کا خیال، پلاٹ مکالمے اور کردار ہیں بلکہ جس خوبصورتی کے ساتھ انہیں برتا گیا ہے وہ سب اہم ہے۔ اس معاملے کو کسی پکوان کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ باورچی اول تو ارادہ کرتا ہے کہ اسے کیا بنانا ہے تو گویا یہ کہانی کا خیال ہو گیا۔ اس کے بعد وہ سودہ سلف جمع کرتا ہے اس کو کردار اور مکالمہ خیال کریں۔ کھانا بنانے کی ترکیب پلاٹ سے مماثل ہے لیکن سب سے آخر میں کھانا پروسنے کا معاملہ آتا ہے اور اگراس مرحلے میں بے احتیاطی ہو جائے ساری محنت و مشقت پر یکلخت پانی پھر جاتا ہے۔ اعجاز عبید صاحب نے اپنی تتلی کی آرائش و زیبائش کا اس قدر خیال کیا کہ مزہ دوبالا ہو گیا۔ یہ کیسے ہوا ملاحظہ فرمائیں :
’’آج آپ نے مجھے زری کہہ کر کیوں پکارا ‘‘۔ وہ قریب آ گئی۔ “سرور اور شابینہ ہوتے تو ‘‘ وہ اس کے نزدیک بوگن ویلیا کے پیڑ کے نیچے آ گئی۔ اس نے زرینہ کے آتے ہی مغرور شاخیں جھنجھوڑ دیں۔ ننھے ننھے موتی ہر طرف بکھر گئے۔ ’’یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے ‘‘ زرینہ نے گھبرا کر کہا۔اور اس نے صرف ایک قہقہہ لگایا۔ جو بے حد معصوم تھا۔ پھر وہ تیزی سے مہندی کے پودوں کی طرف بڑھا اور بکھری ہوئی پتّیوں کو مٹھی میں بھرنے کے لیے جھکا۔ “منے۔ چھی۔۔ ! “منے۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔‘‘ اسے آواز سنائی دی۔ اور اس کا ہاتھ اتنا بھاری محسوس ہوا کہ وہ فوراً اٹھا بھی نہ سکا۔تتلی کو کسی مضبوط ہاتھ نے پکڑ لیا تھا۔ اس کے رنگ بکھر گئے تھے اور وہ اڑنے کے ناقابل ہو کر زمین پر گر گئی تھی۔ جہاں بہت سے سوکھے ہوئے پھول پہلے سے پڑے تھے۔‘‘
تتلی کے ان رنگ برنگے پروں میں ایک عمر کی داستان بکھری ہوئی ہے۔ یہ مختلف رنگ ایک دوسرے مختلف ہونے کے باوجودآپس میں ہم آہنگ ہیں اور تتلی کو حسین و جمیل بنانے میں اپنا منفرد کردار ادا کرتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اگر اعجاز عبید پیشے سے جیولوجسٹ نہ ہوتے تو شاید ’’اجالوں کی ڈگر‘‘ پر قدم رنجا نہ فرماتے اور نہ یہ کہانی عالمِ وجود میں آتی۔ اس کہانی کی پاکیزگی کو محسوس کرنے کیلئے اجنبی مہمانوں کو رخصت کرتے ہوئے ادا کئے جانے والے یہ الفاظ دیکھیں ’’صاحب مہمان تو رحمت کے فرشتے ہوتے ہیں۔ ہماری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے گھر ہر وقت فرشتے رہیں ‘‘۔ بزرگ مرد نے ہم سے کہا تھا اور پھر اپنے صافے کے کونے سے آنکھیں پونچھیں ’’مگر غریب آدمی کے گھر تو مہمان بھی نہیں آتے ‘‘۔قلبی محسوسات میں برپا ہونے والے تغیرات کا اگر آپ اندازہ لگا نا چاہتے ہیں تو کہانی ’’پہلا اور دوسرا احساس‘‘ ضرور پڑھیں جس میں ایک شخص اسپتال کے اندر علاج کے بعد صحتمند تو ہو جاتا ہے مگر اپنے تشخص سے کچھ اس طرح ہاتھ دھو بیٹھتا ہے کہ جب اس سے پوچھا جاتا ہے ’’ آپ کا نام ؟‘‘ نرس کے ہاتھ میں ڈسچارج شیٹ تھی۔’’بیڈ نمبر بارہ ‘‘۔ اس نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔’’بیڈ نمبر نہیں۔ نام بتایئے ‘‘ ڈاکٹر شرما نے کچھ جھنجھلا کر کہا۔’’ہاں۔ میرا نام بیڈ نمبر بارہ ہے ‘‘
پہلی کہانی ’’اپنا تعارف‘‘ میں جن مجبوریوں کا علامتی انداز میں ذکر کیا گیا تھا انہیں ’’بس ایک اور دن‘‘ نامی افسانے میں قدرے کھول کراس طرح بیان کیا گیا ہے۔’’کل ریلوے سٹیشن ………‘‘ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کی اس جیب کے خلا نے اسے چاروں طرف سے جکڑ لیا ہے۔ وہ مکڑی کے جالوں میں الجھتا جا رہا ہے وہ خود ایک ننھی مکھی ہے اور بڑی سی کوئی مکڑی اس کے گرد جالہ بنتی ہوئی چلی آ رہی ہے، اس جالے کا مرکز اس کی پینٹ کی خالی دائیں جیب ہے۔ اور جالا بڑھتا جا رہا ہے بڑھتا جا رہا ہے، بڑھتا جا ………اس طرح کی صورتحال سے ہم سب کا کبھی نہ کبھی سابقہ پیش آتا ہے اس لئے اسے پڑھتے ہوئے قاری کوبے ساختہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔
’’پرائی کھڑکیاں ‘‘ نامی کہانی نے مجھے تتلی کے رنگ کے بعد سب سے زیادہ متاثر کیا۔ ان کھڑکیوں کے اندر سے آپ اعجاز عبید کے بچپن میں جھانک سکتے ہیں۔ اس افسانے کے اندر لڑکپن کا وہ عرصۂ حیات بند ہے جو انہوں نے نصف صدی قبل وسطی ہندوستان کی ایک ننھی سی ریاست جاؤرہ میں گزارا تھا۔ یہ زمان و مکان کی بندشوں میں الجھی ہوئی ایک نہایت ہی عمدہ کہانی ہے جس میں ایک دور کو مقید کر دیا گیا ہے۔ اگر کوئی آج جاؤرہ کی سیاحت کا قصد کرے تب بھی وہ نہ ان گلیوں میں گھوم سکتا ہے اور نہ ان کوٹھیوں کو دیکھ سکتا ہے۔ آج کا زائر نہ ان لوگوں سے مل سکتا ہے اور نہ اس تہذیب و زبان سے بہرہ ور ہوسکتا جو گردشِ زمانہ کی نذر ہو چکے ہیں۔ ان مناظر کا مشاہدہ اگر ممکن ہے تو ’’پرائی کھڑکیوں ‘‘ کا ماحول، لب و لہجہ اور احساسات و جذبات قاری کے قلب و ذہن پر انمٹ نشان چھوڑتے ہیں۔ وہ چند منٹوں کے اندر ایک ایسی دنیا کی سیر کر کے واپس آ جاتا ہے جو اب معدوم ہو چکی ہے۔
پرائی کھڑکی کے اندر سے لطیف جذبات اور تلخ حقائق کا امتزاج ملاحظہ فرمائیں :
’’ نانا جان کے کمرے کی لا تعداد کتابیں صحن میں ڈھیر کر دی گئیں۔ نمائش کے لیے۔ جو چاہے اپنی پسند کی کتابیں لے جائے۔ بڑے تخت پر یہ نمائش پانچ سات دن لگی رہی۔ یہ ساری کتابیں نانا جان کو کتنی پیاری تھیں۔ مگر اب کتنی بے مروتی سے لوگ ان کتابوں کو سبزیوں کی طرح جھولوں میں بھر کر لے جا رہے تھے۔اس کھڑکی سے ایک اور دل کو چھو لینے والا عبرتناک منظر دیکھیں ’’ کچھ دیر بعد گھچو ماموں سائیکل بھگاتے ہوئے آئے اور خبر دی کہ تانگے کے روانہ ہونے کے کچھ ہی لمحوں بعد ڈیوڑھی کی دیوار اور ’’ غریب خانہ‘‘ والا پتھر گر گیا۔ میں نے اسے اٹھا کر اپنے پاس یادگار کے طور پر رکھ لیا ہے۔ آپ کی اجازت چاہیے ‘‘ ’’تم کون غیر ہو گھچّو میاں ‘‘۔۔۔ نانی بی نے کہا اور آنسو پونچھے۔‘‘
کہانی کا آغاز اگر آدم خور اژدہے کی مانند قاری کو نگل لے تو وہ اسے ہضم کئے بنا نہیں اگلتا یعنی قاری جب تک اسے ختم نہ کر لے نہیں چھوڑتا ہے مثال کے طور پر ’’رات اور رات کے بعد‘‘ کی ابتداء اس طرح ہے کہ ’’جب رات نصف دنیا کو اپنے شکنجے میں کس لیتی تو جیسے اس کی جان نکل جاتی۔ اسے نانی اماں کی کہانی کے وہ دیو یاد آتے جن کی جان کسی مینا طوطے میں قید ہوتی۔ یا جو ’کیل دئیے جاتے۔ اسے ایسا لگتا کہ اگر اس کی جان کسی پرندے میں نہیں ہے تو سورج کے سرخ جلتے ہوئے گولے کے ساتھ ہر لمحہ جل رہی ہے، پگھل رہی ہے۔ مگر رہتی پاس میں ہے۔ اور سورج ڈھلتے ہی جیسے وہ بے جان ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی سورج کو قتل کر دے تو وہ بھی ہمیشہ کے لیے مر جائے گا۔ اسی طرح کہانی کا اختتام اس کے دیرپا تاثر کی مہمیز ثابت ہوتا ہے مثلاً ’’پارک میں ‘‘ کہانی کا اختتام کو پڑھنے کے بعد دیر تک قاری اس میں کھویا رہتا ہے اور اس سے محظوظ ہوتا رہتا ہے : ’’وہ اداس ہو گیا۔ اس نے اپنے کپکپاتے ہاتھوں سے ہینڈل موڑا اور دھیرے دھیرے اپنی وھیل چئیر کو موڑ کر سڑک پر لے آیا۔‘‘
آخری کہانی ’’ جاں بیچنے کو آئے ‘‘ بھی ایک ایسی علامت پر ختم ہوتی ہے قاری سر چکرا کر رہ جاتا ہے ’’اچانک عارف میاں نے پپو کی ریل گاڑی اٹھائی۔ اس کی پٹریاں زمین پر بچھائیں اور چابی دے کر چھوڑ دی۔ اب وہ تیزی سے گول چکر کھائے جا رہی تھی۔‘‘
اعجاز عبید صاحب کے تخلیقی سفر کا آغاز۱۹۵۹، میں طفلانہ ادب سے ہوا۔ تا حال ان کی شاعری کے چار مجموعے ایک ناولٹ ’’ مائل بکرم راتیں ‘‘ اور ایک سفر نامہ منصۂ شہود پر آ چکا ہے لیکن افسوس کہ افسانہ نگاری کا سلسلہ جو ۳۸ سال قبل بند ہوا تو بند ہی ہو گیا۔ اس کے سبب تشنگانِ ادب کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔ اس خسارے کیلئے نہ صرف وہ لوگ ذمہ دار ہیں جنہوں نے موصوف کی حوصلہ شکنی کی ہوگی بلکہ وہ لوگ بھی قصوروار ہیں جنہوں ان کو پھر سے آمادہ کرنے سعی نہیں کی۔ اس شکایت کے بعد قارئین کیلئے ایک خوشخبری یہ ہے کہ اعجاز عبید صاحب کونہ صرف اردو کے سب سے پہلے ویب جریدے ’’سمت ‘‘ کو جاری کرنے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ اردو کی سب سے بڑی ویب لائبریری کو قائم کرنے کا سہرہ بھی انہیں کے سر ہے۔اس کتب خانے میں برقی کتابیں تصویری نہیں بلکہ یونی کوڈ میں تلاش کی سہولت کے ساتھ موجود ہیں۔ جو لوگ ’’تتلی کے پر‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنی انگلیوں کی جنبش سے گوگل کھول کر اعجاز عبید اور تتلی کے پر(اردو میں ) ٹائپ کرنے کی زحمت کریں۔گوگل بابا اس خوش رنگ تتلی کو پکڑ ان کے سامنے حاضر کر دیں گے۔
صنف شاعری میں غزل کی فوقیت اور نثر نگاری میں کہانی کے امتیاز کا سبب اس کا بلاواسطہ طرزِ بیان ہے۔ ان اصناف کا افق نہایت وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ اسلوب نہایت لطیف ہوتا ہے۔ مدعا کچھ اور ہوتا ہے لیکن علامات کے سہارے بیان کچھ اور ہی کیا جاتا اس کے باوجود جس بات کو پہنچانا مقصود ہواس کی ترسیل ہو جاتی ہے۔اس ناول کو شروع کرنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ اگلے دن بہت سویرے کسی ضروری کام کیلئے جاگنا ہے اور اس کیلئے جلد سونا ناگزیر ہے لیکن کتاب کو بند کرنے کیلئے مجھے اپنے آپ پر جو جبر کرنا پڑا اس کو میں ہی جانتا ہوں۔ میرے خیال میں یہ ناول نگار کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس کی تخلیق ایک زندہ وجود بن کر قاری سے نہ صرف ہمکلام ہو جائے بلکہ بھڑ جائے ورنہ تو انسان کچھ پڑھتے پڑھتے رک جائے تو بعد میں اسے یاد بھی نہیں رہتا کہ کیا پڑھ رہا تھا۔
آخر میں اس خواہش کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ اعجاز عبید صاحب شاعری کے ساتھ ساتھ اس صنف سخن کی جانب بھی دوبارہ توجہ فرمائیں اور قارئین کو اپنی خوبصورت اور دلنشین کہانیوں سے نوازیں۔
٭٭٭