’’یادیں باقی ہیں‘‘ : محمد معین الدین کمالی ۔۔۔ مبصر: غلام ابن سلطان

 

مکتبۂ دگر گلشن اقبال، کراچی، سال اشاعت، 2018

 

قحط الرجال کے موجودہ دور میں زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات پر جان کنی کا عالم ہے۔ پیہم شکستِ دِل کے نتیجے میں جان لیوا سکوت اور اعصاب شکن بے حسی نے افراد کو حرص و ہوس کا اسیر بنا دیا ہے۔ پیمان شکن، محسن کش، کینہ پرور، حاسد، ابن الوقت عناصر اور مرغانِ باد نما کے فکری افلاس کا یہ حال ہے کہ ایثار، خلوص اور دردمندی کے مظہر کسی بھی قابلِ قدر کام کو لائق اعتنا نہیں سمجھتے اور کسی معمولی سی فروگزاشت کو نظر انداز کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اس عالم آب و گِل کے آئینہ خانے میں یادوں کو سدا کلیدی مقام حاصل رہا ہے۔ یادوں کے بین السطور زندگی کے اہم واقعات کا ایسا معتبر حوالہ مستور ہوتا ہے جسے انسانی تجربات و مشاہدات کا بہا اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ افراد کے لیے یادوں کی مثال ایسی حسین فردوس معانی کی ہے جس سے انخلا کی کوئی تدبیر کارگر ہو سکتی۔ عالمی ادبیات میں یاد نگاری کو ایک منفرد صنف ادب کی حیثیت سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ علم بشریات، عمرانیات اور نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ زندگی کے تلخ و شیریں واقعات سے وابستہ یادیں حقائق کا ایسا معدن ہیں جو گنجینۂ معانی کے طلسم کی صورت میں لوح دِل پر انمٹ نقوش ثبت کرتی ہیں۔ یہ زندگی کے نشیب و فراز اور حیات و کائنات کے معمولات کا ایسا دھنک رنگ منظرنامہ پیش کرتی ہیں جن کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ عملی زندگی میں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ماضی کے متعدد ایسے سانحات جو روح کو زخم زخم اور دِل کو کِرچی کِرچی کرنے کا باعث بن جاتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی یادیں زخموں کے اندمال کا وسیلہ ثابت ہوتی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وفا، ایثار، رنگ، خوشبو، حسن، خوبی، کردار اور وقار کے تمام استعارے انہی یادوں سے نمو پاتے ہیں۔ فضاؤں میں یادیں اس انداز میں پھیل جاتی ہیں کہ جس وسمت بھی نگاہ دوڑائیں یادوں کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ حال ہی میں ممتاز ادیب محمد معین الدین کمالی کی معرکہ آرا تصنیف ’’یادیں باقی ہیں‘‘ پڑھنے کے بعد یادوں کی اہمیت اور افادیت کھل کر سامنے آ گئی۔ اس وقیع کتاب میں شامل یادیں در اصل تخلیقی فعالیت کے مظہر ایسے ادب پارے ہیں جن میں مصنف کی نجی زندگی کے تمام معتبر حوالے قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتے ہیں۔ مصنف نے اس کتاب میں درج ذیل شخصیات کے بارے میں اپنی یادوں کو زیب قرطاس کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مصنف نے اپنے منفرد اسلوب میں اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ ان نابغۂ روزگار ہستیوں اور یادگار زمانہ لوگوں سے وابستہ ہر یاد ناقابلِ تردید حقائق اور ناقابلِ فراموش واقعات پر مبنی ہے۔

یہ کتاب جن ممتاز شخصیات کی یادوں سے مزین ہے ان میں سے چالیس شخصیات کی رنگین تصاویر بھی کتاب کی زینت ہیں جو دو صفحات پر شائع کی گئی ہیں۔ کتاب کے آخر میں شخصیات اور واقعات کا اشاریہ شامل ہے جو سات صفحات پر مشتمل ہے۔ مصنف نے ان شخصیات کی لائق صد رشک و تحسین زندگی کے اہم واقعات پیش کرتے وقت اپنے ذاتی تجربات کو اولیت دی ہے اور ان سے اپنے مراسم کا اپنے لیے لائق صد افتخار قرار دیا ہے۔ تحلیل نفسی کے ماہرین کی رائے ہے کہ جب کوئی بے کمال شخص کسی با کمال شخص کی فقید المثال کامرانیوں پر کڑھتا ہے تو یہ اس کے احساس کم تری کی دلیل ہے۔ اس قماش کا ابلہ اپنی بد اندیشی سے خود اپنی توہین، تذلیل اور بے توقیری کا مرتکب ہوتا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گردش ایام سدا معین کمالی کے تعاقب میں رہی اور بہاروں کی جستجو میں اُسے خزاں کے سمے کے سم کا ثمر بھی مشیتِ ایزدی کی صورت میں نا گوار نہ گزرا اوردس محرم اکسٹھ ہجری میں شہسوارِ کر بلا کی استقامت اس مردِ خود آگاہ کے پیش نظر رہی۔ اس کے گلشنِ ہستی میں جب بہار کے اِمکان پیدا ہوئے تو نہ جانے کس حاسد کی نظر نے اُس کے ہنستے، مسکراتے اور بولتے باغ کی رعنائیوں، رنگینیوں اور عطر بیزیوں کو نگل لیا کہ یہ عنبر فشاں سدا بہار چمن وقفِ خزاں ہو گیا اور سکوتِ مرگ میں گل افشانیِ گفتار سے وابستہ حقائق کے مظہر سب منظر خیال و خواب اور یادوں کے سراب بن گئے۔ اہلیہ کے انتقال کے بعد یاد نگاری ہی معین کمالی کے اسلوب کا محور رہا۔ آتش زدگی کے ایک سانحے میں ان کی وفا شعار اہلیہ دائمی مفارقت دے گئیں۔ ’’میری شریک حیات‘‘ کے عنوان سے اس کتاب میں تین انتہائی پر تاثیر مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مصنف اپنی اہلیہ سے وابستہ یادوں کے سہارے زندگی بسر کر رہا ہے۔ ان یادوں میں وہ اپنے مستقبل کو دیکھ دیکھ کر جیتا اور مرحومہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اس کتاب میں شامل یہ تین مضامین مصنف کی یاد نگاری کے کمال کے مظہر ہیں۔ انسانی نفسیات، جذبات نگاری اور زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کے اعجاز سے یہ مضامین قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہیں۔ گُل چِین اَجل نے خدمت، وفا اور ایثار کی اس عطر بیز شگفتہ کلی کو توڑ کر معین کمالی کے نہاں خانۂ دِل میں نمو پانے والے گلشن ہستی کو بے ثمر، منزلیں در بہ در، اُمنگیں زیر و زبر، زیست کے بقیہ لمحات کو مختصر اور اُمنگوں کے گلشن کو حسرتوں کے خوں میں تر کر دیا۔ زندگی کی رنگینی، رعنائی اور بُو قلمونی بلا شبہ ایک خوش گوار طرز عمل اور لائقِ تحسین احساس کی امین ہے اس کے بر عکس موت ایک ایسے روح فرسا المیے اور جان لیوا صدمے کی علامت ہے جس کا تصور ہی اذیت ناک، اعصاب شکن اور لرزہ خیز المیہ ہے۔ وفا شعار اہلیہ کی ناگہانی وفات نے معین کمالی کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کرچی کرچی کر دیا مگر وہ اسوۂ شبیرؓ پر عمل پیرا ہو کر اللہ کی رضا پر راضی ہے۔ بادی النظر میں موت کی قربت انسان کو زندگی کی کلفت سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ مصنف نے صبر کی روایت میں مشیتِ ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا، ضبط کے منشور پر عمل کرتے ہوئے اپنے آنسو پلکوں میں تھام لیے اور لب اظہار کو مقفل کر کے جامد و ساکت بنا بیٹھا ہے۔ وہ اس راز سے آگاہ ہے کہ خالق کائنات اُس کے حالِ زبوں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کے دِل سے نکلنے والے درد انگیز نالے بھی اس کی سماعت کی زد میں ہیں۔ بلند ہمتی، شجاعت، صبر و تحمل اور خالق کائنات کی حکمت پر یقینِ محکم کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی کہ انسان اُس مرحلے پر بھی زندگی کے لیے جد و جہد کرتا رہے جب محرومیوں، مایوسیوں اور حسرتوں کا عفریت ہر سُو منڈلانے لگے اور موت کے سائے اس کی طرف بڑھ رہے ہوں۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رفتگاں کاسوگ منانا دلوں کو رفتگاں کی یاد سے آباد رکھنے کا ایک موثر وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ گردشِ ایام کا جبر اور حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ حجازی نسب کا یہ مدینہ مزاج مستغنی و متقی شخص کُوفے جیسے ماحول میں زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہو گیا۔

موت یاس و ہراس کے سوا کچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے۔ عزیزہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبر فشاں پھول شہر خموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جاتی ہے اس کے بعد فضاؤں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی، اذیت ناک محرومی اور عبرت ناک احساس زیاں کے باعث ہوتی ہے۔ غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتیِ جاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔ غم و آلام کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت و مسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح، ذہن اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے۔ کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلا خیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس، ابتلا و آزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روز میں دِل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ مصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارۂ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہیں۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناً ہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہو گا۔ سینۂ وقت سے پھُوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک، کومل اور عطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔ کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کر دائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے۔ تقدیر کے ہاتھوں آرزوؤں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو، رُوپ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں۔ ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا صبر و رضا کا قفل بھی کھُل جاتا ہے۔ سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں، من کے روگ، جذبات حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے سامنے آ کر کارِ جہاں کے ہیچ ہونے کا سبق دیتی ہیں۔

مصنف نے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ یادوں کے معجز نما اثر سے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے میں بے پناہ مدد ملتی ہے۔ ان کے وسیلے سے انسان ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق میں پنہاں سبق آموز واقعات کی تفہیم کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ذہن و ذکاوت کی رفعت، فہم و فراست کی پختگی اور حکمت و دانش کی ندرت کے سوتے یادوں ہی سے پھوٹتے ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے اپنے ان احباب کو یاد کیا جنھیں دیکھ دیکھ کر اس نے زندگی کے دن گزارے تھے مگر اب ہمیشہ کے لیے آنکھوں سے اوجھل ہو چکے ہیں حسین یادیں لوحِ دِل پر انمٹ نقوش ثبت کرتی ہیں اور ان یادوں کی تابندگی سے زندگی میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس تلخ یادیں زندگی کا سارا منظر نامہ گہنا دیتی ہیں جس کے نتیجے میں ان کے ساتھ بیتے لمحات کی رودادیں حسرتوں کی فریادیں بن جاتی ہیں۔ اپنے عزیزوں کو لحد میں اُتار کر الم نصیب پس ماندگان زندہ لاش بن جاتے ہیں جن کی آوازیں بھرا جاتی ہیں اور گریہ و زاری کے باعث آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔ جن عنبر فشاں پھولوں کی مہک قریۂ جاں کو معطر کرنے کا وسیلہ تھی جب گُل چینِ ازل انھیں توڑ لیتا ہے تو ہجوم غم سے گھبرائے ہوئے پس ماندگان کو پُوری بستی سُونی سُونی دکھائی دیتی ہے اور پُورا ماحول سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتا ہے۔ حیات مستعار کی کم مائے گی، مرگِ نا گہانی کے جان لیوا صدمات، کارِ جہاں کی بے وقعتی اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن خوف کے سوتے کارِ جہاں میں زندگی کی بے ثباتی ہی سے پھُوٹتے ہیں۔ کسی جان سے بھی پیاری شخصیت کا زینۂ ہستی سے اُتر کر شہرِ خموشاں میں تہہِ ظلمات پہنچ جانا پس ماندگان کے لیے بلا شبہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے مگراس سے بھی بڑھ کر روح فرسا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دِل کی انجمن کو تابانی، ذہن کو سکون و راحت، روح کو شادمانی، فکر و خیال کو ندرت، تنوع، تازگی اور نیرنگی عطا کرنے والے یہ گل ہائے صد رنگ جب ہماری بزم وفا سے اُٹھ کر ہمیں دائمی مفارقت دے جاتے ہیں تو یہ جانکاہ صدمہ دیکھنے کے بعد ہم زندہ کیسے رہ جاتے ہیں؟ عدم کے کُوچ کے لیے رخت سفر باندھنے والوں کی دائمی مفارقت کے بعد الم نصیب لواحقین پر زندگی کی جو تہمت لگتی ہے وہ خفتگانِ خاک پر دِل نذر کرنے اور جان وارنے والے لواحقین کو زندہ در گور کر دیتی ہے اور اس سانحہ کے بعد وہ سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرتے ہیں۔ مصنف نے جس خوش اسلوبی سے اپنے قلب حزیں اور دل و نگاہ کی گہرائیوں میں نمو پانے والے جذبات کی لفظی مرقع نگاری کی ہے اس کے معجز نما اثر قاری چشمِ تصور سے وہ تمام واقعات دیکھ لیتا ہے جن کا احوال اس کتاب میں ان شخصیات کے بارے میں مذکور ہے۔

’’یادیں باقی ہیں‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جس میں علم و ادب، سیاست، فنون لطیفہ، تنقید و تحقیق، فلسفہ، عمرانیات، تدریس اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ان اہم شخصیات کی یادیں محفوظ کی گئی ہیں جنھوں نے اپنی بے مثال کارکردگی کی بنا پر جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ مصنف نے یاد نگاری میں التزامِ دیدۂ خوش خواب کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تخلیق فن کے لمحوں میں عجز و انکسار اور خلوص و دردمندی کو اپنا شعار بنایا ہے۔ مصنف نے تعلّی اور خود نمائی کرنے والوں کو اپنی حقیقت سے آگاہ رہنے کی تلقین کی ہے۔ با کمال افراد کے درپئے پندار رہنے والوں کے ساتھ مقدر عجب کھیل کھیلتا ہے۔ دوسروں کی تضحیک کرنے والوں کو برادرانِ یوسف کے ہاتھوں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ رو سیاہی اور جگ ہنسائی نوشتۂ دیوار کی صورت میں ان کی منتظر رہتی ہے۔ اس کے بعد اس قماش کے مسخروں کے لیے شہر آرزو کا سوگ منانے کے سوا کچھ باقی نہیں بچتا۔ یہی تلخ یادیں ان کے لیے سوہانِ روح بن جاتی ہیں۔ اپنی تسبیحِ روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے ہوئے اور آئینۂ ایام میں اپنی ہر ادا کا احتساب کرتے وقت مصنف نے ماہ و سال پر نہیں بل کہ ساعتوں پر اپنی نظر مرکوز رکھنے پر اصرار کیا ہے۔ مصنف نے اس امر کا یقین دلایا ہے کہ ارتکازِ توجہ ید بیضا کا معجزہ دکھانے پر قادر ہے۔ اس کے ثمر بار ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب یہ سدا بہار یادوں کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے تو گلشن ہستی کو دائمی نکھار نصیب ہوتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے