چوزہ۔ شگفتہ اور وینٹی لیٹر مشین ۔۔۔ محمد جمیل اختر

ٹی وی چل رہا ہے، جس پر ایک خاتون عجیب بے ہودہ انداز میں تقریر کر رہی ہے۔ اُس کی آواز اتنی بری ہے یا شاید میرے کانوں کو بری لگ رہی ہے کہ میں ایک لفظ بھی نہیں سن سکتا۔ لیکن میں ٹی وی بند نہیں کر سکتا، کمرے کے کونے میں ایک چُوزہ بیٹھا ہے جس کے سامنے ایک پیالے میں پانی رکھا ہے لیکن وہ پانی نہیں پی رہا۔ شاید وہ مرنے والا ہے اُس کے پر جھڑ گئے ہیں اور وہ اب ایک عجیب ٹُنڈ منڈ سی چیز بن کر رہ گیا ہے اور میں عابد کی کہانی لکھ رہا ہوں۔

یہ گرمیاں اُن گرمیوں سے مختلف تو نہیں ہیں سوائے اِس کے کہ کیلنڈر پر سال بدل گیا ہے، بہت سال پہلے جب ایک روز میں ہوٹل پر بیٹھا تھا تو عابد کچھ بوکھلایا ہوا سا آیا، میں سمجھا شاید کوئی پولیس کا چکر ہے کہ وہ اُن دنوں لاٹری اور جوئے کی لت میں مبتلا تھا۔

’’مجھے معلوم تھا تم یہیں ملو گے، چلو تمہیں ایک بات بتانی ہے‘‘ اُس نے آتے ہی کہا۔

’’کیا ہو گیا ہے، تم کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہو‘‘ میں نے پوچھا

’’یہاں سے چلو تو سب بتاتا ہوں‘‘ اُس نے یہ کہا اور میں اُٹھ کر اُس کے ساتھ چل دیا تھا

ٹی وی پر اب ایک نوجوان لڑکا بے حد جذباتی انداز میں پاکستان کے موجودہ حالات پر تقریر کر رہا ہے، وہ سب باتیں جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں، سُنا رہا ہے، اگر رموٹ میرے پاس ہوتا تو میں چینل بدل دیتا لیکن میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا اور یہ کہانی جلد سے جلد مکمل کرنا چاہتا ہوں کہ میرے سر میں شدید درد ہے۔

عابد نے مجھے بتایا کہ اقبال ٹھیکیدار کی بیٹی کو اُس سے محبت ہو گئی ہے، پہلے مجھے حیرت ہوئی میں سمجھا وہ مذاق کر رہا ہے بھلا اُس سے کسی لڑکی کو کیوں کر محبت ہو سکتی ہے۔ اتنا فربہ جسم، رنگت سیاہ اور کام کاج وہ کرتا نہیں تھا۔ سارا دن جوئے کے اڈے پر پڑا رہتا۔ باپ سے لے کر محلے کے سب لوگوں کی اُس پر لعن طعن جاری رہتی، بچے عابد موٹو کہہ کر چھیڑتے تھے، بھلا اُس سے کیسے کسی کو محبت ہو سکتی تھی لیکن میں یہ باتیں کہہ کر اُس کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔

میں نے کہا ’’بعض دفعہ جسے ہم محبت سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ کچھ اور شے ہوتی ہے‘‘

’’کیا اور شے ہوتی ہے؟‘‘

’’معلوم نہیں لیکن۔۔۔‘‘

’’لیکن ویکن کچھ نہیں یہ دیکھو خط‘‘ اُس نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور میرے سامنے لہرایا

’’اوہ اچھا تو تم نے اُس کے لیے خط بھی لکھ لیا ہے، دیکھو ان کاموں میں اتنی جلدی نہیں کرتے‘‘

’’یہ اُدھر سے آیا ہے‘‘ اُس نے فخریہ انداز میں بتایا

’’کیا مطلب، یہ اُس لڑکی نے لکھا ہے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا

’’جی ہاں یہ خط اُس نے لکھا ہے، آج میں گلی سے گُزر رہا تھا تو اوپر سے یہ خط آ کر گرا، میں نے اوپر دیکھا تو وہ لڑکی کھڑی تھی اور پھر فوراً پیچھے ہٹ گئی‘‘

’’کیا لکھا ہے اِس خط میں‘‘ میں نے پوچھا

’’اُس نے لکھا ہے کہ اُسے مجھ سے محبت ہے اور وہ روز مجھے گلی سے گزرتے ہوئے دیکھتی ہے، اقبال ٹھیکیدار اُس کی شادی کمہاروں کے کسی لڑکے سے کرانا چاہ رہا ہے لیکن وہ شادی کرے گی تو صرف مجھے سے کرے گی ورنہ زہر کھا لے گی‘‘

میں نے عابد کی بات سنی تو کہا ’’یہ ساری محبت تو اُس لڑکی کی ہے، اِس میں تمہاری محبت کہاں سے آ گئی؟‘‘

’’تو گویا اِس میں میری محبت ہے ہی نہیں؟ جب کوئی آپ سے محبت کرے اور آپ کے لیے مرنے کو تیار ہو جائے تو کیا آپ اُس کے لیے جی بھی نہیں سکتے؟‘‘ عابد کی اِس بات میں دم تھا اور ایک ایسا لڑکا کہ جسے گھر اور محلے والے جھڑکتے رہتے ہوں اُس کے لیے یہ پیامِ محبت کچھ اور بھی شدید تھا اور ایسا ہی کچھ اثر عابد پر ہوا تھا۔

’’تو اب کیا کرنا ہے دوست؟‘‘ میں نے پوچھا

’’بس اب اُس سے ہر حال میں شادی کرنی ہے، اور تم جا کر میرے ابا سے کہو کہ وہ اقبال ٹھیکیدار سے میرے رشتے کی بات کریں‘‘

’’میں؟‘‘

’’ہاں تم، دوست اتنا تو کر سکتے ہو نا؟‘‘

’’ہاں لیکن تمہارے ابا نے میری بے عزتی کرنی ہے کہ تم کوئی کام تو کرتے نہیں دوسرا سارا دن جوئے کے اڈے پر بیٹھے رہتے ہو بھلا وہ رشتہ لے کر کیسے جا سکتے ہیں؟‘‘

’’اُس کی تم فِکر نہ کرو، آج سے سب ختم کر دیا ہے، کوئی جوا نہیں، کوئی لاٹری نہیں اور میں ابا کے ساتھ دکان پر بیٹھا کروں گا‘‘ اُس کے ارادے میں پختگی تھی، میں نے دو چار دن کے لیے اُسے ٹال دیا کہ دیکھوں تو کیا وہ واقعی کام پر جاتا بھی ہے کہ ویسے ہی باتیں کر رہا ہے لیکن وہ سچ مچ بدل گیا تھا اگلے ہی دن وہ دکان پر بیٹھا تھا گریبان کے بٹن جو ہر وقت کھلے رہتے تھے اب بند تھے، جوئے والی گلی سے گزرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ سو ایک روز میں نے چچا عبد الرحمن سے بات کی کہ وہ ٹھیکیدار اقبال کی بیٹی کے لیے عابد کا رشتہ لے کر جائیں، عابد کی خوش نصیبی کہ وہ بھی مان گئے اور اقبال ٹھیکیدار نے بھی ہاں کہہ دی۔

چوزہ اب گہری نیند میں ڈوب گیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اُسے ہاتھ لگا کر دیکھوں کہ وہ زندہ ہے کہ نہیں، پیالہ ابھی بھی اُس کے سامنے ہے مجھے لگ رہا ہے کہ چوزہ اِس پیالے میں گر جائے گا، عابد کی کہانی ابھی بیچ میں ہے اور میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے۔

مختصراً عابد کی شادی شگفتہ سے ہو گئی، اب یہ والا عابد پہلے پچیس سال والے عابد سے یکسر مختلف تھا، اُن دنوں میں عابد کو دیکھتا تو محبت کی طاقت پر یقین بڑھ جاتا کہ یہ کیسے آدمی کو بدل کر رکھ دیتی ہے اب وہ محبت میں جی رہا تھا، پچیس سال بیچارہ محبت کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا کہ پھر شگفتہ اُس کی زندگی میں بہار بن کر آ گئی، شگفتہ جو ایک آنکھ سے بھینگی تھی، عابد کو کبھی یہ خامی نظر ہی نہیں آئی وہ خوب صورت نہیں تھی لیکن عابد کے لیے وہ دنیا کی حسین ترین لڑکی تھی کیوں کہ وہ اُس سے محبت کرتی تھی۔ الغرض وہ خوشی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔

چوزہ لڑکھڑا کر پانی کے پیالے میں گرا اور ہڑبڑا کر باہر نکل کر کھڑا ہو گیا اُس کی آنکھوں میں بے پناہ خوف تھا۔ چوزے کو کس بات کا خوف ہے؟ کیا یہ سوچ بھی سکتا ہے؟ کیا اِسے بھی زندگی اور موت کا ادراک ہے؟ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا اگر ایسا ہوتا تو یہ اِس خوف سے کب کا مر گیا ہوتا۔ کل رات بلی نے اُس کے ساتھ کے سارے چوزے کھا لیے تھے لیکن یہ بچ گیا تھا لیکن اِس کے اندر کوئی خوف بیٹھ گیا تھا، بلی کا خوف، موت کا خوف یا شاید زندگی کا خوف۔۔ ۔ میں نے کئی باراُسے اٹھا کر دیکھا وہ زخمی نہیں تھا لیکن اُس کی آنکھوں میں بے پناہ خوف تھا ایسا خوف جو زندہ نہ رہنے دے۔۔۔

جن دنوں عابد باپ بننے والا تھا تو بے حد خوش تھا اور انہی دنوں محلے میں ایک ڈاکٹرنی نے میٹرنٹی ہوم کھولا۔ عابد کو اطمینان ہوا کہ یہ سارا کام محلے ہی میں نمٹ جائے گا اور اُسے شہر کے بڑے ہسپتال نہ جانا پڑے گا لیکن وہ ڈاکٹرنی جعلی تھی اور دوران آپریشن شگفتہ کی حالت بگڑ گئی، بچہ بھی فوت ہو گیا، وہاں مناسب مشینیں نہ ہونے کی وجہ سے اُس نے عابد کو کہا کہ وہ شگفتہ کو فوری طور پر شہر لے جائے وہ ایمبولینس میں اُسے شہر کے سرکاری ہسپتال لے آیا لیکن یہاں پہنچتے پہنچتے شگفتہ کومے میں چلی گئی اور ڈاکٹروں نے اُسے وینٹی لیٹر مشین پر منتقل کر دیا۔

عابد سرکاری ہپستال کے برآمدے میں زندہ لاش کی مانند دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا رہتا تھا۔

ایک دو تین حتیٰ کہ سولہ دن گزر گئے لیکن شگفتہ کو ہوش نہ آیا سرکاری ہسپتال میں اتنے مریض ہوتے ہیں کہ وہ سولہ دن ایک مریض کو کہاں سنبھال سکتے ہیں علاج سب تک پہنچنا چاہیے چاہے تھوڑا تھوڑا کر کے پہنچے پورے ہسپتال میں ایک وینٹی لیٹر مشین تھی اور مریض تھے کہ گنو تو گن نہ سکو۔

یہ سولہویں دن کی شام کا قصہ ہے کہ نرس بھاگتی ہوئی برآمدے میں عابد کے پاس آئی اور کہا اندر چلیے آپ کی بیوی کی حالت بہت خراب ہے۔ عابد دوڑتا ہوا نرس کے ساتھ اُس کمرے میں گیا جہاں شگفتہ موجود تھی، اُس نے دیکھا کہ شگفتہ بہت تکلیف میں سانس لے رہی ہے۔

’’اِس کی آخری سانسیں چل رہی ہیں‘‘ اُسی نرس نے کہا

عابد نے شگفتہ کا ہاتھ پکڑ لیا، وہ کومے میں تھی۔

شاید شگفتہ نے ہاتھ پہچان لیا تھا کہ عابد کے ہاتھ پر تھوڑا سا دباؤ بڑھ گیا تھا یا شاید اُسے ایسا صرف محسوس ہوا تھا اور پھر یکدم سب کچھ ڈھیلا ہو گیا۔۔۔

’’ایمبولینس کا انتظام کیجیے، لاش منتقل کرنی ہے، جلدی کیجیے ایک اور مریض بھی آ گیا ہے۔‘‘ نرس نے عابد سے کہا

عابد کو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا حتیٰ کہ اُسے وینٹی لیٹر مشین کی بند سکرین بھی نظر نہ آئی۔۔ ۔۔

چوزہ اب پیالے کے پاس اوندھا پڑا ہوا تھا۔۔۔۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے