وہ آنکھیں کیا حسیں ہوں گی۔۔۔ عبید الرحمٰن نیازی

وہ آنکھیں کیا حسیں ہوں گی
وہ کتنی دلنشیں ہوں گی
وہ لا محدود سے گہری
تر و تازہ
خرد کی آخری حد سے زیادہ وسعتوں والی
بہت اعلیٰ
بہت ارفع
وہ گاڑھی سرمگیں آنکھیں
کہ جن کو دیکھنے کا گَر کوئی موقع میسّر ہو
تو ساری کائناتیں گردشوں کو روک کر دیکھیں
ہر اک زندہ، نفَس کو تھام کر دیکھے چلا جائے
ہر اک بے جان کا دل بھی دھڑکنے لگ پڑے پیہم
خزانوں سے بھری آنکھیں
وہ سب سے قیمتی آنکھیں
کہ جن پر جاں لٹانے کو …
مچلتا ہو
تڑپتا ہو
جو اُن کو دیکھ لیتا ہو
اُن آنکھوں کی بدولت ہی ہے بینا، جو بھی بینا ہے
اُن آنکھوں نے ہی دکھلائے
زمین و آسماں سارے
اور اُن کے بھی سوا سب کچھ
سمندر، پیڑ، دریا، دشت، جنگل، وادیاں، کہسار
پرندے، مچھلیاں، حیواں
بشر اور جن
جہنّم، جنّتیں، حور و ملائک، عرش اور کرسی
قلم اور لوح
یہاں جس نے بھی جانا ہے اُن آنکھوں سے ہی جانا ہے
ہر اک ظاہر، ہر اک باطن
سبھی سچّائیاں اور جھوٹ
فراقِ راہِ حق و شر
اُن آنکھوں کی توجّہ جس پہ ہو جائے، وہی جانے
حقیقت کو وہی مانے
وہی پائے یقینِ کامل و محکم
وہ آنکھیں جو کہ یکتا ہیں
جو افضل ہیں
مقدّس ہیں
وہ جن کو حسن کے خالق نے جب تخلیق فرمایا
تو ان پر فخر فرمایا
انہیں محبوب ٹھہرایا
پھر اپنا حسن دکھلایا
وہ جن میں تاب تھی اتنی
کہ اُن میں حسنِ کامل بھی سہولت سے اتر آیا
وہ کتنی با یقیں ہوں گی!
وہ کتنی دلنشیں ہوں گی
وہ آنکھیں کیا حسیں ہوں گی
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے