نملوس کا گناہ ۔۔ شموئل احمد

ملوس آبنوس کا کندہ تھا۔  اس پر ستارہ زحل کا اثر تھا۔  حلیمہ چاند کا  ٹکڑا تھی  اور جیسے زہرہ کی زائدہ تھی۔

نملوس کے ہونٹ موٹے اور  خشک تھے۔ حلیمہ کے ہونٹ ایک ذرا دبیز تھے۔  ان میں شفق کی لالی تھی  اور رخسار پر اگتے سورج کا  غازہ تھا۔ نملوس  کے  دانت بے ہنگم تھے، بال چھوٹے  اور کھڑے کھڑے سے اور سر کٹورے  کی طرح گول تھا۔ ایسا لگتا بال سر پر نہیں اگے کٹورے پر رکھ کر جمائے گئے ہیں ۔ حلیمہ کے بال کمر تک آتے تھے۔ ان میں  کالی گھٹاؤں کا گذر تھا۔ دانت سفید اور ہم سطح تھے جیسے شبنم کی بوندیں سیپ  سے ہو کر دانتوں  کی جگہ آراستہ ہو گئی تھیں ۔ نملوس کی آنکھیں چھوٹی تھیں اور پلکیں  بھاری تھیں ۔ اس کی آنکھیں کھلی بھی رہتیں  تو بند بند  سی لگتی  تھیں ۔ حلیمہ کی  آنکھیں  شگفتہ تھیں ۔  ان میں  دھوپ کا بہت سا اجالا تھا۔  اور حکم ا للہ حیران تھا کہ اس کا  کالا بھجنگ  بیٹا کس کوہ قاف  سے گذرا کہ حسن  بے نظیر  سے پہلو گیر ہوا۔

زحل  اپنی رنگت میں  سیاہ  ضرور ہے  لیکن اس کا مثبت  پہلو بھی ہے۔ زحل صابر بھی ہے  شاکر بھی ہے  یہ  انسان کو درویش صفت  بناتا ہے۔ نملوس جب پیدا ہوا تھا تو  برج کواکب میں  زحل  اور قمر کا  اتصال تھا  اور ان پر  مشتری کی سیدھی نظر تھی۔  مشتری کا تعلّق مذہب  سے ہے  اور قمر دل  و دماغ ہے۔  نملوس  کے  دل  میں   قرب الٰہی  کی تڑپ تھی۔ اس کا  دل شاکر  تھا اور زبان ذاکر تھی۔ ۔ وہ  قران پڑھتا تو رقّت طاری ہوتی تھی۔ نماز کے بعد چارو قل پڑھتا۔ اور جمع کی پہلی ساعت میں مسجد جاتا  ا ور  بزرگان  دین  کا  قول  دہراتا کہ جو پہلی ساعت میں مسجد گیا اس نے گویا ایک اونٹ کی قربانی دی۔

نملوس اپنے لیئے بس ایک ہی دعا مانگتا تھا۔

’’  یا خدا ! جب تک مجھے زندہ رکھنا ہے  مسکین کی حالت میں زندہ  رکھنا۔

جب موت دے تو  مسکین مارنا  اور حشر کے دن مساکین کے ساتھ میرا حشر کرنا  ! ‘‘

جاننا چاہیئے  کہ ہر آدمی کے لیئے ایک شیطان ہے۔

قلب  انسانی بہ منزلہ ایک قلعہ کے ہے  اور شیطان دشمن ہے کہ اس کے اندر گھس کر  اس پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ بعض اولیا سے منقول ہے کہ  انہوں نے ابلیس سے پوچھا کہ  آدمی کے دل پر تو کس وقت غالب ہوتا ہے  تو اس نے جواب دیا کہ غضب اور خواہش نفسانی کے وقت اس کو دبا لیتا ہوں ۔ میں آنکھ میں رہتا ہوں اور جہاں جہاں خون پھرتا ہے وہاں وہاں میرا گذر ہے  اور  حرس و حسد میرے راستے ہیں جن پر چل کر میں  ملعون اور شیطان ا لرجیم  ہوا  اور کبھی پیٹ بھر کھانا مت کھانا  خواہ مال حلال طیّب ہی کیوں نہ ہو کہ پیٹ بھرنے سے شہوت کا زور ہوتا ہے اور شہوت میرا ہتھیار ہے۔

حکم اللہ راہو کا روپ تھا۔ رنگت سانو لی  تھی چہرہ لمبوترا تھا اور دانت نو کیلے تھے۔ نماز سے رغبت کم تھی۔ وہ اکثر جمع کی بھی نماز نہیں پڑھتا تھا۔ پیٹ بھر کھانا کھاتا تھا۔  ریشمی لباس پہنتا تھا۔ اس کی ایک چھوٹی سی پارچون کی دوکان  تھی۔ اس نے نملوس  کو  کاروبار میں  لگانا چاہا لیکن  وہ    جب  مال  تجارت سے بھی زکاۃ  الگ کرنے لگا  تو حکم اللہ نے چڑھ کر اسے دوکان سے الگ کر دیا تھا۔  نملوس مدرسہ  شمس ا لہدیٰ  میں مدرس ہو گیا تھا اور ذکر الہی میں مشغول رہتا تھا۔ حکم ا للہ کی بیوی فوت کر چکی تھی۔ تب سے اس کی بے

راہروی بڑھ گئی تھی۔ وہ دیر رات گھر لوٹتا۔ اکثر اس کے منھ سے شراب کی بو آتی تھی۔

معلوم ہونا چاہیئے کہ احتساب تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں کہ باپ کو نصیحت کرے تو جب باپ غصّہ کرے تو خاموش ہو جائے ـ۔  لیکن باپ کو سخت بات کہنا مناسب نہیں ہے۔ مناسب یہی ہے کہ اس کی شراب پھینک دے اور ریشمی لباس پھاڑ دے۔  نملوس  دبے لفظوں  میں  حکم اللہ  سے مخاطب  ہوتا۔   ’’  ریشمی پہناوا مرد کے لیئے ممنوع ہے۔ حق تعالیٰ  کو سفید لباس پسند ہے۔ ‘‘  حکم ا للہ اسے نفرت سے گھورتا تو وہ خاموش ہو جاتا۔

جاننا  چاہیئے  کہ دلوں میں باطن کے اسرار پوشیدہ  رہتے  ہیں ۔ علمائے دین کہتے ہیں کہ  دل کا حال بھرے برتن کی طرح ہے کہ جب چھلکاؤ گے تو وہی نکلے گا جو اس میں بھرا ہے۔ راگ دلوں کے حق میں سچّی کسوٹی ہے۔ عشق سماع سے بڑھتا ہے۔ جو اللہ کے عاشق ہیں اور اس کے دیدار کے مشتاق ہیں  کہ جس چیز پر نظر ڈالی اس میں نور پاک کا تبسّم دیکھا  اور جو آواز سنی اس  کو اسی کے باب میں جانا تو ایسے لوگوں کے حق میں راگ ان کے شوق کو ابھارتا ہے اور عشق و  محبّت  کو پختہ کرتا ہے۔

نملوس  ہر سال بلند شاہ  کے عرس میں  ان  کے آستانے پر  جاتا تھا اور  سمع میں شریک ہوتا تھا۔ اس کے دل پر سمع  چقماق کا کام کرتا۔ اس پر وجد طاری ہوتا  ا ور وہ ہ  میدان  رونق میں دوڑا چلا جاتا۔  مکاشفات اور لطائف ظاہر ہوتے۔ لیکن  اعضائے  ظاہری  میں  کوئی  حرکت نہیں  ہوتی تھی۔  ضبط سے کام لیتا  اور گردن  نیچے کو ڈال لیتا  جیسے گہری سوچ میں ڈوبا ہو۔

امسال بھی وہ عرس میں شامل ہوا تھا۔ اور وہاں کے پیش امام نے  اسے وجد کی کیفیت میں دیکھا۔ نملوس میں اسے ایک مومن نظر آیا۔ اس نے نملوس کا حسب نسب دریافت کیا اور اسے گھر کھانے پر بلایا۔ نملوس ہمیشہ کھانا نمک سے شروع کرتا تھا اور  نمک پر ختم کرتا تھا  اور آخیر میں کہتا تھا ’’  الحمد لللہ ‘‘۔ اس دوران وہ  انبیا  کے قصّے بھی سناتا۔ ۔ پیش امام کے ساتھ وہ دستر خوان پر بیٹھا تو  اس نے حسب  معمول پہلے نمک چکھا۔ کھانے کے دوران  حدیث سنائی۔

’’ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ  چند لوگ قیامت میں ایسے آئیں گے  جن کے اعمال تھایہ کے پہاڑوں کے مانند ہوں گے۔ ان سب کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ لوگ نماز پڑھنے والے تھے ؟ حضور نے فرمایا ہاں  نماز پڑھتے تھے روزے رکھتے تھے  اور رات کو  بیدار  رہتے تھے  لیکن دنیا کے مال و متاع پر فریفتہ تھے۔ ‘‘

کھانا  ختم  کر کے نملوس نے  پھر نمک  چکھا  اور بولا  ’’ الحمد لللہ ‘‘

پیش امام کی زبان سے برجستہ نکلا   ’’ جزاک اللہ ! میاں تمہاری ماں نے تمہیں بسم  ا  للہ پڑھ کر جنا ہے۔ ‘‘

پیش امام نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو  نملوس کی جھولی میں ڈال دے گا۔  حلیمہ اکلوتی اولاد تھی  اور جیسی صورت تھی ویسی سیرت بھی تھی۔  حلیمہ کے حسن کے بہت چرچے تھے۔ ہر کوئی  اس کا طلب گار تھا  لیکن حلیمہ اتنی متّقی اور پرہیز گار تھی کہ پیش امام  اسے کسی ناہنجار کے سپرد نہیں کرنا چاہتا تھا۔ حلیمہ کے لیے اسے کسی مومن کی تلاش تھی  اور یہ مومن اسے نملوس میں نظر آیا۔  اس نے  اپنے ارادے ظاہر کیئے تو  نملوس نے دبی زبان میں  امام شافعی کا قول  دہرایا کہ  نکاح سے پہلے لڑکی دیکھ لینا واجب ہے۔ اس نے حلیمہ کو دیکھا اور خدا کا شکر بجا لا یا۔

پیش امام کو بہت عجلت تھی۔ ۔ اس  ڈر  سے کہ کوئی اس رشتے میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ اس نے فوراّ نکاح کی تجویز رکھی  اور نملوس بھی راضی ہو گیا۔

نملوس  حلیمہ کو لے کر گھر میں داخل ہوا  تو حکم ا للہ کو ادب سے سلام کرتے ہوئے گویا ہوا۔

’’  ابّا  !  ایمان کے بعد نیک عورت سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے۔ خدا نے مجھے اس نعمت سے نوازا۔ آستانہ فرقانیہ کے پیش امام صاحب  نے  اپنی دختر نیک اختر میرے  حق زوجیت میں سونپی  ہے۔ ‘‘

اور حکم اللہ  جیسے سکتے میں تھا۔ اس کی نگاہ حلیمہ پر جم سی گئی تھی۔ وہ یہ بھی نہیں  پوچھ سکا کہ  نکاح کب کیا ؟ مجھے خبر کیوں نہ کی ؟  وہ تو بس حیران تھا کہ  اس کا کالا بھجنگ بیٹا کس کو ہ  قاف سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حلیمہ  ڈر گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس پر لرزہ  سا طاری ہو گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ حکم اللہ کی زبان  لپلپا  رہی ہے اور آنکھیں سانپ کی آنکھوں کی طرح ہیرے اگل رہی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔   حلیمہ بے ہوش ہو گئی۔

نملوس گھبرا گیا۔ اس نے حلیمہ کو گود میں  اٹھایا اور بستر پر لایا۔ منھ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ چارو قل پڑھا۔ درود شریف پڑھ کر دم  کیا۔  حلیمہ کو ہوش آیا تو وہ نملوس سے لپٹ گئی۔

’’  میرے سرتاج۔ ۔ ۔ ۔ کہا ں ہیں ؟

’’ میں یہاں ہوں حلیمہ۔ ۔ ۔ تمہارے پاس۔ ۔ ۔ !‘‘  نملوس نے حلیمہ کے گال تھپتھپائے  اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔

مجھے چھوڑ کر مت جایئے۔ ‘‘  حلیمہ کانپتی ہوئی اس کے سینے میں کسی بچّے کی طرح سمٹ گئی۔

حکم ا للہ کی طبیعت  میں  ہیجان تھا۔ وہ گھر سے باہر نکل گیا اور عثمان  حلوائی  کی دوکان پر آیا۔ عثمان  سے  اس کو رغبت تھی۔ اس کو سب حال سنایا۔ حلوائی  پیش امام کو جانتا تھا۔  حلیمہ کے حسن کے  بھی چرچے سنے تھے۔

’’ غریب کو حسین عورت  نہیں سجتی  ہے حکم ا للہ۔ تمہارا بیٹا اپنے لیئے لعنت لے آیا۔ ‘‘

’’   حسن  راجہ رجواڑوں  کو سجتا  ہے یا بالا خانے کی طوائفوں کو ‘‘

اور محلّے میں  شور تھا۔ ۔ ۔ غریب کی جھولی میں زمرّد۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اتنی حسین۔ ۔ ۔ اتنی۔ ۔ ۔ ؟

کوئی نقص ہو گا۔ ورنہ  پیش امام اس کالے کلوٹے کے حوالے نہیں کر دیتا۔

اس کو مرگی کے دورے پڑتے ہیں ۔ گھر آتے ہی بے ہوش ہو گئی۔

’’  ضرور پیٹ سے ہے۔ ‘‘

محلّے کی عورتیں  بھی جوق در جوق چلی آتی تھیں ۔  منھ پر پلّو کھینچ کر کھسر پھسر کرتیں ۔

’’ یہ حور پری۔ ۔ ۔  اور نملوس کو دیکھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہو۔ ۔ ہو۔ ۔ ۔ ہو۔ ۔ ۔  ؟‘‘

’’  لنگور کے پہلو میں حور۔ ۔ ۔ !

’’ کوئی نقص ہو گا بہن۔ ۔ ۔ !‘‘

۔ ۔ پہلے سے پیٹ ہو گا۔ تب ہی تو امام نے نبٹارا کر دیا۔ ‘‘

’’ عیب چھپتا ہے جی۔ ۔ اللہ سب  ظاہر کر دے گا۔ ‘‘

ہوں محلّے میں پہلے  نملوس کی بد  صورتی کے چرچے نہیں تھے۔ سبھی اس کی عزّت کرتے تھے  اور  اس کی پارسائی کا گن گان کرتے تھے۔ اب حلیمہ کے چرچے تھے اور نملوس کے لیئے سب کی زبان پر ایک ہی بات تھی۔ ۔ ٹھگنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بھدّا۔ ۔ ۔ بد صورت۔ ۔ ۔ ۔ کالا پہاڑ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور  کالا  پہاڑ چاندنی میں شرابور تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زہرہ کے پہلو سے پہلو سجاتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر دن عید تھا اور ہر  رات شب برات تھی۔ ۔ ۔      نملوس حلیمہ سے کھیلتا  اور حلیمہ نملوس سے کھیلتی۔  زحل  کا زہرہ  سے اتصال تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چوڑیوں  کی کھنک تھی۔ ۔ ۔  مدھم مدھم قہقہے  تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فضا میں  نشہ تھا۔ ۔

بیویوں  سے مزاح کرنا  سنّت ہے۔ نملوس گھر میں لوڈو لے آیا تھا۔ دونوں خالی  وقتوں  میں لوڈو کھیلتے۔ پہلے سانپ اور سیڑھی کا کھیل کھیلتے تھے۔ حلیمہ  سیڑھیاں چڑھتی تو  خوش ہوتی  اور سانپ کاٹتا   تو ٹھنکتی اوں ۔ ۔ ۔ اوں ؛۔ ۔ ۔ اوں ۔ ۔ سانپ۔ ۔ سانپ۔ نملوس مسکراتا اور حلیمہ کو دلاسہ دیتا۔ ’’ دیکھو۔ ۔ دیکھو۔ ۔ ۔ آگے سیڑھی ہے۔ ۔ ۔ پھر چلو سیڑھی پر چڑھ جاو گی۔

لیکن سانپ نملوس کو بھی کاٹتا تو وہ اسی طرح ٹھنکتی ’’  اللہ جی۔ ۔ ۔ ا اپ کو بھی کاٹ لیا کمبخت نے۔ ۔ ۔ ؟‘‘ اور  نملوس  سے سٹ جاتی۔ وہ اپنے شانے پر حلیمہ کی چھاتیوں کا نرم لمس محسوس کرتا۔ اس کو حلیمہ کی یہ ادا اچھی لگتی۔ ایک بار  ۹۸ پر نملوس پہنچ  گیا تھا۔ ۲ نمبر لاتا  تو گوٹی لال تھی۔ ۔ لیکن ایک نمبر آیا اور سانپ نے ۹۹ پر ڈس لیا وہ سیدھا ۵  پر پہنچ گیا۔ حلیمہ کے منھ سے چیخ نکلی۔ وہ نملوس سے لپٹ گئی۔

’’ میرے سرتاج۔ ۔ ۔ ‘‘

نملوس  نے بھی اسے بانہوں میں کس لیا اور اس کی مخملی پلکوں پر اپنے سیاہ موٹے ہونٹ ثبت کر دیئے۔

’’ کیوں  ڈرتی ہو ؟ جھوٹ موٹ کا  تو  سانپ ہے۔ ‘‘

’’مجھے  یہ کھیل پسند نہیں ہے۔ ‘‘  حلیمہ اس کے بازوؤں میں کسمسائی۔

’’  اچھی بات ہے۔ دوسرا کھیل کھیلیں گے۔ ‘‘  نملوس  اس کو بازوؤں میں لیئے رہا۔ حلیمہ بھی بانہوں میں سمٹی رہی۔ ۔ اور پلکوں پر ہونٹ ثبت رہے۔ ۔ ۔ ۔ اور نشہ چھاتا رہا۔ ۔ ۔ فضا گلابی ہوتی رہی۔

وہ   چارو گوٹی سے ہوم ہوم کھیلنے لگے۔

سانپ والا کھیل انہوں نے بند کر دیا تھا۔ لیکن قدرت  نہیں کرتی۔ وہ  سانپ اور سیڑھی کا کھیل کھیلتی رہتی ہے۔  ہر سیڑھی کے مقدّر میں ایک سانپ  ہے۔

حلیمہ کو موتی چور کے لڈّو بہت پسند تھے۔ نملوس جب بھی بازار جاتا  موتی چور کے لڈّو لاتا۔ ایک ہی لڈّو سے دونوں کھاتے۔ حلیمہ ایک  ٹکڑا نملوس کے منھ میں ڈالتی  تو نملوس کہتا

’’ پہلے تم۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

’’ نہیں آپ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

’’ نہیں  تم۔ ۔ ۔ ۔ !

’’ آپ سرتاج ہیں ! ‘‘

’’ تم ملکہ ہو ! ‘‘

حلیمہ کھلکھلا کر ہنس دیتی۔ لیکن منھ پر ہاتھ بھی رکھ لیتی۔ نہیں چاہتی تھی ہنسی کی آواز دور تک جائے۔

حلیمہ حکم  ا للہ  کے سامنے جلدی نہیں آتی تھی۔ حلیمہ کو اس کی آنکھوں سے ڈر لگتا تھا۔ کھانا میز پر کاڑھ کر الگ ہٹ جاتی۔ وہ پانی مانگتا تو  نملوس  پانی ڈھال کر دیتا تھا۔ کبھی کبھی اس کے منھ سے شراب کی بو آتی تھی۔ نملوس بھی چاہتا تھا کہ حلیمہ  اس سے پردہ کرے۔ نملوس جب گھر میں  موجود  نہیں رہتا  تو حلیمہ خود کو کمرے میں بند رکھتی تھی۔ وہ کھڑکی تک نہیں کھولتی تھی۔ حکم ا للہ کو احساس ہونے  لگا  تھا  کہ گھر اب اس کا نہیں رہا۔ گھر  نملوس کا ہے جس پر حلیمہ کی حکمرانی ہے  اور وہ  اپنے ہی گھر میں اجنبی ہوتا جا رہا ہے۔ جب نملوس کمرے میں موجود رہتا  تو حکم ا للہ ان کی نقل و حرکت  جاننے کی کوشش کرتا۔  دروازے کی طرف تاکتا رہتا۔ دروازہ بند رہتا تو قریب جا کر ان کی گفتگو سننے کی کوشش کرتا۔

حضرت  عیسیٰ  علیہ ا لسّلام نے فرمایا ہے کہ تاکنے سے  بچتے رہو کہ اس سے شہوت  کا بیج پیدا ہوتا ہے۔ حضرت یحیٰ علیہ ا لسّلام سے کسی نے پوچھا کہ زنا کی ابتدا  کہاں سے  ہوتی ہے  تو آپ نے فرمایا دیکھنا اور للچانا۔

گوتم رشی کی بیوی اہلیہ کو اندر دور سے دیکھتا تھا۔  آخر گوتم کا بھیس  بدل کر ان کی کٹیا میں آیا۔ اہلیہ  اندر  کو  رشی سمجھ کر ہم بستر ہوئی۔   رشی کو معلوم ہوا تو اہلیہ ان کے غیض و غضب کا شکار ہوئی۔ رشی نے اہلیہ کو پتھر بنا دیا۔

ایک دن اچانک حکم ا للہ بدل گیا۔ ریشمی لباس پھاڑ ڈالے۔ گھر کا کونہ پکڑ لیا۔ گریہ کرنے لگا ‘‘ یا اللہ میں گناہ گار ہوں ۔ مجھے معاف کر۔ ۔ ۔ مجھے سیدھے  رستے چلا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

اور نملوس  نے دیکھا والد محترم  مسجد جانے لگے ہیں ۔ نملوس  حیران ہوا۔

اور حکم ا للہ گوشہ نشیں ہو گیا۔ کلام پاک کی تلاوت کرتا۔  پہلی ساعت میں مسجد جاتا۔ غسل سے  پہلے تین بار وضو کرتا۔ پھر تین بار بائیں طرف پانی اجھلتا۔ تین  بار دائیں طرف  پانی اجھلتا۔ اور آخیر میں  لا الہ پڑھتے ہوئے تین بار سر پر پانی اجھلتا۔

وہ اب سادہ لباس پہنتا تھا اور  لوگ باگ حیرت سے دیکھتے تھے۔ ایک بار کسی نے ٹوک دیا۔

’’ آج کل پھٹے پرانے کپڑے میں نظر آتے ہو۔ ؟ ‘‘

حکم ا للہ  نے برجستہ جواب دیا۔

’’  ایسے شخص کا لباس کیا دیکھتے ہو  جو اس دنیا  میں مسافر کی طرح  آیا ہے  اور جو اس کائنات کی رنگینیوں کو فانی  اور وقتی  تصّور کرتا ہے۔ جب والی دو  جہاں  اس دنیا میں مسافر کی طرح  رہے  اور کچھ مال و زر  اکٹھا نہیں کیا تو میری کیا  حیثیت  اور حقیقت  ہے۔ ‘‘

حلیمہ کو اب حکم ا للہ سے  پہلے کی طرح خوف نہیں محسوس ہوتا تھا۔ وہ سامنے آنے لگی تھی۔ کھانا بھی کاڑھ کر دیتی اور نملوس کی خوشیوں کا  ٹھکانہ نہیں تھا۔

راہو پیچھے کی طرف کھسکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بہت آہستہ۔ ۔ ۔ چپکے  چپکے۔ ۔ ۔ چاند سے اس کی  دشمنی ہے۔ چاندنی  اس سے دیکھی نہیں جاتی۔  جب شمس  قمر کے عین مقابل  ہوتا ہے  تو چاندنی  شباب پر ہوتی  ہے۔  راھو  ایسے میں اگر چاند کے قریب پہنچ  گیا تو اس کو جبڑے میں  کس لے گا  اور چاند کو گہن  لگا دے گا۔

وہ گھڑی آ گئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ قمر  منزل  شرطین  سے گذر رہا تھا۔

نملوس جماعت کے ساتھ ذکر الٰہی  میں  دوسرے شہر کو چلا گیا۔

راھو  اپنی چال  چلتے  ہوئے  برج  ثور  کے آخری عشرے  سے نکلا چاہتا تھا۔

حکم ا للہ گھر سے باہر نکلا۔ عثمان کی دوکان  سے موتی چور  کے دو  لڈّو  لیئے  جو  اس نے  خاص  طور سے  بنوائے  تھے۔  شام کو گھر  پہنچا۔ لڈّو حلیمہ کو دے کر نظریں  جھکاتے  ہوئے کہا ’’ یہ نیاز کے لڈّو ہیں ۔ کھانے کے ساتھ کھا لینا۔ انہیں باسی نہیں  کھایا جاتا۔ ‘‘  اور پھر اپنے  کمرے میں  آیا  اور زور زور سے  تلاوت کرنے لگا۔ رات کھانے کے وقت   باہر نکلا۔ نظر نیچی رکھی۔  حلیمہ نے کھانا کاڑھا۔ حکم ا للہ نے خاموشی سے کھا یا  اور کمرے میں بند ہو گیا لیکن اس نے وہ کھڑکی کھلی رکھی جو حلیمہ کے کمرے کی طرف کھلتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کھڑکی  سے  جھانک کر  دیکھا۔  حلیمہ اوسارے  میں بیٹھی کھانا کھا رہی تھی۔ اس نے ایک لڈّو کھایا۔ پھر دوسرا بھی کھایا۔ ۔ ۔ لیکن پانی نہیں پی سکی۔ اس کو غش  آ گیا۔ راہو شرطین کی منزل میں تھا۔ ۔ ۔

حلیمہ کو  چھو کر دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ گہری گہری سانسیں  لے رہی تھی۔ ۔ گود میں اٹھا کر بستر تک لایا۔ ۔ ۔ ۔ حلیمہ نے ایک بار آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن پپوٹے بھاری ہو رہے تھے۔ ۔ ۔

’’ پانی۔ ۔ ۔ پانی۔ ۔ ۔ !‘‘  حلیمہ نے ہونٹوں پہ زبان پھیری۔ ۔ ۔ ۔ سہارا دے کر اٹھایا اور ہونٹوں سے پانی کا گلاس لگایا۔ حلیمہ  نے پھر کچھ دیکھنے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن آنکھیں کھلتیں  اور بند ہو جاتیں ۔ ۔ ۔ مزاحمت کی سکت نہیں تھی۔ ۔ ۔ راہو کے سائے گہرے ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ روئے زمیں پر  سب سے بھدّا منظر چھا گیا۔ ۔ ۔ ۔

حکم ا للہ  نے صبح  صبح مسجد پکڑ لی۔  اعتکاف میں بیٹھ گیا۔

نملوس گھر آیا تو حلیمہ بے سدھ پڑی تھی۔ جسم پر جگہ جگہ نیلے داغ  تھے۔ حلیمہ کچھ بولتی نہیں تھی۔ وہ روتی بھی نہیں تھی۔ اس کی زبان گنگ تھی۔ ۔ نملوس گھبرا گیا۔ پڑوس کی عورتیں جمع ہو گئیں ۔ ۔ ۔ حلیمہ پھر بھی  چپ رہی۔ ایک عورت نے نملوس کی قسم دے کر پوچھا۔ حلیمہ کے سینے سے دل خراش چیخ نکلی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جگ ظاہر ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔

حکم ا للہ  تو عبادتی ہو گیا ہے۔ ۔ ۔

یہی  چھنال  ہے۔ ۔ ۔ !

پنچائت ہوئی۔ قاضی نے فیصلہ سنایا۔

حلیمہ  نملوس پر حرام قرار دی گئی۔ ۔ ۔ ۔

اور حکم ا للہ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

دو مومن گواہ چاہیئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حکم ا للہ کے لیئے  ملک کا قانون  سزا تجویز کرے گا۔ ۔ ۔ ۔ !

نملوس  کی آنکھوں  میں گہری دھند تھی۔ وہ سجدے میں  چلا گیا۔

’’  یا اللہ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے ایسا کون سا گناہ کیا تھا کہ تو نے میری حلیمہ کو مجھ سے  چھین لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

نملوس کچھ دیر سجدے میں پڑا  رہا۔ ۔ ۔ ۔ پھر جیسے کسی نے اس سے سرگوشی  میں کچھ کہا اور  نموس  اٹھ کر کھڑا ہوا۔ اس کا چہرہ نور الٰہی سے چمک رہا تھا۔ اس نے با آواز بلند پنچائت سے خطاب کیا۔

’’ میں یہ فتویٰ ماننے سے انکار کرتا ہوں ۔ ‘‘

’’ یہ فتویٰ  اسلامی  ضوابط پر مبنی نہیں ہے۔ اس سے ذاتی بغض کی بو آتی ہے۔ ‘‘

’’  پنچایت نے زانی کی سزا کیوں نہیں تجویز کی جب کہ اسلام میں زانی کی سزا سنگ ساری ہے ؟‘‘

’’  حلیمہ  حرام کیوں ؟ وہ بے گناہ اور معصوم ہے۔ اس کو نشہ آور مٹھائی کھلا کر بے ہوش کر دیا گیا اور  بے ہوشی کے عالم میں اس کے  ساتھ زنا بی ا لجبر کیا گیا۔ میں زانی کو ساری دنیا کی عورت پر  حرام قرار  دیتا ہوں اور ہر وہ بات ماننے سے انکار کرتا ہوں جو اسلامی روح سے بے بہرہ ہے۔ ‘‘

پنچائت میں سراسیمگی چھا گئی۔

نملوس نے  حلیمہ کا ہاتھ پکڑا اور بستی سے نکل گیا۔ ۔ ۔ ۔ !

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے