مردِ آزاد ۔۔۔ قیصر شہزاد ساقیؔ

بچپن میں کسی شرارت پہ امی کہتیں ’’یوں کرو گے تو اللہ میاں ناراض ہوں گے‘‘ اس جملے کی زیادتی سے میرے معصوم دماغ میں یقین کی حد تک جو اللہ میاں کی تصویر بنتی وہ کچھ یوں تھی: لمبا قد، خوبصورت کھڑی ناک، چوڑی پیشانی اور اس پہ مستزاد نا مٹنے والی لکیریں جیسے بنجر زمین پہ کسی نے ہل چلا دیا ہو۔ پاؤں میں کھسہ جو ہر پل میری طرف لپکتا نظر آتا اور اس لمحے وہ شکار پر لپکتے مینڈک کی طرح اپنے سے لمبا ہو جاتا۔ اس کے علاوہ پگڑی، کرتا، شلوار کی اکثر الجھی اور کبھی سلجھی ہوئی صورت بھی ملبوس کا حصہ تھی‘‘۔ یہ حلیہ میرے تایا ابو کا تھا۔ جو اپنے غصے کی وجہ سے میرے اعصاب پر میرے بچپن سے سوار تھے اور میں ہر غائب جلالی روپ اور شخصیت کو ان کے ہی چہرے مہرے سے تشبیہ کا تعلق قائم کر کے فرض کر لیتا تھا۔ میرا ان کا مسئلہ بڑا پیچیدہ تھا ہم ایک دوجے بن رہ بھی نہیں سکتے تھے اور ساتھ رہنے پر ان کا بے جا غصہ۔۔۔۔۔۔ اتنی کوفت ہوتی تھی۔ وہ اتنا اونچا بولتے تھے کہ سمجھ ٹریکٹر کے ٹیپ ریکارڈر کی طرح قریب والوں کو نہیں بلکہ دور والوں کو زیادہ اور صاف آتی تھی۔ تایا ابو تو وہ خود بن بیٹھے اپنے بے جا غصے اور کارناموں کی وجہ سے جن سے کوئی چھوٹا، بڑا محفوظ نہ تھا۔ وگرنہ وہ عمر کے لحاظ سے تیسرے چوتھے نمبر پر تھے۔ تایا ابو ان کا اعزازی رتبہ تھا۔ عجیب انسان تھے۔۔۔۔ ۔۔۔۔ انسان ہے ہی عجیب مخلوق لیکن انھوں نے ساری زندگی اپنے تیسرے درجے کے اصولوں پر گزاری ان کی زندگی کی بوٹیکا میں عبادت، شادی اور تعلیم جیسے لفظ حذف ہو کے رہ گئے تھے۔ ساری جوانی شادی کے لیے آمادہ نہ ہو سکے اور جب ہوئے تو دیر ہو چکی تھی۔ بالکل کچھ روحیں تنہا دنیا میں اترتی ہیں اور تنہا ہی سفرِعدم پہ نکل کھڑی ہوتی ہیں۔ دنیا ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑتی۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جن کی زندگی کی عمارت کام، کام اور بس کام کے اصول پے کھڑی ہوتی ہے۔

زمین سے محبت تھی جب بھی ہل چلاتے کنواری زمین کی سوندھی سوندھی بو پھیلنے نہ دیتے بلکہ لمبے لمبے سانس لے کے اسے اپنی ذات تک، اپنے سیاہ پھیپھڑوں تک محدود کرنے کی پوری کوشش کرتے۔ ان کا بس چلتا تو اس وقت کسی کو سانس بھی نہ لینے دیتے۔ شاید زمین ہی ان کی نو بیاہتا تھی جو ہر بار ہل چلانے پر وہی کوری اور کنواری پہلے کی سی تازہ بو اور احساس دلاتی۔ مجھ میں ان کو ایک مکمل کسان کی تصویر نظر آتی تھی باقی کھیل کود، ڈراما اور تعلیم ان کے خیال میں فضول چونچلے تھے۔

ہم مشرب و ہم پیالا اور ہر سفر کے ساتھی کے طور پر میری تعلیم ان کو کھٹکتی ہی رہی۔ کھٹکتی نہیں تو میری صلاحیتوں کا ضیاع ضرور لگتی تھی۔

مجھ میں ان کو مکمل کسان کی تصویر نظر آتی تھی باقی کھیل کود، ڈراما اور تعلیم ان کی نظر میں فضول چونچلے تھے۔

کھیتوں کے کام میں، میں سست تھا جس کو وہ میری تعلیم اور ناقص تربیت کا شاخسانہ قرار دیتے اور ہر کام کے غلط ہونے جو کہ ان کے خوف سے از خود ہو جاتا تھا یہی کہتے: ’’یہی کچھ سکول میں پڑھتے ہو‘‘ غصہ کرنے کی کوئی ایک وجہ تھوڑی رکھتے تھے بلکہ موصوف بات بہ بات وجہ پیدا کر لیتے تھے۔ کسی نے جو بال بڑھا لیے بس اس بات پر بھنا گئے بال کٹوا لیے اس پہ سیخ پا ہو گئے۔ سارے دن میں شگفتگی اور نرمی ان پر اس وقت وارد ہوتی جب وہ بوہڑی والے ڈیرے کی تناور بوہڑ کے نیچے دوپہر کو سستانے جاتے یہ تقریباً معمول تھا اور ضرور وہاں پیار بھری باتیں بھی کرتے۔ پر جنت مکانی کو میں نے اپنی زندگی میں ایک دو بار ہی کھل کے ہنستے دیکھا یہی ایک جگہ ان کے کتھارسس کا ذریعہ تھی یا پھر غصہ جس کا شکار کوئی نہ کوئی ہو ہی جاتا اور میں اکثر۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۴ اگست کا دن تھا۔ میں سینے پہ جھنڈا سجائے ڈیرے پہ پہنچا تو آپ سے راہ پر ہی ملاقات ہو گئی عادت کے مطابق ماتھے پہ کئی بل ڈال کے پوچھا سکول۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ آج یومِ آزادی ہے۔ (غصہ جس میں لاعلمی کی خفت بھی شامل تھی) تو کیا پھر سکول نہیں جاؤ گے اتنا خاص دن ہے تمہارے لیے مجھے اس دن بہت غصہ آیا میں دل ہی دل میں انھیں غدار اور جانے کیا کچھ کہا لیکن اب مجھے وہ بھولا پن کیوں بھاتا ہے اور میں سوچتا ہوں ان کی اپنی دنیا کتنی وسیع ہو گی حدوں سے ماورا یا کتنی محدود لیکن با اختیار جہاں میرے ایسے سرکش بھی ان کے ہر حکم کو مانتے تھے۔ ہر سال عاشورہ کے دنوں میں نمکین اور گڑ والے چاولوں کی دیگیں بڑے اہتمام سے تیار کروائی جاتیں یہ عمل مرگ سے پہلے تک جاری رہا جس کا مجھے بڑی شدت سے انتظار رہتا میں بھاگم بھاگ برتن اٹھا کے دیتا کبھی چولھے میں آگ بڑھاتا اور جیسے ہی تقسیم کرنے کے لیے چاول دیگ سے نکال کے پھیلائے جاتے میں مٹھ بھر کے منہ میں ڈال لیتا لیکن انھیں پتا نہیں کیسے خبر ہو جاتی لوگ کہتے تھے ان کے پاس گیدڑ سنگھی ہے۔ اسی لیے انھوں نے چوری شدہ کلھاڑی کئی دنوں بعد ڈھونڈ نکالی تھی یا لڑکپن میں گھر میں کھانے والی چیز جہاں بھی چھپا دی جاتی انھیں خوش بو آ ہی جاتی اور پھر کیا۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔ عید کے دن مسجد میں ان کی آمد سب سے نرالی ہوتی تھی جیسے ہی نماز مکمل ہوتی اور خطبہ شروع ہوتا موصوف کی سائیکل مرکزی گیٹ پہ آ رکتی پھر وہ صف شکن صفوں کو توڑتا سیدھا ان لوگوں کے پاس پہنچتا جو مسجد و درس کا چندہ اور امام مسجد کی خدمت اکٹھی کرتے تھے ان کے ہاتھوں میں حسب توفیق روپے تھما کے واپسی اختیار کرتے تھے اور یہ ہر سال کا معمول تھا۔ آزاد بخت جب شاہراہ ریشم بن رہی تھی تو فوج میں بطور مزدور بھرتی ہوئے لیکن بقول ان کے جب روز سفید، بھاری بھرکم اونی جیکٹوں میں خون آلود لاشے ایبٹ آباد لائے جاتے تو لانچ کا معاملہ کھٹائی میں پڑتا نظر آنے لگا پہلے تو میں نے ایک مصروفیت ڈھونڈ لی کہ کرنل صاحب کی کوٹھی میں دیو ہیکل شیشم کی کاٹ چھانٹ جسے حتی المقدور میں نے لٹکائے رکھا کیوں کہ ان کے اوپر چڑھنا کسی اور کے بس کی بات نہ تھی ان کا انتظام کرتا رہا لیکن وہ بھی انجام کو پہنچیں تو راہ فرار ضروری ہو گئی جس کے بعد چند دن جیل بھی نصیب ہوئی۔ لیکن یہ ان کی آزاد طبیعت کے کہاں مانع آ سکتی تھی اس کے بعد کہیں نکلنے کا سوچا بھی نہیں۔

کھسے سے زبان کا کام لیتے تھے۔ ایک دن میں حقہ بنا رہا تھا چلم میں تمباکو ڈالا، گڑ نرم کر کے رکھا ہی چاہتا تھا کہ کوئی چیز چھپاک سے مجھے آ لگی اگلے لمحے درد کے شدید احساس کے ساتھ میں نے کھسے کو کراہتے ہوئے پایا جو کہ میری ریڑھ کی ہڈی پہ آ لگا تھا اور میرا سانس اٹک کے رہ گیا۔ وجہ ہی کیا تھی میں اس شغلِ شاہانہ میں اناڑی گڑ اور تمباکو کے رشتے سے چنداں بے خبر۔ کہاں جانتا تھا کہ گڑ کی مقدار زیادہ ہو تو دھواں میٹھا ہو جاتا ہے اور کڑواہٹ نہ ہو تو سارا مزہ حقارت جاتا ہے۔

میں ڈیرے پے پھر کبھی نہ آنے کا کہہ کر گھر آ جاتا لیکن پھر خود ہی بانس کے باغ میں شام کو جمتی چڑیوں کی منڈلیاں اور خشک پتوں کی پریوں کے پروں کی سی سرسراہٹ مجھے دوسرے دن پھر سے ڈیرے پر لا کھڑا کرتیں۔ تایا ابو میرے ابو کے منع کرنے کے باوجود مجھے کھیت میں جوت دیتے بلکہ انہوں نے اپنے بے رحم کھسے کی نوک پر مجھے گائے بھینس دوہنا، چارا کاٹنا، بیج ڈالنا اور حقہ بنانا سکھایا۔ اس کے علاوہ بانسوں میں موجود سانپوں کے ڈر کو دور کرنے کے لیے اپنی زیرِ نگرانی مجھ سے دو گز کا سانپ کچلوایا اس بنا پر مجھے وہ مردانگی کا سرٹیفکیٹ عطا کیا جو فی زمانہ کسی ادارے سے ملنا نا ممکن ہے۔

فالتو بندے سے بیزار ہو جاتے تھے بلکہ کسی کو فالتو بیٹھنے کب دیتے تھے کوئی نہ کوئی کام پیدا کر ہی لیتے تھے جس پر مہمان کو بھی بڑی خوش اسلوبی سے لگا دیتے اور خود حقے کے لمبے لمبے کش لیتے اور گڑ کی مقدار سے نالاں مجھے اور میرے پدرِ محترم کو کوستے۔ موسیقی سے بالکل لگاؤ نہ تھا۔ درد و سوز زندگی میں پیدا ہی نہ ہوا۔ طبیعت میں صرف بغاوت ہی بھری تھی ایک دن میں درد (طالب حسین) سن رہا تھا کہ آپ کا ورود ہو گیا تھوڑی دیر مجھے دیکھ کر کچھ سوچتے رہے پھر گویا ہوئے ’’آج کل تمھیں بڑے غم کے کلھاڑے لگے ہوئے ہیں‘‘ میں نے نفی میں سر ہلایا

’’کوئی ہو تو بتانا، کوئی مسئلہ نہیں یہ کھسہ کس لیے ہے مرہم ہے! مرہم! میں نے انھیں یقین دلایا کہ ’’ایسی کو ئی بات نہیں شادی اور عورت کے متعلق میرے خیالات آپ سے کافی ملتے ہیں‘‘ سن کے مسکرا دئیے۔

یرقان، شوگر اور دمہ ان کے پیچھے پڑ گئے تھے بھری جوانی خاک میں ملا دی اکثر چیزیں اور کھانے پرہیز ہی کے خانے میں ہوتے لیکن جب ہم سفر پہ ہوتے ہوٹل دیکھتے ہی ان کا دل مچل مچل جاتا پھر کیا ہم میٹھے اور ممنوعہ تمام قسم کے پکوان نوش فرماتے کیوں کہ اس مردِ آزاد کے مطابق: ’’ممنوعات سے بچنا موت سے پہلے موت ہے‘‘۔

کچھ لوگ کتنے گھاگ ہوتے ہیں کوئی واقعہ، کوئی سانحہ انہیں ذرا حیران نہیں کرتا ہر کام کے بعد جو کہتے ہیں ’’یوں ہوتا تو کیا ہوتا‘‘۔ پر ایک چیز ایسی ضرور ہے جو بہت چونکا دینے والی ہے اور شاید اس دلاری نے انھیں حیرت میں مبتلا ضرور کیا ہو لیکن وہ ہر بار کی طرح اس بار بھی کمال عیاری سے خاموش تماشائی بنے لیٹے تھے یعنی چہرے پہ اچنبھے کے آثار تک نہ تھے وہ سرد مہری۔۔۔۔ اور چند رونے والے یا وقتی آنسوں بہانے والے کسے میسر نہیں آتے۔ اسی طرح ہنستے کھیلتے، لڑتے جھگڑتے میرا یار منوں مٹی تلے جا سویا۔ مجھے ایک بار مرہم کی ضرورت پڑہی گئی جب پرائے اپنے کہلانے سے مکر جائیں تو لا محالہ اپنے یاد آ ہی جاتے ہیں۔ میں اس مٹی ڈھیری پر پکارا کیا رویا کیا!

پر جواب ندارد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دوکاں اپنی بڑھا گئے

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے